عادل شاہی دور میں فارسی زبان و ادب کا ارتقاء

از: فوزیہ خاتون
صدرشعبہء فارسی عثمانیہ یونی ورسٹی کا لج فار ویمن کوٹھی حیدر آباد

فارسی زبان دنیا کی سب سے شیریں زبان تسلیم کی جاتی ہے۔ یہ زبان ہندوستان کی قدیم زبان ہونے کے سبب اپنا ایک خاص مقام بھی رکھتی ہے۔فارسی زبان و ادب کا اہم مرکز ایران ہے۔ فارسی زبان میں قدیم تہذیب و تمدن کے علاوہ علم وادب کا گراں قدرسرمایہ موجود ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے نصف اول میں حضرت عمر فاروق ( رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) کے دور خلافت میں مسلمانوں نے ایران پر قبضہ کرلیا اور اس کے بعدایرانیوں کی کثیر تعداد نے اسلام قبول کیا۔ پھر ایرانیوں کی ایک بڑی تعداد نقل مقام کرکے ہندوستان چلی آئی اور وہیں سے فارسی زبان و ادب کا ہندوستان پر غیر معمولی اثر ہونے لگا۔ فارسی زبان ہندوستان کی قدیم زبان سنسکرت کے ساتھ ایک خاص رشتہ رکھتی ہے۔اِن دونوں ملکوں کی قدیم رسم و رواج ،داستانیں، عقاید اور تہذیب و تمدن اور ثقافت میں بہت سی خصوصیات مشترک ہیں۔
محمود غزنوی ( ۹۹۸ھ/۱۰۳۰ء) کی سرپرستی میں فارسی زبان نے ہندوستان میں قدم رکھا ،نشوونما پائی اور رواج حاصل کیا۔ سلطان محمود غزنوی کے حملوں کے بعد غزنویوں اور غوریوں کے زمانے میں مسلمان کثیر تعداد میں ہندوستان آنا شروع ہوئے۔ فارسی زبان و ادب ہندوستان میںپھلنے پھولنے لگی۔عادل شاہوں اور مغلوں کے عہد حکومت میں فارسی زبان کو ہندوستان میں سرکاری زبان ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ عادل شاہی بادشاہوں میں یوسف عادل شاہ، اسماعیل عادل شاہ، ابراھیم عادل شاہ، علی عادل شاہ، ابراھیم عادل شاہ ثانی اور ان کا پوتا علی عادل شاہ ثانی اور مغل بادشاہوں میں بابر، ہمایوں، جہانگیر ، شاہ جہاں اوراورنگ زیب وغیرہ کو فارسی زبان پر کافی عبور حاصل تھا۔عادل شاہیوں اور مغل حکمرانوں نے فارسی زبان و ادب کی غیر معمولی سرپرستی کی وہ خود بھی فارسی کے شاعر و نثر نگار تھے۔ ان کے درباروں میں فارسی زبان کے ایرانی اور ہندوستانی نژاد کے بڑے بڑے شاعر ، ادیب اور عالم و فاضل جمع تھے۔
یہی وجہ تھی کی سعدی کی گلستان ، دیوان حافظ، جامی کے تصنیفات، فردوسی کا شاھنامہ، مولانا روم کی مثنوی اور نظامی گنجوی کا پنچ گنج کے علاوہ کئی ایرانی شاعروں کے ادب، مذہبی، علمی اور تاریخی شہہ پاروں کا مطالعہ ہندوستان میںعام ہوگیا تھا کئی ایرانی شاعر و ادیب، علماء و فضلا کثرت سے ہندوستان آنے لگے تھے۔ یہاں ان کی قدر و منزلت کی گئی جن میں قابل ذکر یہ ہیں ۔ نظیر نیشاپوری، طالب آملی ، ابو طالب کلیم ، عرفی شیرازی، ملک قمی اور ملا ظہوری وغیرہ۔
ہندوستان میں بھی ایسے شاعر اور ادیب پیدا ہوئے جنھوں نے فارسی زبان و ادب میں خوب نام پیدا کیا جن میں قابل ذکر امیر خسرو، حسن دہلوی، مظہر کشمیری، ابوالفضل اور فیضی وغیرہ ہیں۔ جب ہندوستان فارسی زبان وادب کا مرکز بن گیا تو یہاں کے شعراء اور مصنفین کی بھی کافی قدرو منزلت ہونے لگی۔ ان کے کارنامینایاب اور کم یاب ہونے کے سبب ایرانی علماء و فضلا کے کارناموں کے برابرسمجھے جاسکتے ہیں ان شعراء و ادبا نے اپنی زبان دانی اور شاعری کا خراج و تحسین اہل ایران سے بھی وصول کیا۔
بہمنی سلطنت کی علمی اور سرکاری زبان فارسی تھی جو بنیادی طور پر تغلق سلطنت کی زبان تھی جنوب میںبہمنی سلطنت کی وجہ سے فارسی زبان کا اثر اس علاقے میں بہت بڑھ گیا تھا اور اس زمانے میں فارسی کے بڑے بڑے ممتاز علماء شعراء اور ادباء کثرت سے موجود تھے جیسے میر محمد بدخشی ،نصیرالدین تبریزی اور مفتی احمد ہروی وغیرہ نے فارسی کو مالامال کیا۔ بہمنی سلطنت گلبرگہ سے بیدر منتقل ہوگئی تو ایران و عراق سے کئی ہزروں علماء اور فارسی کے اہل زبان جو آفاقی کہلاتے تھے احمد شاہ ولی بہمنی کے زمانے میں بید رآئے جس کی وجہہ سے بیدر ایک ایرانی شہر معلوم ہونے لگا۔ فارسی زبان و ادب کو پروقار بنانے والی شخصیت محمود گاواں کی تھی جو فارسی کا سب سے بڑا ماہر اور جید عالم تھا۔
اس کے بلند پایہ خطوط کا مجموعہ ’’ریاض الانشا‘‘ ہے جو فارسی کے کئی نامور مصنفین کے نام لکھے گئے ہیں اس طرح بہمنی سلطنت میں فارسی زبان وادب کو انتہائی عروج حاصل ہوا تھا۔
جب دکن کے عظیم الشان بہمنی سلطنت طبقاتی نفاق و نفرت اور ملکی و غیر ملکی کے جھگڑوں کی وجہہ سے پارہ پارہ ہوکر پانچ سلطنتوں میں بٹ گئی تو ان میں گولکنڈہ اور بیجا پور کی سلطنتیں اپنی علم پروری اور و ادب نوازی کی وجہہ سے تاریخ میں اہم مقام رکھتی ہیں۔
عہد عادل شاہی کے اہم فارسی شعراء کا سرسری جائزہ
عادل شاہی خاندان کے علم دوست اور سخن گستر بادشاہوں کی خاص سرپرستی میں فارسی زبان و ادب کی ترویج وترقی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ۔ سولہویں اور سترھیویں صدی عیسوی میں اس کی شہرت دور دراز تک پہنچ گئی۔ عراق و ایران سے کثرت سے فارسی کے نامی گرامی شاعر و ادیب بیجا پور آئے اور یہیں کے ہو رہے۔
دکن کی سرزمین نے جن نامور ہستیوں کو اپنی دامن میں تربیت دی اور پروان چڑھایا ان میں یوسف عادل شاہ کی غیر معمولی شخصیت کے نقوش بہت زیادہ نمایاں ہیں۔ سلطنت عادل شاہیہ کا بانی یوسف عادل شاہ رومی الاصل ترک نثزادخاندان آل عثمان سے تھا یہ بڑی خوبیوں کا مالک تھا اہل علم کا بڑا قدردان تھا اسکے دربار میں ہمیشہ شعراء اور علماء کا مجموعہ رہتا تھا ۔ اس کے دربار میں قدما کے اشعار پڑھے جاتے اور سلاطین سلف کے تذکرے ہوتے تھے۔ یوسف عادل شاہ نہ صرف شعر و شاعری سے بڑی دلچسپی رکھتا تھابلکہ خود بھی شعر کہتا تھا ۔
اگر چہ کہ یوسف عادل شاہ کی مادری زبان فارسی نہیں تھی، اس کے باوجودبھی اس نے فارسی میں اپنی قادر الکلامی کا ثبوت دیا ۔ اس کا کلام عاشقانہ ہے جس میں سادگی اور دلکشی نمایاں ہے۔
یوسف عادل شاہ کے بعد اس کا بیٹا اسمٰعیل عادل شاہ جانشین ہوا وہ بھی بڑاعلم دوست بادشاہ تھا شعراء ادبا علماء و فضلا کی عزت اور قدر منزلت کرتا تھا۔ اسماعیل عادل شاہ سخن فہم ہونے کے علاوہ خود بھی اعلیٰ درجہ کا شاعر تھا ور وفائی تخلص کرتا تھا سلاطین دکن میں کوئی بادشاہ سخن گوئی میں اسماعیل کی طرح لطیف و سنجیدہ کلام موزوں نہ کر سکا۔ کیونکہ اس کے باپ یوسف عادل شاہ کی مادری زبان ترکی تھی اور اس کی ماں پونجی خاتون ایک مرہٹہ دکنی برہمن مکھنڈ راؤ کی بہن تھی اور مرہٹہ زبان بولتی تھی اس کے باوجود اسمٰعیل عادل شاہ کا فارسی کلام اعلیٰ ذوق شاعری کا ثبوت ہے۔
اسمٰعیل عادل شاہ کے کلام سے اس کی کہنہ مشقی کا اور اعلیٰ علمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اسمٰعیل عادل شاہ کے بعد ابراھیم عادل شاہ اول اور علی عادل شاہ اول یکے بعد دیگرے تخت نشین ہوتے گئے یہ دونوں بھی اہل علم کے بڑے قدردان تھے اور انھوں نے اپنے آبا و اجداد کی روایتوں کوبرقرار رکھا۔ ان دونوں کے دربار سے بھی کئی بڑے بڑے شاعر اور ادیب وابستہ تھے۔ کئی علما و فضلا درباد عادل شاہی کی رونق تھے لیکن بحیثیت شاعر یا ادیب ان کا کوئی کلام دستیاب نہیں ہوا ہے۔
ابراھیم عادل شاہ ثانی عادل شاہی خاندان کا اہم بادشاہ ہے ۔ یہ جلیل القدربادشاہ اپنے چچا علی عادل شاہ اول کے بعد بڑی کم عمری میں بادشاہ بنا تھا اس کے عہد حکومت میں بیجاپور علم و ادب کا بڑا مرکز بن چکا تھا ۔ دکن میں ابراہیم عادل شاہ کی قدردانی اور فیاضی نے بیجا پور کو ایران کا ایک حصہ بنا دیا تھا۔ شہر بیجاپور کو ودیادپوری یعنی علم کا شہر کہنے لگے تھے۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی کے دور میں کئی ممتاز علماء و فضلاء نے مختلف علوم و فنون پر اہم کتابیں تصنیف کیں۔ فارسی کے کئی ممتاز شاعر و ادیب اس کے دربار کی زینت بنے ہوئے تھے جن میں قابل ذکر ملّا نورالدین طہوری ، ملّا ملک قمی، حیدر ذہنی، سنجر کاشی، ابوطالب کلیم، باقر خوردّہ کاشی ، عبدالقادر نورسی، حسین عسکری، کاشانی نورس، قزوینی اور محمد نامی تبریزی وغیرہ ہیں۔ وہ ہندوستانی ہونے کے باوجود فارسی میں بے تکلفی سے گفتگو کرتا تھا اور مشق سخن بھی کرتا تھا۔ بادشاہ صرف شاعرہی نہیں تھا بلکہ اعلیٰ درجہ کا ناقد بھی تھا۔ ابراھیم تخلص کرتا تھا ۔ اس کے زمانے میںمشہور تاریخ نورس نامہ عرف تاریخ فرشتہ مرتب ہوئی۔ دکنی شاعری نے ترقی کی۔
ابراہیم عادل شاہ ثانی کے بعد اس کا بیٹا محمد عادل شاہ اس کا جانشین بنا لیکن اس کا بھی کوئی کلام دستیاب نہیں ہوا۔اس کے بعد اس کا بیٹا علی عادل شاہ ثانی اس کا جانشین بنا۔ اس نے نہ صرف سیاسی اعتبار سے عادل شاہی سلطنت کے وقار کو بلند کیا بلکہ شعر و ادب کے اعتبار سے بھی بیجا پور کو علم و ادب کا مرکز بنادیا تھا۔ اپنے دادا کی تمام شعری و علمی روایتوں کو نہ صرف باقی رکھا بلکہ آگے بڑھا دیا۔
علی عادل شاہ ثانی کے دربار سے بھی بڑے بڑے شاعر اور ادیب وابستہ تھے۔ وہ خود ایک بلند پایہ شاعر تھا۔ اور شاہی تخلص کرتا تھا اس نے شرف برج اور عرش بادشاہ محل کی تعریف میں جو فارسی شعر کہے ہیں اس سے اس کی فارسی دانی کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کے تخت نشین ہوتے ہیں پھر سے حکومت میں جان آگئی۔
بانی سلطنت یوسف عادل شاہ سے لے کر علی عادل شاہ ثانی کے زمانے تک سلطنت کے حدود کافی وسیع ہوگئے تھے۔ سلطنت میں تہذیب و تمدن میں کافی تبدیلی ہوئی تھی اس زمانے میں شہر بیجاپور کو آبادی کی وسعت کے لحاظ سے دنیا کے بڑے بڑے شہروں میں شمار کیا جاتا تھا اور علم و ہنر کے لحاظ سے نہ صرف ہندوستان میں بلکہ بیرونی ممالک میں بھی کافی شہرت رکھتا تھا۔ عادل شاہی بادشاہوں کے عہد حکومت میں عرب و عجم سے کئی شاعر و ادیب اور اہل علم و فضل نے بیجا پور میں سکونت اختیار کرلی تھی۔

Leave a Comment