ڈاکٹر سیما صغیر کی مرتب کردہ کتاب ’دو رِ زیاں کا ثقافتی بیانیہ ‘کی رسم اجراء تقریب اختتام پذیر
٭ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی خصوصی رپورٹ
علی گڑھ، 17؍دسمبر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو کی استاذ ڈاکٹر سیما صغیر کی مرتب کردہ کتاب ’دو رِ زیاں کا ثقافتی بیانیہ ‘ کی رسم اجراء تقریب بروزہفتہ یونیورسٹی کے یوجی سی اکیڈمک اسٹاف کالج میں اداکی گی۔ یہ کتاب ممتاز ناول نگار سید محمد اشرف کے ناول ’آخری سواریاں‘پر مشتمل تنقیدی مقالات کا مجموعہ ہے۔ اس کتاب کی رسم اجراء علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے مرکزبرائے ترقی انسانی وسائل (ایچ آر ڈی سی) اکیڈمک اسٹاف کالج کے وسیع و عریض صحن میں 17؍ دسمبر بروزہفتہ صبح 11؍ بجے انجام دی گئیں۔
رسم اجراء تقریب کی صدرات پدم شری پروفیسر قاضی عبدالستارنے کی۔ مہمان خصوصی کے طور ، سید محمد افضل (آئی پی ایس) بھوپال، ہندی کے مشہور ادیب ڈاکٹر وکرم سنگھ (ریجنل آر ٹی اوعلی گڑھ) ، پروفیسر عبدالرحیم قدوائی (ڈائریکٹر مرکزبرائے ترقی انسانی وسائل (ایچ آر ڈی سی) اکیڈمک اسٹاف کالج علی گڑھ، پروفیسر صغیر افراہیم (شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)، اسٹیج پرموجود تھے۔
پروفیسر صغیر افراہیم نے ابتدائی کلمات میں مہمانان کا مختصر تعارف پیش کیا۔ساتھ ہی انھوں نے سید محمد اشرف کا ناول تہذیبی، ثقافتی اور لسانی اعتبار سے تو اہم ہے ۔ ڈاکٹر سیما صغیر نے ناول کے تعلق سے جو مقالات ترتیب دیے ہیں وہ اس کی کامیابی کے غماز ہیں۔
پروفیسر عبدالرحیم قدوائی (ڈائریکٹر مرکزبرائے فروغ انسانی وسائل (ایچ آر ڈی سی) اکیڈمک اسٹاف کالج علی گڑھ نے سیدمحمداشرف کی کتاب ’آخری سواریاں ‘ پر اپنے انداز میں ناول کے بارے میں گفتگو کی ۔اور ساتھ ہی استاذ ڈاکٹر سیما صغیر کی مرتب کردہ کتاب ’دو رِ زیاں کا ثقافتی بیانیہ‘ پر ان کی بے حد تعریف کی۔
استاذ ڈاکٹر سیما صغیر نے کتاب ’’دور زیاں کا ثقافتی بیانیہ‘‘ کو مرتب کرنے کی وجوہ پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ملک اور بیرون ممالک کے متعدد قلم کاروں کے تعاون سے یہ کام انجام پایا۔ سید محمد اشرف نے ’’آخری سواریاں‘‘ ناول میں زبان کے داخلی ربط، تہذیب و تاریخ کے باہمی رشتے اور ہندوستانی پس منظر میں ان سے متعلق رونما ہونے والے حادثات و واقعات اور ان کے اثرات کو خوبی کے ساتھ فن کے قالب میں ڈھال دیا ہے۔
’آخری سواریاں‘‘ کے مصنف اور ممتاز فکشن نگار سید محمد اشرف نے کہا کہ بے حد کشیدہ ماحول میں بھی علی گڑھ میں تہذیب اور الفاظ کی حرمت کے امین ادبی گفتگو میں مصروف ہیں تو یہ ادب کی فتح کے مترادف ہے انہوں نے کہا کہ پروفیسر قاضی عبد الستار نے تین نسلوں کی رہنمائی کی ہے اور ان کا یہ ماننا برحق ہے کہ شاعری کے اوزاروں پر فکشن کا بھی پورا پورا حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ قاضی صاحب کی تربیت کا ہی فیض ہے کہ ان کے شاگردوں نے خود کا اسلوب وضع کیا اور اپنی انفرادیت قائم کی۔
ڈاکٹر وکرم سنگھ (آر ٹی او ، علی گڑھ) نے کہا کہ سید محمد اشرف دور حاضر کے اہم فکشن نگار ہیں جنہوں نے اپنی خلقانہ صلاحیتوں کا بہترین مظاہرہ کیا ہے۔
سید محمد افضل (آئی پی ایس) بھوپال نے استاذ ڈاکٹر سیما صغیر کی مرتب کردہ کتاب ’دو رِ زیاں کا ثقافتی بیانیہ ‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کے یہ کتاب عوام کے لئے بل عموم اور خواص کے لئے بے حد مفید ثابت ہونگی۔ اور ان کی اس تحقیقی کا م کی بے حد تعریف کی۔
معروف فکشن نگار پدم شری پروفیسر قاضی عبدالستارنے تقریب کے صدراتی خطاب میں بے جھجک کہا ’’آخری سواریاں‘‘ ناول کو صف ِ اوّل کا ناول قرار دیتے ہوئے کہا کہ انھیں فخر ہے کہ ان کے شاگرد اس قدر لائق ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ کسی المیہ سے کم نہیں کہ اردو تنقید نے افسانے کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کیکئی نے رام کے ساتھ کیا تھا۔ آج بھی اردو فکشن کو وہ مقام و مرتبہ حاصل نہیں ہوسکا ہے جس کا وہ حقدار ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید کی کتابوں کے بعد سب سے زیادہ ناول اور افسانوں کی کتابیں فروخت ہوتی ہیں پھر بھی ایسی بے حسی کی فضا کیوں ہے اس پر غور کرنا ہوگا۔
واضح رہے کہ گزشتہ دنوں سیدمحمداشرف کی کتاب ’آخری سواریاں‘ منظرعام پرآکربرصغیرہندوپاک میں ادیبوں کے درمیان مقبولیت کادرجہ پاچکی ہے۔ مذکورہ ناول پرلکھے گئے تنقیدی مضامین کا یہ مجموعہ ناول کوسمجھنے میں بہت حدتک معاون ثابت ہوگا۔ ڈاکٹر سیما صغیر کی اب تک9؍ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں ۔ساتھ ہی انھوں نے متعدد کتابوں کا ہندی سے اردو میں ترجمہ بھی کیا ہے ۔ ’دو رِ زیاں کا ثقافتی بیانیہ‘ میں کل 35؍ مضامین شامل کئے گئے ہیں۔ اس میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے دو قلم کاروں کے مضامین اور ہندوستان کے معروف ناقداور محقق گلزار، مجتبیٰ حسین، ذکی احمد کے علاوہ ہندوستان کے مختلف مقامات کے مصنّفین کے مضامین بھی شامل ہیں۔
اس موقع پر صدر شعبہ اردو پروفیسر سید محمد ہاشم، ڈاکٹر احمد مجتبیٰ صدیقی، پروفیسر فرحت اللہ خاں، ڈاکٹر پریم کمار، ڈاکٹر راحت ابرار، محمد احمد شیون، ڈاکٹر راشد انور راشد، احمد رشید، ڈاکٹر فرقان سنبھلی، ڈاکٹر افضل مصباحی، ڈاکٹر ایم اے حق، ڈاکٹر مجتبیٰ جمال، ڈاکٹر محمود مرزا، ڈاکٹر عبدااللہ امتیاز، ڈاکٹر محی الدین زورؔ کشمیری، ڈاکٹر مزمل کوثر،ڈاکٹر نکہت فاطمہ، ڈاکٹر جمشید احمد ممبئی،ڈاکٹر زرین خان، سعدی مصطفی علوی، ڈاکٹر شبینہ پروین، کے علاوہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے اساتذہ ، دیگر شعبہ جات کے معزز احباب، شہر کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد، قلم کار، ادباء ،شعراء، معزز شخصیات ،اوراردو، عربی، فارسی کے ریفریشر کورس کے شرکاء، ریسرچ اسکالرنے شرکت کیں۔
نظامت کے فرائض پروفیسر صغیر افراہیم (شعبہ اردو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ)انجام دئے رہے تھے ۔آخر میںاظہار تشکر ڈاکٹر فائزہ عباسی (اسسٹنٹ ڈائریکٹر ، اکیڈمک اسٹاف کالج اے ایم یو علی گڑھ)نے ادا کی۔