صائمہ اسحاق کا مجموعہ کلام ’’رخت‘‘ اردو شاعری میں خوشگوار اضافہ ہے۔محمود شام

مجھے اپنی شاگرد صائمہ اسحاق پر فخر ہے(پروفیسر ہارون رشید)،صائمہ نے اپنی شاعری میں معاشرتی مسائل کا بخوبی احاطہ کیا،پروفیسر رضیہ سبحان

’’رخت‘‘ کی تقریب رونمائی سےڈاکٹر اوج کمال،صائمہ اسحاق ،ڈاکٹر عنبریں حسیب عنبر،حمیرا راحت،ڈاکٹر نزہت عباسی،وقار زیدی اورقاضی دانش صدیقی کا خطاب

شیخ راشد عالم کی خصوصی شرکت ،صائمہ اسحاق کو آرٹس کونسل ایونٹ کمیٹی کی جانب سے اعتراف کمال ایوارڈ دیا گیا، نظامت آئرین فرحت اور نشید آفاقی نے کی

\"\"

٭اطہر جاوید صوفی
کراچی،سینئر صحافی‘ شاعر و ادیب محمود شام نے کہا ہے کہ صائمہ اسحاق کی شاعری میں موضوعات کی قید نہیں ہے شاخ غزل پر نئے نئے پھول اگتے رہتے ہیں اب غزلوں پر سے مردوں کی اجارہ داری ختم ہوتی جارہی ہے۔ صائمہ اسحاق کا مجموعہ کلام’’رخت‘‘ اردو شاعری میں خوشگواراضافہ ہے۔ وہ گزشتہ شام آرٹس کونسل میں ادبی کمیٹی اور بزم فروغ ادب پاکستان کی جانب سے منفرد لہجے کی شاعرہ صائمہ اسحاق کے دوسرے شعری مجموعہ’’رخت‘‘ کی تقریب رونمائی میں بطور صدر محفل خطاب کررہے تھے اس موقع پر پروفیسر ہارون رشید‘قاضی دانش‘ وقار زیدی‘ حمیرا راحت‘ ڈاکٹر نزہت عباسی‘ عنبریں حسیب عنبر‘ ڈاکٹراوج کمال‘ صائمہ اسحاق‘ پروفیسر رضیہ سبحان نے بھی خطاب کیا جبکہ نظامت کے فرائض آئرن فرحت اور نشید آفاقی نے بہت خوبصورتی سے انجام دیئے۔ محمود شام نے مزید کہا کہ آج کسی بھی مقرر نے تکلف اور بخل سے کام نہیں لیا آج کے دور میں چیلنجز نے بھی زندہ شاعروں کے ساتھ پروگرام منعقد نہیں کررہے کیونکہ اس میں ریٹنگ نہیں آتی ہے ان کی شاعری میں اعتماد‘ سچائی‘تنوع اور ندرت ہے۔ پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ صائمہ اسحاق کی شاعری میں زندگی کے شعور اور مشاہدے کو اشعار میں بیان کرنا بہت مشکل ہے تخلیق کار اپنے فن پر زندہ رہتا ہے شاعر کے اندر کا وجود مضبوط ہونا بھی ضروری ہے مجھے اپنی اس شاگردہ پر فخر ہے 98میں صائمہ اسحاق میری طالبہ رہی ہیں اس وقت بھی شوخ اورچنچل تھیں آج بھی ہیں مگر مستند شاعرہ ہیں زمانے سے اپنا راستہ بنا کر چلنے کا فن خوب جانتی ہیں آج کے دور میں ادب اور شاعری کا سب سے بڑا مسئلہ یہ کہ آج کے سینئرز اساتذہ اپنا رول ادا نہیں کررہے ہیں جو انہیں کرنا چاہئے جس کی وجہ سے شاعری کی تخلیق کو نقصان ہورہا ہے پروفیسر رضیہ سبحان نے کہا کہ صائمہ اسحاق کی شاعری میں احساسات نمایاں ہیں معاشرتی مسائل کا بحسن وخوبی احاطہ کیا صائمہ اسحاق کا سفر ابھی شروع ہوا ہے پھر بھی ان کے زبان وبیان پر نت نئی تراکیب شامل  ہیں ہر غزل میں ان کے اشعار قابل داد ہیں ڈاکٹر اوج کمال نے کاہ کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بطور شاعرہ اپنی پہچان کرائی اور ثابت کیا کہ وہ صاحب طرز شاعرہ ہیں جسے انہوں نے منوایا بھی‘ رخت کی شاعری مشکل ہے لکھنے والے کیلئے بھی مشکل اور پڑھنے والوں کے لئے بھی مشکل یہ خود گوشہ نشین شاعرہ ہیں خود شاعروں میں کم کم جاتی ہیں ان کی وجہ شہرت سوشل میڈیا ہے‘ عنبرین حبیب عنبر‘ نے کہا کہ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہم نے جدید ٹیکنالوجی کے دور میں آنکھ کھولی جس کے اچھے اور برے دونوں پہلو میں  جدید ٹیکنالوجی نے ہمیں اپنوں سے دور اورغیروں کے قریب کردیا ہے صائمہ اسحاق کی شاعری مشغلہ نہیں بلکہ مسئلہ ہے جو معاشرتی پہلوئوں کو نمایاں کرتی ہے ان کے کلام میں کہا گیا 20ویں صدری کی عورت آنسو بہاتی تھی آج کی شاعرہ عورت21ویں صدی کی بہادر‘ نڈر عورت ہے شاعری میں احساسات اورجذبات کے علاوہ با معنی خاموشی کا رجحان نمایاں ہے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ صائمہ اسحاق کے پہلے مجموعہ’’حاصل‘‘ سے ’’رخت‘‘ کا سفر تخلیقی ہے غزل گو شاعرہ  ہیں غزل کی تہذیب میں جدید الفاظ کا اظہار ہی ان کی کامیابی ہے غزل میں تازگی احساس نمایاں ہے ان کی غزلوں میں زندگی معاشرتی پہلوئوں سے آگہی نمایاں ہے انسانیت کی شاعری ہے اشعار منطقی ہیں شاعرہ حمیرا راحت نے کہا کہ شاعری میں بہت جہتیں ہیں عزم نمایاں ہے ان کی شاعری ان کی عمر سے 10قدم آگے ہے قاضی دانش نے کہا صائمہ اسحاق کا شعری سفر ابھی شروع ہوا ہے جو کہ منفرد بھی ہے ان میں تخلیقی وجدان بھی خوب ہے طرز اظہار میں سلیقہ مندی سے معاشرتی باہمواریوں پراظہار کیا گیا ہے وقار زیدی نے کہا کہ دور حاضر میں جو شعراء تخلیقی عمل سے گزررہے ہیں ان میں صائمہ اسحاق کا نام نمایاں حیثیت کا حامل ہے شاعری میں الفاظ کا استعمال بہت خوبصورتی میں کیا ہے۔ زبان و بیان میں سادگی لب ولہجہ میں شیرینی انہیں منفرد بناتی ہے ان کی کلام میں زندگی پائی جاتی ہے تقریب کے اختتام پر آرٹس کونسل کی ایونٹس کمیٹی کے چیئرمین شیخ راشد عالم کی جانب سے تمام مقررین کو یادگاری شیلڈز پیش کی گئیں صائمہ اسحاق کو اعتراف کمال کی شیلڈ محمود شام نے پیش کی تقریب 4گھنٹے جاری رہی۔

\"\" \"\" \"\" \"\"

Leave a Comment