ماں اورموسیقی، محبت کے استعارے ہیں اور میری زندگی کی ندیا انہی دو کناروں کے بیچ بہتی ہے۔اے آر رحمٰن
’’نصرت فتح علی خاں سے بہت متاثر ہوں۔وہ بہت منفرد تھے۔انہیں آج بھی کوئی نہیں چھو سکتا۔وہ موسیقی کا پورا پیکج تھے‘‘
’’ایوارڈمیری منزل نہیں ہیں لیکن یہ مجھے مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ ضرور دیتے ہیں۔ فوکواوکا ایوارڈکی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ ایوارڈ نصرت فتح علی خاں کو بھی ملا ہے‘‘
پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہو جائیں تو پاکستان آ ئوں گااورراحت فتح علی اور عاطف اسلم کے ساتھ مل کرگاناگائوں گا۔اے آر رحمٰن کی ’’جنگ اور جیو‘‘ سے خصوصی گفتگو
٭فاضل جمیلی
مدیر روز نامہ جنگ کراچی پاکستان
آسکر ایوارڈ یافتہ بھارتی موسیقار اے آر رحمٰن کو بہت سارے دیگرایوارڈز کے ساتھ ایک ایسا ایوارڈ بھی ملا ہے جسے وصول کر کے ان کے چہرے پر کھلنے والی خوشی دیدنی تھی۔تقریب کا اہتمام جنوبی جاپان کے تاریخی شہر فوکواوکا(FUKUOKA) میں تھاجہاںولی عہد شہزدہ ناروہیتو اور ولی عہد شہزادی ماساکو کی موجودگی میں انہیں ’’فوکواوکا گرینڈ پرائز‘‘ سے نوازا گیا۔اس موقع پر اے آررحمٰن نے مختصر خطاب بھی کیااور ہال میں موجود اپنی بیٹی رحیمہ کو سالگرہ کی مبارکباد دی جس پر پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔بعدازاں انہوں نے مقامی اسکول بینڈ کی سنگت میں اپنا مشہور گانا’’جے ہو‘‘ پیش کرکے سماں باندھ دیا۔
اے آر رحمٰن کثیر جہتی فنکارہیں۔وہ بیک وقت موسیقار، گلوکار، نغمہ نگاراور پروڈیوسر ہیں۔موسیقی کی دُنیا میں انہوں نے پہلا قدم ’’کی بورڈ پلیئر‘‘ کی حیثیت سے رکھااور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہی ’’کی بورڈ‘‘ اے آررحمٰن بن گیا۔پہلی ہی فلم سے نیشنل ایوارڈ جیتنے والا یہ جاددگر اس وقت بھارتی فلم انڈسٹری میں سب سے زیادہ معاوضہ لینے والا موسیقار ہے۔اے آررحمٰن کو انڈین میوزک کا گولڈن بوائے بھی کہا جاتا ہے۔وہ موسیقی ترتیب نہیں دیتے ، سنگیت پینٹ کرتے ہیں۔انہوں نے انڈین میوزک کی ترتیب بدل کر رکھ دی ہے۔اُن کی بنائی ہوئی دُھنیں جغرافیوں، زمانوں اور زبانوں سے آگے کے سُرتال ہیں جن سے صرف لطف اُٹھایا جاسکتا ہے، انہیں لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ چارسال کی عمر میں پیانو سے کھیلنے والا یہ لڑکاموسیقی کے سمندر میں ڈوب کر ایسا اُبھرا ہے کہ سات سُروں کابہتا دریا اپنے نام کر لیا ہے۔وہ سُروں اور انسانوں سے یکساں محبت کرتے ہیں۔ محبت اور نفرت میں سے انہوں نے صرف محبت کا انتخاب کیا ہے۔ روحانیت ان کی شخصیت کا اہم حصہ ہے۔صوفیا اور اولیاء کی درگاہوں سے گونجتی قوالیاں اے آر رحمٰن کوایسی دُنیا میں لے جاتی ہیں جسے وہ اپنی دُنیا اور اپنا علاقہ کہتے ہیں۔صوفی ازم ان کے لیےانسانوں سے محبت کا پہلا دروازہ ہے۔ان کے نزدیک موسیقی اور مذہبب بھی یہیںایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں۔
فوکواوکا، جاپان میں ہونے والی ایوارڈ تقریب میں ہم اے آر رحمٰن سے ملے تو انہوںنے خصوصی طور پر کچھ وقت ’’جنگ اور جیو‘‘ کے لیے نکالا اور انتہائی کم گو ہونے کے باوجود ہمارے سوالات کا تفصیلی جواب دیا۔ہم نے اُن سے پوچھاکہ دلیپ کمار سے اللہ رکھا اور پھر اللہ رکھا سے اے آررحمٰن کے طور پر مشہورہونے تک، اپنی زندگی کے ان تین مراحل کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
اے آر رحمٰن کا کہنا تھا کہ’’ یہ سب مقدر کی باتیں ہیں۔میرے والد موسیقار تھے۔جب ان کا انتقال ہوا تو میں بہت چھوٹا تھا۔بیمار بھی رہتا تھا۔روحانی بزرگ قادری صاحب کے توسط سے شفا ملی ۔ماں نے بچپن میں ہی کہہ دیا تھا کہ تمہارے والد موسیقار تھے، تمہیں بھی یہی کام کرنا ہے۔اگر ماںیہ راستہ اختیار کرنے کی تلقین نہ کرتی تو آج میں موسیقار نہ ہوتا۔‘‘
کیا زندگی کے دیگر فیصلے بھی ماں کے مشورے سے کیے؟ اس سوال کا جواب اے آر رحمٰن نے کچھ یوں دیا۔’’ماںاور موسیقی محبت کے استعارے ہیں اور میری زندگی کی ندیا انہی دو کناروں کے بیچ بہتی ہے۔گیارہ بارہ سال کی عمر سے موسیقی میرے ساتھ ہے۔میں نے اتنے برسوں کے دوران جو سمجھا ہے وہ یہی ہے کہ موسیقی مجسم محبت ہے اور اس کا دارومدار نیت پر ہے۔موسیقی الوہی قوت پر یقین رکھنے کا نام ہےجس کے ذریعے انسان ایک دوسرے سے مکالمہ کرتا ہے۔‘‘
اے آر رحمٰن اپنی کامیابی کوکشادہ دلی اور نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ گہرے شغف سے منسوب کرتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ’’میں ٹیکنالوجی کے ساتھ پلا بڑھا ہوںاور مجھے دریادلی کی توفیق نصیب ہوئی ہے۔میں اپنے دل ودماغ کو ہمیشہ کھلا رکھتا ہوں۔جس کی وجہ سے مجھے نئی نئی دُھنیں ترتیب دینے میں آسانی رہتی ہے۔میرے بہت سے پروجیکٹس مشترکہ منصوبے ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر جب میں ’’سلم ڈاگ ملینئر‘‘ کا میوزک ترتیب دے رہا تھاتو میں لندن میں سائونڈ ٹریک ترتیب دے رہا تھا جبکہ آرٹسٹ میانیویارک میں ریکارڈنگ کروا رہی تھیں۔اور یہ پورا عمل اسکائپ کے ذریعے مکمل ہوا۔‘‘
آسکر سے لے کر گریمی تک آپ کو بہت سے ایوارڈ ملے۔اب جاپان کا ’’فوکواوکاایوارڈ‘‘ ملنے پر آپ کے کیا تاثرات ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اے آر رحمٰن مسکرائے اور کہا’’ایوارڈمیری منزل نہیں ہیں لیکن یہ مجھے مزید آگے بڑھنے کا حوصلہ ضرور دیتے ہیں۔ فوکواوکا ایوارڈکی میرے نزدیک اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہ ایوارڈ اُستاد نصرت فتح علی خاں کو بھی مل چکا ہےجن سے میں بہت متاثر ہوں۔نصرت صاحب بہت منفرد تھے۔وہ موسیقی کا پورا پیکج تھے۔انہیں آج بھی کوئی نہیں چھو سکتا۔میں نے بہت زیادہ ان کے سُروں کے ساتھ سفر کیا ہے۔یہ ایسی دُھنیں ہیں جو زندگی میں ایک بار ہی ترتیب دی جا سکتی ہیں۔میں نے نصرت صاحب کے ساتھ مل کرامن کے لیے ایک گانا ’’چندا سورج لاکھوں تارے‘‘ بھی گایا تھا۔‘‘
اب اگرآپ کو موقع ملے تو کس پاکستانی گلوکار کے ساتھ گانا پسند کریں گے؟ جواب میں اے آر رحمٰن نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہو جائیں تو وہ پاکستان آ ئیں گےاورراحت فتح علی اور عاطف اسلم کے ساتھ گانا چاہیں گے۔ہم نے ان سے پوچھاکہ کسی زمانے میں انفرادیت پسندی کا دورتھا۔کوئی شاعر ہے تو صرف گانے لکھتا تھا۔لکھاری ہے تو اسکرپٹ لکھتا تھا۔اداکار ہے تو اداکاری اور فنکار ہے تو فنکاری کرتا تھالیکن ان دونوں کچھ لوگ سب کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ایسا کرنے سے چیزیں خراب نہیں ہوئیں؟اے آر رحمٰن کا کہنا تھا کہ اگرتکمیل کے بعد پروڈکٹ ٹھیک ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ستیاجیت رائے نے بھی ایسا کیا تھا۔دیکھنا یہ ہوتاہے کہ آپ کی اپنے کام پر گرفت کتنی ہے۔بعض اوقات آپ کی اپنی کوئی ایک فضیلت ہوتی ہے جو آپ کو دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔کوئی چیز اچھی یا بری اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ اُس کی فائنل شکل اچھی ہے یا بری ہے۔‘‘
بھارت میں ان دنوں عدم رواداری کے بہت چرچے ہیں۔آپ خود بھی اس عدم برداشت کا نشانہ بنے۔آپ کےخیال میں اس طرح کی سیاست بھارت کو کس جانب لے جارہی ہے؟اے آر رحمٰن نے جواب میں کچھ کہنا چاہالیکن رُک گئے ۔ذرا سے توقف کے بعد گویا ہوئے۔’’سیاست کسی فنکار کا علاقہ نہیں ہے۔ایک فنکار کا کام لوگوں کو ایک نئی فضا میں لے جانا ہوتا ہے اور موسیقی سے بڑھ کر یہ کام کوئی اور انجام نہیں دے سکتا۔یہی وجہ ہے کہ ہم شاعروں، موسیقاروں،فلموں اور فلمی ستاروں سے محبت کرتے ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ میں اسی فضا کا حصہ ہوں۔جتنی زیادہ منفی چیزیں وقوع پذیر ہوتی ہیں ، میں اتنا زیادہ اپنے علاقے میں چلا جاتاہوں اور لوگوں کو اپنی دُنیا کی سیر کراتا ہوں۔ـ‘‘
آپ موسیقی کو صوفی ازم کی ایک شکل سمجھتے ہیں۔لیکن تاریخی طور پر دیکھا جائے توصوفیانے موسیقی کی صرف ایک صنف قوالی کو فروغ دیا۔آپ صوفی ازم کے قریب ہوتے ہوئے قوالی سے ہٹ کر نئی راہیں تلاش کرنے میں کیسے کامیاب ہوئے؟اے رحمٰن کا سادہ سا جواب تھا’’ میں نہیں جانتا،یہ اپنے اپنے تجربے کی بات ہے۔میںخود کو مذہب اور عقیدے کے معاملات میں نہیں اُلجھاتا۔صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ حال ہی میں، میں اپنی والدہ کے ساتھ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گیا ہوا تھا ۔مدینہ میں مجھے اپنے ایک دوست کے گھر جانے کا اتفاق ہوا جس کے بھائی امام ہیں۔گفتگو کے دوران جب امام صاحب کو معلوم ہوا کہ میں موسیقار ہوں تو وہ مسکرائے اور کہا کہ موسیقی ایک طرح سے اللہ تک پہنچنے کی زبان ہے۔‘‘
روایت اور جدت کا ملاپ آپ کی الاپوں میں بہت زیادہ ہے۔کیا یہ سب کچھ الہامی ہے یا بہت زیادہ ریاضت کا نتیجہ ہے؟اس سوال کے جواب میں سُروں کے اس مصور کا کہنا تھا کہ ’’میرا تعلق ایک روایتی موسیقار گھرانے سے ہے۔میرے والد بھی موسیقار تھے۔میں اپنی خاندانی روایات پر کاربند ہوں۔صوفی ازم کی خوبصورتی یہی ہے کہ یہ موسیقی سےتعلق رکھتاہےاورمیرے لیے سہولت یہ ہے کہ میں ان دونوں سے وابستہ ہوں۔‘‘
پاکستان میںآپ کی فلمیں بہت شوق سے دیکھی جاتی ہیں۔کیا آپ نے بھی کبھی کوئی پاکستانی فلم دیکھی ہے؟ اے آر رحمٰن کا جواب تھا، جی ہاں! پاکستانی فلم ’’خداکے لیے‘‘ دیکھی تھی ۔