تحریر۔ علی مزمل کراچی۔ پاکستان
مورخہ ٢٣ دسمبر ٢٠١٧ بروز ہفتہ رات ٧ بجے شام حسبِ معمول ایک مختلف نوعیت کا ١٣٠ واں مشاعرہ بنام \”تنقیدِ سخن\” منعقد کیا گیا۔ جس میں معروف شعراء نے اپنی تخلیقات تبصرہ کے ساتھ پیش کیں۔
اس مشاعرہ کو \”تنقیدِ سخن\” کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اور جیتنے والے کے لیے \”جون ایلیا\” ایوارڈ کا اعلان کیا گیا۔ جس کے مہتمم جناب توصیف ترنل صاحب تھے اور مشاعرہ کی صدارت محترم جناب شہزاد نیر صاحب کوئٹہ سے فرما رہے تھے۔
جبکہ مہمانانِ خصوصی میں محمد رضوان عالم صاحب ڈیرہ اسماعیل خان اور محترم جناب ضیاء السلام ضیاء شادانی صاحب۔ مراد آباد۔ انڈیا کے نام شامل تھے۔ جبکہ۔
نظامت کے فرائض علیم طاہر صاحب۔ انڈیا سے انجام دے رہے تھے۔
حلقہء ناقدین میں۔
محترم مسعود حساس صاحب۔ کویت
محترم شفاعت فہیم صاحب۔ انڈیا
محترم انور کیفی صاحب۔ انڈیا
شامل تھے مگر مسعود حساس صاحب اور انور کیفی صاحب بوجوہ مشاعرے میں شرکت سے قاصر رہے جن کی جگہ شہزاد نیر صاحب اور ڈاکٹر نبیل احمد نبیل نے احسن طریقے سے ناقدین کے فرائض انجام دئیے۔
مقالہ لکھنے کی ذمہ داری جناب خالد سرویا صاحب دبئی اور رودادِ مشاعرہ مرتب کرنے کی زمہ داری پاکستان سے علی مزمل کو تفویض ہوئی۔
ٹھیک سات بجے اللہ کے بابرکت نام سے تقریب کا آغاز ہوا اور ناظمِ مشاعرہ نے حمدِ باری تعالی کے لیے محترم مختار تلہری صاحب انڈیا کو دعوتِ حمد دی۔
اس کے فوراً بعد مختار تلہری صاحب کو دعوتِ نعت دی گئی۔
مختار تلہری صاحب نے حمد و ثناء اور نعت سے محفل کو مشکبار کیا اور تحسین پائی۔
نمونہء کلام۔ (حمد)
آواز تو نہیں ہے قلم کی زبان میں
اشعار لکھ رہا ہے مگر میری شان میں
نمونہء کلام۔ (نعت)
بن کے مخلوقات پر بارانِ رحمت آۓ ہیں
محسنِ انسانیت شہکارِ قدرت آۓ ہیں
اس کے بعد جناب علیم طاہر صاحب نے ڈاکٹر ذاکر خان ذاکر کا لکھا تنقیدی جائزہ پیش کیا جو بہت پسند کیا گیا۔
نمونہء کلام۔
رنگ تازہ گلاب کی مانند
روپ جنت کے خواب کی مانند
علیم طاہر صاحب کے بعد توصیف ترنل صاحب کو دعوت دی گئی۔ آپ نے اپنی شاعری پر حبیب گوہر صاحب کا توصیف نامہ پیش کیا۔ شاعری تو واجبی سی تھی مگر توصیف نامہ خاصہ جاندار تھا۔ حاضرین نے خوب داد سے نوازا۔
نمونہء کلام۔
روز اخبار پڑھ رہا ہوں پر
کوئی اچھی خبر نہیں آتی
بعدازاں جناب شوزیب کاشر۔ آزاد کشمیر کو دعوتِ کلام دی گئی۔ان کے شاندار کلام نے حاضرین کے دل موہ لیے۔ مگر کلام پر تبصرہ کلام کے شایانِ شان نہیں تھا۔ بہرحال ان کے کلام کو خوب سراہا گیا۔ ان کے کلام پر تبصرہ محمد ابوبکر خان کا لکھا ہوا تھا۔
نمونہء کلام۔
اسے نکالتے ہوۓ یہ دھیان ہی نہیں رہا
نکل گیا تھا میں بھی اس کے ساتھ اپنے آپ سے
اس کے بعد شمع محفل اشرف علی اشرف صاحب کے رو بہ رو لائی گئی۔ آپ نے اپنا کلام اور تبصرہ پیش کیا جس کے مبصر ڈاکٹر نبیل احمد نبیل تھے۔ ان کے کلام اور تبصرہ کو پزیرائی ملی۔
نمونہءکلام۔
میرا مجنوں کے قبیلے سے تعلق ٹھہرا
تم مجھے عقل سکھاتے ہو تو حد کرتے ہو
اس کے بعد ڈاکٹر مینانقوی صاحبہ۔ انڈیا کو دعوت دی گئی کہ وہ آئیں اور اپنا کلام اور تبصرہ حاضرین کی نذر کریں۔
محترم انور کیفی صاحب نے مختصر مگر مدلل تبصرہ کیا۔ الغرض کلام اور تبصرہ دونوں ہاتھوں ہاتھ لیے گئے اور حاظرین نے خوب داد و تحسین سے نوازا۔
نمونہء کلام۔
مری اڑان اس لیے بھی ہوگئی تھی معتبر
قدم تلے زمین تھی نظر میں آسمان تھا
اس کے بعد خالد سروحی صاحب۔ گکھڑ سٹی کو دعوت دی گئی۔ جسے پسند کیا گیا اور ناقدین نے بھی اپنی آراء پیش کیں۔ آپ کے کلام پر تبصرہ محمد رضوان عالم صاحب نے لکھا۔
نمونہء کلام۔
فدا سب کچھ کیا ہے تیری خاطر
مجھے بدلے میں تو نے کیا دیا ہے
جوں جوں وقت گزرتا رہا مشاعرہ کی تابانی میں اضافہ ہوتا رہا۔
اس کے بعد عبالغفار واحد صاحب کو دعوتِ سخن دی گئی۔جن کا تعلق سورت۔ انڈیا سے ہے۔ آپ نے اپنا کلام اور تبصرہ جو خورشید عنبر صاحب نے تحریر کیا تھا۔ پیش کیا اور داد پائی۔
نمونہء کلام۔
سیر کرتی ہے آسمانوں میں
عرش تک ہے اڑان مٹی کی
اس کے بعد علی مزمل صاحب کو دعوت دی گئی۔ آپ نے اپنی نظم \”محبت اک جزیرہ ہے\” اور اس نظم پر ڈاکٹر نبیل احمد نبیل صاحب کا مفصل تبصرہ پیش کیا جو احباب نے پسند کیا۔
نمونہء کلام۔
محبت اک جزیرہ ہے
جہاں قوسِ قزح کے مسکرانے پر
بنفشی، ارغوانی، چمپئی
دھانی، سلیٹی، مونگیا
اور قرمزی رنگوں کی بارش سے
یہاں کے ہر شجر کی پتیاں
اشنان کرتی ہیں
مزمل علی صاحب کے بعد ڈاکٹر سراج گلاؤٹھوی صاحب۔ انڈیا کو دعوت دی گئی۔ آپ نے جڑواں قوافی میں اعلی غزل پیش کی جسے خوب سراہا گیا۔ آپ کے کلام پر تبصرہ ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب نے کیا۔
نمونہء کلام۔
روپ کا درپن بول رہا ہے
جوگن کا من ڈول رہا ہے
اس کے بعد دعوتِ کلام حفیظ مینانگری صاحب انڈیا کو دی گئی۔ آپ کے کلام پر مختصر مگر جامع تبصرہ شعیب پانی پتی صاحب نے کیا۔ آپ کے کلام و تبصرہ کو پسند کیا گیا اور ناقدین نے بھی اپنی آراء سے نوازا۔
نمونہء کلام۔
سارے موسم بدل گئے لیکن
غم کا موسم نہیں بدلتا ہے
حفیظ مینانگری صاحب کے بعد شاہیں فصیح ربانی صاحب کو کلام اور تبصرہ پیش کرنے کا اذن ملا۔ آپ نے بہت اعلی اشعار پر مبنی غزل کے ساتھ سید معراج جامی صاحب کا لکھا تبصرہ سامعین کی نذر کیا اور بہت تحسین سے نوازے گئے۔
نمونہء کلام۔
ایک پل بھی نہ کوئی ساتھ رہا ہو جیسے
دوست یوں راہ بدلتے ہوۓ کھو جاتے ہیں
اس کے بعد مختار تلہری صاحب کے نام کی پکار ہوئی۔ آپ نے عزیزالدین خضری صاحب کے تبصرے کے ساتھ اپنا کلام احباب کے گوش گزار کیا۔ جسے حاضرین نے بھرپور تحسین سے نوازا۔
نمونہء کلام۔
اک بار لب کشائی کی دے کر سزا مجھے
خاموش عمر بھر کو کوئی کر گیا مجھے
بعدازاں محترمہ شہناز مزمل صاحبہ کو مدعو کیا گیا کہ آپ اپنے کلام اور تبصرہ سے مستفیض فرمائیں۔ آپ نے حسن عسکری کاظمی صاحب کے تبصرہ کے ساتھ اپنا کلام شرکاء محفل کی نظر کیا۔ آپ کے کلام و تبصرہ کے بے حد پسند کیا گیا۔
نمونہء کلام۔
تھے عجیب میرے بھی فیصلے میں کڑی کماں سے گزر گئی
رہے فاصلے مرے منتظر میں تو جسم و جاں سے گزر گئی۔
اس کے بعد دعوتِ کلام دی گئی آج کے مشاعرے کے مہمانِ خصوصی محمد رضوان عالم صاحب کو۔ آپ نے اپنے کلام کے ساتھ خوشحال ناظر صاحب کا لکھا گیا تبصرہ بھی پییش کیا اور خوب داد سمیٹی۔
نمونہء کلام۔
کسی نے عشق کے آغاز میں کہا تھا میاں
تجھے ملا ہے یہی سانپ پالنے کے لیے
محمد رضوان عالم کے بعد مشاعرہ کے دوسرے مہمانِ خصوصی ضیاء شادانی صاحب کو دعوتِ کلام دی گئی۔ آپ نے اپنی غزل کے ساتھ منصور عثمانی صاحب کا تبصرہ بھی پیش کیا۔ سامعین نے آپ کے کلام کو سراہا۔
نمونہء کلام۔
دل دے جو قریب تھے ضیاء
آج کتنی دور ہو گئے
اور آخر میں مشاعرہ کے صدر شہزاد نیر صاحب کو مدعو کیا گیا کہ وہ آئیں اور کلام و تبصرہ کے بعد خطبۂ صدارت سے بھی نوازیں۔
شہزاد نیر صاحب نے ایک ہی ردیف بحر میں دو غزلیں پیش کیں جن پر ابو طالب انیم صاحب نے مفصل تبصرہ کیا۔ حاظرینِ محفل نے دونوں غزلیں اور تبصرہ بہت پسند کیا اور خوب داد دی۔
نمونۂ کلام۔
آسان اٹھانا ہو کہ دشوار اٹھانا
تم بارِ محبت کو لگاتار اٹھانا
بعدازاں شہزاد نیر صاحب نے خطبۂ صدارت سے نوازا اور مشاعرہ بخیر و خوبی انجام کو پہنچا۔
یہ مشاعرہ اب تک کئے گئے ان مشاعروں میں شمار کیا جانا چاہیے جن میں شرکار اور سامعین نے بھرپور دل چسپی کا مظاہرہ کرتے ہوۓ بامِ عروج پر پہنچا دیا۔
اس منفرد پروگرام کا سہرا چیئرمین توصیف ترنل کے ساتھ ساتھ ہر اس شخص کے سر بندھتا ہے جو کسی بھی ذریعہ سے پروگرام کا حصہ رہا۔
اس موقع پر علیم طاہر صاحب کی روائیتی نظامت اور ناقدین کی مستعدی کی داد نہ دینا بھی زیادتی ہوگی۔
آخر میں توجہ منصفین کی جانب مبذول رہی اور تجسس انتہا کو پہنچا کہ آخر وہ کون خوش بخت ہوگا جسے \”تنقیدِ سخن\” ایوارڈ سے نوازا جاۓ گا۔
اعصاب شکن انتظار کے بعد منصفین نے اپنے فیصلے سے آگاہ کیا اور کامیابی کا ہما جناب محمد رضوان عالم صاحب کے سر بیٹھا اور جون ایلیا ایوارڈ محمد رضوان عالم کی جھولی میں جا گرا۔