٭شمیم حنفی
پروفیسر ایمریٹس B-141ذاکر باغ، نئی دہلی
صغیر افراہیم صاحب نے چند برسوں کے اندر تدریس، ادبی تنقید وتاریخ اور تحقیق کی دنیا میں وہ شہرت کمائی ہے جو عمر بھر کی ریاضت کے بعد بھی بہتوں کے ہاتھ نہیں آتی۔ اِس کا بہت بڑا سبب اُن کی ذہانت، شرافت اورمعلمی کے پیشے سے اُن کے مزاج کی فطری مناسبت ہے۔ میں ایک حد تک اُن کی ذاتی زندگی سے بھی واقف ہوں، اُن کے والد اور اہل خاندان سے بھی۔ صغیر صاحب کو یہ شرافت ، نیکی اور نرم مزاجی اپنے ماحول سے بھی ملی ہے۔ ورنہ تو یونیورسٹی کی فضا میں اِن دنوں جوآپادھاپی مچی ہوئی ہے اورمعلمی کے نام پر جوکاروبار جاری ہے، اس سے ایک دنیا واقف ہے۔
صغیر افراہیم کی علمی سرگرمیاں کسی دائرے کی پابند نہیں، ہر چند کہ افسانے کی صنف، ان کی پہلی ترجیح ہے اور اپنے معاصر افسانہ نگاروں پر وہ گہری نظر رکھتے ہیں۔ فکشن پر ان کا کام مقبول ہوا ہے۔ لیکن ادب کی نئی پُرانی صنفوں سے بھی وہ تقریباً یکساں شغف رکھتے ہیں۔ اپنے ہم عصروں کے حلقے میں وہ غیر مُتنازع رہے ہیں۔ اپنے کام سے کام رکھتے ہیں اور جس موضوع کی طرف مائل ہوتے ہیں، اس پر محنت کرتے ہیں۔ حصول علم کے راستے میں اگر عاجزی، انکساری اوربُردباری بھی ساتھ ہو تو آدمی بے قابو نہیں ہوتاہے۔
اِدھر اُن کے موضوعات میں تنوع اوروسعت کا احساس بھی خوب ہوتاہے۔پریم چند، جگت موہن لال رواںؔ، سرسید ، علی گڑھ اور اب غالبؔ پر اُن کی یہ کتاب غالبؔ سے اُن کی گہری دلچسپی کا پتہ دیتی ہے۔ اپنے مزاج کے اعتبار سے یہ ایک تحقیقی کتاب ہے۔ خوشی یہ دیکھ کر ہوئی کہ صغیر افراہیم نے غالبؔ کے مطالعات میں اپنی اس کتاب (غالب ؔ،باندہ اور دیوان محمد علی)کے واسطے سے ایک قابل قدر اضافہ کیاہے، نئی اطلاعات بہم پہنچائی ہیں۔ خلیق انجم نے غالبؔ کے سفر کلکتہ کے بارے میں جو کتاب مرتب کی تھی، اس کی پذیرائی ہوئی۔ وہ ایک دلچسپ کتاب ہے ہرچند کہ ہمارے عہد کے نامور محقق حنیف نقوی صاحب نے خلیق انجم کے دریافت کردہ بعض نتائج پر شک کی نظر ڈالی ہے۔
اس کتاب میںصغیر افراہیم نے اپنے آپ کو بہت مرکوز رکھاہے۔ غالبؔ کے سفرِ کلکتہ کا تمام وکمال اِحاطہ کرنے کے بجائے، اس سفر کے دوران راستے میں ایک چھوٹی سی بستی باندہ میں غالبؔ کے طویل قیام اور پھر اس قیام کی تفصیلات کو نئے سرے سے جاننے ، پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ اور اپنی اِس کوشش میں وہ پوری طرح کامیاب ہیں۔ باندہ کے سفر کے لیے انتخابِ راہ، قیام، فضا، ماحول، ثقافتی اور جغرافیائی صورتِ حال کو بھی اُجاگر کیا ہے۔ نیز دیوان محمد علی کے شجرۂ حسب ونسب کو پیش کرتے ہوئے ایک اہم خَلا کو پُرکیا ہے۔ انھوں نے اپنی تحقیق میں یہ بھی ثابت کیا ہے کہ دونوں کی شیفتگی کا یہ عالم تھا کہ غالبؔ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشی ورنج کی خبر سے دیوان محمد علی کو مثل اپنے بزرگ عزیز مطلع کرتے اور اُن کے مشوروں پر عمل کرتے تھے۔
باندہ شہر سے صغیر افراہیم کاکچھ ذاتی رشتہ بھی ہے۔ اس رشتے کی ڈور پکڑے ہوئے وہ غالبؔ اور عہد غالبؔ تک جاپہنچے ہیں۔ اُن کی اہلیہ پروفیسر سیماصغیر کا وطن باندہ ہے اور باندہ کے جس گھرانے سے اُن کا تعلق ہے، اس کی حیثیت بہت ممتاز رہی ہے، غالبؔ کے زمانے سے لے کر اب تک۔ اس طرح گھر بیٹھے بہت سی معلومات صغیر افراہیم کے ہاتھ آگئیں۔ انھوں نے اس کتاب سے متعلق سارا مواد جدید طریقِ کار کو ملحوظ رکھتے ہوئے بڑی دلجمعی کے ساتھ مرتب کیا ہے، خصوصاً غالبؔ اور دیوان محمدعلی کے تعلق سے۔
پروفیسر صغیر افراہیم کے اِس تحقیقی کام کودیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ غالبؔ کے مطالعے کا شوق ڈیڑھ سو برس گزرجانے کے بعد بھی کم نہیں ہواہے۔ اردو اور فارسی کے اساتذہ غالبؔ کی زندگی اور سوانح، یا نثر اور نظم میں کوئی نہ کوئی نیانکتہ دریافت کرہی لیتے ہیں۔ غالبؔ اور عہد غالبؔ سے نسبت رکھنے والی کوئی نہ کوئی حقیقت ڈھونڈھ ہی لی جاتی ہے۔ اب یہی دیکھیے کہ کچھ عرصہ پہلے غالبؔ اکادمی نے غالبؔ کے غیر متداول کلام کا ایک نیا مجموعہ ، جمال عبدالواجد کا مرتب کیاہوا شائع کیا تھا۔ کیسی قیمتی کتاب ہے، نسخہ حمیدیہ پر ایک وقیع اضافہ!۔ اسی طرح صغیر افراہیم نے سفر کلکتہ کے تعلق سے باندہ کے ضمنی ذکر کوایسی وسعت عطا کردی ہے کہ اب اس کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ علمی حلقوں میں صغیر افراہیم کی یہ کتاب نہایت شوق سے پڑھی جائے گی۔ اقبالؔ کے لفظوں میں یہ دعا بھی ہے کہ ’’اللہ کرے مرحلۂ شوق نہ ہو طے‘‘ اور صغیر صاحب کی تلاش وتحقیق، تجزیے اور تنقید کا یہ سلسلہ جاری رہے، اس کی رسائی نئی منزلوں تک ہوتی رہے۔