علامہ اقبالؒ اورمسلم فلسطین کی گم شدہ میراث

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش

\"7bb95a77-d703-40d5-997b-1c33ef69a258\"
٭ڈاکٹر محمد افتخار شفیع
استاد شعبہ اردو،گورنمنٹ کالج ساہیوال۔
\"iqbal_day_1\"

Abstract:Our National poet Allama Muhammad Iqbal was not only worried about the muslims of Sub contitant but about the whole muslim ummah.He was well aware of the Palestine issue.in this article scholars have probed in to Iqbal,s view about Palestine,s issue
this article reveals the new aspects of Iqbal,s thoughts.

آزادی ہر قوم کا مسلمہ حق ہے۔ ہر قوم کو دیگر اقوام کی بالا دستی اور دباؤ کے بغیر آزادانہ طور پر اپنا نظامِ حکومت چلانے کی مکمل آزادی ہے اور کسی بھی ریاست کے باشندوں کو مذہبی، سیاسی اور سماجی طور پر اپنی زندگی اپنی مرضی کے مطابق گزارنے کا حق حاصل ہے۔ مغربی معاشروں میں رائج آزادی دراصل خوے غلامی ہی کی ایک مبہم سی شکل ہے۔ اصل میں آزادی متحرک ہونے اور تحرک کے احساس سے سرشاری کا نام ہے۔ رابرتو زیلویلونی نے اپنی کتاب Self-Determination میں آزادی کے موضوع پر کچھ اس طرح روشنی ڈالی ہے:
To be and to be free are the same thing for a person. When we act freely, we not only understand the act, but we also feel we have the power of evoking motives and making them our own. ۱ ؎
فرد سے قوم تک آزادی کے اس حق کو تسلیم کرنے کے باوجود، اس کے منفی پہلو نوآبادیاتی نظام کی شکل میں وقوع پذیر ہوئے۔ طاقت ور اقوام نے کم زور ریاستوں کو ان کے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات کی شکل میں دیتے ہوئے مختلف زاویوں سے ان کی آزادی کو سلب کیے رکھا۔ ان کم زور اقوام کی غلامانہ ذہنیت کو پُروقار قسم کا چغہ پہنانے کے بے شمار طریقے بھی ایجاد کیے گئے۔
خطہ فلسطین بھی بدقسمتی سے ان علاقوں میں شامل ہے، جو عرصہ دراز سے اقوامِ عالم کی بے حسی اور عدم توجہی کا شکار ہے۔ فلسطین مذہبی، لسانی اور تہذیبی لحاظ سے مسلم تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ اس کا رقبہ ۲۷۰۰۹؍ کلومیٹر کو محیط ہے۔ اس کے مشرق و شمال میں جہاں پہاڑوں کا طویل سلسلہ ہے، وہیں مغربی علاقہ اپنی زرخیزی اور ہموار زمینوں کی بدولت نباتات سے مالامال ہے۔ یوں تو فلسطین کے بہت سے شہر تاریخی پس منظر اور جغرافیائی اہمیت کے حامل ہیں، لیکن ’القدس‘ سب سے مشہور و معروف ہے۔ قبۃ الصخرہ اور مسجد عمرؓ اسی شہر میں واقع ہیں۔ ’القدس‘ سے متصل دوسرا شہر ’الخلیل‘ ہے، جس میں مسجد ابراہیم ہے۔ اس شہر کی وجہِ تسمیہ بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ آپؑ کا مزارِ اقدس بھی یہیں واقع ہے۔
فلسطین امن اور آشتی کا گہوارہ اور صدیوں سے مسلم دنیا کا حصہ رہا ہے۔ مسلم اقتدار کے زیرِ اثر تینوں آسمانی مذاہب کے پیروکار یہاں امن کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔ آج کے فلسطین کا المیہ یہ ہے کہ استعماری سازشوں سے آج یہ ملک صرف تاریخ کے صفحات پر موجود ہے۔ فلسطین اتھارٹی محدود اختیارات رکھنے کے باوجود، زمین سے محروم ہے، جو کسی بھی ریاست کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ فلسطین میں مسلمانوں کی اکثریت تھی، لیکن ۱۸۷۸ء میں حیفہ کے مقام پر پہلی نوآبادکار بستی بسائی گئی۔ ۱۸۹۶ء میں ویانا کے صحافی تھیوڈورہرزل نے سب سے پہلے فلسطین میں یہودی ریاست کے قیام کی تجویزپیش کی۔ اپنی رپورٹ میں اس نے کہا تھا:
مجھے یہ یقین ہے کہ ہم ایک دِن کرّۂ ارض پر ایک یہودی ریاست قائم کر کے ہی دم لیں گے؛ چاہے وہ ارجن ٹینا میں ہو یا فلسطین میں؛ اس ریاست کے قیام کے بغیر دنیا بھر کے یہودی آزادی، عزت اور خوش حالی کی زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوں گے۔ ۲ ؎
ہرزل نے صرف اپنی رپورٹ پر ہی اکتفا نہیں کیا، بلکہ برطانیہ سمیت دنیا بھر کی بڑی طاقتوں کی حمایت بھی حاصل کر لی۔ ہرزل نے اپنی سفارت کاری کے ذریعے اُس وقت کی عثمانی سلطنت کو فلسطین کے بدلے استنبول میں ایک جدید طرز کی یونی ورسٹی کے قیام اور اس کے تمام غیر ملکی قرضے ادا کرنے کی تجویز بھی پیش کی، جسے سلطان عبدالحمید ثانی نے مسترد کر دیا۔ سلطان نے فلسطین میں آنے والے یہودی زائرین کے لیے سرخ پاسپورٹ کا اجرا بھی کیا، جس کی وجہ سے کسی یہودی کو تین ماہ سے زیادہ فلسطین میں قیام کی اجازت نہ تھی۔ ان تمام کوششوں کے باوجود، بین الاقوامی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان قوتوں نے ترکی کی ’ینگ ترک پارٹی‘ میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کر کے سب سے پہلے سلطان عبدالحمید ثانی عثمانی کو معزول کیا۔ اس کے بعد شریف مکہ کے ذریعے عربوں کی آزادی اور اتحاد کی تحریک کی داغ بیل ڈالی۔ برطانیہ ایک طرف شریف مکہ کے ساتھ مذاکراتی عمل سے گزر رہا تھا تو دوسری طرف اس کے عالمی صیہونی اداروں سے بھی مکمل رابطے تھے۔ اس سلسلے میں برطانیہ کی یہودیوں سے جو گفت و شنید ہوئی، اس کا نتیجہ وہ خط ہے، جو برطانوی سیکرٹری خارجہ مسٹر بالفور نے روتھ شیلڈ کو لکھا۔ خط میں کہا گیا تھا:
His mejesty\’s Government view with favour the esteblishment in Palestine of a national home for the Jewish people, and will use their best endeavours to facilitate the achievement of this object. ۳ ؎
اعلانِ بالفور کے ساتھ ہی دنیا کے مختلف ممالک کے یہودی ایک سیلاب کی شکل میں فلسطین کی طرف اُمڈ پڑے۔ شہری علاقوں اور منڈیوں سے بتدریج عربوں کی بے دخلی شروع ہوئی۔ ۱۹۲۰ء میں منعقدہ مشرقِ وسطیٰ کانفرنس میں ڈاکٹر ویزمین نے اس سوال… ’اسرائیل کے قیام کے بعد عربوں کا حشر کیا ہو گا؟‘ … کے جواب میں کہا: گو ہم فلسطین کو خالص یہودی ریاست بنانا چاہتے ہیں، اس کے باوجود جو عرب فلسطین میں رہنا چاہیں گے، انھیں اس کی اجازت ہو گی؛ لیکن جو نہیں رہنا چاہیں گے، ان کے لیے مصر ہے، شام ہے اور موآب کی پہاڑیوں کے اُفق سے اُس پار وسیع صحرا ہے، جہاں سے آکر وہ یہاں آباد ہوئے تھے۔ ۴ ؎
نومبر ۱۹۱۶ء میں شریف ِ مکہ کی عمل داری کا اعلان ہو چکا تھا، لیکن ’اعلانِ بالفور‘ نے اسے بدظن کر دیا۔ جنگ جاری تھی اور شریف ِ مکہ اور اس کے حواری اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے تھے۔ جنگ کے خاتمے پر شریف حسین کو یقین دلایا گیا کہ برطانیہ عرب اقوام کے اتحاد کا خواہش مند ہے۔ دسمبر ۱۹۱۷ء تک برطانیہ جنوبی اور مرکزی فلسطین پر مکمل طور پر قابض ہو چکا تھا، جس میں یروشلم بھی شامل تھا۔ برطانوی فوج کے سپہ سالار لارڈ ایلن بے نے فاتح کی حیثیت سے پرانے شہر کا دَورہ کیا اور کہا: آج صلیبی جنگیں ختم ہو گئی ہیں۔ ۵ ؎
فلسطینی عوام نے ملک پر برطانوی راج اور اعلانِ بالفور کے ذریعے فلسطین میں یہودی آبادکاری کی شدید مخالفت کی۔ فلسطین کی قومی تحریک بھی انھی خطوط پر پروان چڑھی۔ فلسطین کی قومی تحریک کا باقاعدہ آغاز ۲۷؍جنوری سے ۱۰؍فروری ۱۹۱۹ء تک یروشلم میں منعقد ہونے والی پہلی عرب فلسطین کانفرنس کے موقع پر ہوا۔ ۱۹۱۹ء سے ۱۹۲۸ء تک ایسی سات کانفرنسیں ہوئیں، جن کے نتیجے میں موسیٰ کاظم الحسینی اور الحاج سید امین الحسینی تحریک آزادیِ فلسطین کے قائدین کی حیثیت سے منظر عام پر آئے۔یہودی آبادکاری کے خلاف اس تحریک کو بُری طرح کچل دیا گیا اور اس کے قائدین کو شہید کر دیا گیا۔۶ ؎ اس کا ردِ عمل مسلح مزاحمت کی شکل میں ہوا۔ برطانوی قیادت کے خلاف مسلح جدوجہد کا باقاعدہ آغاز فلسطینیوں کی خفیہ تنظیم ’الجہادیہ‘ نے کیا، جس کی قیادت شیخ عزالدین القسام کر رہے تھے۔ شیخ کی رہنمائی میں فلسطینی جدوجہد کو یک سوئی اور اتحاد کی دولت میسر آئی۔
شیخ القسام ۲۰؍نومبر ۱۹۳۵ء میں برطانوی حکومت سے آزادی کے حصول کی جدوجہد میں شہید ہو گئے۔ ان کی مزاحمت مختصر عرصے کے لیے تھی، لیکن اس جدوجہد اور خود شیخ کی شہادت کے دُور رَس اثرات مرتب ہوئے اور مسلح جدوجہد کا دائرہ کار پھیلتا چلا گیا، یہاں تک کہ برطانیہ کا اس پر قابو پانا مشکل ہو گیا اور اس نے اپنے اتحادی عرب حکمرانوں سے مدد چاہی۔ عرب حکومتیں عملی طور پر برطانیہ کی حامی تھیں، چناںچہ انھوں نے فلسطینی عوام سے بغاوت ختم کرنے کی اپیل کی۔ بقول ظفر الاسلام خاں، عرب کے شاہ سعود، عراق کے شاہ غازی اور اردن کے امیر عبداللہ نے اکتوبر ۱۹۳۶ء میں ایک ہی جیسی اپیلوں کے ذریعے فلسطینی عوام سے درخواست کی کہ وہ برطانیہ کے خلاف مسلح بغاوت ختم کر دیں۔ ۷ ؎
فلسطین میں ہونے والی بغاوت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا جائزہ لینے کے لیے ’شاہی کمیشن‘ تشکیل دیا گیا۔ فلسطینی عربوں نے اس کمیشن کا بائیکاٹ کیا۔ ’شاہی کمیشن‘ نے جولائی ۱۹۳۷ء میں تقسیم فلسطین کی تجویز پیش کی۔ کمیشن کے مطابق، فلسطین کا تین حصوں میں تقسیم کیا جانا ضروری تھا۔ اپنی تجویز میں کمیشن نے کہا تھا کہ اس سارے قضیے کے تین فریق، یعنی برطانیہ، عرب اور یہودی ہیں۔ فلسطین کا ایک ایک حصہ ان میں بانٹ دیا جانا ضروری ہے۔ ۸ ؎
تقسیم فلسطین کی تجویز کو نہ صرف فلسطینی عوام نے رَد کر دیا، بلکہ عالمِ اسلام میں بھی اس کا شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ برعظیم پاک و ہند کے عوام و خواص میں قومی بیداری کے جذبات اُن دِنوں عروج پر تھے۔ انھیں اپنے ملّی شعور کا بھرپور ادراک ہو چکا تھا۔ اردو شاعری میں بھی یہی ملّی و قومی شعور نہ صرف برعظیم کی مسلم قومیت کے فکر و عمل کی نمایندگی کر رہا تھا، بلکہ دنیا کے دیگر اسلامی ممالک میں موجود مظلوم مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا بھی اپنا قومی فریضہ سمجھتا تھا۔ ڈاکٹر ساجد امجد کے خیال میں:
ہماری ملّی شاعری کا ایک پہلو وہ ہے، جس میں ہندستان کے علاوہ دوسرے خطوں میں بسنے والے مسلمانوں کی حمایت میں آواز بلند کی گئی ہے اور ہمارے بعض شعرا نے صحیح ملّی شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ان مسلمانوں کے دُکھ درد کو محسوس کیا ہے، محض اس لیے کہ بہ لحاظ مذہب یہ بھی ہماری ملّت کے افراد ہیں۔ فلسطین و اہل فلسطین، جو برسوں سے اپنے دشمنوں سے معرکہ آرا ہیں، مسلمانوں کے لیے نہایت جذباتی موضوع ہے۔ ۹ ؎
برعظیم میں اقبال پہلے شاعر تھے، جن کی جدید مشرقی اورمغربی علوم پر یکساں دسترس تھی۔ وہ نو آبادیاتی نفسیات اور سامراجی چالوں سے خوب آگاہ تھے، اس لیے ان کی شاعری اور نثر میں نوآبادیاتی سوچ کے بارے میں منطقی اور سائنسی اظہار ملتا ہے۔ انھوں نے فلسطین کی صورتِ حال پر مسلسل نظر رکھی۔ اقبال کے وسیع ترین ملّی شعور میں جنگ بلقان طرابلس غرب پر اٹلی کے حملے اور فلسطین کے مسئلے نے ایک طوفان بپا کیے رکھا۔ فلسطین اور دیگر مسائل کے بارے میں اپنی راے کا اظہار انھوں نے ہر فورم پر کیا۔ اقبال کے پس کربیے (nostalgia)کا سنہری حصہ ان کا دوسری گول میز کانفرنس سے واپسی کے سفر میں مصرسے بہ ذریعہ ریل فلسطین روانہ ہونا اور وہاں نو روز کا قیام بھی ہے۔ اس سفر میں مولانا غلام رسول مہر، مولانا شوکت علی اور حافظ عبدالرحمن ان کے ہم رکاب تھے۔ اس دَورے کا مقصد مفتی اعظم فلسطین، سید امین الحسینی کی دعوت پر مؤتمر عالم اسلامی میں شریک ہونا تھا۔

فلسطین میں قیام کے دَوران انھوں نے یروشلم کے مقاماتِ مقدسہ، کلیساے مولد مسیح، بیت اللحم میں حضرت داؤد کی جاے ولادت کے ساتھ انبیاے کرام اور ازواجِ مطہرات کی قبور کی زیارت کی۔ کانفرنس کے دَوران انھیں ایک نشست میں نائب صدر بنا کر اسٹیج پر بٹھایا بھی گیا۔ ۱۰ ؎
فلسطین میں منعقدہ کانفرنس کے مندوبین میں اقبال کو بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ انھیں کئی سرکاری اور نجی ظہرانوں اور عصرانوں میں معزز مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا۔ اقبال کا دَورئہ فلسطین میں فطری انہماک دیکھنے والا تھا۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مطابق:
القدس کے دارالاتیام میں اقبال اور مہر صاحب نے بچوں کی بنائی ہوئی اشیا دیکھیں اور مختلف شعبوں کا معائنہ کیا۔ یہاں نابیناؤں کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی تھا۔ ادارے کی طرف سے آپ کو قرآنِ مجید کا ایک خوب صورت نسخہ ہدیہ کیا گیا۔ اقبال نے مٹھائی کے لیے پانچ پاؤنڈ بچوں کی نذر کیے۔ اسی طرح ایک شب فتح اندلس کے متعلق ڈراما دِکھایا گیا اور حاضرین کے اصرار پر علامہ اقبال کو بھی ڈرامے کی مناسبت سے فارسی قطعہ بعنوان ’الملک للہ‘ سنانا پڑا۔ ۱۰؎
اقبال کی معروف نظم ’ذوق و شوق‘ ان کے سفر فلسطین کا ماحصل ہے۔ اس نظم کے اکثر اشعار فلسطین میں لکھے گئے۔ اس نظم میں فلسطین کی نارنگیوں کے باغات، گرم پانیوں کے چشمے اور تاریخی مقامات، حسن کا ایک خوب صورت تلازمہ بنتے دِکھائی دیتے ہیں:
قلب و نظر کی زندگی ، دشت میں صبح کا سماں
چشمۂ آفتاب سے نور کی ندّیاں رواں

حسن ازل کی ہے نمود ، چاک ہے پردئہ وجود
دل کے لیے ہزار سود ، ایک نگاہ کا زیاں

سرخ و کبود بدلیاں چھوڑ گیا سحابِ شب
کوہ اضم دے گیا رنگ برنگ طیلساں

گرد سے پاک ہے ہَوا ، برگ نخیل دھل گئے
ریگِ نواحِ کاظمہ نرم ہے مثل پرنیاں
۱ ’ذوق و شوق‘ کے پس منظر میں ’فلسطین کے حسن ازل‘ کی تفہیم کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمغنی رقم طراز ہیں:
اقبال کے زبردست تمثیلی احساس اور واقعیت و حقیقت پسندی کا کمال ہے کہ فلسطین کی مناسبت سے انھوں نے عرب ہی کے ریگ زار کی تصویر کشی کی ہے، جب کہ یہی تصویر نظم کے موضوع و مقصود کے لیے بھی موزوں ترین ہے ۔۔۔اقبال نے سرزمینِ فلسطین پر وہاں کے جغرافیے اور تاریخ کی روشنی میں فطرت کی ایک نہایت دِل نواز اور خیال انگیز تصویر کھینچی ہے اور وہ منظر ایسا حسین اور دِل کش ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے انسان اس میں کھو جاتا ہے۔ ۱۲؎
تقسیم فلسطین کی سازش سامنے آئی تو اقبال کا صدمہ دیدنی تھا۔ اپنے ایک خط میں قائد اعظم محمد علی جناح کو لکھتے ہیں:
مَیں فلسطین کے مسئلے کے لیے جیل جانے کے لیے تیار ہوں، اس لیے کہ مَیں جانتا ہوں کہ فلسطین نہ فقط ہندستان کے لیے، بلکہ اسلام کے لیے بہت عظیم ہے … یہ ایشیا کا دروازہ ہے، جس پر بُری نیت سے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ ۱۳؎
تقسیم فلسطین کی تجویز کے دِنوں میں اقبال کی صحت خاصی بگڑ چکی تھی۔ یہ ان کی زندگی کے آخری ایام تھے، اس کے باوجود، وہ اس صورتِ حال سے مسلسل بے چین اور افسردہ رہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کے مطابق:
اپنی زندگی کے آخری ایام میں اقبال کو تقسیم فلسطین کے تصور نے مسلسل بے چین رکھا۔ اقبال نے اُس وقت ہی سے فکری اور عملی پیش بندیاں شروع کر دی تھیں، جب برطانوی سامراج ابھی مسئلہ فلسطین ایجاد کرنے میں کوشاں تھا۔ اس محاذ پر بھی اقبال انے اپنی سیاسی فکر اور اپنے فنی اعجاز سے کام لیا، مگر برطانیہ اور دنیاے عرب میں راے عامہ کی بیداری اور کُل ہند مسلم لیگ کی عملی جدوجہد کے باوجود، برطانوی سامراج اپنے ارادوں پر قائم رہا۔ ۱۴؎
اقبال ۳۰؍جولائی ۱۹۳۷ء کو فارکوہرسن کے نام اپنے خط میں فلسطینی عوام کی وکالت کرتے ہوئے کہتے ہیں:
عربوں کے ساتھ جو ناانصافی کی گئی ہے، مَیں اس کو اسی شدت سے محسوس کرتا ہوں، جسے مشرق قریب کے حالات کا تھوڑا بہت علم ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ ابھی پانی سر سے نہیں گزرنے پایا۔ انگریز قوم کو بیدار کر کے اس بات پر آمادہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اُن وعدوں کو پورا کرے، جو اس نے انگلستان کے نام پر عربوں سے کیے ہیں۔ ۱۵؎
حضرت علامہ کے خیال میں فلسطین اور فلسطینی عوام کے حقوق غصب کرنے میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ مجلس اقوامِ عالم(League of Nations) اور عرب ملوکیت بھی برابر کے شریک تھے، چناںچہ ایک شعر میں کہتے ہیں:
یہی شیخ حرم ہے ، جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیم بوذرؓ و دلقِ اویسؓ و چادرِ زہراؓ
ایک جگہ عرب ممالک کے بادشاہوں اور ان کی پالیسیوں پر طنز کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں:
عربوں کو چاہیے کہ اپنے قومی مسائل پر غور و فکر کرتے ہوئے عرب ممالک کے بادشاہوں کے مشوروں پر اعتماد نہ کریں، کیوںکہ بحالاتِ موجودہ ان بادشاہوں کی حیثیت ہرگز اس قابل نہیں ہے کہ وہ محض اپنے ضمیر و ایمان کی روشنی میں فلسطین کے متعلق کسی فیصلے یا کسی صائب نتیجے پر پہنچ سکیں۔ ۱۶؎
’اقوامِ متحدہ‘ کی پیش رَو ’مجلس اقوامِ عالم‘ کا رویہ بھی مسئلہ فلسطین پر انتہائی سردمہری سے عبارت تھا۔ اقبال اس کامکمل
مکمل ادراک رکھتے تھے، چناںچہ اس کی پالیسیوں اور رویوں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
لیگ آف نیشنز (جمعیت اقوامِ عالم) کو چاہیے کہ بیک آواز اس ظلم و طغیان کے خلاف صداے احتجاج بلند کرے اور برطانوی باشندگان کو سمجھائے کہ عربوں سے ناانصافی نہ کریں۔ ۱۷؎
حضرت علامہ کی شاعری میں، عالمی منظر نامے میں جمعیت اقوامِ عالم کے منفی کردار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ نمونے کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:
اس دَور میں اقوام کی صحبت بھی ہوئی عام
پوشیدہ نگاہوں سے رہی وحدتِ آدم

تفریقِ ملل ، حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصد ہے فقط ملتِ آدم

مکے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیت اقوام کہ جمعیتِ آدم

تہران ہو گر عالمِ مشرق کا جنیوا
شاید کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے
مسئلہ فلسطین کے حوالے سے ادبی منظر نامے پر جو آوازیں اٹھیں، وہ زیادہ تر آہ و بکا، شور و غوغا یا طنزیہ اسلوب کی غمازی کرتی ہیں؛ جب کہ حضرتِ علامہ نے منطقی استدلال اور فلسفیانہ شعور کے ساتھ مسئلہ فلسطین کو شعر و سخن کا موضوع بنایا۔
حضرتِ علامہ ضربِ کلیم میں شامل ایک نظم ’فلسطینی عرب سے‘ میں فلسطینی عوام کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اے فلسطینی عرب! تیرے وجود میں جو شعلۂ جوالہ ہے، اس سے زمانے کو جلا کر خاکستر کیا جا سکتا ہے۔ تیرے مسائل کا حل اہلِ یورپ یا جمعیت اقوام کے پاس نہیں، کیوںکہ یہ دونوں یہودیوں کی معاشی پالیسیوں کے تابع ہیں۔ تو امن کے بجاے اپنی خودی کو بیدار کر، کیوںکہ امتوں کی نجات خودی کی نشو و نما اور تجلی کی مرہونِ منت ہوتی ہے:
زمانہ اب بھی نہیں جس کے سوز سے فارغ
مَیں جانتا ہوں ، وہ آتش تِرے وجود میں ہے

تِری دوا نہ جنیوا میں ہے ، نہ لندن میں
فرنگ کی رگِ جاں پنجہ یہود میں ہے

سنا ہے مَیں نے ، غلامی میں امتوں کی نجات
خودی کی پرورش و لذتِ نمود میں ہے
فلسطین ہر لحاظ سے عالم اسلام کا حصہ ہے، لیکن اسے تاریخی طور پر یہودیوں کی ملکیت ثابت کرنے کے لیے بے شمار تاویلیں پیش کی گئیں۔ کیتھ وہائٹ ولیم نے اپنی کتاب قدیم اسرائیل کی ایجاد میں اس کی جانب اشارہ کیا ہے کہ
اسرائیل مؤثر اور جذباتی انداز میں آثارِ قدیمہ کی دریافتوں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ ۱۸؎
اسرائیل کے قیام کو جائز قرار دینے کے لیے برطانوی حکام نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اسرائیل کی سرزمین عرصہ دراز سے خالی پڑی تھی،یہاں طویل عرصے تک یہودیوں کی حکومت رہی، اس لیے ان کا گذشتہ دو ہزار سال سے اس سرزمین کے ساتھ ایک جذباتی تعلق ہے، اسی بِنا پر یہاں اسرائیل کا قیام ضروری ہے۔ ۱۹؎
اقبال اپنی علمی بصیرت کے سبب مشرقِ وسطیٰ سے متعلق عالمی طاقتوں کے مذموم ارادوں سے بخوبی آگاہ تھے، چناںچہ اسرائیل کے قیام (۱۹۴۸ء) سے کئی سال پہلے ضربِ کلیم میں شامل ایک نظم ’شام و فلسطین‘ میں وہ کہتے ہیں کہ اگر اس دعوے کو تسلیم کر لیا جائے کہ فلسطین پر یہودیوں کا حق صرف اس لیے ہے کہ وہ کبھی یہاں قابض تھے تو پھر ہسپانیہ پہ مسلمانوں کا حق کیوں نہیں تسلیم کیا جاتا، جنھوں نے سات سو سال تک وہاں اپنی حکمرانی کی عمدہ مثال قائم کی۔ ان اشعار میں منطقی انداز سے یہودیوں کے دعوے کی نفی کی گئی ہے:
زندانِ فرانسیس کا مے خانہ سلامت
پُر ہے میِ گُل رنگ سے ہر شیشہ حلب کا

ہے خاکِ فلسطیں پہ یہودی کا اگر حق
ہسپانیہ پہ حق نہیں کیوں اہل عرب کا

مقصد ہے ملوکیتِ انگلیس کا کچھ اَور
قصہ نہیں تاریخ کا یا شہد و عنب کا
اقبال کی اپنے عہد کے معروضی حالات پر گہری نظر تھی اور یہ شعور رکھتے تھے کہ خوے غلامی ایک نسل سے دوسری نسل میں سرایت کر جاتی ہے اور رفتہ رفتہ امتیں اس جرأتِ رندانہ سے محروم ہو جاتی ہیں، جن سے ان کا اجتماعی تشخص ابھرتا ہے۔
قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ اقبال کی شاعری کے ماخذ و مصادر میں قرآن سب سے مقدم ہے، اس لیے فلسطین سے ہزاروں کوس دُور ہونے کے باوجود فلسطینی بھائیوں کے غم و اندوہ میں شریک ہونا عین فطرتِ اقبال کا حصہ ہے اور بجز نکتہ ایمان کی تفسیر کے اَور کچھ نہیں۔

حواشی اور تعلیقات:

1۔ Roberto, Zaroleoni, Self-Determination, Tranlated by Vigiliobiasial, Chicago: Forum Books, 1963, p-6
۲۔ ڈاکٹر خالد سہیل: ایک باپ کی اولاد۔ لاہور: گورا پبلشرز، ۱۹۹۴ء۔ ص ۶۱
۳۔ Dr. M Saleh Mosin, History of Palestine, Cairo, Al-Fala Foundation, 2005, p-355
۴۔ ممتاز لیاقت: تاریخ بیت المقدس۔ لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۱۹۸۳ء۔ ص ۲۴۶
۵۔ بالکل اسی طرح ۱۹۲۰ء میں شاہ فیصل سے دمشق چھین کر جنرل گوراؤ سب سے پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی کے مزار پر گیا اور اپنا جوتا قبر پر رکھ کر بولا: ادھر دیکھ صلاح الدین! ہم واپس آ گئے ہیں۔
اسی طرح ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد امریکی صدر جارج بش کے منہ سے ’صلیبی جنگوں‘ جیسے الفاظ نکلے، جنھیں بعد میں ’زبان کے پھسل جانے‘ سے تعبیر کیا گیا، حالاںکہ جدید دَور میں بھی صلیبی جنگوں کے عہد کا تعصب آج کے امریکا اور یورپ کے تہذیبی لاشعور کا حصہ ہے۔
۶۔ حکومتِ برطانیہ نے اس مزاحمت کو کچلنے کے لیے باقاعدہ فوج استعمال کی۔ دونوں قائدین کو گرفتار کر لیا ۔ سید موسیٰ کاظم الحسینی کو اس قدر سنگ دلی سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہو گئے۔ اُس وقت ان کی عمر اکیاسی برس تھی۔ علامہ اقبال کے دَورئہ فلسطین کی میزبانی کے فرائض بھی موسیٰ کاظم الحسینی اور امین الحسینی نے انجام دیے تھے۔
۷۔ ظفر الاسلام خاں: فلسطین کا تاریخی جائزہ ۔ مترجمہ آصف فرخی۔ مطبوعہ کراچی: دنیا زاد، شمارہ۴، نومبر ۲۰۰۱ء۔ ص ۴۶
۸۔ ایضاً، ص ۴۷
۹۔ ڈاکٹر ساجد امجد: اردو شاعری پر برصغیر کے تہذیبی اثرات۔ لاہور: الوقار پبلی کیشنز ۲۰۰۴ء، ص ۱۱۲
۱۰۔ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی: علامہ اقبال: شخصیت اور فکر و فن۔ لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۲۰۱۰ء(دوم)۔ ص ۱۸۵
۱۱۔ ایضاً، ص ۱۸۸
۱۲۔ ڈاکٹر عبدالمغنی: اقبال اور عالمی ادب۔ لاہور: اقبال اکادمی پاکستان، ۱۹۸۲ء۔ ص ۲۷۳
۱۳۔ پروفیسر حمید رضا صدیقی: اقبال کی سیاسی بصیرت۔ ملتان: بیکن بکس، ۲۰۰۵ء۔ ص ۴۱
۱۴۔ فتح محمد ملک: فلسطین اردو ادب میں۔ لاہور: سنگ میل پبلی کیشنز، ۲۰۰۰۔ ص ۹
۱۵۔ ایضاً، ص ۲۳۳
۱۶۔ ایضاً، ص ۱۰
۱۷۔ ایضاً، ص ۲۳۷
۱۸۔ ڈاکٹر مبارک علی: اسرائیل اور فلسطین، تاریخ نویسی کے رجحانات، مطبوعہ کراچی: دنیا زاد، شمارہ ۴، نومبر ۲۰۰۱ء۔ ص ۶۴

Leave a Comment