شعبۂ اردو جامعہ کراچی میں دو سو سالہ جشن سر سید بین الاقوامی کانفرنس کا کامیاب انعقاد

دوسوسالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس ،ادب،تاریخ اورثقافت :جنوب ایشیائی تناظر اورسرسیّد احمدخان

٭شعبہ اردو کی باسٹھ سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی سطح کی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے جس پہ جامعہ کراچی کو فخر ہے۔پروفیسرڈاکٹر اجمل خاں شیخ الجامعہ جامعہ کراچی

٭شعبہ اردو جامعہ کراچی سرسید کی ولادت کے دوسوسال ہی نہیں منارہا بلکہ یہ شعبہ اس وقت پاکستان کی جامعات کی قیادت کررہا ہے۔پروفیسرڈاکٹر انواراحمد

٭ لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اوراہلیانِ کراچی کی محبت اورخلوص بے مثل ہے۔ہینز ورنرویسلر،سوئیڈن

٭ شعبہ اردو جامعہ کراچی کی ایسی تقاریب کا مستقبل تابناک ہے۔پروفیسرڈاکٹر تنظیم الفردوس ،صدرنشین شعبہ اردو

٭۲۰۱۳ء میں شعبہ کا چارج سنبھالا تھا تومیراایک خواب تھا کہ شعبہ دس سال کے اہداف طے کرلے،ایک پیج پرآجائے تویقین جانیے کہ آج میں اس خواب کو تعبیر ہوتے ہوئے دیکھ رہاہوں۔پروفیسرڈاکٹرذوالقرنین احمدشاداب ؔاحسانی

\"drzakia\"
کانفرنس رپورٹ

٭ڈاکٹر ذکیہ رانی
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبۂ اردو،جامعہ کراچی۔

\"DSC00212\"

شعبۂ اردوجامعہ کراچی کے زیرِ اہتمام سہ روزہ (۱۶،۱۷،۱۸؍اکتوبر۲۰۱۷ء) دوسوسالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس ، ادب،تاریخ اورثقافت :جنوب ایشیائی تناظر اورسرسیّد احمدخان کا افتتاحی اجلا س ۱۶؍اکتوبر ۲۰۱۷ء کو آرٹس آڈیٹوریم ،جامعہ کراچی میں منعقدہوا۔افتتاحی اجلاس کی صدارت شیخ الجامعہ جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹرمحمداجمل خان نے کی نیز مہمانانِ خصوصی کی حیثیت سے سابق شیخ الجامعہ ،جامعہ کراچی اورموجودہ شیخ الجامعہ ضیاء الدین یونیورسٹی ،کراچی ،معروف شاعرونقادودانشور پروفیسرڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی اورشیخ الجامعہ شہید بے نظیربھٹو یونیورسٹی کراچی پروفیسرڈاکٹر اختربلوچ نے شرکت فرمائی۔
افتتاحی اجلاس کا آغاز شعبہ اردو کے طالب علم حافظ محمد آصف نے تلاوتِ کلامِ پاک سے کیا بعدازاں ایم ۔فل اردو ،شعبہ اردو کی طالبہ حراشبیر نے نعتِ رسول مقبول سے دل موہ لیے۔خطبہ استقبالیہ صدرنشین شعبہ اردو ،پروفیسرڈاکٹر تنظیم الفردوس نے پیش کیا۔انھوں نے صدرمجلس شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر اجمل خان،رئیسِ کلیہ فنون پروفیسرڈاکٹر محمداحمد قادری ،پاکستان اوربیرونِ ممالک سے شریک مندوبین اورشرکائے کانفرنس طلباء وطالبات کو خوش آمدید کہا اور شعبۂ اردوکی مختصرتاریخ وعلمی وادبی روایت پر روشنی ڈالی ۔شعبۂ اردو کے پہلے صدر نشین بابائے اردو مولوی عبدالحق تھے ان کے بعد پروفیسرڈاکٹر ابواللیث صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر ابوالخیر کشفی،پروفیسرڈاکٹر یونس حسنی،پروفیسرڈاکٹر فرمان فتح پوری،پروفیسر جمیل اختر خان تا پروفیسرڈاکٹر ذوالقرنین شاداب احسانی نے شعبہ کی علمی وادبی روایت کو جو استحکام بخشا وہ اظہر من شمس ہے۔انھوں نے کہا کہ اس کانفرنس کے خیا ل تا عمل ہرجگہ ہمیں پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی کی علمی وادبی معاونت حاصل رہی گو وہ کچھ عرصہ سے علیل ہیں مگر ان کی فکر اورخیال کی روشنی ہم رکاب ہے،اللہ انھیں جلد صحتیاب فرمائے۔
سابق صدرنشین پروفیسرڈاکٹرذوالقرنین احمد شاداب احسانی نے شعبہ کا پہلا علمی وتحقیقی جرنل’ امتزاج‘ جاری کیا جو آن لائن اورپرنٹ دونوں صورتوں میں شائع ہوتا ہے نیز انھوں نے شعبہ کی ویب گاہ کا اجراء کیا۔ بی۔ ایس کے لیے اردوکمپیوٹر لیب قائم کی ان کی حکمت عملی شعبہ کی تعمیر وترقی کے حوالے سے عالمی اردو کانفرنس اوربین الاقوامی دنیا سے شعبہ اردو جامعہ کراچی کو مربوط کرنے کی تھی ان کے بعد مجھے صدر نشین شعبہ اردو کی ذمہ داری عطا ہوئی اورمیں نے اورمیرے اساتذہ نے اس خواب کو تعبیر دینے کی ٹھانی ۔ایک روزہ کانفرنس ’اردو بحیثیت سرکاری زبان‘ فروری ۲۰۱۷ء میں منعقد کی گئی اور آج ہم بین الاقوامی کانفرنس کا افتتاحی جلسہ کررہے ہیں ۔اس کانفرنس کا بیڑہ میں تنہا نہیں اٹھا سکتی تھی اس کارِ خیر میںشعبہ کے تمام اساتذہ،ڈاکٹر راحت افشاں،ڈاکٹر صفیہ آفتاب،ڈاکٹر تہمینہ عباس، ڈاکٹر انصارشیخ،ڈاکٹر صدف فاطمہ،ڈاکٹر عظمیٰ حسن،ڈاکٹر شمع افروز،ڈاکٹر صدف تبسم،ڈاکٹرذکیہ رانی،ڈاکٹر خالد امین ،ڈاکٹرساجد خان،ڈاکٹر سہیلہ فاروقی،ڈاکٹر ثریا شمیل، محترم محمدسلمان ،محترم محمد شاکر، محترم راشد علی،محترمہ عطیہ ہماصدیقی،محترمہ عائشہ ناز صاحبہ اوربالخصوص پروفیسر ڈاکٹر ذوالقرنین شاداب احسانی، پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ ،غیر تدریسی عمال نوید خان،عبدالوحید،عبدالرحمان،محمد شہباز نیزہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان اورمعروف شاعرہ ،نقاد اورانجمن ترقی اردو پاکستان کی معتمدعمومی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے بھرپور ساتھ دیا ۔فاطمہ حسن کی اپنائیت نے مجھے قدم قدم پر سہارا دیا یقینا میں سوچنے میں حق بجانب ہوں کہ شعبہ اردو جامعہ کراچی کی ایسی تقاریب کا مستقبل تابناک ہے۔
دوسوسالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس ،ادب،تاریخ اورثقافت :جنوب ایشیائی تناظر اورسرسیّد احمدخان کا کلیدی خطبہ سابق صدر نشین شعبۂ مطالعہ پاکستان پروفیسرڈاکٹر جعفر احمد نے پیش کیا ۔اس افتتاحی جلسے کی اہمیت یوں بھی دوچند ہوئی کہ شعبہ اردو کے پہلے صدرنشین بابائے اردو مولوی عبدالحق مرحوم کی یومِ سرسیّد کے موقع پر ریڈیوپاکستان سے نشر شدہ تقریر خصوصی طورپر ذخیرۂ لطف اللہ خاں سے منتخب کرکے سنوائی گئی یوں شعبہ اردونے ماضی تا حا ل ایک علمی وفکری روایت کا احیاء کیا کہ جو شمع سرسیّد نے روشن کی جس کی حفاظت بابائے اردو نے کی اورپروفیسرڈاکٹر تنظیم الفردوس نے اس شمع کے نور سے آنے والی پیڑھی کو۲۰۱۷ء میں متعارف کروادیا ۔شعبہ اردو کے طلباء وطالبات اورحاضرینِ کرام نے بغور بابائے اردو کی تقریر کو سماعت کیا۔آڈیٹوریم میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی اور کسی اردو کانفرنس میں ہم نے ایسا مجمع نہیں دیکھا ۔
ریڈیائی تقریر کے بعد رئیسِ کلیہ فنون وسماجی علوم پروفیسرڈاکٹر محمد احمد قادری نے خطبۂ سپاس پیش کیا۔ پروفیسرڈاکٹر محمداحمد قادری اردو کے شیدائی ہیں انھوں نے استاد شعبہ اردو پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی کی صحت یابی کے لیے دعا کی اوران کی بے مثل شخصیت اورعلمی وادبی کارناموں کا ذکرتے ہوئے شعبہ اردو کے اساتذہ کو خراج تحسین پیش کیا کہ ان جیسے اصحاب شعبہ کاجامعہ کا سرمایہ ہیں ۔رئیس کلیہ فنون نے پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ،صدر نشین شعبہ اردو ،اساتذہ کرام اورطلباء وطالبات کو کانفرنس کے انعقاد پر دلی مبارک باد پیش کی ۔ملکی وغیرملکی مندوبین اورحاضرین کرام کو ہدیہ سپاس پیش کیا اوراس عزم کا اعادہ کیا کہ آئندہ بھی شعبہ کے تحت ہونے والی عالمی کانفرنسوں میں وہ شریکِ کاررہیں گے۔انھوں نے ذاتی دلچسپی لے کر اپنے شعبۂ سیاسیات کے آڈیوویژول ہال کی جلد تزئین وآرائش کرائی تاکہ کانفرنس کی متوازی نشستوں کا انعقاد بروقت ہوسکے۔انھوں نے آئندہ بھی ہرممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔
خطبۂ سپاس کے بعد مطبوعات انجمن ترقی اردو پاکستان ،’جہاتِ سرسیّد ‘مرتب ڈاکٹر رخسانہ صبا ،’قومی زبان اورسرسیّد شناسی‘ مرتب ڈاکٹر تہمینہ عباس ، ’آثارالصنادید، محقق، حیات رضوی امروہوی،نیز ’توقیت سرسیّد تحقیقی تناظر‘ ،مولف ومحقق ڈاکٹر ذکیہ رانی ،ناشرحلقۂ شاداب احسانی ، کی کتاب کی رونمائی کی گئی ۔
مہمانانِ خصوصی میں سابق شیخ الجامعہ پروفیسرڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضاصدیقی نے استادمحترم کی صحت یابی کی دعا کی اورصدرنشین شعبہ اردو اوران کے رفقاء کو کانفرنس کے انعقادپرمبارک باد دی۔شیخ الجامعہ شہید بے نظیربھٹویونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر اختر بلوچ نے کانفرنس کے انعقاد پر دلی مسرت کا اظہارکیا اورشعبہ کی صدرنشین،رئیس کلیہ فنون، شیخ الجامعہ کو مبارک باد پیش کی بعدازاں شیخ الجامعہ ،جامعہ کراچی پروفیسرڈاکٹر اجمل خان نے اپنے صدارتی خطبے میں شعبہ اردوکی صدرنشین ،اساتذہ کرام اورعمال وطلباء وطالبات کو مبارک باد پیش کی ۔انھوں نے کہا کہ بلاشبہ شعبہ اردو کی باسٹھ سالہ تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ عالمی سطح کی کانفرنس منعقد کی جارہی ہے جس پہ جامعہ کراچی کو فخر ہے۔شعبہ اردومیں قیادت کے لحاظ سے گذشتہ کچھ عرصہ سے فعال شخصیات وابستہ رہیں ہیں جنھوں نے ان مشکلات اورکٹھنائیوں کو دورکردیا ہے ۔ہم سب پروفیسرذوالقرنین شاداب کی صحت یابی کے لیے دعا گوہیں۔افراد ہی اداروں کی بنیاد رکھتے ہیں اوراداروں کو آگے بڑھا تے ہیں۔بالکل اسی طرح سرسیّد کے نظریات اورافکارہمارے لیے مشعل راہ ہیں ۔ہم فکرِ سرسید کی روشنی میں قومی ترقی اور قومی اتفاق کا درس سیکھتے ہیں اوراسے اپنا کر زندگی کے ہرمیدان میں کامیاب ہوسکتے ہیں ۔آج پروفیسرتنظیم الفردوس اوراساتذہ کو ایسی شاہراہ میسر ہے کہ اب وہ مزید بلندیوں کا سفرطے کرسکتے ہیں۔مجھے خوشی ہے کہ حال ہی میں منتخب ہونے والے اساتذہ میں سے ڈاکٹر تہمینہ عباس اورڈاکٹر ذکیہ رانی نے حسبِ موقع اپنی تصانیف شائع کیںیہ اساتذہ بطورخاص مبارک باد کے مستحق ہیں۔شعبہ اردو کے اساتذہ اور طلباء وطالبات کو مبارکباد دیتے ہوئے شیخ الجامعہ نے فرمایا کہ امید ہے آئندہ بھی شعبہ اپنی اس روایت کو آگے بڑھائے گا اورعالمی سطح پر جامعہ کراچی اورپاکستان کا مثبت تشخص اجاگر کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرے گا۔خطبہ ٔ صدارت کے بعد شعبہ اردو کی سینئر استاد ڈاکٹر راحت افشاں نے اظہارِ تشکر پیش کیا ۔افتتاحی تقریب کی نظامت کے فرائض شعبہ کی ریسرچ اسکالر، معاون مدیر ماہنامہ قومی زبان کراچی، ڈاکٹر رخسانہ صبا نے انجام دیے۔افتتاحی تقریب کے خاتمہ کے بعد چائے کا وقفہ ہوا بعدازاں ایک مرکزی اورچھ متوازی نشستیں منعقد کی گئیں جن کا اجمالاً احوال کچھ یوں ہے۔

پہلی نشست بعنوان: ’سرسیّد احمد خان:احوال وآثار‘ آرٹس آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس کی صدارت مجلس ترقی ادب لاہور کے صدر ،دانشور،پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی،استاد الاساتذہ پروفیسر انواراحمد ،سابق صدرنشین مقتدرہ قومی زبان ،ملتان اور معروف افسانہ نویس،مدیر مجلہ مکالمہ محترم مبین مرزا نے کی۔مقالہ نگاروں میں ڈاکٹرنائلہ انجم،لاہور،ڈاکٹر ندیم عباس اشرف،ساہیوال،ڈاکٹر محمدعاطف اسلم راؤ،کراچی،حیات رضوی امروہوی،کراچی،ڈاکٹر سیّد عزیزالرحمان،کراچی، پروفیسر ڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی علی گڑھ شامل تھے۔صدارتی خطاب میں پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی نے پروفیسرشاداب احسانی کی صحت یابی کے لیے دعا کی اورماریشس میں ان کے ساتھ عالمی کانفرنس میں شرکت کی یاد تازہ کی۔انھوں نے سرسیّد کی علمی وادبی اہمیت کو ان کی زندگی کے روز وشب کے تناظر میں بیان کیا۔پروفیسرڈاکٹر انواراحمد نے اپنے صدارتی خطبے میں تمام شعبہ اردو کے اساتذہ کو مبارکباددی اورطلباء وطالبات کی دلچسپی اورکانفرنس کے مقالاجات کے موضوعات کوسراہا ۔مبین مرزا نے سرسیّد شناسی کوعصرحاضر کی اہم ضرورت قراردیا ۔پہلی مرکزی نشست کی نظامت کے فرائض اساتذہ شعبہ اردو ڈاکٹر ذکیہ رانی اورڈاکٹر شمع افروز نے سرانجام دیے۔

دوسری متوازی نشست بعنوان:’سرسیّداحمد خاں :علمی وادبی خدمات‘ مرکزِ سمعی وبصری کلیہ فنون و سماجی علوم میں منعقد ہوئی۔جس کی صدارت پروفیسرڈاکٹر روبینہ ترین،ملتان،پروفیسرڈاکٹر ضیاء الرحمان ،کوئٹہ،ڈاکٹر ضیاء الحسن ،لاہور نے کی جبکہ مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر رفاقت علی شاہد ،لاہور،عفت بانو،کراچی، ڈاکٹر فرحت جبین ورک ،راولپنڈی،ڈاکٹر شذرہ،جامشورو،ارم صبا،اسلام آباد،صنم شاکر، اسلام آباد شامل تھے۔صدارتی خطاب میں پروفیسرسحرانصاری نے مقالہ نگاروں کے موضوعات کو سراہا اورپروفیسرڈاکٹر روبینہ ترین نے اس نشست کے تمام مقالہ نگاروں کو داد دی اوران کے موضوعات کو عصر سے مربوط قراردیا۔دوسری نشست کی نظامت ڈاکٹر عظمیٰ حسن اورڈاکٹر صدف تبسم نے انجام دی۔

تیسری متوازی نشست بعنوان:’سرسیّد احمد خان :ادبی ادارے اورعلمی مراکز وشخصیات‘(الف)سماعت گاہ شعبہ تاریخ عام میں منعقد ہوئی ۔اس نشست کی صدارت معروف دانشورجسٹس (ر)حاذق الخیری،زاہدہ حنا،کراچی، ذوالقرنین جمیل نے کی۔مقالہ نگاروں میں محمد عثمان ،کراچی،ڈاکٹرصوفیہ خشک،خیر پور،ڈاکٹر فاطمہ حسن،ڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم،قاہرہ،پروفیسرڈاکٹر یوسف خشک،خیرپورشامل تھے۔جسٹس حاذق الخیری نے صدارتی خطاب میں شعبہ اردو کی مثالی جدوجہد کوسراہا اورمقالہ نگاروں کو ان کے مقالات کے منفرد موضوعات پر داد دی۔اس نشست کی نظامت کے فرائض اساتذہ شعبہ اردو محمد سلمان اورعائشہ ناز نے انجام دیے۔

چوتھی متوازی نشست بعنوان:’سرسیّد احمد خان :ادبی ادارے اورعلمی مراکز وشخصیات‘(ب)شعبہ سیاسیات کی سماعت گاہ میں منعقد ہوئی جس کی صدارت پروفیسرنوشابہ صدیقی،کراچی،ڈاکٹر آصف فرخی،کراچی،ڈاکٹر نثارترابی،راولپنڈی نے کی۔ مقالہ پیش کرنے والوں میں ڈاکٹرعابدہ بتول،لاہور،فیصل ریحان ،کوئٹہ، ڈاکٹرخالد امین،ڈاکٹر یاسمین کوثر ،لاہور،زہراصابری ،کراچی شامل تھے۔اس نشست کی نظامت اساتذہ شعبہ اردو ڈاکٹر تہمینہ عباس اورمحمد شاکر نے انجام دی ۔مذکورہ نشستوں کے اختتام پر ظہرانے کااہتمام کیا گیا تھا ۔

ظہرانے کے بعد پانچویں نشست بعنوان:’ سرسیّداحمدخاں :تعلیمی وتانیثی تصورات‘آرٹس آڈیٹوریم میں منعقدہوئی۔جس کی صدارت ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی، کراچی ،پروفیسرڈاکٹر یوسف خشک،خیرپور،ڈاکٹر ابراہیم محمدابراہیم ،قاہرہ،ڈاکٹر رفاقت علی شاہد،لاہور نے کی۔اس نشست میں پروفیسر ڈاکٹرانوار احمد ، ڈاکٹر نزہت عباسی ، ڈاکٹر رفیق الاسلام،اسماحسن،کراچی،سائرہ سلمان،کراچی نے پرمغزمقالات پیش کیے ۔نظامت شعبہ اردو کے اساتذہ محترمہ عطیہ ہماصدیقی،ڈاکٹر صدف تبسم نے انجام دی۔

چھٹی متوازی نشست بعنوان:’سرسیّداحمدخان اورادبی جہات‘ سماعت گاہ شبہ تاریخ میں منعقد ہوئی ۔جس کی صدارت پروفیسرڈاکٹر یونس حسنی،کراچی، محترمہ حمیدہ معین رضوی،لندن،نے کی ۔اس نشست کے مقالہ نگاروں میں پروفیسرڈاکٹر قاضی عابدلاہور،ڈاکٹر طارق محمودہاشمی،فیصل آباد،پروفیسرڈاکٹر اشفاق احمد ورک،لاہور،ڈاکٹر سہیل شفیق، کراچی،ڈاکٹر سجاد نعیم ،ملتان،ڈاکٹر حمیراارشاد،لاہورتھے۔نظامت کے فرائض اساتذہ شعبہ اردو ڈاکٹر راحت افشاں اورڈاکٹر صدف تبسم نے انجام دیے۔

ساتویں متوازی نشست کا انعقاد سماعت گاہ شعبۂ سیاسیات میں بعنوان:’سرسیّداحمدخان اورسیاسی وملّی افکار‘ہوا۔اس کی صدارت پروفیسرڈاکٹر ابوسفیان اصلاحی ،علی گڑھ،پروفیسرڈاکٹر نجیب جمال،ڈاکٹر آغاناصر،کوئٹہ نے کی ۔مقالہ نویسوں میں پروفیسرڈاکٹرثمر سلطانہ،ڈاکٹر تلمیذ فاطمہ،ڈیلس،ڈاکٹر عظمیٰ حسن،نزہت انیس،کراچی،ڈاکٹر اسماامانت ،لاہور،محمد صابر کراچی،سمیرایونس،کراچی شامل تھے نظامت کے فرائض اساتذہ شعبہ اردو ڈاکٹر شمع افروزاور راشد علی خاں نے انجام دیے۔ان نشستوں کے اختتام پر چائے کا وقفہ ہوا اورپہلے دن کی مذکورہ نشستوں کا اختتام بھی۔مجموعی طورپر تمام دن چاروں سمعی وبصری مراکز میں طلبا ء وطالبات سمیت شہر کے علماء و اساتذہ نے شرکت کی۔

دوسوسالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس ،ادب،تاریخ اورثقافت :جنوب ایشیائی تناظر اورسرسیّد احمدخان کے دوسرے روز ۱۷؍اکتوبر۲۰۱۷ء کو

آٹھویں نشست بعنوان:’سرسیّداحمدخان اورتہذیب وثقافت(الف) ‘کا انعقادسماعت گاہ کلیہ علوم و فنون جامعہ کراچی میں ہوا ۔اس کی صدارت ڈاکٹرفاطمہ حسن، کراچی،ڈاکٹر ایس ایم طحہٰ ،کراچی،ڈاکٹر علی کمیل قزلباش اسلام آباد نے انجام دیے۔مقالہ نگاروں میں سوئیڈن سے تشریف لائے ہوئے مستشرق ہینز ورنر ویسلر ،ڈاکٹر خالد ندیم سرگودھا،ڈاکٹر نثار ترابی،راولپنڈی،ڈاکٹراصغرعلی بلوچ،فیصل آباد،محمدسلمان،کراچی،شرفِ عالم،کراچی شامل تھے۔شعبۂ اردوکے اساتذہ ڈاکٹرراحت افشاں اورڈاکٹر تہمینہ عباس نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔

نویں متوازی نشست بعنوان’ سرسیّداحمدخان اورتہذیب وثقافت(ب) ‘سمعی وبصری مرکز کلیہ فنون میں منعقد ہوئی۔جس کی صدارت ڈاکٹر انواراحمد اور ابراہیم محمدابراہیم نے کی ۔اس نشست کے مقالہ نگاروں میں ڈاکٹرزاہدحسن چغتائی،راولپنڈی،ڈاکٹرنورین رزاق،لاہور،ڈاکٹرفرزانہ کوکب،ملتان ، ڈاکٹررخسانہ صبا،کراچی،توقیرفاطمہ،کراچی،محمدشعیب مرزا،لاہورشامل تھے۔اساتذہ شعبہ اردو ڈاکٹر انصاراحمد اورڈاکٹر خالدامین نے نظامت کے فرائض انجام دیئے۔

دسویں متوازی نشست بعنوان’ سرسیّداحمدخان اورادبی وتنقیدی نظریات‘ سماعت گاہ شعبۂ تاریخ میں ڈاکٹرقاضی عابد،جناب عقیل عباس جعفری کی صدارت میں منعقدہوئی۔اس نشست کے مقالہ نگاروں میںلاہورسے ڈاکٹرنجیب جمال،ڈاکٹرضیاء الحسن،شازیہ رزاق ، ڈاکٹرعابدسیال،اسلام آباد،ڈاکٹرشگفتہ فردوس، سیالکوٹ،ڈاکٹرصدف فاطمہ،کراچی شامل تھے۔نظامت کے فرائض اساتذہ شعبۂ اردو ڈاکٹر صفیہ آفتاب اورڈاکٹر عظمیٰ حسن نے انجام دیئے۔

گیارہویں متوازی نشست بعنوان’ سرسیّداحمدخان اورمشرقی علوم وفنون السنہ(الف)‘ سماعت گاہ شعبۂ سیاسیات میں منعقد ہوئی۔جس کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر صوفیہ خشک،خیرپور،ڈاکٹرطارق ہاشمی،فیصل آباد،سیّدعابدرضوی،کراچی نے کی ۔مقالہ نویسوں میں ڈاکٹر غلام عباس/ڈاکٹرنسیم عباس، سرگودھا ،فائزہ بشیر،لاہور ،سیّدمحمد شمیم،کراچی،محمدشاکر،کراچی شامل تھے۔نظامت کے فرائض استاد شعبہ اردوڈاکٹرشمع افروزاوراستادشعبہ ابلاغ عامہ ڈاکٹریاسمین فاروقی نے انجام دیئے۔ مذکورہ نشستوں کے بعد چائے کا وقفہ ہوا۔

چائے کے وقفہ کے بعد بارہویں نشست بعنوان’ سرسیّداحمدخان اورمشرقی علوم وفنون السنہ(ب)‘سماعت گاہ کلیہ علوم وفنون جامعہ کراچی میں مستشرق ہینز ورنرویسلر،ڈاکٹرنجیب جمال،تلمیذفاطمہ کے زیرِ صدارت منعقد ہوئی۔اس نشست کے مقالہ نویسوں میں ڈاکٹر سبینہ اویس،سیالکوٹ،آغرندیم سحر،لاہور،ڈاکٹرانصاراحمد،کراچی،ڈاکٹر سعدیہ بشیر،لاہور،ڈاکٹراصغرسیال ،ملتان،بی بی امینہ اسلام آبادشامل تھے۔نظامت کے فرائض اساتذہ شعبۂ اردو ڈاکٹر راحت افشاں اورمحمدشاکرنے انجام دیے۔

تیرہویں نشست بعنوان’ سرسیّداحمدخان :تاریخ وسیاست‘ سمعی وبصری مرکز کلیہ فنون میں منعقد ہوئی۔اس کی صدارت پروفیسرڈاکٹر یوسف خشک، ڈاکٹر ناصرعباس نیر ،ڈاکٹرغلام عباس نے کی۔اس نشست کے مقالہ نگاروں میں ڈاکٹر محمدعلی،کراچی،بیناگویندی ،امریکا،ڈاکٹرزیباافتخار،کراچی،ڈاکٹرسمیرا بشیر، کراچی ، ڈاکٹر اویس قرنی،پشاور،ڈاکٹرخاورنوازش ملتان شامل تھے۔اس نشست کی نظامت اساتذہ شعبہ اردوڈاکٹر صفیہ آفتاب اور ڈاکٹرعظمیٰ حسن نے کی۔

چودھویں نشست بعنوان’سرسیّداحمدخان اوررسائل وجرائد‘ سماعت گاہ شعبۂ تاریخ میں منعقد ہوئی۔اس کی صدارت پروفیسرڈاکٹر تحسین فراقی ،ڈاکٹر ناصرسلمان،پروفیسرضیاء الرحمان،ڈاکٹرثمرسلطانہ نے کی۔اس نشست کے مقالہ نگاروں میں کراچی سے ڈاکٹر شمع افروز،ڈاکٹریاسمین سلطانہ فاروقی،ڈاکٹر تہمینہ عباس، ڈاکٹر صدف تبسم اورراشداسرارشامل تھے۔اس نشست کی نظامت کے فرائض اساتذہ شعبۂ اردو عطیہ ہماصدیقی اورعائشہ ناز نے انجام دیے۔

پندرھویں نشست بعنوان’سرسیّداحمدخان:افکارواذکار‘ سماعت گاہ شعبۂ سیاسیات منعقد ہوئی۔اس نشست کی صدارت پروفیسرہارون الرشید،ڈاکٹر فصیح الدین ، ڈاکٹر عابدسیال نے کی۔مقالہ نویسوں میں ڈاکٹرالماس خانم،لاہور،ڈاکٹر محمدامجد عابد،لاہور،ڈاکٹرذکیہ رانی ،کراچی،ڈاکٹرعنبرین حسیب عنبر،کراچی،عمران ازفر ، اسلام آباد،ڈاکٹرشبنم نیاز،لاہور،شہنیلا نازنین،کراچی شامل تھے ۔نظامت کے فرائض ریسرچ اسکالرڈاکٹررخسانہ صبااوراستادشعبہ اردو ڈاکٹرذکیہ رانی نے انجام دیے۔
مذکورہ نشستوں کے اختتام کے بعد چائے کا وقفہ ہوا نیز کانفرنس کی جملہ نشستیں اپنی تکمیل کو پہنچیں۔کانفرنس کا دوسرا دن اوراس کی ہرنشست سامعین وطلباء و طالبات کی خصوصی دلچسپی کا باعث رہا ۔

۱۸؍اکتوبر ۲۰۱۷ء کو دوسوسالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس ،ادب،تاریخ اورثقافت :جنوب ایشیائی تناظر اورسرسیّداحمدخان کااختتامی جلسہ دھوم دھام سے منعقد ہوا ۔ حسبِ سابق آرٹس آڈیٹوریم میں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی ۔اختتامی جلسے کا آغاز شعبہ کے طالب علم حافظ محمد آصف نے تلاوت کلامِ پاک سے کیا۔ نعت رسول مقبول ایم ۔ ۔فل اردو کی طالبہ حراشبیر نے پیش کی۔صدر نشین شعبہ اردو پروفیسرڈاکٹر تنظیم الفردوس نے شرکائے جلسہ سے خطاب کیا اوران کی آمد اور کانفرنس میں پڑھے جانے والے مقالاجات کو سراہا۔کانفرنس کی ذمہ داریوں اوراہتمام میں درپیش مسائل ووسائل پر تبصرہ کیا اورپروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ ،پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی،اساتذہ کرام ،رئیس کلیہ فنون ،شیخ الجامعہ ،ہائیر ایجوکیشن کمیشن،انجمن ترقی اردو پاکستان کے تعاون کا شکریہ ادا کیا۔طلبا اور غیرتدریسی عملے کی فعالیت کی تعریف کی۔
ڈاکٹر فاطمہ حسن نے انجمن ترقی اردوپاکستان کی جانب سے آئندہ بھی ہر نوع کی علمی وادبی معاونت کا عزم کیا اورکامیاب کانفرنس کے انعقاد پر صدرنشین شعبہ اردو اوراساتذہ کو مبارکباد پیش کی۔
غیرملکی مندوبین میں امریکا سے تشریف لانے والی مہمان معروف شاعرہ وادیبہ بینا گویندی نے تاثرات پیش کیے ان کا کہنا تھا کہ میں نے لاہور میں متعدد کانفرنسوں میں شریک رہی ہوں بیرونِ ممالک بھی کئی کانفرنسوں میں جانے کااتفاق ہوا لیکن کراچی کی اس کانفرنس نے دل جیت لیا اورجی چاہتا ہے کہ یہ خوشی یہ احساس ختم نہ ہو میں آئندہ بھی آؤں گی ۔اس کانفرنس کے موضوعات نے مجھے کئی نئے تحقیقی موضوعات پر سوچنے کی قو ت بخشی ہے۔
تلمیذ فاطمہ برنی ڈیلس سے تشریف لائیں ان کاکہنا تھا کہ تدریسی،تحقیقی اورتنقیدی معیارات کے لحاظ سے کانفرنس بلاشبہ کامیاب ترین رہی۔البتہ سوالات کے وقفہ کی کمی محسوس ہوتی رہی لیکن مقالوں کی جامعیت نے اس کمی کو محسوس نہ ہونے دیا۔
معروف فکشن نگار،حمیدہ معین رضوی لندن سے تشریف لائیں تھیں ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس علمی وادبی لحاظ سے منفرد اوربے مثل رہی اورشعبہ اردو اوراساتذہ کرام جامعہ کراچی مبارک باد کے مستحق ہیں۔
ابراہیم محمدابراہیم قاہرہ سے تشریف لائے تھے ان کا کہنا تھا کہ مقالہ پیش کرنے کے دوران ملنے والی پرچیوں کہ جن پر وقت کم ہے درج تھا بہت خوف زدہ کیا البتہ حاضرین اور طلباء کی محبت نے دل موہ لیا۔انھوں نے صدرنشین شعبہ اردو اورفاطمہ حسن اوراساتذہ کرام کا بھی شکریہ ادا کیا کہ جن کی اپنائیت اورخلوص نے گرویدہ کرلیا ہ اور یہ کانفرنس تعلقات استوار کرنے میں بھی معاون ثابت ہوئی۔
اسی دوران شعبہ اردو کے ہردل عزیز استاد سابق صدر نشین پروفیسرڈاکٹر ذوالقرنین شاداب احسانی پنڈال میں تشریف لائے ۔علالت کے باوصف ان کی گذشتہ دنوں کی غیرحاضری فراموش کرکے پورا آڈیٹوریم بشمول مجلس صدارت پہ متمکن مہمانان گرامی کھڑے ہوگئے اور والہانہ انداز میں تالیاں بجا کر طلبا ء، اساتذہ اور شرکائے جلسہ نے پروفیسرڈاکٹر شاداب احسانی کا استقبال کیااوربڑی دیر تک تالیاں بجا کر اپنی محبت کااظہارکرتے رہے۔پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی اسٹیج پرابراہیم محمد ابراہیم ، پروفیسر انوار احمد،پروفیسر ڈاکٹر تحسین فراقی،پروفیسر ڈاکٹر رؤف پاریکھ،پروفیسرڈاکٹر محمد احمد قادری،رئیس کلیہ فنون سے بغلگیر ہوئے اور طلباء وطالبات اورشرکاء کی تالیوں کا ہاتھ ہلا کر اور بلند آواز میں شکریہ ادا کیا۔پروفیسر ڈاکٹر شاداب احسانی کے آتے ہی جلسے میں ایک نئی روح آگئی اور ایسا محسوس ہوا یہ افتتاحی اجلاس ہے۔اس موقع پرڈاکٹر ابراہیم محمد ابراہیم نے کہا کہ ہم روز اوّل سے آپ کا ذکر سن رہے تھے اب دیکھ لیا !!!کہ آپ واقعی شعبہ کے ہردلعزیز استادہیں۔ہم یہ بتاتے چلیں گذشتہ کئی ہفتوںسے علالت کے سبب استادمحترم سماجی سرگرمیوں سے دور اپنی صحت کی اصلا ح میں مصروف ہیں۔استادِ محترم کے آتے ہی مندوبین میں ڈاکٹر نجیب جمال ،ڈاکٹر ضیاء الحسن،ڈاکٹر قاضی عابد اُن سے ملے ۔ وہ اختتام تک جلسے میں مسند آراء رہے۔
ڈاکٹرابراہیم محمد ابراہیم کے بعدسوئیڈن سے آئے ہوئے مہمان ہینز ورنرویسلر نے کانفرنس کی یادیں تازہ کرتے ہوئے بتا یا کہ انھیں یہاں آکر بہت خوشی ہوئی اوروہ یورپ اوردیگر ممالک کے لوگوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ پاکستان ایک امن پسند ملک ہے اوراہلیانِ کراچی کی محبت اورخلوص بے مثل ہے۔انھوں آخر میں اپنا کہا سنا بھی معاف کروایا بعدازا ں کینیڈا سے تشریف لائے ہوئے مہمان ادیب ومحقق اشفاق حسین نے اپنے تاثرات میں کہا کہ اقداراورتہذیب کی سطح پرہم پیچھے جارہے ہیں لیکن کراچی کی اس کانفرنس میں آکرمحسوس ہوا کہ ہماری دیرینہ روایات ابھی باقی ہیں،انھوں نے شعبہ اردو کی صدر نشین سمیت اساتذہ وطلبا وعمال مبارک باد دی ۔ فیصل آباد سے تشریف لائے ہوئے مندوب ڈاکٹر طارق ہاشمی نے کانفرنس کے انتظامات کی تعریف کی اور مزید کامیابیوں کی دعا کے ساتھ رخصت ہوئے۔
ضیاء الرحمان کوئٹہ سے تشریف لائے انھوں نے کہا کہ کانفرنس کے مقالات جلد شائع کیے جائیں تاکہ جن نشستوں میں وہ بوجوہ شامل نہیں ہوئے وہ مقالے پڑھے جاسکیں۔ان کے بعد ڈاکٹر عابد سیال ،نے مجلس کی انتظامی اورعلمی وتحقیقی نوعیت کو سراہا اورکانفرنس کے مقالاجات کے جلد اجراء کی تجویز پیش کی۔
ڈاکٹر یوسف خشک ،خیر پور سے تشریف لائے انھوں نے طلباء وطالبات اوراساتذہ کرا م کے اخلاق اور انتظامات کی تعریف کی اور صدر نشین کوایسی اَور کانفرنسیں کروانے کی تجویزدی۔
ڈاکٹر تحسین فراقی نے لاہور سے شرکت کی انھوں نے کانفرنس اورشعبہ اردو کے اساتذہ بالخصوص صدرنشین پروفیسرتنظیم الفردوس اورپروفیسرشاداب احسانی اور پروفیسررؤف پاریکھ کواس کارنامے کی مبارکباد پیش کی اورشعبہ کے طلباء و طالبات کی مہمان نوازی کی تعریف کرتے ہوئے امید ظاہر کی کہ آئندہ بھی ایسی لازوال تقاریب اسی جوش وجذبے کے ساتھ منعقد کی جائیں گی ۔
ملتان سے تشریف لائے ہوئے استادالاساتذہ پروفیسرڈاکٹر انواراحمد نے فرمایا کہ ہم نے ملتا ن میں جوکچھ بھی کیا اس میں شعبہ اردوجامعہ کراچی کے اساتذہ کافیض شامل ہے۔بالخصوص ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا فیض،ڈاکٹرفرمان فتح پوری کو یاد کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتے تھے کہ چھوٹے چھوٹے شہروں سے لوگوں کو جمع کریں توآج وہ لوگ یہاں جمع ہیں۔ڈاکٹر تنظیم الفردوس،ڈاکٹررؤف پاریکھ کوایک ساتھ کام کرتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی اورڈاکٹر شاداب کی غیرموجودگی میں جس طرح وہ انھیںیاد کررہے تھے اس سے بھی !!یہ شعبہ کی طاقت ہے ،یہ اقدار،یہ روّیہ ایک قوت ہے،یہی کچھ سرسید ہمیں سکھاناچاہتے تھے کہ ذاتی مفاد،مقاصد پر اجتماعی مقاصد کوترجیح دیں۔
شعبہ کے طلباء وطالبا ت کی تحسین کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے جس طرح اپنے استاد کی عزت کی اورپھرشعبہ اساتذہ نے جس طرح ان کی تعظیم کی وہ بے مثل ہے۔ڈاکٹرفاطمہ حسن اورسحرانصاری جیسے لوگ سرمایہ ہیں۔یقین کیجئے شعبہ اردو جامعہ کراچی سرسید کی ولادت کے دوسوسال ہی نہیں منارہا بلکہ یہ شعبہ اس وقت پاکستان کی جامعات کی قیادت کررہا ہے۔اردوکم وسیلہ لوگوں کی مددگارزبان ہے،یہ مٹھاس رکھتی ہے،انکساری سکھاتی ہے،یہ دلو ں کوجوڑنے والی زبان ہے ،انھوں نے مزید کہا کہ وہ قومیں وہ اشخاص ترقی کرتے ہیں جن کو اپنا پہلا دن یاد ہوتا ہے،اردو ایاز کویہ موقع دیتی ہے کہ وہ دیکھے کہ پہلے اس کالباس کیا تھا؟انھوں ے بتایا کہ انھیں اپنا پہلادن یاد ہے ،جب اسکول کی فیس کے پیسے نہیں تھے توان کے استاد نے ایک روپیہ دیا تھا اوراسی روپے کا قرض وہ اردوکی معرفت اداکررہے ہیں۔مزید ان کا کہنا تھاکہ چیزوں کی قدراخلاص سے دردمندی سے ہے۔تنظیم الفردوس ،رؤف پاریکھ،شاداب ایسے اساتذہ کی قیادت کوہم دیکھتے ہیں ،ان طلباء کودیکھتے جواپنے اساتذہ سے والہانہ محبت کریں ان کی عزت کریں تواس کامطلب یہ ہے کہ ہمارا مستقبل ہم سے بہتر ہوگا۔آپ سے بہتر ہوگا،یہی یقین سرسید کواورہراس شخص کوہے جو یہ سمجھتا ہے کہ تعلیم کیا ہے اورہرشعبہ ہائے زندگی میں تعلیم ہی سے بہتری آئے گی،میںآپ کواورتمام رفقاء کواس کانفرنس کے کامیاب انعقادپر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
مہمان مندوبین کے تاثرات کے بعد پروفیسرڈاکٹر ذوالقرنین شاداب احسانی نے اپنے تاثرات میں کہا کہ ڈاکٹرانواراحمدجنھیں دیکھ کرمیں خوش ہوگیا ،میری بہن ڈاکٹرفاطمہ حسن جن سے میرے مراسم ۴۵ سال پرانے ہیں ،ہمارے محترم ڈین ڈاکٹرقادری صاحب کا میں ہرسطح پر معترف ہوں ،میں نے ۲۰۱۳ء میں شعبہ کا چارج سنبھالا تھا تومیراایک خواب تھا کہ شعبہ دس سال کے اہداف طے کرلے،ایک پیج پرآجائے تویقین جانیے کہ آج میں اس خواب کو تعبیر ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔بہت اہم بات ہے کہ ہمارے پچھلے ادوارکے جو لوگ تھے ان سے ہم نے لڑناسیکھاتھا اوراب ہم نے جڑنا سیکھا ہے۔یہ کیفیت ایسی ہے کہ میں ہاسپٹل سے سیدھایہا ں آرہا ہوں کہ میرے شعبے کی تقریب ہے اورمجھے جاناہے،اسی دوران مجھ پر ایک بات کھلی کہ چھٹی صدی قبل مسیح اس دنیا نے کروٹ لی ۔یہاں گوتم پیداہوا،وہاں زرتشت پیدا ہوا،کنفیوشس پیدا ہوا۔کنفیوشس نے علم کی سب سے بہتر تعریف کی ۔اس نے کہا:جاننے کاجاننااورناجاننے کا جاننا علم کہلاتاہے۔اسی طرح سقراط نے اس بات کویوںکہا کہ:لوگ اتنابھی نہیں جانتے کہ کچھ نہیں جانتے میں بس اتناجانتاہوں کہ کچھ نہیں جانتا۔یعنی سقراط نے یہ بتایاکہ عقل محدودہے اورکائنات لامحدود۔پھر ہمارے میر صاحب کی باری آئی توانھوں نے کہا کہ
یہی جانا کہ کچھ نہ جاناہائے
سوبھی اک عمر میں ہوا معلوم
درمیان میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کو میں نے پڑھا تواس کی ایک بیت جس کاترجمہ ہے۔ تم جانتے ہو مت جانو کہ تم جانتے ہو۔اس میں صوفیاء کی پوری روایت ،ائمہ کرام کی روایت ملتی ہے جبکہ علم کی سطح پر خاکساری کاپہلو سامنے آتاہے اورجس کے پاس خاکساری نہ ہواس کے پاس علم نہیں ہوتا۔سرسیّد نے ۱۸۳۵ء کے واقعے کے بعد سے ہی زبانوں کے اوراردو کے حوالے سے غوروفکر شروع کررکھاتھاایسے ہی وہ جدید نثر کے بانی نہیں بن گئے تھے۔اس حوالے سے سرسید کا خصوصی مطالعہ کرناچاہیے۔عہد سرسید میں اورعصرحاضر میں فرق یہ ہے کہ
ہم سوچتے بہت ہیں مگرکرتے کچھ نہیں
مشکل ہے اب وہ کام جوآسان تھا کبھی
پروفیسرسحرانصاری نے صدرنشین شعبہ اردواوراساتذہ کوکامیاب کانفرنس کے انعقاد پر مبارک باد دی ۔پروفیسر ڈاکٹررؤف پاریکھ نے تمام مندوبین،اساتذہ کرام ،طلباء وطالبات کوکانفرنس کے کامیاب انعقاد پر مبارک باد دی۔طلباء اورساتھی اساتذہ کی معاونت کا ذکرباچشمِ ترکیا کہ ان تمام نے کانفرنس کے اختتامی مراحل میں دن رات ، کھانا پینا، سونا جاگنا شعبہ کے لیے وقف کررکھا تھا اوراس کانفر نس کی کامیابی ان ہی کی مرہونِ منت رہی نیز انجمن ترقی اردو پاکستان کا عملہ بھی اورفاطمہ حسن بھی اسی جذبے کے تحت معاونت کرتے رہے اور ہائیرایجوکیشن کمیشن پاکستان سمیت دیگر معاونین کا بھی شکریہ اداکیا ۔آخر میں تمام مہمان مندوبین کو نشان سپاس پیش کیے گئے اس کے ساتھ ہی دوسوسالہ یادگاری بین الاقوامی سرسید کانفرنس آنسو،ہنسی،تحمل،رواداری،حسنِ اخلاق،مہمان نوازی،احسان شناسی اوراردوکی اپنائیت کے ساتھ سرسیّد کے افکار کی ضوپاشیاں کرتی اختتام کو پہنچی۔
دوسوسالہ یادگاری بین الاقوامی کانفرنس،ادب،تاریخ اورثقافت :جنوب ایشیائی تناظر اورسرسیّداحمدخان میں تین دنوں میں پندرہ نشستیں منعقد ہوئیں اوران نشستوں میں نوّے سے زائد مقالہ نگاروں نے پرمغز مقالات پیش کیے۔یہ مندوبین اردوکی نمائندگی کے لیے یورپ،امریکا،ہندوستان اورپاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں سے تشریف لائے تھے۔۱۶؍اکتوبرکو رسمی مشاعرہ بھی منعقد کیاگیا جس میں میزبان ومہمان شعراء نے حاضرین کو کلام سنایا اورخوب داد پائی۔
شعبہ اردوکی قیادت کرنے والے اساتذہ پروفیسرڈاکٹرتنظیم الفردوس،پرو فیسرڈاکٹر ذوالقرنین احمد،پروفیسرڈاکٹر رؤف پاریکھ کو شعبہ اردو کی تکونی قوت یا تثلیثی قوت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔اس کانفرنس میں پنڈال کے باہر تینوں دن کتب میلہ لگارہا۔آکسفورڈ یونیورسٹی پریس ،نیشنل بک فاؤنڈیشن پاکستان،انجمن ترقی اردو پاکستان،شعبہ تصنیف وتالیف پاکستان اسٹڈی سینٹر، ،فضلی سنزپرائیویٹ،توکل بک کارنر،اولڈ بکس کارنرکی کتابیں اہل علم اورطلباء کی توجہ کامرکز رہیں ۔
اس کانفرنس کے کامیاب انعقاد سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ شعبۂ اردو ،جامعہ کراچی کی صدرنشین پروفیسرڈاکٹر تنظیم الفردوس صاحبہ کتنی فعال اورشعبہ کے مستقبل کے لیے نہایت مفید ہیں کہ آنے والے کل میں ان کی علمی بصیرت کے ذریعے شعبہ اردو جامعہ کراچی دن دونی رات چوگنی ترقی کرے گااورشعبہ کے جملہ اساتذہ بھی ان کی قیادت میں اردوزبا ن وادب کووقار عطاکرنے میں اپناکرداراداکریں گے۔

\"Aalmi

Leave a Comment