٭ عالم نقوی،علی گڑھ
یہ عنوان عزیزی اسد رضا کے مضمون سے مستعار ہے جو سہ ماہی جریدے ’تحریک ادب ‘بنارس کے تازہ ترین شمارے (جنوری ۔مارچ ۲۰۱۷) کے ’گوشہ صغیر افراہیم ‘ کی زینت ہے ۔انہوں نے درست لکھا ہے کہ وہ علمی و ادبی ہر لحاظ سے اپنے نام کے اَولین جزو کے بر خلاف ’’کبیر و علیم ‘‘ہیں اور اپنے بے شمار ’مناصب ِاَعلیٰ ‘،’ صفاتِ جلیلہ ‘اور ’اِعزازات ِکثیرہ ‘کے باوجود ہر قسم کے غرور و تکبر سے پاک اور اپنے نام کے دوسرے جزو ’افراہیم ‘ کے عین مطابق ہیں جس کے معنی ہیں وہ’ ’سدا بہار درخت جو ہمیشہ سر سبز و شاداب اور بار آور رہے !‘‘ پروفیسر صغیر افراہیم کا دامن ِعلم بھی ادب کے پھولوں اور تنقید و تحقیق کے پھلوں سے کبھی خالی نہیں رہتا ۔
ہمارے نزدیک اُن کا سب سے بڑا وصف یہ ہے کہ وہ ایک اچھے ، سچے ، وعدے کے پکے اور عہد کے پابند،مخلص ملنسار ،منکسر مزاج اور حد درجہ خوش اخلاق انسان ہیں جس میں اَنا پرستی ،فریب دِہی اور گھمنڈ نام کو بھی نہیں ۔ کوئی خواہ کتنا ہی بڑا ادیب و دانشور ہو لیکن جھوٹا اور مکار ہو ،عہد اور وعدے کی پابندی کی اعلیٰ انسانی و اخلاقی قدروں سے نا آشنا ہو تو اس کا بڑا ہونا کسی کام کا نہیں ۔بڑے ادیب ،شاعر ،نقاد اور دانشور کا بڑا انسان ہونا بھی ہمارے نزدیک لازمی ہے اور صغیر افراہیم جتنے بڑے ادیب و نقاد ہیں اس سے کہیں زیادہ بڑے اور اچھے انسان ہیں ۔سو ہمیں وہ اسی لیے عزیز ہیں ۔
وہ خود کو کسی مخصوص گروپ اور کسی خاص ’اِزم ‘ سے وابستہ نہیں کرتے ۔نہ ترقی پرستوں اور جدیدیوں سے اور نہ ’ ما بعد جدیدیوں‘ کی بو ا لعجبیوں سے ۔شاید اِس کا ایک سبب اُن کے اُستاد قاضی عبد ا لستاربھی ہیں جنہوں نے سید محمد اشرف ،طارق چھتاری،ابن کنول اور صغیر افراہیم جیسے اپنے سبھی اَرشد و با صلاحیت تلامذہ کو ’ترقی پرستوں اور جدیدیوں‘ دونوں کے ’چکر ویوہ ‘ میں پھنسنے سے محفوظ رکھااور اِسی لیے آج وہ نام نہاد ’مابعد جدیدیت ‘ کے پُر فریب اور لا یعنی گورکھ دھندے سے بھی محفوظ ہیں !
صغیر افراہیم نے خود اپنے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے ’’کبھی اس جانب توجہ نہیں دی کہ فلاں کا مسلک کیا ہے ،عقیدہ کیا ہے ،علاقہ کون سا ہے اور وہ کس گروہ سے تعلق رکھتا ہے ۔صرف اتنا کافی تھا کہ علیگ ہے ،دوست ہے ،اپنا ہے ۔لیکن ۔وہ بلائے بے درماں جو حسد اور غیبت کے نام سے جانی جاتی ہے اور جس کے پیچھے پڑ جائے اس کا ناطقہ بند کر دیتی ہے اس نے میرا پیچھا بھی شروع کردیا ۔۔کب حفاظتی حصار ٹوٹا اور بلائے ناگہانی کا منحوس سایہ مجھ پر پڑا ،احساس ہی نہیں ہوا ۔ وائس چانسلر سید حامد صاحب (مرحوم تھے ،اُن) کو روداد سنائی ۔بے حد فعال ہونے کے باوجود وہ اِس وبا کو ختم نہیں کر سکے البتہ سائنسی اپروچ بروئے کار لاتے ہوئے ترجمے کی جانب (میرے) ذہن کو راغب کر دیا ۔آرٹس کا طالب علم ہوکر کس طرح میں نے سائنسی (مضامین ) کے ترجمے کیے ۔۔آج بھی حیرت محسوس کرتا ہوں ۔وہ تمام ترجمے ماہنامہ ’تہذیب ا لا خلاق ‘ میں دو ڈھائی سال تک چھپتے رہے نتیجتاً خصوصی انعام برائے مضمون ’سائنس اور اسلام ‘ (جنوری ۱۹۸۸) اور دو خصوصی انعامات برائے ترجمہ ’کائنات ،تخلیق اور زندگی ‘اور ’لیزر سرجری ‘ (۱۹۸۹)حاصل کیے ۔ پہلے تنقیدی مضامین افسانے کی راہ میں حائل ہوئے پھر سائنسی تراجم نے رکاوٹ کھڑی کر دی مگر آل انڈیا ریڈیو کی حوصلہ افزائی ۔۔کی بنا پر کہانیاں ضرور لکھتا اور سناتا رہا ۔لیکن یہ سلسلہ بھی ذاتی مصروفیات کے سبب گزشتہ دس بارہ برسوں سے بند ہے ‘‘(۱)
پروفیسر عتیق اللہ نے ان کی کتاب’ اردوشاعری :تنقید و تجزیہ (۲۰۱۳)‘کے مقدمے میں اسی ناگفتنی کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’ہماری یونیورسٹیوں کے اردو شعبے سیاسی اکھاڑے بن گئے ہیں ۔علم جو کبھی ہمارا مسئلہ ہوا کرتا تھا اور ادب جو ہمارے لیے روحانی غذا سے کم نہ تھا جس کی حیثیت ایک ’گراں اَرز ‘تہذیبی قدر کی تھی ،اس کی جگہ سیاست نے لی ہے ۔ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا ،ایک دوسرے کے کردار کو مسخ کرنا ،ہر کسی پر بغیر کسی تصدیق و تحقیق کے تہمت لگانا اور اسے موقع بے موقع موضوع بحث بنانا اب ہمارا (یونیورسٹی کے شعبہ ہائے اردو کے اساتذہ کا ) یہی کام رہ گیا ہے ۔(البتہ ) کچھ ایسے بھی اساتذہ ہیں جو درس و تدریس کے فرائض ادا کرنے کے ساتھ علمی کاموں کے لیے بھی وقت نکال لیتے ہیں (اور ) ادب جب شوق بن جائے تو پھر کسی اور شوق کی ضرورت ہی نہیں رہتی ۔ہم ،ہمیشہ کے لیے ،جیسے آباد ہوجاتے ہیں ۔لفظوں میں جینا ،خود ایک سعادت ہے (اور ) جسے یہ سعادت حاصل ہے اسے دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھتا ہوں ۔ اور مجھے خوشی ہے کہ صغیر افراہیم نے لفظوں سے اپنا رشتہ استوار رکھا ہے (۲)
آگے بڑھنے سے پہلے ،اِس جگہ ہم ایک وضاحت ضروری سمجھتے ہیں ۔ہم نے اوپر دو جگہ رائج اصطلاح ’ترقی پسندوں‘ کے بجائے جان بوجھ کر ’ترقی پرستوں ‘ کا استعمال کیاہے ۔وجہ یہ ہے کہ’ ترقی پسندی‘ تو ایک مثبت قدر ہے لیکن جو لوگ کبھی ترقی پسندی کا دعویٰ کرتے اور خود کو ’ترقی پسند‘ کہلاتے تھے اُن میں سے بیشتر با لفعل اور با لقوۃ’ترقی کی پرستش‘ میں مبتلا تھے ۔یعنی اُنہوں نے ترقی ہی کو اَپنا اِلہ ٰ بنا رکھا تھا اور ہم خالق و مالک پروردگار اللہ کے سواکسی کی پرستش کے قائل نہیں۔ خواہ وہ ترقی ہو یا قوم ،انسان ہو یا سائنس ۔ہم ،ہر اُس ’اِزم‘ کے خلاف ہیں جس نے بذات خود ایک ’سیکولر مذہب ‘ کا روپ دھارن کر رکھا ہے ۔ ہمارے نزدیک اچھا ادب خود ہی اپنی حیات ِجاوید کا ضامن ہے ۔اُسے خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا ۔ اچھا ادب ترقی پسند بھی ہوگا اور جدید بھی،وہ کبھی اَز کار رفتہ اور ’ کِرم خوردہ‘ نہیں ہو سکتا ۔
صغیر افراہیم نے اپنی تنقید اور تخلیق دونوں کو روایتی تنقیدی ڈَھرے سے محفوظ رکھا ہے ۔اُن کے اُستاد قاضی عبد ا لستار نے ڈاکٹر سیما صغیر کو دیے ہوئے اپنے ایک انٹرویو میں ،جو سہ ماہی تحریکِ اَدَب کے اُسی شمارہ نمبر ۳۰ ،جنوری ۔مارچ ۲۰۱۷میں شایع ہوا ہے ، اپنے شاگردِ رَشید کے صفات و کمالات کا تذکرہ کرتے ہوئے بعض حقائق کا بر ملا اعتراف کیاہے ۔
مثلاًاُن کا کہنا ہے کہ’’فکشن کے ساتھ اُردو تنقید نے وہی سلوک کیا ہے جو ’’ کِیکَئِی‘‘ نے ’’رام‘‘ کے ساتھ کیا تھا ۔۔وہ دل سوزی اور خوں جگری جو تنقید کو تخلیق کے قریب لے آتی ہے وہ ہنوز ناپید ہے تاہم ،صغیر افراہیم (کے یہاں) اَدَب سے اُس ذوق و شوق کا اِظہار (نظر آتا ) ہے جس کی ’اَرزانی فکشن کی تنقید کو امیر بنا سکتی ہے ‘(کیونکہ ابھی تک) اردو کی سب سے کمزور صنف تنقید(ہی) ہے ۔
قاضی صاحب تنقید کو اَدَب کے دَوڑتے ہوئے گھوڑے کی پیٹھ کے زَخم پر بیٹھی ہوئی مکھی سمجھتے ہیں ! اُن کا کہنا ہے کہ ’تنقید اردو ادب کا بدگوشت ہے۔ تنقید اردو ادب کا فیل پا ہے ۔تنقید ادب کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور اپنے اس قول کے ثبوت میں وہ کہتے ہیں کہ’ تمام عالمی ادب میں عظیم ادب پیدا ہو چکا تھا اُس کے بعد تنقید وجود میں آئی اور جب سے یہ تنقید وجود میں آئی ہے ،عظیم ادب پیدا ہونا بند ہو گیا ہے !‘‘
اَب ظاہر ہے کہ دنیائے تنقید کے بے تاج بادشاہوں وارث علوی،فُضَیل جعفری اورشمس ا لرحمن فاروقی وغیرہُم کو قاضی عبد الستار کی یہ حق گوئی یا تلخ بیانی راس آہی نہیں سکتی لہٰذا قاضی صاحب بھی علوی،جعفری اور فاروقی کو دوسرے درجے کا نقاد مانتے ہیں ۔ان کے نزدیک حالی شبلی ،کلیم ا لدین احمد ،احتشام حسین وغیرہ نقادوں کی پہلی صف کے لوگ ہیں اور باقی سب کا نمبر اُن کے بعد آتا ہے ۔
سکندر احمد مرحوم نے تو ایک بار یہاں تک لکھ دیا تھا کہ ’’وارث علوی کو دھتورے اور گلاب کا فرق بھی نہیں معلوم ‘‘! وارث علوی نے جب قاضی صاحب کے تاریخی ناولوں پر تنقید کی تو یہ صغیر افراہیم ہی تھے جنہوں نے اُتنے ہی پُر زور اَنداز میں اَپنے اُستاد کا دفاع کیا اور اُس تنقید کو مسترد کرتے ہوئے لکھا اور بالکل صحیح لکھا کہ’ ’تاریخی ناول لکھنا ہَر کَس و نا کَس کے بَس کی بات نہیں ‘‘۔
جب وارث علوی نے قاضی صاحب سے برا ہ راست یہ سوال کیا کہ ’انہوں نے تاریخی ناول کیوں لکھے ؟ ‘ گویا تاریخی ناول لکھنا ہی کوئی جرم ہو تو قاضی صاحب نے ’جیسے کو تیسا ‘ کے مصداق اَپنے جواب میں کہا تھا کہ ’’اِسی’ کیوں‘ نے ترقی پسند اَدَب کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکی ‘‘ اور یہ کہ ’’تاریخی ناول وہی لکھ سکتا ہے جسے زبان و بیان پر قدرت حاصل ہواور علم و فضل بھی اِتنا ہو کہ وہ میدان جنگ کی ذرا ذرا سی تفصیل نہ صرف جانتا ہوبلکہ اسے بیان کرنے کی طاقت (اور صلاحیت)بھی رکھتا ہو ۔ لہٰذا وارث علوی نے بھی جل کر اُن کے خلاف ایک سخت مضمون لکھا ۔پروفیسر صغیر افراہیم نے جس کا معقول اور مدلل جواب دیا اور اپنے استاد کے دفاع کا حق ادا کیا ۔
اُستاذی رَشید کوثر فاروقی نے اپنے دوسرے شعری مجموعے ’جدید وجاوداں ‘(۱۹۹۴)کے دیباچے میں میں لکھا ہے کہ ’’کوئی چیز نہ مطلق جدید ہے نہ مطلق قدیم ۔چند نقطہ ہائے نظر ہیں جو لَوٹ لَوٹ کر آتے رہتے ہیں ۔کرامویل کے جدید انگلستان نے بادشاہ چارلس اول کا سر قلم کر دیا اور مذہبی احیاء کے جوش میں تھیئٹر تک بند کر دیے ۔لیکن سترہویں صدی کے نصف ِ آخر میں’جنسی اِنارکی ‘ اپنے شباب کو پہنچ گئی۔ وکٹوریہ کے عہد میں عورت پھر’ آنگن اور انگیٹھی ‘ کی ہو کر رہ گئی ۔ہماری صدی ایک نیا رد عمل ہے جس میں سترہویں صدی کی جنسی آزادی اپنی قبر سے نکل کر دوبارہ ’جدید ‘ بن گئی ہے ۔
معاملہ در اصل یہ ہے کہ اِنسانی فطرت چاہتی تو اِعتدال ہے مگر اِنسان ہر اِنقلاب میں اِنتہا کی طرف چلا جاتا ہے ۔آوارگی سے تنگ آیا تو زِندگی کو ’زِندان ِ بے رَوزَن ‘ بنا ڈالا سانس گھُٹنے لگی تو بد حواسی میں دیواریں ،چھتیں گرا کر بھاگا۔ اور نئی آوارگی سے اُوب کر پَلٹا تو اَپنے آپ پر دوبارہ آکسیجن حرام کرلی۔ لیکن کچھ حقیقتیں بہر حال زندہ و جاوید رہتی ہیں: نَقص و عیب سے اِنسانی فطرت کی بے اطمینانی اور مقاصد ِجلیل و اَقدار ِ پائندہ کا اِحترام، روشن مستقبل کی اُمید ،اِنسانیتِ عامہ کے لیے صلاح و فلاح کا جذبہ ،روحِ کائنات کی موجودگی کا اِحساس، زندگی کی عظیم تر حقیقتوں کے لیے زندگی کی قربانی ،خارج و داخل دونوں میں حُسن کی تلاش ،خیر و حق آج مطلوب ہیں تو کل اُن کے غالب آنے کا یقین ،اندھیرے سے وحشت اور اجالے کی چاہت ۔
سوچنے والے کے لیے زندگی کی حقیقت یہ ہے کہ ماضی مرحوم ہے تو حال موہوم اور مستقبل نا معلوم ۔سچ پوچھیے تو ’جدید ‘ کا کوئی مستقل وجود ہے ہی نہیں۔ وجود یا تو ماضی کا ہے جو یادوں اور یادگاروں میں محفوظ ہے یا مستقبل کا ہے جو ابھی سامنے نہیں آیا ۔ مگر آ کے رہے گا ۔’ حا ل یا جدید ‘ تو بس ’بھاگتا ہوا ‘ لمحہ ہے !
اَب جہاں تک رائج اصطلاح میں (جدیدیت )جدید شاعری ( یاجدیدادب) کا سوال ہے تو حقیقی زندگی کو اپنے تمام تاریک اور روشن چہروں کے ساتھ بے نقاب کرنے کو ہم جدید شاعری ( یاجدیدیت ) نہیں مانتے ۔انگریزی ہندی کے نامانوس الفاظ یا بعض ثقیل ،غریب اور اکثر مہمل لفظیات و تراکیب یا ان کے مُبہَم بے تکے اور بے روح استعمال کو بھی ہم جدید شاعری (یا جدیدیت ) نہیں خرافات سمجھتے ہیں یا پھر زیادہ سے زیادہ ۔۔نہر پر چل رہی ہے پن چکی ۔۔دھُن کی پوری ہے کام کی پَکی ۔۔کے زُمرے والی شاعری ۔ حالانکہ جدیدیت کا دعویٰ کرنے والی مرغا چھاپ اور سورج برانڈ شاعری تو اس لائق بھی نہیں کہ اُسے ’پن چکی ‘ والی شاعری کے زمرے میں بھی رکھا جا سکے ۔ کیونکہ مولوی اسماعیل میرٹھی کایہ شعر ادبی شہکار یا شعری فن پارہ (یا ادب عالیہ و غالیہ کا نمائندہ ) چاہے نہ ہو، کم از کم دُھن کا پورا اور کام کا پکا ہونے کا درس تو دیتا ہے !کسی جنسی دَلدَل ،کسی اِبہام ،کسی سراب ،کسی چیستاں ،کسی معمے یا کسی اَساطیری چکر ویوہ میں تو نہیں پھنساتا ۔کوئی مُتَنَفِس ،بقید ِ ہوش و حواس ایسی کوئی بات ،کوئی کام نہیں کرتا جو اپنا مقصد آپ ہو ! عالمی ادب میں بھی اب یہ حقیقت تسلیم کی جا چکی ہے کہ جو فن پارہ فنی جمالیات کے معیار پر کھرا اُترے ،وہ فن ِ جمیل ہے ۔ اور فنِ جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ اگر وہ کسی اعلیٰ مقصد کا اشاریہ بھی ہو تو وہ بلا شبہ ’’فن ِ عظیم ‘‘ بھی ہے ! اور اعلیٰ مقصد وہی ہے جو زندگی کی عامیانہ سطح ۔خورش و پوشش و نام و نمائش۔۔ سے بلند ہو اوراور جس پر یہ زندگی نِثار کی جا سکتی ہو ‘‘(۳)
پروفیسر صغیر افراہیم اُن گِنِے چُنِے معدودے چند خوش نصیبوں میں سے ہیں جن پر اُن کی زندگی ہی میںبا قاعدہ ریسرچ کی جا چکی ہو ۔ایسے لوگوں میں سے ایک ذات گرامی تو ابن سینا اکیڈمی کے بانی ڈائرکٹر پروفیسر ظل ا لر حمن ہی کی ہے جو آج اتفاق سے اِس محفل میں موجود نہیں ہیں جو ’’صغیر افراہیم کا تنقیدی شعور ‘‘ کے اِجراء کے لیے سجائی گئی ہے۔یہ ڈاکٹر مظفر اقبال کے تحقیقی مقالے پر مشتمل اُس کتاب کا نام ہے جس پر انہیں جموں یونیورسٹی نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی ہے ۔ہمیں افسوس ہے کہ ڈاکٹر مظفر اقبال کسی ناگزیر سبب کی بنا پر آج یہاں بہ نفسِ نفیس موجود نہیں ہیں ۔
سہ ماہی جریدہ’ تحریک ادب‘ بنارس اپنے شمارہ نمبر اُنیس اور اِکیس سن دو ہزار چودہ اور شمارہ نمبر تیس دو ہزار سترہ میں پروفیسر افراہیم کے فن اور شخصیت پر تین خصوصی مطالعاتی گوشے شایع کر چکا ہے جن میں مجموعی طور پر دَکتورانِ اَدَب اور اَہلِ علم دانشوروں کے ۳۷ مقالات شامل ہیں ۔اِن میں سے کئی بلا شبہ غیرمعمولی نوعیت کے ہیں لیکن پروفیسر عتیق اللہ اور ڈاکٹرنوشابہ صدیقی، صحافیانِ کرام عشرت ظفراور اسد رضا ، اور مرحوم بنکار ،ادیب اور فکشن کے نقاد دانشور سکندر احمدکے مضامین صغیر افراہیم کی شخصیت ہی کی طرح ممتاز اور منفرد ہیں ۔
صغیر صاحب دسمبر ۲۰۱۵ میں کراچی گئے تھے جہاں بابائے اردو مولوی عبد ا لحق کے خواب کی تعبیر ’اردو یونیورسٹی ‘ کے ڈاکٹر عبد القدیر آڈیٹوریم میں انہوں نے ’ عہد حاضر میں سر سیداور رفقائے سر سید کی معنویت ‘ پر خطاب کیا اور پروفیسر نوشابہ صدیقی کے لفظوں میں ’’ خوب کیا۔ خطاب کے بعد سوال و جواب کا دور شروع ہوا ۔حاضرین کے سوال دل چسپ اور صغیر صاحب کے جواب بے حد معلوماتی اور مطمئن کر دینے والے تھے ۔‘‘ سر سید یونیورسٹی کی سیر کراتے ہوئے انہوں نے صغیر صاحب کو بتایا کہ ’’گلشن اقبال کے علاقے میں واقع سر سید یونیورسٹی کراچی کی چند اہم درس گاہوں میں سے ایک ہے ۔ہر آن سڑک سے گزرتے ہوئے لوگ محسن قوم سر سید کے شکر گزار ہوتے ہیں ۔اُن کے حوالے سے شہر علی گڑھ کی اہمیت اُجاگر ہوتی ہے ۔ہم نے صغیر افراہیم صاحب کو یہ بتانا ضروری سمجھا کہ کراچی میں (اس کے علاوہ ایک) ’سر سید کالج ‘ بھی ہے ۔ (ان کے نام پر ایک) ٹیوشن سنٹر بھی ہے ۔(ایک ) سڑک بھی اُن کے نام سے موسوم ہے ۔مدرسہ بھی ہے اور کئی اسکول بھی ( اُن کے نام پر) ہیں ۔اس کے علاوہ (ایک) علی گڑھ سو سائٹی بھی ہے ۔ ہم ایک علی گڑھ تو بے شک (ہندستان میں ) چھوڑ آئے ہیں لیکن یہاں (پاکستان ) آکر (سر سید اور علی گڑھ کے )اس(محبوب) نام سے کئی ادارے قائم کر لیے ہیں ۔‘‘(۴)
سکندر احمد نے ’قرء ۃ ا لعینیت ‘ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا جس کے بارے میں نیر مسعود کی رائے ہے کہ یہ عینی آپا اور ان کے فن با لخصوص آگ کا دریا کے حوالے سے لکھا جانے والا سب سے اچھا مضمون ہے جو ان کی زندگی میں شایع ہو گیا ہوتا تو عینی آپا کویہ قلق نہ رہ جاتا کہ لوگ انہیں سمجھ نہیں سکے ۔اُنہی سکندر احمد نے لکھا ہے کہ ’’ صغیر افراہیم نے اپنا تنقیدی اسلوب خود وضع کیا ہے ‘‘انہوں نے منشی پریم چند اور بعض دیگر فکشن نگاروں کے فن پر صغیر افراہیم کے اسلوب نقد کی بنیاد پر یہ رائے قائم کی ہے ۔ ان کے نزدیک مطالعات پریم چند میں صغیر افراہیم ممتاز ہی نہیں منفرد بھی ہیں ۔وہ لکھتے ہیں : ’’ اردو میں انکی کتاب کا نام ہے ’’پریم چند ۔۔ایک نقیب ‘‘ جو ۲۵ سال قبل ان کے طالب علمی کے زمانے (۱۹۸۷) میں منظر عام پر آئی ۔(سکندر احمد کا یہ مضمون ۲۰۱۲ کا ہے )جبکہ ہندی اڈیشن میں کتاب کا نام (انہوں نے ) ’’یُگ پرورتک پریم چند ‘‘رکھا ہے جو زیادہ معنی خیز ہے ۔نقیب کا لغوی معنیٰ ’نباض ‘ ہے ۔ہر تخلیق کار اپنے آپ میں نباض ہوتا ہے تاہم کامیاب وہی ہوتا ہے جو جانتا ہے کہ نبض کہاں ہے ۔(لیکن ) نقیب کے مقابلے میں ’’یُگ پَر وَر تک ‘‘معنویت سے لبریز ہے (جس کا مطلب ہے ’عہد ساز ‘ کیونکہ )پریم چند کے افسانے واقعی Paradigm Shift کے مظہر ہیں ۔اسلوب کے اعتبار سے بھی اور مواد کے اعتبار سے بھی ۔ حالانکہ صغیر افراہیم نے اپنی اس(معرکہ آرا ) کتاب میں معنوی اعتبار سے(اس لفظ ) Paradigm Shift کا استعمال نہیں کیا ہے ،تاہم ،اُن کی کتاب سے جو تھیم اُبھر کر سامنے آتا ہے وہ یہی ہے ۔۔صغیر افراہیم کے تجزیے اپنے قارئین کو مجبور کر دیتے ہیں کہ وہ پریم چند کے افسانوں اور ناولوں میں یہ محسوس کرے کہ ’’ارے یہ تو عام آدمیوں کی کہانیاں ہیں ‘‘وہ انہی کرداروں کا انتخاب کرتے ہیں جو دبے کچلے ہیں پسماندہ ہیں ،استحصال کا شکار ہیں مثلاً ’ہوری اور بدھیا ‘ ۔ صغیر افراہیم نے’ بدھیا‘ کے کردار کو ’کفن‘ کے متن سے باہر نکالا اور جھاڑ پونچھ کر اس قدر صاف و شفاف کر دیا کہ کہ ایسا محسوس ہونے لگا کہ ’بدھیا ‘ ہی ’کفن ‘کا مرکزی کردار ہے ،گھیسو یا مادھو نہیں ۔ یہ صحیح ہے کہ یہ کمال پریم چند کی کردار سازی کا ہے لیکن اس کمال کی دریافت کا سہرا صغیر افراہیم کے سر بندھتا ہے کہ انہوں نے ایک غائب کردار کو حاضر کردار میں تبدیل کر دیا اور وہ بھی نہایت سادگی کے ساتھ ۔ ۔صغیر افراہیم کی کتاب ’’اردو کا افسانوی ادب‘‘ (فروری۲۰۱۰) بتاتی ہے کہ صرف پریم چند ہی نہیں انہوں نے دیگر ہم ؑصر فکشن نگاروں پر بھی لکھا ہے اور خوب لکھا ہے ۔کتاب پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ (کچھ )پارِکھ کسی فن پارے یا فن کار پر گفتگو کر رہے ہیں اور اس کی حیثیت غیر رسمی ہے ۔ جیسا کہ عام گفتگو میں ہوتا ہے کہ بات سے بات نکلتی چلی جاتی ہے اور اصطلاحات کا استعمال کم سے کم ہوتا ہے ۔صغیر افراہیم نے بھی ’اصطلاحات ‘ کا استعمال کم سے کم کیا ہے بلکہ بعض مقامات پر تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ’قاری بھی اس گفتگو میں شریک ہے ‘ ۔
’’ مصنف کی موت ‘‘ کا ذکر (مابعد جدیدیوں میں) بہت ہوتا ہے اور بہت ہو چکا ہے لیکن صغیر افراہیم اس مفروضے کی براہ راست تو نہیں لیکن با لواسطہ نفی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اپنی تحریروں میں وہ صرف ’’متن ‘‘ ہی پر نہیں ’’مصنف ‘‘پر بھی خوب خوب گفتگو کرتے ہیں کہ ’متن کے حوالے سے مصنف کی موجودگی لازمی ہے ‘‘(۵)
صغیر افراہیم اپنی کتاب ’افسانوی ادب کی نئی قراء ت (۲۰۱۱)‘میں ایک جگہ (ص ۱۹ اور ۲۰ پر) عصری مسائل اور ما بعد جدیدیت کے تناظر میں لکھتے ہیں کہ ’’بیسویں صدی کی آخری دو دہائی(وں) اور اکیسویں صدی کی پہلی دہائی مطالعہ کریں تو اس کے ڈھیروں مسائل (نظر آتے) ہیں علاقائی ۔صوبائی۔ملکی و بین ا لا قوامی ۔(ہر ) سطح پر ان کی الگ نوعیت ہے ۔کیا اس بدلی (ہوئی ) صورت حال کو اردو کے ناول نگاروں نے اُسی شدت سے محسوس کیا ہے ؟ اور پھر ،کیا وہ اُسی تناظر میں اپنے فن پاروں کو خلق کر پائے ہیں ؟ ۔۔ لسانی افتراق اور بعض مخصوص مباحث کی صراحت و مقبولیت کے سبب ایک طرف تو مروج معیار رد ہوئے تو دوسری طرف اُن کے متبادل معیار سامنے آئے ہیں ،ایسے میں ہم سب بھی بین ا لا قوامی سیاست کے زیر اثر جی رہے ہیں ۔۔فکری اور جماعتی دونوں ہی اعتبار سے انتشار پسندی میں اضافہ ہوا ہے ۔تو اسن سب کو اردو ناول کس طرح اپنے دامن میں سمیٹ رہا ہے ؟‘‘
عشرت ظفر نے اس کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’’صغیر افراہیم نے ان دس برسوں میں لکھے جانے والے افسانوں کا عمیق جائزہ لیا ہے اور ہمیں بتایا ہے کہ ان دس برسوں کی فکری تبدیلی میں دہشت پسندی زور پکڑتی ہوئی اور روشن خیالی ماند پڑتی نظر آ رہی ہے مذہبی اعتقادات و رجحانات گہرے ہو رہے ہیں ۔نقل مکانی اور علاقائی اثرات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جارہے ہیں ۔‘‘(۶)
البتہ ہم صغیر افراہیم کے اس تجزیے سے متفق نہیں کہ ’’افسانوں میں نت نئے تجربوں کا ایک طوفان ہے یعنی لفظیات کے ساتھ تہ دار علامتیں مگر قاری اُن سے اُکتاہٹ کا شکار نہیں ‘‘۔قاری سے اگر ان کی مراد کچھ مٹھی بھر بر خود غلط ما بعد جدید نقاد ہیں تو ٹھیک ورنہ ادب کے عام اور سنجیدہ قاری کو کسی’ چیستانی بکواس‘ اور ’ معماتی ہرزہ سرائی ‘ اور ’بے معنی و بے مطلب یاوہ گوئی ‘ سے کوئی سروکار نہیں ۔ ہم مابعد جدیدیت کو اس صدی سب سے بڑا ڈھونگ اور آفاقی سچائیوں کے حامل متن و معنیٰ کے ساتھ سب سے بڑا فراڈ سمجھتے ہیں ۔آج کہ جب پچھلے ۳۵ برسوں میں صغیر افراہیم تنقید کے میدان میں اپنی انفرادیت کا لوہا منوا چکے ہیں اور سال گزشتہ (۲۰۱۶ میں ) ’’کڑی دھوپ کا سفر ‘‘کے نام سے اُن کے ۲۸ افسانوں کا مجموعہ بھی شایع ہوکر قاری کی عدالت میں پیش ہو چکا ہے ہم ان کے استاد قاضی عبد ا لستار کے ان الفاظ پر اپنی بات ختم کرتے ہیں کہ ’’تنقید کتنی بھی بڑی ہو جائے تخلیق کے برابر نہیں ہو سکتی ۔دونوں میں بہت فرق ہے اور میں چاہوں گا کہ صغیر افراہیم پھر سے افسانے لکھیں اور آج کے مسائل پر لکھیں ۔ آج کے مسائل پر اردو میں بہت کم لوگ لکھ رہے ہیں ۔میں نے تو آج کے مسائل کو تاریخی تناظر میں پیش کیا ہے لیکن براہ راست ؛لکھنا بھی ضروری ہے اور میرے خیال میں لکھنا چاہیے اور میں صغیر افراہیم سے توقع کرتا ہوں کہ وہ ان تمام م،سائل مثلاً بھوک ،افلاس ،بیماری ،تعصب جیسے ڈھیروں مسائل پر لکھیں گے تو مجھے امید ہے کہ وہ (ضرور ) کامیاب ہوں گے ‘‘(۷)
حوالے
(۱) کڑی دھوپ کا سفر (افسانے ) صغیر افراہیم ۲۰۱۶ص ۱۱
(۲) اردو شاعری تنقید و تجزیہ ۔پروفیسر صغیر افراہیم مقدمہ :صغیر افراہیم تنقید شعر کے باب میں ۔پروفیسر عتیق اللہ ص ۹
(۳)جدید و جاوداں ۔رشید کوثر فاروقی ۔مکتبہء الشبان ،پونا ۱۹۹۴ ص ۷
(۴)تحریک ادب شمارہ ۳۰جلد ۸ جنوری تا مارچ ۲۰۱۷ کہانی سات دنوں کی ۔پروفیسر نوشابہ صدیقی (کراچی پاکستان ) ص۴۰
(۵)صغیر افراہیم کے تنقیدی جہات کا ایک پہلو ۔سکندر احمد ۔تحریک ادب شمارہ ۲۱جلد ۵ اکتوبر دسمبر ۲۰۱۴ص ص ۲۶۲۔۲۶۵
(۶)افسانوی ادب کی نئی قرائت ایک مطالعہ ،عشرت ظفر ۔تحریک ادب شمارہ ۲۱ صص ۲۵۹۔۲۶۰
(۷)پدم شری قاضی عبد ا لستار سے (صغیر افراہیم کے تعلق سے ) ڈاکٹر سیما صغیر کی (تفصیلی ) گفتگو ۔سہ ماہی تحریک ادب شمارہ ۳۰ ص ۲۵
aalimnaqvi61@gmail.com
7300527442 / 8439508722