عصمت چغتائی منٹو کی قلمی ہمزاد : ڈاکٹر رخشندہ جلیل

\"25488180_2007661942849660_7754855504533490176_o\"
علی گڑھ، 21؍دسمبر (اسٹاف رپورٹر) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کی دوصدی تقریبات کے سلسلے میں علی گڑھ کی ممتاز طالبہ اور مشہور ناول نگار عصمت چغتائی پر شائع ہونے والی ایک کتاب ’’اَین اَن سوِل وومین‘‘کی مدیرہ ڈاکٹر رخشندہ جلیل کے ساتھ ایک ادبی گفتگو کا اہتمام کیا گیا۔ یہ کتاب موقر اشاعتی ادارے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے شائع کی ہے۔
مذکورہ پروگرام میں کتاب کی مدیرہ کے علاوہ نامور ادیبہ پروفیسر نمیتا سنگھ اور شعبۂ اردو کے پروفیسر طارق چھتاری نے خصوصی مقررین اور شعبۂ انگریزی کے پروفیسرمحمد عاصم صدیقی نے گفتگو کے میزبان کے طور پر شرکت کی۔شعبۂ رابطۂ عامہ کے ممبر انچارج پروفیسرایم شافع قدوائی نے استقبالیہ خطبہ پیش کیا جبکہ شعبۂ تاریخ کے پروفیسر محمد سجاد نے پروگرام کی نظامت کے فرائض انجام دئے اور مہمانان کا شکریہ ادا کیا۔
پروفیسر نمیتا سنگھ نے عصمت چغتائی کی تحریروں کے حوالے سے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عصمت نے ایک حقیقت نگار کی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے سماج میں مروج کئی قسم کے بتوں کو توڑا اور روایت پرستی پر سخت وار کئے۔ انہوں نے کہا کہ عصمت کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ادب کو ایک نیا موڑ دیا اور ایک ایسے وقت میں جب منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر جیسے افسانہ نگار معاشرے میں ترقی پسندی کا انقلاب برپا کرنے میں مصروف تھے، عصمت نے کوری نسائیت پرستی سے مختلف خالص صنفی مساوات پر مبنی روایات کو فروغ دینے کے لئے قلم اٹھایا۔
پروفیسر سنگھ نے کہا عصمت کو عصمت بنانے میں دو باتوں کا خصوصی کردار رہا ہے۔ ایک ، سرسید کی تعلیمی تحریک سے جلا پاکر شیخ عبد اللہ نے علی گڑھ میں بیسویں صدی کی ابتدا میں تعلیمِ نسواں کی جو تحریک شروع کی اس کا لازمی اثر اس ادارے میں تعلیم پانے والی طالباؤں پر بھی پڑا جن میں عصمت چغتائی نے اس تحریک کا خاص اثر قبول کیا۔ دوسری چیز سماج میں ظلم و جبر اور مختلف سطحوں پر عدم مساوات کی مختلف صورتیں تھیں جن سے عصمت کا ذہن غیر معمولی طور پر متاثر ہوا اور انہوں نے اس کے خلاف اپنے قلم کو ہتھیار بنایا۔
پروفیسر سنگھ نے کہا کہ عصمت نے معاشرے میں خواتین کی زبوں حالی کو اپنا خاص موضوع بنایا اور ان کی بے بسی کے خلاف مردوں کی آمریت اور سامنتی سماج کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے علمِ بغاوت بلند کیا۔
پروفیسر طارق چھتاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ عصمت چغتائی، منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر کو ترقی پسند ادب کے چار ستون تسلیم کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گو کہ ان چاروں شخصیات پر بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ عصمت کے ادبی رجحانات اور رویوں پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ عصمت کا تنقیدی شعور نہایت بالیدہ تھا اور انہوں نے اپنی کتاب پَوم پَوم ڈارلنگ میں قرۃالعین حیدر کی ابتدائی تحریروں کے حوالے سے ایسی تنقیدی فطانت کا ثبوت پیش کیا ہے جس کا تقاضہ ہے کہ ان کی تحریروں پر بھی پوری تنقیدی بصیرت کے ساتھ کام کیا جائے۔
پروفیسر چھتاری نے کہا کہ وہ عصمت کو نسائی تحریک کی علم بردار ادیب تصور نہیں کرتے بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عصمت نے کبھی خود کو ایک فریم میں باندھنے کی کوشش نہیں کی بلکہ انہوں نے معاشرے کے ان حقائق سے کسب فیض کیا جو آج بھی عوام کے ایک بڑے طبقے کو پریشان رکھے ہوئے ہیں۔
اس سے قبل اپنے استقبالیہ خطبے میں پروفیسر شافع قدوائی نے کہا کہ سرسید نے اس ادارے کو ممتاز ادارہ بنانے کے لئے دانشوری کی روایت کو اس کے خمیر کا حصہ بنانے کا خواب دیکھا تھا اور ان کے اسی خواب کی تکمیل عصمت چغتائی جیسے ادیبوں اور دانشوروں کی شکل میں ہوتی ہے۔
پروفیسر قدوائی نے کہا کہ ڈاکٹر رخشندہ جلیل ایک ممتاز ادیب ہونے کے ساتھ ہی ایک مشاق مترجم بھی ہیں اور عصمت چغتائی پر ان کی اس کتاب سے بین لسانی قارئین کو عصمت کو قریب سے دیکھنے کا موقع حاصل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں آج کل خود نوشت کی صنف سب سے معروف صنف ہے اور عصمت چغتائی نے اپنے زیادہ تر افسانوں میں اسی صنف کو استعمال کرتے ہوئے ان کے کرداروں میں اترنے کی کوشش کی ہے۔
پروفیسر قدوائی نے کہا کہ عصمت نے اپنی تحریروں میں ان موضوعات کو برتنے کی کوشش کی جن پر معاشرہ خاموشی کو ترجیح دیتا ہے۔ لیکن دنیا کے ادبی حالات بدل رہے ہیں اور ایسی کئی تحریریں سامنے آچکی ہیں جن میں مرد اور عورت کے علاوہ تیسری صنف کو موضوع بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حال ہی میں چترا مدگل کی کتاب ’’نالا سوپارا- پوسٹ باکس نمبر 203‘‘اس کی بہترین مثال ہے جس میں ایک خواجہ سرا کے اندر کے انسانی کرب کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
گفتگو کے دوران پروفیسر عاصم صدیقی نے ڈاکٹر رخشندہ جلیل سے پوچھا کہ ان کی کتاب کا بیش تر حصہ اردو مضامین کے ترجمہ پر مبنی ہے، اس سلسلے میں ان کے تجربات کیا ہیں؟ سوال کا جواب دیتے ہوئے ڈاکٹر جلیل نے کہا کہ عالمی ادب سے متعارف ہونے کا واحد ذریعہ ترجمہ کی روایت ہے گو کہ اس میں مشکل یہ ہے کہ عموماً مترجم اصل متن کو ترجمہ والی زبان میں پوری سچائی کے ساتھ منتقل نہیں کر پاتے جس کی وجہ سے مصنف کی بات اسی شدت اور سچائی کے ساتھ قاری تک نہیں پہنچتی۔ لیکن مترجم کو کوشش کرنی چاہئے کہ وہ ترجمہ کرتے وقت اپنی انا اور ذاتی علم کو کنارے رکھے اور ایک اچھے سہولت کار کے طور پر ایک ادب کو دوسری زبان میں منتقل کردے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ترجمہ کی روایت موجود نہ ہوتی تو دنیا کی مختلف زبانوں کے ادبی شہ پاروں سے ہم متعارف نہ ہو پاتے۔
پروفیسر عاصم صدیقی نے کہا کہ عصمت کو عموماً منٹو کا نسوانی رخ قرار دیا جاتا ہے، اس سلسلے میں ان کی کیا رائے ہے۔ ڈاکٹرجلیل نے کہا کہ عصمت چغتائی کو عام طور سے منٹو کا قلمی ہمزاد تصور کیا جاتا ہے اور ان کے درمیان مماثلت کے تانے بانے کافی طویل ہیں لیکن یہ پورا سچ نہیں ہے۔ منٹو نے خواتین پر جبر اور استحصال کے خلاف لکھتے وقت نسائیت کے رجحانات کو اس طرح نہیں برتا جس طرح عصمت نے برتا گو کہ عصمت کی خوبی یہ ہے کہ ان کے کردار کسی گروبند نظریے کو پیش نہیں کرتے اور وہ خود بھی عام تصورکے برخلاف عصمت کو نسائی تحریک کی علم بردار تسلیم نہیں کرتیں۔
عصمت کے علی گڑھ سے روابط کے بارے میں پروفیسر عاصم صدیقی کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عصمت کی شخصیت سازی میں علی گڑھ کا زبردست کردار رہا ہے اور انہوں نے اپنے افسانوں میں علی گڑھ میں اپنے قیام کے دوران رابطے میں آنے والے افراد کو کردار کے طور پر استعمال کیا ہے۔
گفتگو کے دوران پروفیسر عاصم صدیقی نے ڈاکٹر جلیل کی کتاب کے حوالے سے کئی سوالات کئے جن سے عصمت پر ان کے گہرے مطالعے کا اندازہ ہوتا ہے۔
پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے پروفیسر محمد سجاد نے کہا کہ عصمت چغتائی کی تحریریں شمالی ہندوستان کے عوام، بالخصوص خواتین کے مسائل کی عکاس ہیں اور انہوں نے جن موضوعات پر قلم اٹھایا ان کی معنویت آج بھی برحق ہے۔ انہوں نے کہا کہ عصمت کے ناول پر مبنی فلم ’’گرم ہوا‘‘ ملک کے فرقہ وارانہ ماحول کے حوالے سے جو بیانیہ پیش کرتی ہے اس کی معنویت آج بھی قائم ہے۔
پروگرام میں یونیورسٹی کے کئی اساتذہ اور مختلف شعبوں کے طلبہ و طالبات نے کثیر تعداد میں حصہ لیا۔
\"25592123_2007661709516350_6558540626481543229_n\" \"25592061_2007663936182794_2156937898880035473_n\"

Leave a Comment