شعبۂ اردو،کی جانب سے کاکوری حادثہ کے شہیدوں کو خراج عقیدت

\"0Q0A2494\"

میرٹھ (اسٹاف رپورٹر)شعبۂ اردو، چو دھری چرن سنگھ یو نیورسٹی کے پریم چند سیمینار ہال میں انٹیک سو سائٹی اور شعبۂ اردو کے مشترکہ اہتمام میں کاکوری حادثہ کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک پرو گرام کا انعقاد کیا گیا۔ جس کی صدارت صدر شعبۂ اردو، ڈا کٹر اسلم جمشید پوری نے کی اور مہمان خصوصی کے طور پر پرو فیسر کے کے شرما نے شرکت کی۔ جب کہ خصوصی مقررین کے طور پر ایڈوکیٹ منیش تیاگی اورڈا کٹر کرن سنگھ شریک ہوئے۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی نے انجام دیے۔انٹیک کے میرٹھ کنوینر سابق آئی اے ایس آفیسر ڈا کٹر آر کے بھٹنا گر نے مہمانوں کے استقبال کے ساتھ ساتھ پروگرام کے اغراض ومقاصد پر بھی روشنی ڈا لی۔
پروگرام کا آ غاز مہمانوں نے شمع روشن کر کے کیا اور شہیدوں پر پھول چڑھا کر شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ اس مو قع پر معروف غزل سنگر انعام صا بری اور وکاس سینی عرف رسیلا نے شہیدوں کے تعلق سے خوبصورت نظمیں پیش کر کے سامعین کی خوب واہ واہی لوٹی۔
پروگرام میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے منیش تیاگی نے کہا کہ آج ہم کاکوری حادثہ کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں کہ سچا خراج عقیدت یہ ہے کہ ہم ان کے کردار کو خود اپنی شخصیت اور اپنی نسلوں میں زندہ کردیں۔کیو نکہ ملک میں ایک بار پھر ہر طرف ظلم و بر بریت ، جبرو استحصال، آپسی منافرت اور لوٹ گھسوٹ کا بازار گرم ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ کا کوری حادثے میں جن چار لوگوں کو پھا نسی دی گئی تھی ان میں سے رام پرشاد بسمل نے اپنی آخری اپیل یہ کی تھی کہ میں ہندو، مسلم ایکتا چا ہتا ہوں۔ یہ اپیل آج کی نوجوان نسل کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ آپسی اتحاد کے بغیر ملک و قوم کی ترقی ممکن نہیں۔
خصوصی مقرر ڈاکٹر کرن سنگھ نے کا کو ری حادثے پر تفصیل سے رو شنی ڈا لتے ہو ئے کہا کہ اس واقعے سے جو لوگ جڑے تھے وہ بیشتر اچھے خاندانوں سے تھے اور ذہین و تعلیم یافتہ تھے۔انہوں نے بہت سوچ سمجھ کر اور حالات کا غائر مطا لعہ کر کے سر کاری خزانہ لوٹنے کا منصو بہ بنایا تھا۔کیونکہ اس طرح بر طانوی حکومت کو دو سطحوں پر چوٹ پہنچا ئی جاسکتی تھی۔ یعنی سر کار کومالی نقصان اور انقلابیوں کی مالی مدد۔
پرو فیسر کے کے شر مانے کہا کہ اس حا دثہ میں شریک لوگ مختلف خیالات و نظریات اور طبقات سے وابستہ تھے۔حد یہ ہے کہ سر کاری خزانے کے لوٹ کے سلسلے میں بھی ان کے خیالات الگ الگ تھے ۔لیکن ایک آزادی کا جذبہ تھا جو ان سب کو جوڑے ہوئے تھا۔ آج اسی جذ بے کو نئی نسل کے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ سماج میںذات پات، مذہب و ملت، رنگ و نسل اور علا قہ وسر حدوں کو لے کر دن بہ دن اختلا فات بڑھتے جارہے ہیں۔جن پر روک نہ لگائی گئی تویہ ملک و قوم کا نہ قابل تلافی نقصان ہوگا۔
اپنے صدارتی خطبے میں ڈا کٹر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ کا کوری حادثہ سے آج کے نو جوانوں کو سبق لینا چاہئے۔ کیونکہ ان نوا جوانوںجیسا جذ بۂ قربانی اور جدو جہد آج کے نو جوانوں میں نہیں ہے۔آج ذات پات اور طبقاتی کشمکش مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔جب کہ اشفا ق اللہ خاں، رام پرشاد بسمل کے اندر یہ باتیں نہیں تھیں۔آج کے نو جوان اپنی خوا ہشات کی تکمیل کے لیے چوری کرتے ہیں جبکہ اشفاق اللہ خاں، را م پرشاد بسمل، راجندر ناتھ لاہڑی اور ٹھا کر روشن سنگھ وغیرہ نے ملک کے لیے سر کاری خزانے کو لوٹ کر پھانسی پر لٹکنا گوارا کر لیا تھا۔
اس مو قع پر بھا رت بھو شن شرما، انل شر ما، ڈا کٹر ارشاد سیانوی، مام چند، شیر وردھن وغیرہ موجود رہے۔

Leave a Comment