تحریر : ناز بٹ لاھور پاکستان
ایک سو انیس صفحات پر مشتمل سعید جمال کا ناول \” حْسن ِ حوا \” تصوف اور جمالیات کا حسین امتزاج ہے۔ \”حسن ِ حوا \” مجاز سے حقیقی کی طرف عورت کی روحانی تعمیر کا سفر ہے۔ ایک عورت کا روحانی مقام کْھل کر بیان کرتا ہوا !!
ناول ہے کہ جانے کسی اور ہی دنیا کی منظر کشی کہ اپنا وجود اس دنیا کا نہیں اْس دنیا کا حصہ محسوس ہوا، ایک ہی نشست میں پڑھنے کے بعد ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے اور آنکھیں اشکبار ہو گئیں
نہیں جانتی کہ \”حسن ِ حوا \” آپ بیتی ( تجربہ ) ہے ، مشاہدہ ہے یا تخیل کی پرواز!
کیونکہ مصنف کا کہنا تو یہ ہے کہ \” نہ جانے کتنی راتیں جاگ جاگ کر خود پر گزرے واقعات ، تصورات ، خیالات اور سوچ کی دنیا میں رہتے ہوئے میں نے
ناول کا خاکہ بْنا \”
لیکن مجھے یہ محسوس ہوتا ہے کہ یہ ناول آپ بیتی ہی ہے اور جب تک لکھنے والے پر معرفت کے دَر وَا نہ ہوں ذات ِ الہی سے اس کے قرب کی منازل انعام و اکرام اور فضیلیت سے مالا مال نہ ھوں ایسے ناول کے مناظر تخلیق نہیں ہو سکتے
اس ناول کی قراء ت سے محبت اور عشق کا فلسفہ پرت در پرت کْھلتا چلا گیا ، عشق کی معراج کیا ہے یہ مصنف کی چشم ِ بینا سے دیکھ لیا۔۔۔۔۔اللہ ْ اکبر !
انسانی حسیات پر الہام و وجدان کی بارش کیسے کِن مِن کِن مِن سی برستی ہے ، نْور ِ معرفت کیسے اپنی لپیٹ میں لیتا ہے ، خود آگہی ، وجدان ، باطنی شعور ، مستی سر مستی کی کیفیت کیسے قطرہ قطرہ روح میں تحلیل ہوتی ہے ، عشق کس طرح دائرہ در دائرہ مدارج میں سفر کرتا ھوا اپنی منازل طے کرتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
گداز دِل میں اْگتی ، پلتی بڑھتی ، بدن میں پھیلتی ہوئی محبت کی \” لمس\” سے آشنائی۔۔۔۔۔ اور پھر لمس کی لذت و لطافت سے روحانیت تک کا سفر ، عشق ِ مجازی سے عشق ِ حقیقی تک رسائی کہ عشق ِ مجازی ہی تو دراصل عشق ِ حقیقی تک لے جاتا ہے ، یہ حقیقی سرورتو ، سرشار کرتا ہے نا ، مَن کو بھگوتا ہوا ، لمس کی طلب سے بے نیاز کرتا ہوا ، کہ عشق ِ حقیقی تو ہوس اور لمس کی لذت سے ماورا ایسا لامحدود جذبہ ہے کہ جس میں ہر سانس کے ساتھ محبوب ِ حقیقی کی تڑپ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ ناول ان تمام کیفیات کی جزئیات سے آگاہی ہے
مصنف جانتا ہے کہ انسان جب تک جیتے جی اس جسم سے نہ مر جائے اس کے قلب اور نظر سے مجاز سے نکل جانے کی صلا حیت نہیں آتی۔۔۔۔۔۔اور جب انسان مجاز سے نکل کر حقیقت میں داخل ہوتا ہے تو \” فاذکرونی اذ کروکم \” کی لذت دائمی ہوجا تی ھے اور اس کے بعد من بھج رس ہر دم علی علی !!
\”حسن ِ حوا \” بے نیازی ہی بے نیازی ہے ، اپنے نفس سے بے نیازی ، اپنی ذات سے بے نیازی ، مادیت سے بے نیازی ، اس دنیا سے بے نیازی
نفس ِ انسانی کی کچھ سطحیں تعینات پر مبنی ہوتی ہیں ، کچھ تعبیرات پر اور کچھ تشریحات پر ، \”حسن ِ حوا\” کا گہرائی سے جائزہ لیں تو یہ بات کھلتی ھے کہ مصنف نے تینوں سطحوں کو اپنے ناول میں آزمایا ہے اور کرداروں کی زبانی خود اسکی نشونما کی ہے۔
سعید جمال نے اپنے اندر کی روشن آنکھ سے اپنی وجدانی صلاحیتوں کو اس خوبصورتی سے قرطاس پر بکھیرا ہے کہ ہر طرف اجالاہی اجالا ہو گیا
مختصراً یہ کہ یہ ناول ھمارا شعور بیدار کرتا ہے کہ اانسان اس دنیا میں عارضی سطح پر آیا ھے ، عارضی سطح پر جیتا ہے ، اول و آخرہر انسان نے اپنے رب کی طرف پلٹنا ہی ہے۔۔۔۔۔۔۔
انسانیت کی معراج اور دنیا میں آنے کا مقصد یہی ہے کہ وہ اپنے مجاز سے راستہ تلاش کرتا ہوا حقیقت ِ کْبریٰ کو پا لے
اور خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس عارضی دنیا سے حقیقی دنیا کی خوشبو پا کر خود کو خالق ِ حقیقی کے لئے وقف کر دیتے ہیں ۔یعنی مجاز سے حقیقت کی طرف لوٹ آتے ہیں ۔ کہ فرمان بھی یہی ہے کہ
\” اے نفس ِ مطمئنہ لوٹ اپنے رب کی طرف\”
اور ویسے بھی \”حق میں دوئی کہاں۔۔۔۔۔۔۔۔حق میں دوئی کہاں اللہ ُاحد اللہ ُ الصمد!!
\” حسن ِ حوا \” رشد و ہدایت اور جمالیات کی طرف رہنمائی ہے ، دل کو کثافتوں سے پاک کرتا ہوا ، کہ حقیقی دِل تو نور ہی نور ہے ! چونکہ یہ ناول عورت کے اصلی مقام سے آگاہی ہے سو ، خواتین جو اپنا مقام اپنا آپ پہچاننے کی لگن رکھتی ہیں انہیں ـحُسن ِ حو ا ضرور پڑھنا چاہئے اور مصنف کی خواہش بھی یہی کہ بیٹیاں اس ناول کو زیادہ سے زیادہ پڑہیں
اور آخری بات ! مصنف پوچھتا ہے کہ کیا اسے نشست جمانے کے آداب نہیں آتے ؟؟؟ تو مجھے یہ کہنا ہے کہ اسے نشست سجانے کے آداب بھی آتے ہیں ، اور اسے مخلوق ِ خدا سے مکالمہ کرنے میں بھی کوئی دشواری نہیں