صنفی مسائل پر تحقیق مسائل اور امکانات

(اُردو مدارس کے حوالے سے ایک مطالعہ)

\"pic
٭نجمہ سلطانہ
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ تعلیم نسواں
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد۔

نگران : ڈاکٹر آمنہ تحسین
اسسٹنٹ پروفیسر،شعبہ تعلیم نسواں
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی، حیدر آباد۔

کسی بھی ملک میں تہذیب معاشرہ یا ثقافت میں عورتوں کی معاشی اور معاشرتی تعلیمی ، عائلی حیثیت ثانوی رہی ہے چاہے وہ ملک کے دستاویزات و دیگر قوانین میں ان کو برابری کا درجہ کیوں نہ دیاگیا ہو مگر آج بھی اتنی ترقی ہونے کے بعد ہمارے ملک میں لڑکی کے مقابلے میں لڑکے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ 2011ء؁ کی مردم شماری خود اس بات کا ثبوت ہے کہ لڑکیوں کی تعداد لڑکوں کے مقابلے میں کم ہوتی جارہی ہے اس ضمن میں حکومت کی جانب سے قانوناً دیگر طریقوں سے اسے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے اور حکومت نے خواتین کو تعلیم یافتہ اور با اختیار بنانے کے لیے بہت سے پروگرامز و پالیسیز اور اسکیمات کو روبہ عمل لا رہی ہے اور پرانے اسکیمات میں ترمیم کی جارہی ہیں اور اس کے علاوہ خواتین کو ان کے بہتر حقوق دلانے کے لیے ملکی اور عالمی پیمانے پر بہت سے اقدامات کیے جارہے ہیں اور خواتین کے ساتھ کسی بھی طرح کے امتیاز کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ کے جزل اسمبلی نے /18 ڈسمبر1979 ء؁ کو یہ قرار داد منظور کی جو ڈسمبر1981 ء؁ کو نافذ العمل ہوئی۔
تمام ممالک میں اس بات کے لیے زور دیا گیا ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ کیے جانے والے ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات کریں اور اپنے اپنے دستاویزمیں توضیعات شامل کرے نہ کہ خواتین کو وہی تعلیمی،سیاسی، سماجی اور ثقافتی حقوق دیے جائیں جو مردوں کو حاصل ہوں۔ ان کے ساتھ امتیاز کے خاتمے کے لیے بھی مناسب اقدامات کرے اور لڑکے اور لڑکیوں کی یکجا تعلیم کو بڑھاوا دے کر صنفی امتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔
MDGS نے اپنے رپورٹ کے Chapter-5 میں صنفی برابری کو اجاگر کیا ہے۔ اس رپورٹ نے یہ واضع کیا کہ صنفی برابری تب ہی کامیاب ہوسکتی ہے جب تک مردو خواتین کو یکساں مقام حاصل ہو اور معاشی ، سماجی اور عدم مساوات میں برابری واقع ہوں۔ اس کے علاوہ تعلیمی میدان اور کیریر بنانے کے لیے مساوی حقوق حاصل ہو اور خواتین کو بھی مرد کی طرح خود مختاری دی جائے جب خواتین خود مختار ہوگی تو خاندان اور سماج اور آنے والی نئی نسل بھی ترقی یافتہ بن جائے گی۔
خواتین آبادی کا نصف حصہ ہوتی ہے اگر ملک کی آبادی کا نصف حصہ تعلیم یافتہ نہ ہو تو پھر ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے۔ ہندوستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اس ملک کی آبادی 2011 ء؁ کے سنسس کے مطابق110 کروڑ تھی اس میں 14% حصہ مسلم قوم پر مشتمل ہے مختلف مذاہب کے اس کثیر آبادی والے ملک میں مسلمانوں کو اقلیت کا درجہ حاصل ہے۔ دستور ہند کے مطابق مسلمان قوم کو بھی ترقی کے اتنے ہی مساویانہ مواقع اور حقوق حاصل ہیں جتنے کہ اس ملک کے دوسرے شہریوں کو حاصل ہیں مگر مسلمانوں کی حالت اتنے مواقعے ہونے کے باوجود بھی بہت ہی افسوس ناک ہے خاص کر تعلیمی میدان میں ان کا معیار کافی حد تک گرا ہوا ہے اور خاص کر مسلم خواتین تو بہت ہی پسماندہ اور ترقی کے زمانے سے بہت دور ہے۔
آزادی کے بعد سے ہندوستان میں مختلف حکومتیں قائم ہوئیں ان تمام حکومتوں نے اقلیتوں کی ترقی اور کامیابیوں کے لیے بہت سے اقدامات کئے۔ یہ تمام کوششیں پسماندہ طبقات اور خاص کر مسلمانوں کو قومی ترقی کے دھارے میںشامل کرنے کے لیے شروع کی گئی تھیں۔ جیسے MDGS رپورٹ میں خاص خواتین کے پروگرامز و پالیسیز بھی شروع کئے گئے جس کا تفصیلات اسی طرح ہے۔
SSA یہ اسکیم حکومت ہند نے سنٹرل گورنمنٹ اور ریاستی حکومت کے ذریعہ روبہ عمل لائی گئی۔ RTE کے تحت اسکیم کو منظوری دی گئی جس میں 14 سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت اور ابتدائی تعلیم کا حق حاصل ہے اور اس اسکیم کو خاص کر لڑکیوں کی تعلیم کے لیے دو سب اسکیم میں تبدیل کیا گیا۔ NPGEL اور دوسریKGBV ۔ NPGEL اس اسکیم میں خاص لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی گئی جاس لڑکیاں تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور ترکِ تعلیم کرچکی ہیں اس کو اجاگر کیا گیا۔ 2012-13 تک تقریباً41.2 ملین لڑکیوں کی442 اضلاع کے تحت احاطہ کیاگیا اور 4.779 ماڈل اسکول قائم کیے گئے اور ان میں کتابیں۔ کاپیاں۔ کھیل کا سامان بھی مہیا کئے گئے۔ KGBV اس اسکیم کے تحت SC,ST,OBC لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ دی گئی اور خاص کر مسلم لڑکیوں کی پڑھائی کا انتظام کرنے کی کوشش کی گئی۔ 10 تا12 سال کی لڑکیوں کے لیے 2012-13 میں 27 صوبوں کا احاطہ کیا گیا اور3,609 KGBV کے سنٹرس قائم کئے گئے جہاں پر 3 لاکھ لڑکیوں نے داخلہ لیا اور 2013-14 کے ختم تک 3 لاکھ 75 ہزار لڑکیوں نے داخلہ لیا۔
Rashtra Mahila Shiksha (RMSA) کے تحت اسکول میں لڑکیوں کے داخلے کے لیے کوشش کرنا اور صنفی تناضہ سے پاک صاف ماحول فراہم کرنا ور اس اسکیم کے تحت30ہزار سکنڈری ایڈڈ اسکول قائم کئے گئے اور اسکے علاوہ وسطانوی سطح تک تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے نام پر 30,000 روپیے فکسڈ ڈپازٹ جمع کردیے جاتے ہیں۔
Mahila Sanghias programme(MSP) :
اس اسکیم کے تحت صنفی امتیاز اور سماجی امتیاز سے باہر نکل کر خواتین و لڑکیاں اپنے حقوق حاصل کرے اور تعلیم حاصل کرنے کے لیے شعور بیداری کے لیے گھر گھر گائوں گائوں سنٹرس قائم کئے گئے اور اس اسکیم کے تحت ناری عدالت بھی قائم کی گئی۔2012-13 کے دوران اس اسکیم نے 121اضلاع میں 563 بلاکس کا احاطہ کیا ۔
اسکے علاوہ حکومت نے لڑکیوں کی تعلیمی ترقی کے لیے خاص پروگرامزو پالسیز جیسےAPC – ICDS – BBBP- STEP – RUSA اور ساکشار بھارت وغیرہ۔ حکومت کی اتنی سہولیات کے باوجود مسلم خواتین کی تعلیمی حالت بہت ہی خراب ہے اس کی تصدیق BC کمیشن نے اس طرح کہ ہے کہ 20 /اپریل2017 کو اپنے ایک بیان میں کہا کہ تلنگانہ اسٹیٹ میں 58% مسلم خاندان ایسے ہیں جنہیں حکومت کی ایک بھی فلاحی پروگرامز و اسکیمات سے فائدہ نہیں پہنچا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم خواتین و لڑکیاں تعلیمی میدان میں بہت ہی پست حاشیائی حیثیت کی مالک اور تعلیم و ترقی کے میدان میں کافی پچھڑی ہوئی ہیں۔ اس ضمن میں مسلمان خواتین پر کیے گئے سروے رپورٹ Muslim Women in India 1999 ء؁ سیما قاضی کی پیش کردہ ایک رپورٹ ہے اس رپورٹ میں مسلم خواتین کی حیثیت کا جائزہ لیتے ہوئے ان کی سماجی، معاشی و تعلیمی صورتحال پیش کی گئی تھی انہوں نے مسلم خواندگی کو بڑھانے کے لیے سفارشات بھی پیش کی۔
اس رپورٹ کے بعد بے آوازوں کی آواز (ہندوستان میں مسلمان عورت کی حیثیت 2000 ء ؁ میں قومی کمیشن برائے خواتین پر کی گئی رپورٹ ہے اس رپورٹ میں مسلم خواتین کی تعلیمی موقف کا جائزہ لیا گیا اس رپورٹ کے مطابق عورتوں کی ساری مصیبتوں کی جڑ تعلیم کی کمی ہے۔
ان سروے رپورٹ کے بعد ریتو منن اور زویا حسن بھی ہمارے ملک کے 5 ریاستوں کا سروے رپورٹ پیش کی انہوں نے بھی مسلم خواتین میںتعلیم کی کمی کی نشاندہی کی ہے۔ اس کے علاوہ زویا حسن جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی ماہر لسانیات اور ریتومنن کے زیر نگرانی میں ہمارے ملک کے 12 ریاستوں کے 40 اضلاع کے 10ہزار مسلم خواتین کی حیثیت جاننے کے لیے سروے کیا گیا۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ ہندوستانی مسلم خواتین کئی مسائل کا شکار ہے۔ سب سے اہم مسئلہ تعلیم کی کمی کہا اور انہوں نے اپنی رپورٹ میں یہ انکشافات بھی کیے ہیں2012 ء تا2014ء میں ہر سال تقریباً 30 ہزار ریپ ہوئے ہیں اور 9173 جنسی زیادتی کے واقعات ہوئے ہیں ، گھریلوتشدد کے ہر سال ڈھائی لاکھ سے بڑھ کر واقعات ہوتے ہیں خواتین کے خلاف ہونے والے جرائم کے 90% فیصد واقعات پولیس تک نہیں پہنچتے، خواتین کے خلاف ہر 9منٹ میں ایک تشدد کا واقعہ ہوتا ہے اور مسلم خواتین کی ترقی میں رکاوٹ کی ایک اہم مسئلہ صنفی امتیاز بھی ہے جس کی وجہہ سے وہ تعلیمی ترقی نہیں کر پارہی ہیں۔
ان مختلف رپورٹس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلم خواتین کی سماجی ،معاشی حیثیت بہت ہی پسماندہ ہے اور ترقی کے نشانے سے بہت دور ہے اور مسلمان تمام شعبہ حیات میں پچھڑے ہوئے ہیں ۔ مسلمانوں کی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے حکومت کی جانب سے ایک کمیٹی تشکیل دی مسلمانوں کی تعلیمی۔ معاشی۔ سماجی اور سیاسی حالات معلوم کرنے کے لیے اور اس کمیٹی کی ذمہ داری جسٹس راجندر سچر کوردی ۔ راجندر سچر نے ہندوستان کی سماجی و اقتصادی اور تعلیمی حیثیت کو 2006 ء میں پیش کیا جس کو سچر کمیٹی رپورٹ کے نام سے جانا جاتا ہے اس کمیٹی نے بھی مسلمانوں کے متعلق چونکادینے والے نتائج پیش کئیے۔ مسلم فرقہ ترقی کے عمل اور ترقی کے تمام شعبوں میں نقصانات و محرومیوں سے دوچار ہے اور مسلمانوں کے حالات کم و پیشSC, ST اور دیگر اقلیتوں سے بد تر ہے خاص کر مسلم خواتین نچلی سطح کی زندگی گذار رہی ہیں مسلم خواتین میں غریبی بہت زیادہ ہے اور تکنیکی مہارت میں کمی کے نتیجے میں وہ ہنر مند نہیں ہوتی ان کی آمدنی بھی کم ہوتی ہیں ان کا محور صرف گھر تک ہی محدود ہے۔ اسلیے تعلیمی پسماندگی کا تناسب دیگر طبقات سے کم ہے اس کے علاوہ مسلمانوں کے 25% فیصد بچے اسکول نہیں جاتے جس میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ لڑکیوں میں ترکِ تعلیم کا تناسب لڑکوں سے زیادہ ہے 12 تا 14 سال کے جو لڑکے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ان کا تناسب اس طرح ہے55% اور45% لڑکیاںتعلیم حاصل کر رہی ہیںاور 15-16 سال کے لڑکے35% اور لڑکیاں18% تعلیم حاصل کر رہی ہیں جیسے جیسے عمر بڑھ رہی ہے ان کا تعلیمی تناسب بھی کم ہو رہا ہے اور گریجویشن میں تعلیم حاص کرنے والے لڑکے 10% اور لڑکیاں 7% اور میڈیکل میں لڑکے6% اور لڑکیاں4% مسلمان جیسے جیسے اعلیٰ تعلیم کے طرف بڑھتے ہیں ان کا تناسب بہت ہی تشویشناک ہوتاجاتا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں میں اعلیٰ تعلیم دلوانے کے رجحان میں کمی پائی جاتی ہے۔ اور اس کمیٹی کے مطابق مسلمان والدین لڑکیوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دیتے ہیں۔ خاص کر لڑکیوں کے اسکول کی کمی۔گھر کے قریب اسکول نہ ہونے کی وجہہ سے اور کم عمری کی شادی ان وجوہات کی بناء پر مسلم والدین اپنی لڑکیوں کو ترکِ تعلیم کروالیتے ہیں اور بچوں کو کم عمری میں ہی روزگار سے وابستہ ہونا پڑتا ہے جہاںان کا کوئی تحفظ اور ضمانت حاصل نہیں سرکاری ملازمتوں میں مسلمانوں کا تناسب بہت ہی کم ہے یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں میں 98% مسلمان ہیں اچھے روزگار اور سرکاری ملازمتوں میں شمولیت کی شرح کم ہونے کی اہم وجہہ مسلم خواتین میں تعلیم کی کمی اور جدید تقاضوں سے ناواقفیت ہے اور مسلم سماج میں خواتین کی اکثریت خانہ داری سے وابستہ ہے گھر کے مرد افراد پر ان کی معاشی کفالت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اعداد شمار کے اعتبار سے مسلم معاشرہ ہندوستان کی دوسرے بڑی آبادی ہے مذہبی اعتبار سے 2001 ء کی مردم شماری کے تحت مسلمانوں کی آبادی13کروڑ 80لاکھ ہے جو کل آبادی کا 13.4% فیصد ہے۔ ہمارے ملک کا سب سے بڑا اقلیتی طبقہ ہونے کے باوجود اس معاشرے کی حیثیت حاشیائی ہو کر رہ گئی ہے۔ ہمارے ملک کی کئی ریاستوں میں مسلمانوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ اگر ریاست تلنگانہ کا جائزہ لیا جائے تو اس طرح ہے۔ تلنگانہ میں شہری و دیہی مردو خواتین کی خواندگی کی شرح میں نمایاں فرق پایاجاتا ہے۔ مذہبی اعتبار سے دیکھا جائے تو ہندو مرد شہری سطح پر84% اور دیہی سطح پر56% مسلما ن مرد شہری سطح پر79% اور دیہی سطح پر73% اورSC,ST مرد شہری76% اور دیہی56% ہے اس طرح ہندوخواتین شہری سطح پر69% اور دیہی سطح پر43% مسلم خواتین شہری سطح پر59% اور دیہی سطح پر48% تعلیم یافتہ ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شہری اور دیہی علاقوں میں خواتین کا تعلیمی معیار کم ہے اور ان میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان میں کمی پائی جاتی ہے اوردیہی علاقوں میں رہنے والی خواتین کے خیالات و نظریات بھی الگ ہوتے ہیں ان کو وہ ذرائع اور وسائل حاصل نہیں ہوتے جو شہروں میں رہنے والی خواتین کو ہوتے ہیں اکثر دیہاتوں میں گھر کے قریب اسکول و کالج نہ ہونے کہ وجہہ سے بھی لوگ اپنی لڑکیوں کو اسکول و کالج نہیں بھیجتے۔ تلنگانہ کے اضلاع میں سب سے زیادہ آبادی والا ضلع رنگاریڈی ہے 2011ء کی مردم شماری کے مطابق اس ضلع کی آبادی 52لاکھ 96ہزار 3سو 96 (52,96,396) ہے۔
اس ضلع کی آبادی شہری و دیہی افراد پر مشتمل ہے۔ دیہاتوں میں رہنے والے زیادہ تر افراد مزدوری اور چھوٹے کاروبار پر مشتمل ہے۔ دیہی علاقوں کی زیادہ ترآبادی غربت کی سطح سے نیچے زندگی گذار رہی ہے دیہی اور شہری علاقوں میں تعلیم میں کمی پائی جاتی ہے لڑکیوں کی تعلیم حاصل کرنے میں کئی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جیسے کم عمری کی شادی۔ گھر کے کام کاج کی ذمہ داری۔ چھوٹے بھائی بہن کی دیکھ بھال وغیرہ۔ اس کے علاوہ سب سے اہم رکاوٹ معاشی پریشانی ہے۔ آبادی کا زیادہ تر حصہ مزدوری پر منحصر کرتا ہے چاہے وہ زرعی ہو یا صنعتی پسماندہ والدین اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کے لیے روپیہ خرچ نہیں کرسکتے اس کے علاوہ سب سے اہم مسئلہ مسلم والدین لڑکیوں کو بلوغت کے بعد باہر بھیجنے سے ڈرتے ہیں اگر اسکول میں مخلوط تعلیم ہو تو بلوغت کے فوراً بعد لڑکی کا اسکول ترک کروادیا جاتا ہے۔
2011 ء کی مرد شماری کے مطابق خواتین کی آبادی کا تناسب 1000مردوں کے مقابلے955 ہے اور اگر2001 ء کی مردم شماری کی خواندگی شرح66.16% تھی جس میں مردوں کی خواندگی شرح72.66 تھی جبکہ خواتین کی شرح خواندگی56.49% تھی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ خواتین کی شرح خواندگی مردوں کے مقابلے کافی کم ہے اور 2011 ء کی مردم شماری کے مطابق خواندگی کی شرح74.4% جس میں مرد حضرات82% اور خواتین 65.46 تعلیم یافتہ تھی اور ضلع رنگاریڈی کی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق خواندگی کی شرح 78.05% جس میں مردوں کی خواندگی83.55% اور خواتین کی خواندگی کی شرح71.82% ہے اگر ان اعداد شمار کا 2001ء کی مردم شماری سے تقابل کیا جائے تو اس ضلع کی خواندگی میں بہت اضافہ ہوا ہے مگر پھر بھی خواتین کی تعلیمی شرح مردوں کے مقابلے میں کم ہے اس ضلع میں مسلمانوں کی آبادی4,08,281 ہے جو کل آبادی کا 11% ہوتا ہے جس میں مرد حضرات کی آبادی2,10,248 اور خواتین کی آبادی1,98,033 تھی ۔ ضلع رنگا ریڈی میں خاص کر مسلم خواتین کی تعلیمی حالت بہت ہی خراب ہے اور پسماندہ طبقات سے بھی ابترہے اور دوسرے اقلیتی خواتین سے بھی نچلی سطح کی زدندگی گذار رہی ہیں۔ اس کے علاوہ تمام شعبوں میں نقصانات اور محرومیوں سے دوچار ہیں۔
مسلم خواتین کی تعلیمی کمی کے وجوہات۔ مسلم معاشرے کے نظریات صنفی امتیازات ۔ پدرسری نظام بھی ان کی ترقی میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ اسکے علاوہ خود مسلم خواتین کی فرسودہ خیالی۔ احساس کم تری ۔ بے شعوری اپنے وجود کی اہمیت و اپنی صلاحیتوں سے بے نیازی نے بھی مسلم خواتین کو متاثر کر رکھا ہے۔
وہ کونسے عوامل رہے اور کونسے محرِکات رہے جو مسلم خواتین کو اتنی پستی میں ڈال دیا ہے ان کی ابتر صورتحال عصرِ حاضر میں ایک اہم اور غور طلب مسئلہ بن گیا ہے ان ابھرتے سوالات کو لیکر موضوع کا انتخاب کیا گیا ۔
مسلم خواتین کی پست ترین حیثیت کی تصدیق مختلف سروے اور رپورٹس نے کی۔ ان مختلف جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی سماج میں مسلم خواتین کی حیثیت پسماندہ ہے اور وہ حاشیائی زندگی گذار رہی ہیں جبکہ مسلم خواتین کو شرعی اعتبار سے وہ تمام بنیادی حقوق حاصل ہیں جو کہ مسلم معاشرے میں مرد حضرات کو تقویض کیے گئے اور جب ہم سماجی سطح پر مسلم خواتین کی حیثیت کا جائزہ لیتے ہیں تو مسلم خواتین تعلیم معاشی ۔ سماجی سطح پر نہایت پست ترین مقام پر نظر آتی ہیں او ر ترقی کے میدان میں بالکل حاشیائی سطح پر نظر آتی ہیں۔
سچر کمیٹی رپورٹ کے علاوہ مختلف رپورٹس کے حوالے کے پیش کردہ نتائج کے تناظر میں یہ جاننا نا گزیر ہوجاتا ہے کہ سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر خواتین کی ترقی کے لیے مناسب اقدامات کیے گئے پھر بھی ان کوششوں کے باوجود سچر کمیٹی رپورٹ مسلم خواتین کے تعلیمی موقف پر ایک سوال اٹھاری ہے کہ وہ کونسے عوامل موجود ہیں جو مسلم خواتین کی تعلیمی ترقی پر اثر انداز ہوئے ہیں جب پر تحقیق و تجزیہ ناگزیر محسوس ہوتاہے۔
چونکہ خواتین کی ترقی کا اگر جائزہ لیں تو شہری وہ دیہی علاقوں میں فرق محسوس ہوتا ہے اسکی بنیادی وجہہ شہری علاقوں میں ترقی کے مواقع اور سہولتیں خاطرخواہ دستیاب رہتی ہیں اور شہر میں رہنے والے افراد کے نظریات ترقی پذیر ہوتے ہیں اس کے علاوہ دیہی سطح پر ترقی کے ذرائع وسائل میں کمی پائی جاتی ہے۔ جسکا راست اثرخواتین کی تعلیم پر پڑتا ہے۔ لہذا خواتین کی تعلیمی ترقی میں شہری و دیہی سطح پر نمایاں فرق پایاجاتا ہے۔
اس مقالہ کا مقصد اردو میڈیم اسکولس میں لڑکیوں کے تعلیمی مسائل کا جائزہ لینا جہاں لڑکیوں کو صحیح تعلیم حاصل کرنے کے لیے بے شمار مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کی وجہہ سے ان کے تعلیم پر منفی اثر پڑتا ہے یہی وجہہ ہے کہ لڑکیاں تعلیم کے حصول کے لیے آگے بھی آتی ہیں تو ابتدائی تعلیمی دور میں ہی اسکول ترک کردیتی ہے۔
اس تحقیقی مقالہ کے لیے پانچ مدارس سے 50 طالبات اور 50 طالبات کے والدین سے مواد حاصل کیا گیا اور ان مدارس میں اردو ذریعہ تعلیم میں جو مسائل رونما ہورہے ہیں اسکو بھی پیش کیا گیا۔
مقاصد: .1 لڑکیوں کی تعلیم کو متاثر کرنے والے معاشی حالات کے نقصانات کو جاننا۔
.2 لڑکیوں کی تعلیم کے متعلق والدین کے رجحانات معلوم کرنا۔
.3 لڑکیوں کی تعلیم پر صنفی امتیازات کے اثر کو جاننا۔
.4 صنفی مسائل کوجاننا۔
Methodolgy:
موضوع پر تحقیق کے لیے تجزیاتی(Analytical) تحقیق کے طریقے کو استعمال کیا گیا ۔ تجزیاتی تحقیق کے ذریعہ دستیاب مواد کا تنقیدی تجزیہ کرکے مسئلہ کا حل معلوم کرکے نتائج پیش کیے گئے اور اس تحقیق سے نئی معلومات بھی حاصل کی گئی۔ مسلم معاشرے میں تعلیم کی کمی کے متعلق جو تصورات اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ ان کو بھی جاننے کی کوشش کی گئی اور ان مسائل کے ـحل کے لیے امکانات بھی پیش کئے گئے۔ اور نمونہ کی درجہ بندی Startified Random Sampling کے ذریعہ کی گئی اور مواد کے حصول کے لیے سوالنامہ اور انٹرویو شیڈول کاطریقہ اپنا یا گیا۔ اور سمپل کو 100 تک محدود کیا گیا جس میں زیر تعلیم مسلم لڑکیاں اور والدین کو بھی شامل کیا گیا۔
\"01

اس جدول میں 92% لڑکیاں جماعت ہفتم میں تھی اور 89% لڑکیاں 7th جماعت میں تھی جیسے جیسے لڑکیاں تعلیم میں آگے بڑھ رہی ہے ان کا فیصد گھٹتا جارہا ہے اور دسویں جماعت میں 69% لڑکیاں زیر تعلیم ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ لڑکیوں کی تعدادجو6th جماعت میں 92% تھی وہ دسویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے69% ہوگئی جب کے حکومت نے اسکالرشپ کے ذریعہ اورSSA کے ذریعہ تعلیمی ترقی کے لیے کوشاں ہے اسکے باوجود لڑکیوں کا تعلیمی فیصد کم ہوتا جارہا ہے۔
\"002jpg\"

26% طالبات کے والد بہت زیادہ کم آمدنی والے ہیں اور 36% کے والد 5 ہزار سے کم آمدنی والے گروپ سے تعلق رکھتے ہیں اور 38% لڑکیوں کے والد 5-10 ہزار روپئے کمانے والے ہیں ۔ اس جدول سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اردو اسکولس میں زیر تعلیم طالبات کے والد کی بڑی تعداد اوسط آمدنی والے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔
\"003jpg\"

اس جدول میں58% جواب دہندگان کے گھروں میں لڑکیوں پر زیادہ توجہہ نہیں دیتے اور 28% والدین لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے کیوں کہ وہ پرائی ہوتی ہے اور دوسرے گھر کو سنبھالنا ہوتا ہے اور 10% والدین لڑکیوں کی تعلیم پر روپیہ خرچ نہیں کرسکتے کیونکہ لڑکیوں کی شادی پر بھی خرچ کرنا پڑتا ہے اور 4% والدین کا ماننا ہے کہ زیادہ تعلیم دلوانے سے شادیوں میں رکاوٹ ہوتی ہے اس جدول سے ظاہر ہو رہا ہے کہ والدین کے نظریات میں صنفی امتیاز ات پایا جاتا ہے اس کی تصدیق سچر کمیٹی رپورٹ نے 2006ء؁میںہی کردی تھی۔
\"004jpj\"

30% لڑکیاں معاشی مجبوری کی وجہہ سے اسکولس میں داخلہ نہیں لے پاتیں 26% گھریلو ذمہ داریوں کی وجہہ سے ترک تعلیم کرچکی ہیں اور24% بچہ مزدوری کرتی ہیں اور 20% لڑکیاں والدین کے صنفی نظریات کی وجہہ ترکِ تعلیم کر دیتی ہیں والدین کے نظریہ میں لڑکوں کی تعلیم کو اہمیت دیتے ہیں اس لیے لڑکیوں کا داخلہ لڑکوں کے مقابلے میں کم ہوجاتا ہے
\"005jpj\"

کل نمونے کے تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ33% طالبات کم عمری کی شادی کے تحت ترک تعلیم کردیتی ہیں اور 36% طالبات والدین کی لاپرواہی کی وجہہ سے تعلیم چھوڑدیتی ہیں اور 20% طالبات نے گھر یلو ذمہ داریوں کی وجہہ سے ترکِ تعلیم کرچکی اور 11% صحت کی خرابی کی وجہہ سے تعلیم حاصل نہیں کی اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آج بھی مسلم لڑکیوں کی شادی کم عمری میں کردی جاتی ہے اور اس شادی کی وجہہ سے ان کی صحت پر بھی اثر پڑتا ہے اس لیے والدین کا تعلیم یافتہ ہونا بے حد ضروری ہوتا ہے والدین تعلیم یافتہ ہونگے تو اپنی لڑکیوں کی تعلیمی فکر بھی کرسکینگے۔ اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہہ سے بھی لڑکیوں کی تعلیم پر اثر پڑتا ہے۔

اختتامیہ:
اردو مدارس میں زیر تعلیم لڑکیاںبے شمار مسائل کا شکار ہوتی ہیں ان کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے صنفی نظریات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خاص کر اُردو ذریعہ تعلیم میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے بہت سے مشکلات سے گذرنا پڑتا ہے کیوں کہ اردو ذریعہ تعلیم میں کالجس اور اسکولوں کی کمی اور ان میں بے شمار بنیادی سہولیات کی بھی کمی ہوتی ہے کیوں کہ اردو ذریعہ تعلیم میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالجس دستیاب نہیں ہیں۔ اسکے علاوہ معاشی مجبوری کی وجہہ سے والدین لڑکیوں کا داخلہ اردو مدارس میں کرواتے ہیں ۔ والدین کی ناخواندگی بھی لڑکیوں کی تعلیمی ترقی میں رکاوٹ بنتی ہیں اور اسکے علاوہ سماجی روایت و نظریات لڑکیوں کو اسکول میں داخلہ لینے میں بھی رکاوٹ بن رہے ہیں 78% والدین کے مطابق لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم سے مسائل پیدا ہوتے ہیں مثلاً ان کی آمدو رفت کا مسئلہ سماجی تحفظ اور غیر محفوظ ماحول اور زیادہ تعلیم حاصل کرنے سے شادی میں بھی مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ پدرسری نظام کے تحت والدین لڑکیوں کو گھریلو کام کاج کی تربیت دینا ہی ضروری سمجھتے ہیں کیوں کہ شادی کے بعد ان کو یہی کام کرنے پڑتے ہیں۔ لیکن آج 22%والدین لڑکیوں کی تعلیم کو وقت کی ضرورت سمجھتے ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ والدین کے نظریات میں آج کے ٹکنالوجی و ترقی کے اثرات نظرآرہے ہیں اس کے علاوہ معاشی معیار بھی تعلیم حاصل کرنے میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے62% طالبات کم آمدنی والے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں38% طالبات کے والد کی ماہانہ آمدنی پر کام کرتے ہیں اور اردو مدارس کے طالبات کے تقریباً تما م والدین کا معاشی معیار کمزور ہے جس کہ وجہہ سے بھی مسلم لڑکیوں میں ترکِ تعلیم کا فیصدبہت زیادہ ہے اور84% والدین کاماننا ہے کہ گورنمنٹ کی جانب سے دی جانے والی اسکالرشپس مفت کتابیں اور دوپہر کے کھانے کی SSA اسکیم سے وہ اپنی لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی طرف راغب ہورہے ہیں۔اسلیے ابتدائی تعلیم میں اندراج بھی زیادہ ہو رہا ہے اور 16% والدین کا ماننا ہے کہ ان کو حکومت کی جانب سے کوئی اسکالر سپس نہیں ملتی پھر بھی وہ لڑکیوں کو تعلیم دلوارہے ہیں۔
سرکاری اردو میڈیم اسکولس میں پڑھنے والے طالبات کے والدین کی اکثریت ناخواندہ ہے جس کی وجہہ سے وہ تعلیم کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔52% والدین لڑکیوں کو اسکول بھیجنا نہیں چاہتے کیوں کہ ان کی لڑکیاں خاندان کی کفالت کے لیے محنت مزدوری کرتی ہیں اور اس کے علاوہ چھوٹے بھائی بہن کی ذمہ داری بھی ان ہی پر عائد ہوتی ہے۔30% والدین لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے کیوں کہ لڑکی تعلیم حاصل کر کے کیا کرے گی لڑکیوں کو شادی کے بعد گھر اور خاندان کی ذمہ داری نبھانی ہوتی ہے اور18% والدین یہ کہتے ہیں کہ اگر لڑکیوں کو تعلیم دلوائی بھی جائے تو سسرال میں انکو ملازمت کرنے کی آزادی نہیں ہوتی بہر کیف والدین کو لڑکیوں کی شادی میں جہیز بھی دینا پڑتا ہے اس لیے وہ لڑکیوں کی تعلیم پر خرچ نہیں کرسکتے ان کی معادشی حالت بھی مستحکم نہیں ہوتی۔
64% طالبات کے مطابق ان کے ساتھ صنفی امتیاز برتا جاتا ہے۔ والدین کا رویہ لڑکیوں کے متعلق صنفی ہے۔ ماں عورت ہوتے ہوئے بھی لڑکی پر لڑکے کو ترجیح دیتی ہے کیوں کہ وہ خاندان کی کفالت کرنے والا ہوتا ہے ان کے بڑھاپے کا سہاراہوتاہے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ لڑکے اور لڑکی کے درمیان صنفی تفریق پائی جاتا ہے اسلئے والدین لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے ہے۔ ہر سال اسکولس میں لڑکیوں کی تعدادگھٹتی جاتی ہے ان کی تعلیم پر والدین کے صنفی امتیازات کا راست اثر پڑتا ہے۔

نتائج:
اس مطالعہ کا مقصد اپر پرائمری اور ہائی اسکول کے اردو میڈیم اسکولس کے تعلیمی مسائل کا جائزہ لیا گیا اسکے لیے اردومیڈیم اسکولس کے مسائل کا تفصیلی جائزہ مختلف سوالناموں۔ انٹریو اور ثانوی ماخذات سے جائزہ لیتے ہوئے تجزیہ کے مطابق حسب ذیل نتائج اخذ کئے گئے۔
لڑکیوں کی تعلیم میں والدین کی معاشی حالت اور انکی ناخواندگی ایک اہم رول ادا کرتی ہے نمونہ کی نصف سے زیادہ طالبات پسماندہ گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیںاور انکے والدین ناخواندہ ہیں جس کی وجہہ سے والدین لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت سے نا واقف ہیں اس لیے لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے اور اسکولس میں لڑکیوں کی تعداد بہ نسبت لڑکوں کے کم ہے جو لڑکیوں کی تعداد جماعت ششم میں 92% تھی وہ جماعت دہم تک یعنی پانچ سال کے عرصے میں 41% ہوگئی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں آج بھی بہت رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتھا ہے۔
آج بھی ہمارے سماج میں صنفی امتیازات موجود ہے جس کہ وجہہ سے لڑکیوںکو حصول تعلیم کے کم مواقع میسر آتے ہیں اور اسکولوں میں بنیادی ضرورتوں کی عدم دستیابی کی وجہہ اور بیت الخلاء کا انتظام صحیح نہیں ہونا اور صفائی کا موثر انتظام نہ ہونے کی وجہہ سے بھی لڑکیوں کو حصولِ تعلیم میں مشکلات پیدا ہوتی ہے ۔ منتخبہ نمونے کے والدین کے تجزیہ سے معلوم ہوا کہ 56% والدین حکومت کی جانب سے دی جانے والی اسکالرشپس سے مطمئین نہیں ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ ان کو مقررہ وقت پر اسکالرشپس نہیں ملتی جس سے وہ مشکلات کا سامنا کرتے ہیں اس کے علاوہ 86% والدین معاشی پسماندگی کی وجہہ سے لڑکیوں کو اسکول نہیں بھیجتے کیوں کہ اسکول کا فاصلہ دور ہوتو والدین کے پاس اتنا روپیہ نہیں کہ وہ آمد و رفت کا خرچ برداشت کرسکے۔
منتخبہ نمونہ کے والدین کی اکثریت لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے کیونکہ لڑکیوں کو شادی کے بعد خاندا ن اور گھر کو سنبھالنا ہوتا ہے۔ اس لیے ان کی تعلیم سے گھر کو کوئی فائدہ نہیں پہنچتا اسکے علاوہ والدین کی اکثریت جو محنت مزدوری کرنے والے ہیں وہ لڑکیوں کو اسکول بھیجنا نہیں چاہتے کیو نکہ گھر یلو کام کاج اور چھوٹے بھائی بہن کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لڑکیوں کو سنبھالنی پڑتی ہے اس لیے اسکول بھیجنے سے گریز کرتے ہیں سرپرستوں کا عدم تعاون بھی لڑکیوں کو تعلیم جارے رکھنے سے روکتا ہے اور بڑا خاندان ہونا بھی لڑکیوں کی تعلیم کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے کیوں کہ معاشی حالت مستحکم نہ ہونے کے سبب والدین اپنے بچوں کو اچھی غذا اور اچھی تعلیم نہیں دے سکتے معاشی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے لڑکیاں بھی خاندان کی کفالت کے لیے محنت مزدوری یا گھر پر رہ کر کارچوپ ، زری ورک، چوڑیاں بنا کر اپنے خاندان کی کفالت میں مدد کرتی ہیں جس کی وجہہ سے وہ اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتی ۔ نمونہ کے والدین کی اکثریت لڑکیوں کی شادی جلد کرکے اپنے فرض سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں۔
نمونہ کے منتخبہ والدین۔ میوہ فروش۔ ٹیلر۔ بڑھئی۔ ڈرائیور۔ پان کے ڈبے وغیرہ سے وابستہ ہیں اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے ان کی آمدنی خاندان کا سہارا ہے اور خاند کی کفالت کے لیے انکو کسی پیشہ سے وابستہ رہنا ضروری ہوجاتا ہے۔ چونکہ والدین نا خواندہ ہونے کے سبب لڑکیوں کی تعلیم کو اہمیت نہیں دیتے اگر چہ لڑکیاں اسکول میں داخلہ لیتی ہیں لیکن والدین کی عدم توجہ کی وجہہ سے لڑکیوں کو گھر پر تعلیم حاصل کرنے میں دشوراریاں ہوتی ہیں ہوم ورک وغیرہ میں والدین لڑکیوں کی مدد نہیں کرسکتے اسکے علاوہ روایتی اصول اور صنفی تفریقات کی بناء پر بھی لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی جاتی لڑکیوں کو پڑھا کر پھر ان کی شادی پر بھی خرچ کرنا پڑتا ہے اس لیے والدین لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دیتے۔ منتخبہ نمونے کے والدین کی اکثریت کا ماننا ہے کہ لڑکیوںکو تھوڑا بہت پڑھنا لکھنا آجائے تو کافی ہے۔ زیادہ پڑھاکر ملازمت نہیں کروانا ہے اور والدین کی معاشی حالت مستحکم نہیں ہے اسلیے وہ اپنی لڑکیوں کو ٹکنیکل۔ میڈیکل یا فنی تعلیم نہیں دلوا سکتے اور ڈونیشن کی رقم کا تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتے۔
جب تک والدین خاص کر والد کی فکر اور سونچ۔ نظریات میں تبدیلی نہیں آئے گی لڑکیوں کی تعلیم کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ آج کے اس برق رفتار ترقی کے زمانے میں مسلم والدین کے نظریات کو بدلنے کی سخت ضرورت ہے اور صنفی امتیازات کا بھی خاتمہ ہو۔ لڑکے اور لڑکی کے فرق کو ختم کیا جائے اس ضمن میں سچر کمیٹی رپورٹ نے بھی اپنے انکشافات میں کہا کہ مسلم طبقہ خاص کر مسلم خواتین پسماندہ زندگی گذار رہی ہے اور وہ دوہری محرمیوں سے دوچارہیں۔ سچر کمیٹی رپورٹ کے بشمول دیگر تحقیقاتی رپورٹس اور مختلف جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ملک میں مسلم خواتین کی حیثیت پست و حاشیائی زندگی گذار رہی ہیں اور تعلیم و ترقی کے میدان میں کافی پسماندہ ہے۔
جبکہ حکومت کی جانب سے خواتین کے لیے خاص پروگرامز پالسیزو اسکیمان شروع کئے گئے اور ان کو خاص تحفظات بھی دئے گئے ہیں اور پنچسالہ منصوبوں کے ذریعہ بھی خواتین کی تعلیمی ترقی کی کوششیں جاری ہیں اور سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد خاص اقلیتوں کے لیے بہت سے پروگرامز و پالسیز کو روبہ عمل میں لایا گیا۔ تا کہ مسلم طبقہ کے ساتھ ساتھ مسلم خواتین بھی آج کے ترقی یافتہ دور میں اپنے آپ کو شامل کرسکیں۔

صفارشات:۔
.1 حکومت کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولتوں کا استفادہ کرنے کے لیے سماجی وفلاحی ادارے رہبری کرتے رہیں مزید سہولیات کا اضافہ کیا جائے۔
.2 لڑکیوں کی تعداد کو اسکول میں برقرار رکھنے کے لیے ان کو ترغیبات سے نوازا جائے اور اسکالرشپس کی رقم میں اضافہ کیاجائے۔
.3 لڑکیوں کی تعلیمی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ذرائع ابلاغ کے ذریعہ شعور بیدارپروگرام شروع کئے جائیں۔
.4 اردو ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں کے والدین کو مالی اعانت فراہم کی جائے جس سے وہ اپنی لڑکیوں کے تعلیمی سلسلہ کو جاری رکھ سکے۔ اور سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے والی لڑکیوں کو بہتر تغذیہ مہیا کیا جائے اسکے علاوہ اسکولوں میں لڑکیوں کے لیے مفت ہیلت کیمپ منعقد کیئے جائیں۔
.5 لڑکیوں کے اسکولس میں خاتون اساتذہ کی تعداد کو بڑھانا چاہئے تا کہ لڑکیوں بلا کسی خواف و جھجک کیک تعلیم جاری رکھ سکیں۔
.6 گھر کے قریب اردو ذریعہ تعلیم اسکولس قائم کئے جائیں تاکہ والدین کو معاشی بار نہ اٹھانا پڑے اور لڑکیوں کو بھی فاصلہ طئے کرنے میں
خدشات نہ ہو۔
.7 تعلیم نسواں کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے عوام میں شعور بیداری پروگرامز ترتیب دینے کی سخت ضرورت ہے اسکے لیے اساتذہ ۔مقامی لیڈر۔ غیر سرکاری تنظیمیں اور سماج کے تعلیم یافتہ خواتین کو بھی اس میں شامل کرنا چاہئیے۔
.8 اردو ذریعہ تعلیم میں کالجس کا قیام عمل میں لانا چاہئے تا کہ طالبات کو اردو میں اعلیٰ تعلیم حاسل کرنے کے لیے مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے.۔
.9 اسکولوں میں لائبریری کی سہولت ۔ لیب کی سہولت ۔ کھیل کا میدان اور لڑکیوں کو پرسکون ماحول میں مطالعہ کرنے کا موقع ملے۔
.10 حکومت کی جانب سے اردو ذریعہ تعلیم حاصل کرنے والی لڑکیوں پر خاص توجہ دیتے ہوئے اسکالرشپس کی رقم میں اضافہ کیا جائے تاکہ وہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے۔

حوالہ جاتی کتب۔
REFERENCES :
1. Mutaleat – e – Niswaan
Dr. Ameena Tahseen
Educational Publication House, New Delhi ( 2008 )

2. Millennium Development Goals Report ( 2015 )
Govenrnment of India

3. Census Report ( 2011 )
Government of India

4.Millennium Development Goals Report ( 2015 )
Govenrnment of India

5. Muslim Women in India ( 1999 )ؔ
Seema qazi

6. Sachar Committee Report ( 2006 )
Dr. Rajendra Sachar

7. Ranga Reddy Statistical book (2016)
Government of India

8. Census Report ( 2011 )
Government of India

9. Aurat aur Samaj( 2006 )
Mohd. Shahzad Us Shams
Taqleekar Publications, New Delhi

10. Unequal Citizens, A Case Study of Muslims in India ( 2000 )
Ritu Menon & Zoya Hasan

Leave a Comment