سلام بن رزاق نے اردو افسانہ کو نئی زندگی دی۔ پروفیسر ابن کنول

شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی میں سلام بن رزاق کو استقبالیہ

\"slam\"

نئی دہلی(اسٹاف رپورٹر) شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی میں اردو کے معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ابن کنول ، صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی نے کہا کہ سلام بن رزاق کا شمار اردو کے صف اول کے افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔انہوں نے اردو افسانے کونئی زندگی دی ہے۔آٹھویں دہائی میں لکھنے والے افسانہ نگاروں کی فہرست میں ان کا نام سب سے پہلے لکھا جائے گا۔ اس دہائی کے افسانہ نگاروں نے ترقی پسندی اور جدیدیت دونوں سے استفادہ کرتے ہوئے الگ راہ نکالی ہے۔ انہوں نےطلبا کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ سلا م بن رزاق کے افسانوں کو بار بار پڑھیں اس لیے کہ افسانہ ہو یا غزل جب تک ان کی بار بار قرأت نہ کی جائے گرفت میں نہیں آتے۔ سلام بن رزاق نے اپنے خطاب میں افسانہ اور افسانچہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ موجودہ زمانے میں افسانچہ کے نام پر غیر معیاری تحریروں کا انبار جمع ہوگیا ہے۔ افسانچہ ایک اچھی صنف ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کے نام پر جو لکھا جائے وہ واقعی افسانچہ کہلانے کے لائق ہو۔اردو افسانے کے سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگرچہ یہ صنف سو سال سے زائد پرانی نہیں ہے لیکن موجودہ زمانے میں سب سے مقبول صنف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے اندر لامحدود امکانات ہیں۔ اردو افسانہ اپنی ابتدا سے لے کر اب تک مسلسل بہتر سے بہتر کی طرف سفر کررہا ہے۔ انہوں نے طلبا اور ریسرچ اسکالر کے جوش وجذبہ پر اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فن کار بڑا نہیں ہوتا، اس کے چاہنے والے اس کو بڑا بناتے ہیں۔ اس موقع پر انہوں نے اپنا افسان معَبرٗ سنایا اور اس کے بعد اردو افسانہ سے متعلق طلبا کے سوالات کا جواب بھی دیا۔ اس موقع شعبہ کے سینئر استاد ڈاکٹر محمد کاظم نے سلام بن رزاق کے افسانوں پر اپنی گفتگو میں کہا کہ اردوادب کا کوئی بھی طالب علم سلام بن رزاق ناواقف نہیں ہوسکتا۔ ان کے افسانوں پر انہیں 2004 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ پروگرام میں ڈاکٹر مشتاق احمد قادری، ڈاکٹر مظہراحمد، ڈاکٹر سرفراز احمد، ڈاکٹر محمد دانش، ڈاکٹر عزیر احمد کے علاوہ طلبا اور اسکالرس کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
\"slam

Leave a Comment