صغیر افراہیم کی پریم چند شناسی

٭ڈاکٹر پردیپ جین
46بی،نئی منڈی،مظفر نگر،
اتر پردیش (انڈیا)

\"\"
بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی ادب کے ترجمان بن کر اُبھرنے والے منشی پریم چند کو مختصر افسانہ کا بانی تسلیم کیا جاتا ہے۔ ایسا نہیں کہ منشی صاحب موصوف سے پہلے طبع زاد افسانے وجود میں نہ آئے ہوں۔ مگر پریم چند کی انفرادی اہمیت یہ ہے کہ وہ افسانہ کو طلسمی دنیا یا غیر حقیقی رومان کی دنیا سے باہر نکال کر زندگی کی ناہموار اور پُر خار راہوں پر لے کر آئے اور یہی وجہ ہے کہ منشی پریم چند کی دھوم بطور ناول و افسانہ نگار ہوئی۔ مگر افسانہ نگار کے دھوم دھڑاکے کی پست نوشت میں پریم چند کا غیر افسانوی ادب تاریکیوں میں گم ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ ماننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ تا حال دستیاب پریم چند کی اولین تحریر کوئی افسانہ نہیں بلکہ برطانیہ کے مشہور و معروف پارلیمینٹیرین اولیورؔ کرام ویل کی مختصر سوانح عمری ہے۔

ہر بڑے ادیب کی طرح پریم چند نے بھی مختلف اصنافِ ادب میں طبع آزمائی کی اور اُن کے نورانی قلم سے سوانح عمریاں، مضامین، تبصرے، ڈرامے وغیرہ مستقل طور پر مختلف رسائل کے اوراق میں شکل اختیار کرتے رہے۔ پریم چند ادبیات کا میدان ایک دشوار میدان ہے۔ اِس میدان میں گامزن ہونے والے زیادہ تر محققین کا زاویہ یہ رہا کہ وہ بطور ماہر پریم چند ادبی دنیا میں اپنی شناخت قایم کریں۔ حسنِ اتفاق سے مدن گوپال (مرحوم) اور گوپال کرشن مانک ٹالا (مرحوم) اپنی کاوشوں میں کامیاب ہوپائے اور ان کا شمار ماہرین پریم چند میں بصد احترام ہوتا ہے۔ مگر اس تمام ہنگامہ کے پس منظر میں ایک منفرد شخصیت ایسی بھی ہے جس نے اپنی مسلسل کاوشوں سے پریم چند شناسی کے نئے نئے پہلو اُجاگر کئے،جو ماہر پریم چند کا لقب حاصل کرنے کی کسی کوشش میں مبتلا نہیںدِکھتا اور جو پریم چند شناسی کے میدان میں آج بھی پوری سرگرمی سے کام انجام دے رہا ہے۔ اُس عظیم شخصیت کو ہم پروفیسر صغیر افرہیم کے نام سے جانتے ہیں۔
ڈاکٹر صغیر افراہیم جو خود بھی افسانہ نگار ہیںاور ادبی محفلوں میں فکشن کی تنقید اور پریم چند شناس کی حیثیت سے کافی مقبول و مشہور ہیں۔ اُن کی پریم چند شناسی کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ موصوف کی پہلی کتاب ’’پریم چند ——-ایک نقیب‘‘(۱۹۸۷ء) کے اب تک کئی ایڈیشن منظرِ عام پر آچکے ہیں۔ اس کتاب کا ہندی ترجمہ ۱۹۹۶ء میں منظرِعام پر آیا۔ ’’یُگ پرورتک: پریم چند‘‘ کے عنوان سے بھی ہندی میں اُن کی ایک اور کتاب شائع ہو چکی ہے۔ پریم چند ادبیات کے حوالے سے ’’پریم چند ——– ایک نقیب ‘‘ کافی معنی خیز کتاب ہے جس میں انھوں نے پریم چند اور اُن کی کہانیوں کو مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے دیکھا اور پرکھا ہے۔ کرداروں کو بھی اس شکل میں پیش کیا ہے جن کو دیکھنے اور سمجھنے میں عقل و فہم اب تک قاصر تھی۔ اُن کے لا تعداد مضامین مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے ہیں۔ اُن کی پریم چند شناسی کے اعتراف میں نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان کی میگزین میں بھی گوشہ شائع ہو چکا ہے۔ ابھی حال ہی میں رسالہ ’’تحریکِ ادب‘‘ نے بھی موصوف پر بہت معیاری گوشہ نکالا ہے۔ جس سے اُن کی محنت ، لگن، جفاکشی اور مقبولیت کا اندازہ ہوتا ہے۔
\"\"
ڈاکٹر صغیر افراہیم کی دیگر دوسری کتابیں ’’اردو کا افسانوی ادب‘‘ ، ’’افسانوی ادب کی نئی قرأت‘‘، ’’اردو کے مختصر افسانے‘‘، ’’اردوافسانہ ترقی پسند تحریک سے قبل‘‘ اور’’اردو فکشن: تنقید و تجزیہ‘‘ بلا واسطہ یا بالواسطہ پریم چند ادبیات سے تعلق رکھتی ہیں اور پریم چند کے مختلف نکات کو ہمارے سامنے پیش کرتی ہیں۔
پریم چند پر بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے لیکن قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ نہ تو ہم پریم چند کو اُن کی زندگی میں سمجھ سکے اور نہ ہی اُن کے بعد ۔ اُن کی حیات میں اُن پر برہمن مخالف ہونے کا الزام لگایا جاتا رہا اور اس دارِ فانی سے رخصت ہونے کے بعد بھی ان پر دلِت مخالف ہونے کا الزام لگایا گیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم پریم چند کو نہ کل سمجھ سکے تھے نہ آج۔ لہٰذا آج ہمیں ماہرین پریم چند کی نہیں بلکہ پریم چند شناسوں کی ضرورت ہے۔ ادب میں بڑے مغالطے رائج ہیں کہ دو چار مضامین اور ایک دو کتابیں شائع ہوئی نہیں کہ خود کو اس فن کا ماہر سمجھنے لگے۔یہ حال پریم چند ادبیات کا ہے۔ لیکن میرا ماننا ہے کہ کوئی بھی ماہرِ پریم چند نہیں ہوسکتا ہے اور جو ماہرینِ پریم چند ہونے کا دعویٰ کرے وہ غلط فہمی میں مبتلا ہے چونکہ پریم چند کا تمام سرمایہ ٔ ادب ہی ہمارے سامنے موجود نہیں ہے ،جس جانب صغیر افراہیم نے یکسوئی اور دلجمعی سے توجہ دی ہے اور تشنہ پہلو کو بھی اپنی روشنائی سے سیراب کیا ہے۔اِس اعتبار سے اُن کا کام مستند دستاویز کی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ لہٰذا ادب کو ماہرینِ پریم چند کی نہیں بلکہ صغیر افراہیم جیسے پریم چند شناس کی ضرورت ہے جو پریم چند کی پوشیدہ اور گم شدہ تخلیقات تک رسائی حاصل کرتے ہوئے مؤثر اور مدلل گفتگو کرتے ہیں۔
پروفیسر صغیر افراہیم اپنی اِس کاوش کے لیے مبارکباد اور حوصلہ افزائی کے مستحق ہیں کہ انھوں نے پریم چند شناسی کے لیے کافی محنت، لگن اور جفا کشی سے کام لیا ہے۔ پیشِ نظر کتاب ’’پریم چند کی تخلیقات کا معروضی مطالعہ‘‘ ایک منظم اور مفصّل کتاب ہے جس میں انھوں نے پریم چند کی تخلیقات کی خارجی شہادتوں پر نقدِ نگاہ ڈالی ہے۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے اِس کتاب میں پریم چند کے مختلف امور کو پیش کرتے ہوئے اُن کے سوانحی کوائف کو بھی پیش کیا ہے جو اُن کی حیات و خدمات کو جاننے کے لیے کافی اہم ہے علاوہ ازیں پریم چند کے فکشن اور غیر افسانوی ادب کے حوالے سے بھی یہ کافی اہم کتاب ہے جس میں انھوں نے پریم چند کی ناول نگاری، افسانہ نگاری، ڈراما نگاری، خطوط نگاری وغیرہ پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔ پریم چند کی غیر افسانوی تحریروں کا تحقیقی مطالعہ کرکے انھوں نے اپنی جاں فشانی ، عمیق تلاش و جستجو کا بہترین نمونہ پیش کیا ہے۔’کفن‘، ’مالکن‘ اور’نئی بیوی‘ پر قلم اٹھا کر انھوں نے پریم چند کے اِن نفسیاتی افسانوں کو نیا رنگ و آہنگ بخشا ہے۔
مختصر یہ کہ انھوں نے یہ کتاب تخلیق کرکے پریم چند شناسوں کے خلا کو پُر کرنے کی کامیاب سعی کی ہے۔ یہ کتاب مطالعہ پریم چند کے لیے کافی اہم ثابت ہوگی اور آئندہ تحقیقی کام کرنے والوں کے لیے بھی مشعلِ راہ بنے گی۔ میں ڈاکٹر صغیر افراہیم کے لیے دعاگو ہوں اور مستقبل میں موصوف سے مزید توقعات وابستہ ہوتی ہیں۔امید ہے کہ وہ اپنے محققنہ اور ناقدانہ جذبہ اور ادبی رویے کو اسی طرح قائم رکھیں گے اور اسی طرح پریم چند شناسی کا حق ادا کرتے رہیں گے۔
ڈاکٹر پردیپ جین
46بی،نئی منڈی،مظفر نگر،
اتر پردیش (انڈیا)

Leave a Comment