سرسید کے ادبی افکار

سر سید احمد خان کی یوم پیدائش پرخصوصی پیش کش
صالحہ صدیقی
(رسرچ اسکالر جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی)
پتہ۔157/12 Rajapur Allahabad pin code(211002)
Email- salehasiddiquin@gmail.com
\"Sir
سرسید احمد خاں کی شخصیت اردو ادب میں کسی تعارف کی محتاج نہیں ان کی خدمات نے ا ن کی تصانیف کی اشاعت نے خود ہی یہ فریضہ انجام دیا ہے ۔ان کی تصانیف نہ صرف عصری تحقیق و تنقیدکی عکاس ہے بلکہ قاری کے فکری ذہن کے دریچوں کو بھی کھولتی ہے۔سر سید کو ہندوستان میں ملت اسلامیہ کا مسیحا کہا جائے تو بجا ہے۔وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی زبوں حالی کے اسباب پر سنجیدگی کے ساتھ غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے تمام مصائب کا علاج اورسارے مسائل کا واحد حل یہ ہے کہ انہیں جدید تعلیم سے روشناس کرایا جائے ۔سرسید کے ادبی افکار کو سمجھنے سے قبل ان کے عہد کے سماجی پس منظر کو مختصراََ سمجھنا ضروری ہے تبھی ہم یہ سمجھنے میں کامیاب ہو پائنگے کہ وہ کون سے حالات تھے جس نے سر سید کو اس عہد کے سیا سی ،سماجی،معاشرتی،تہذیبی اور تعلیمی اداروں میں جا کر اصلاح کے لیے اقدام اٹھانے پڑے ۔
1857کا انقلاب کئی معنوں میں ہندستان کی تاریخ میں اہمیت کا حامل ہے ۔یہ وہ اہم موڑ ہے جس نے قوم و ملت کے لیے فکر مند افراد کو غوروفکر کرنے پر مجبور کردیا ۔سیاسی نظام کی تبدیلی نے بدلتے حالات کے بدلتے تقاضوں بدلتی قدروں کا احساس دلایا ۔مسلمانوں کی زبوں حالی اور ان کے معاشرے کی بدحالی کا ان میں پنپ رہی خامیوں کا احساس نہ ہونے کے باعث حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے تھے ۔
جس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ سیاسی زوال کے باعث مسلمان اپنا وقار کھو رہے تھے ۔حکومت ،عہدے ،جاگیر ،منصب ،جو ان کے معاشی برتری اور اقتصادی خوش حالی کا اہم ذریعہ تھی سب کچھ ان سے چھن چکا تھا ۔فاتح قوم مسلمانوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھنے لگے کہ کہیں یہ اپنا وقار واپس حاصل کرنے کے لیے دوبارا نہ اٹھ کھڑے ہو اس لیے انھوں نے 1857کے ہنگامے کا سارا ذمہ مسلمانوں کے سر پر ڈال دیا۔جس کی وجہ سے مسلمانوں کو اس اذیت سے گزرنا پڑا جس کا اثر آج تک کہیں نہ کہیں موجود ہے ۔یہ مسلمانوں کی لیے ایک لمحۂ فکریہ تھا۔جس نے فکرمند افراد کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ،ان میں ایک اہم نام سرسید احمد خاں کا بھی ہے ۔جو اس طبقے کے سر براہ تھے ۔انھوں نے اپنی پوری زندگی مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کی اصلاح کے لیے وقف کر دی ۔اخبار ،سائنٹفک سوسائٹی کے اداریوں اور تہذیب الاخلاق کے مضامین سے پتہ چلتاہے کہ سر سید ایک ماہر نباض کی طرح مسلمانوں کی دکھتی رگوں کو پہچان گئے تھے وہ لکتے ہیں کہ :
’’اس ملک میں ہماری قوم کا حال نہایت ابتر ہے اگر ہماری قووم میں صرف جہالت ہی ہوتی تو چنداں مشکل نہ تھی ۔مشکل تو یہ ہے کہ قوم کی قوم جہل مرکب میں مبتلا ہے ۔‘‘
(بحوالہ :ملک فضل الدین (مرتب ) سرسید کے مضامین تہذیب الاخلاق (لاہور ،۱۳۲۳ھ)،ص۴۵۱)
سر سید کے عہد کے سیاسی ،سماجی ،معاشرتی نظام میں تبدیلی و ترقی کے لیے بہت ضروری تھا کہ ایسا ادب تخلیق کیا جائے جس سے ملک و قوم کی اصلاح اور ان کو گمراہی و غفلت سے نکلنے کی راہ مل سکے ۔یہی وجہ ہے کہ اس عہد کے تمام علوم میں سر سید کے افکار کے اثرات نمایاں ہوئے انھوں نے ادب کو بھی اصلاح کا وسیلہ بنایا اس لیے اردو ادب پر سر سید کے اثرات سے انکار ممکن نہیں ،یہ اثر اسلوب بیان،موضوع،اور روح معانی پر بھی پڑا۔ہندوستان میں سرسید کے زمانے سے پہلے شاعری کو چھوڑ کر اردو ادبیات کا دائرہ مذہب ،تصوف ،تاریخ اور تذکرہ نویسی تک محدود تھا ۔علوم طبعی کا مذاق بہت کم تھا ۔ریاضیات اور فنون کی طرف توجہ کرنے والے بھی انگلیوں پر گنے جا سکتے تھے۔اردو ادب اپنے ارتقائی منازل طے کر رہی تھی۔اظہار و بیان کے ان سہولتوں کی تلاش میں تھی جن کے طفیل وہ زندگی کے حقائق اور کائنات کے مسائل کی ترجمان بن سکتی ہے اس سلسلے میں فورٹ ولیم کالج کی سلیس نثر ،دہلی کالج کا علمی نثر اور مرزا غالب کی شخصی ادبی نثر کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا مگر ان سب کارناموں کا دائرہ اثرمحدود دامن تنگ تھا۔سر سید کے تصانیف کی فہرست دیکھئے تو ان میں مضمون اور موضوع کا کتنا ہی تنوع ،فکر کا انوکھا انداز اور بیان کرنے کا طریقہ بلکل مختلف ہے۔اس دور کے لحاظ سے سر سید کا سرمایہ ایک الگ ہی دور کا ادبی سرمایہ معلوم ہوتا ہے۔
سرسید نے اردو ادب کو جو ذہن دیا اس کے عناصر ترکیبی کی اگر فہرست تیار کی جائے تو اس کے بڑے بڑے عنوان ہونگے جن پر الگ الگ کتابیں لکھی جا سکتی ہیں ۔مادیت ،عقلیت ،اجتماعیت اور حقائق نگاری سر سید کے مجموئی فکر و ادب کی عمارت انہیں بنیادوں پر قائم ہے اور یہی اردو ادب میں سر سید کا فیض خاص سمجھے جاتے ہیں ۔انہوں نے آزادانہ سوچنے اور سائنسی نقطۂ نظر سے دیکھنے اور پرکھنے کا نیلان پیدا کیا۔ان کے فکری اور تنقیدی خیالات سے ان کا دور خاصا متاثر ہوا ۔ان کے رفقائے خاص کے علا وہ وہ لوگ بھی متاثر ہوئے جو دائرے سے باہر تھے بلکہ ان کے مخالف تھے۔ان کا تمام حلقہ تقلیدی کم تحقیقی زیادہ ثابت ہوئے۔سرسید نے فکر و ادب میں جو راستہ اختیار کیا اس کو نہ خالص رومانی کہا جا سکتا ہے نہ خالص کلاسیکی۔اس میںرومانیت کی اگر کوئی ادا ہے تو صرف یہی کہ فکر وادب میں انہوں نے پرانی روایات اور قدیم اسالیب کی پیروی کو ضروری خیال نہیں کیا اس خاص بات کے علا وہ ان کے مزاج کی ساخت رومانی معلوم ہوتی ہے۔کلاسیکیت میں رومانیت کی خفیف جھلکیوں کی وجہ سے ان کے روش کو نو طرز کلاسیکیت کہہ سکتے ہیں ۔
سرسید کی تصانیف کا ممتاز ترین موضوع مذہب رہا ہے۔اس پر ان کی بڑی کتابیں تفسیرالقرآن اور تبین الکلام کے علا وہ وہ مضامین ہیں جو انہوں نے تہذیب الاخلاق میں دینی موضوع پر لکھے ہیں ۔جن میں عقلیت،فطرت اور حقیقت کی وجہ سے مغالطے بھی ہوئے جیسے نیچر کے متعلق ایک مغالطہ یہ کہ نیچر خود خدا کا دوسرا نام ہے اور اس کے مظاہر خدا کے فعل و عمل ہیں ۔شاید اس قسم کی تعریف پر کوئی اعتراض نہ ہو مگر یہ توحید خالص کے نظریے سے ٹکراتا ہے۔ان مغالطوں کو محسن الملک نے اپنے مضامیں میں دور کیا۔
سر سید کے دو بڑے تصنیفی میدان تاریخ و تحقیق اور مقالہ نگاری ہے۔سر سید اور ان کے رفقا نے تاریخ اور سوانح نگاری میں بڑی دلچسپی لی۔سرسید کے لئے تاریخ کا ذوق ایک موروثی چیز تھی ۔ان کے اسلاف قلعہ معلی سے وابستہ تھے اسی وجہ سے درباری و تاریخی مذاق کی اکثر چیزوں سے ان کا لگاؤخاندانی روایت کے زیر اثر تھا۔سر سید کی تاریخ سے اس وقت تک دلچسپی رہی جب تک کہ ان کی زندگی میں جدید سیاسی ذہنیت کا رنگ زیادہ گہرا نہ ہوا تھا ۔بعد میں دوسرے اشغال کے سبب تاریخ سے توجہ ہٹالیا مگر ان کا ذ ہن تاریخ نگاری کے لئے حد درجہ موزوں تھا۔انہوں نے پرانی تاریخی کتابوںکی تصحیح و اشاعت کی طرف بھی توجہ صرف کی ،آئین اکبری،تزک جہانگیری،تاریخ فیروز شاہی اس کی مثالیں ہیں ۔رفتہ رفتہ ان کے نظریہ تاریخ میں تبدیلی بھی آتی گئی۔انہوں نے جس علمی شوق سے مجبور ہوکرآثارالصنادید مرتب کی بعد میں اس کی صورتیں بہت بدل گئیں اور تاریخ بھی ان کی مقصدیت اور افادیت کے تابع ہو گئی۔
ادب کے سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ سر سید نے ادب کی ماہیت اور اس کے نصب العین کے متعلق پرانے نقطہ نظر کی اصلاح کی۔انہوں نے یہ بتایا کہ ادب بیکاروں کا مشغلہ نہیں ہے بلکہ عین زندگی ہے ،یہ صرف لفظوں کی بازی گیری نہیں دل اور دلی خیالات کی مصوری ہے ،ادب کی ساخت اورتخلیق میںدل کی اہمیت پر یہ اصرار ادب کی تقدیس کی پہلی بلند آواز تھی ،جو اردو ادب میں اٹھائی گئی۔پھر شاید پہلی مرتبہ یہ یہ احساس ہوا کہ ادب کی تخلیق میں قاری کا وجود بھی بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔سرسید کے اس تصور میں قاری کو بھی اتنی ہی اہمیت نصیب ہوئی جتنی خود ادیب کو حاصل ہے۔
سر سید نے روایت سے ہٹ کر آزادیٔ رائے اور آزاد خیالی کی رسم کی ابتدأ کی ،اور ایک ایسے مکتب کی بنیاد رکھی جس کے عقائد میں عقل ،نیچر،تہذیب ،اور مادی ترقی کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔سر سید نے اردو ادب کو جو جدید ذہن دیا ان میں مادیت،عقلیت ،اجتماعیت،اور حقائق صرف اہم ہی نہیں ہے بلکہ سر سید کے مجموعی فکر و ادب کی عمارت انھیں بنیادوں پر قائم ہے جس سے ان کے عہد کاادب بھی خاصا متاثر ہوا یہی نہیں ان کے پیدا کردہ ادبی سرمائے میں انھیں فکری اور ادبی عناصر کو ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہیں ۔
علی گڑھ تحریک عام طور پر محض تعلیمی یا سیاسی تحریک خیال کیا جاتا ہے مگر حق یہ ہے کہ یہ فکری ،تہذیبی ،علمی ،اور ادبی تحریک بھی ہے ۔ایک معین مدت کے بعد علی گڑھ تحریک ایک ادبی مکتب اور علمی دبستان ہونے کے بجائے ایک خاص طرز زندگی اور ایک خاص انداز نظر بن گیا جس کے اوصاف میں خوش گفتاری،خوش باشی ،خوش پوشی اور آزاد خیالی کو نمایاں حیثیت حاصل تھی، مگر اس میں شک نہیں کہ علی گڑ ھ نے جتنا کچھ ادب پیدا کیا اس میں بھی اور انداز اختیار کیا اس میں بھی عقل پسندی ،مادی اقدار زندگی اور دنیاوی ہوش مندی خاصے نمایا ں رہے۔
اس مختصر مضمون میں سرسید کے ادبی افکار کو سمجھنا اور اس پر تفصیلی روشنی ڈالنا ممکن نہیں ۔ سرسید ایسی عظیم اور بر گزیدہ ہستی تھے۔جوطرح طرح کی دشواریوں میں مسلسل گھرے رہنے کے با وجود کم و بیش پچاس سال تک دن رات بغیر کسی تعطیل کے قوم کی ترقی کے لئے وہ چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے کاموں میں مصروف رہے۔ہندوستان میں مسلمانوں کے عہد حکومت میں نہ اس کے بعد سر سید جیسا لیڈر اب تک مسلمانوں میں پیدا نہیں ہوا۔آج اکیسویں صدی میں جب دنیا دن دونی رات چوگنی ترقی کے مراحل طے کر رہی ہے ،الکٹرانک میڈیا،انٹرنیٹ ،فیس بک ،وہاٹسپ انسٹراگرام ،گوگل ،ٹویٹر کا زمانہ چل رہا ہے ۔دنیا انگریزی لفظ میںفاسٹ ہو چکی ہے،لیکن کیا واقعی انسانی ترقی بھی ہورہی ہے،کیا ہم اپنی تہذیب و معاشرت کو نبھا رہے ،کیا واقعی مسلمان طبقہ جس کے لیے سر سید نے اتنے اقدام اٹھائے علامہ اقبال نے اپنی شاعری سے انھیں غفلت کی زندگی سے نکالنے اور مشعل راہ دکھانے کا کام کیا ،واقعی راہ پر ہے ،کیا آج ہم اپنی زمہ داریوں کو نبھا رہے ہے ،ان تمام نکات پر غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے ۔یا پھر شاید آج کے عہد میں بھی سر سید جیسے مصلح قوم کی ایک بار پھر ضرورت ہے ۔میں اپنی باتوں کا اختتام انھیں چند سوالوں پر کرنا چاہونگی ۔

Leave a Comment