شاعرِ مشرِق

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش

\"183516_101257719955398_100002135102780_8435_2058251_n\"
٭ڈاکٹر شیخ نگینوی
ایڈیٹر، میڈیا پوسٹ ،نئی دہلی
\"iqbal_day_1\"
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
ایسی عظیم شخصیت کے لئے یہ شعر بجا طور پر صادق آتا ہے جس کا شمار دنیا کے عظیم شاعروں میں ہو تا ہے۔ جس کو انگریزی حکومت نے ’’سر ‘‘ کا خطاب دیا، آکسفور ڈیونیورسٹی نے ڈاکٹر یٹ کی ڈگری سے نوازا ۔جس کو کسی نے شاعرِ مشرق اور کسی نے شاعر اسلام کہا۔ وہ شاعر اسلام ہی نہیں بلکہ وہ شاعرِ وطن اور شاعرِ فطرت کی حیثیت سے بھی بہت معروف و مقبول ہے۔ لیکن وہ خود ایک فلسفی، مشہور قانون داں ، ادیب پیکر عمل اور شاعر ملک و قوم کی ایسی عظیم ہستی تھا جس نے اردو شاعری میں نئی روح پھونکی ۔دنیا اس متعدد خوبیوں والے انسان کو علامہ اقبال کے نام سے یاد کرتی ہے۔
بقول علی سردار جعفری:۔ ’’ابھی تک اردوزبان نے اقبالؔ سے بڑا شاعر پیدا نہیں کیا۔ وہ ہمہ گیر و سعت ابھی تک کسی شاعر کو نصیب نہیں ہوئی جو اقبال کی شاعری میں پائی جاتی ہے۔‘‘۔
محمد اقبال کی پیدائش 9نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں ہوئی تھی۔ سال 2002ء سے 9نومبر کو ملک بھر میں اقبال کے یوم پیدائش کو یومِ اردو کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ اقبال کے والد نور محمد بڑے نیک اور پاک سیرت انسان تھے۔ تصوّف سے انہیں خاص لگائو تھا۔ اقبال کی تعلیم عام بچوں کی طرح گھر اور مکتب سے شروع ہوئی، اس کے بعد سید میر حسن ؔ جیسے لائق و شفیق استاد ملے۔ میٹرک اور انٹر نس کے امتحان اسکاچ مشن کالج سیالکوٹ سے پاس کئے گورنمنٹ کالج لا ہور سے بی۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کی۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔ اے میں اول آنے کی بنیاد پر سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ فلسفہء عجم کے موضوع پر تحقیقی کام کر کے پی۔ ایچ۔ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ تعلیمی سلسلہ جاری رکھتے ہوئے لندن سے بیر سٹری کا امتحان پاس کیا۔ فلسفہ میں آپ کے استاد آرنلڈ تھے ، جنہوں نے کہا ۔ ’’میں اقبال کو فلسفہ سکھانے بیٹھا لیکن خود اس سے فلسفہ سیکھ لیا۔‘‘
اقبالؔ کو شعر و سخن سے طالب علمی کے زمانے سے ہی شوق تھا۔ اس زمانے میں لاہور میں مشاعرے ہوتے تھے۔ ایک بار ان کے احباب ان کو مشاعرے میں لے گئے، جہاں مرزا ارشد گرگانیؔ بھی موجود تھے ۔اقبال نے غزل کا جب یہ شعر پڑھا۔
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے
شعر سن کر مرزا ؔارشد تڑپ اٹھے اور بولے، سبحان اللہ اس عمر میں یہ شعر! انہوں نے اقبال کے عظیم شاعر ہونے کی پیشن گوئی کی۔ اس طرح ایک جلسہ میں ’’نالہ ء تییم‘‘ کو بڑے درد بھرے انداز میں پڑھا تو سارا مجمع تڑپ اٹھا ،جس نے غیر معمولی مقبولیت کے ساتھ اقبال کو عوام و خواص سے روشناس کرا یا۔ پھر وہ انجمن کے جلسوں میں برابر نظمیں پڑھتے رہے۔ اقبال نے اپنی شاعری کے متعلق خود اعتراف کیا ہے کہ ’’ہمارا کلام مولانا روم کی مثنوی کی طرح تعلیماتِ قرآنی کا ترجمان ہے‘‘ ۔ علامہ اقبالؔ نے ہندو مسلم ایکتا اور محبت کو دل میں بسانے کے لئے زبر دست کام کئے۔ وطن کی محبت کے گیت گائے، سامراج اور سر مایہ داری کو للکارا، گنگا جمنی تہذیب پرزور دیا۔ انہوں نے انگلینڈ، اسپین اور کئی مغربی ملکوں کا سفر کیا اور وہاں کی تہذیب اور سامراجیت کا باریکی سے نظارا کیا اور انہیں اپنی شاعری میں جگہ دی۔ اقبال کا پہلا اردو مجموعہ کلام ’’بانگ درا‘‘ ، دوسرا مجموعہ ’’بال جبریل‘‘ شائع ہو ا۔ یہ بھی نظموں اور غزلوں نیز قطعات کا مجموعہ ہے ۔اقبال نے اردو نظم و غزل کو بامِ عروج پر پہنچایا۔ پروفیسر سید وقار عظیم نے بہت صحیح لکھا ہے ۔ ’’اقبال نے اپنی غزلوں کے ذریعہ اردو غزل کی روایت کو ایک نئی آواز ،نئے آہنگ اور نئے لہجے سے آشنا کرایا اور غزل کا نیا مفہوم اور یقینا وسیع تر مفہوم سامنے آیا‘‘۔1915ء میں ’’مثنوی اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی۔ پیام ِ مشرق ،زبورِ عجم، جاوید نامہ اقبال کی شاعری کی خوبیوں کا نچوڑ ہیں۔ 1936ء میں ’’ضربِ کلیم‘‘ شائع ہوئی۔ اقبال نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں بھی شعر کہے۔ خضرراہ ، شمع، شاعر، تصویر درد، شکوہ جواب شکوہ وغیرہ انہوں نے جلسوں میں پڑھیں۔
ہم جب اقبال کی فطری نظموں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں انگریزی زبان کے سب سے بڑے شاعر ولیم ورڈس ورتھؔ سے کم پایہ کے نظر نہیں آتے۔ ماہِ نو، ابر کو ہسار، گل رنگین وغیرہ بہت سی نظمیں ہے جن میں اقبال نے بہترین تصویر کشی بھی کی ہے۔ اقبال وطن کے محبت کے جذبہ سے سر شار تھے اور وطن کا ذرّہ ذرّہ ان کے نزدیک قابلِ تعظیم وپرستش تھا۔
پتھر کی مورتوں میں سمجھا ہے تو خدا ہے
خاکِ وطن کا مجھ کو ہر ذرّہ یو تا ہے
علامہ اقبال غافل قوم کو اس راہ پر لانا چاہتے تھے جس راہ پر چل کر وہ مقام ِخودی کو پہچان سکے۔ وہ اپنے فلسفہ ء خودی، فلسفہ ء عشق، فلسفہ ء حرکت و عمل وغیرہ کے ذریعہ قوم کو ترقی و بلندی کے اعلیٰ مقام پر پہنچانا چاہتے تھے۔ انہوں نے خود کہا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خد ابند ے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اقبال کا ترانہ ہندی ایسا ترانہ ہے جو ہر عام وخواص بڑے محبت احترام کے ساتھ پڑھتا ہے ۔اقبا ل کے اس ترانہ کی جوڑ کا دوسرا مقبول ترانہ آج تک کوئی نہیں لکھ سکا ہے ۔ جب کوئی بھی شخص یہ شعر پڑھتا ہے تو حب الوطنی سے جھوم جاتا ہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم، وطن ہے ہندوستاں ہمارا
نو نہالِ چمن میں اقبال لکھتے ہیں۔
چشتی نے جس زمیں پر پیغام حق سنایا
نانک نے جس چمن میں وحدت کا گیت گایا
وہ میرا وطن میرا وطن میرا وطن ہے
اقبال کے نزدیک شاعری انسان کے ہاتھ کا کھلونہ نہیں بلکہ ایک ایسا آلہ ہے جو کار زارِ حیات میں علم و حکمت سے زیادہ کارگر ہے۔
شاعری زندگی کی تعمیر و تطہیر اور تزئین کا نہایت ہی موثر اور معتبرآلہ ہے ،شرط یہ ہے کہ اس کی تخلیق میں گرمیٔ دل، لذت جستجو، سوز آرزو اور سچے جذبات کی سر مستی سے کام لیا گیا ہو ،آپ کہتے ہیں۔
سونے والوں کو جگا دے شعر کے اعجاز سے
خرمنِ باطل جلا دے شعلہ ٔ آوازسے
علامہ اقبالؔ نے نہ صرف مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا ہے اور اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے بلکہ نئی عمدہ تشبیہوں سے بھی چمن اردو کو شاداب کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقبال کی شاعری میں تلمیحات بھی کثرت سے ملتی ہیں ۔تلمیحات اقبال کا سر چشمہ قرآن کریم، احادیث، تاریخ اسلام کے واقعات، پیغمبروں کی زندگی اور سبق آموز قصص احکامات ہیں۔
علامہؔ اقبال کے مطابق’’سچا فنکاروہ ہے جو اپنے کمال کو نوع انسان کی بہتری کے لئے وقف کرے ،اپنی قوم کا مزاج شناس ہو اور آرٹ کو قومی امراض کے دفیعہ کاذریعہ بنائے۔ علامہ اقبالؔ اور ان کی شاعری پر اب تک سینکڑوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور لکھی جا رہی ہیں اور لکھی جاتی رہینگی اور اقبالؔ کی شاعرانہ عظمت کے ترانے ہر دور میں گائے جاتے رہیں گے۔ مذکورہ حقائق کی بنیاد پر جب ہم اقبالؔ پر نظر ڈالتے ہیں تو شاعری کے اتنے بلند ترین پایہ تک کوئی نہیں پہنچ سکتا ۔ حقیقت یہ ہے کہ اقبالؔ جیسا قادر الکلام اور ر موزِ فن سے آگاہ شاعر کسی زبان میں صدیوں کے بعد پیدا ہوتا ہے۔ بعض ادیبوں کے مطابق اگر علاّمہ اقبالؔ مغربیت کے خلاف اپنا قلم نہ چلاتے تو ان کو ’’نوبل‘‘ انعام ملنا یقینی تھا۔
1938ء میں ایک طویل علالت کے بعد اردو کے اس مایہ ناز شاعر کی زبان ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی ۔اس کے قلم کی سیاہی سوکھ گئی، شاعرا نہ جذ بات اور فکریں معدوم ہو گئی۔ بلآخر قوم و ادب کا محسن اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر سپر د خاک ہو گیا، لیکن اس کی شاعری اردو ادب کے ساتھ رہتی دنیا تک قائم رہیگی۔
جگنو کی روشنی ہے کا شانۂ چمن میں
یا شمع جل رہی ہے پھولوں کی انجمن میں
آیا ہے آسماں سے اڑ کر کوئی ستارہ
یا جان پڑ گئی ہے مہتاب کی کرن میں
تکمہ کوئی گرا ہے مہتاب کی قبا کا
ذرّہ ہے یا نمایاں سورج کے پیر ہن میں

٭٭٭٭٭

Leave a Comment