٭پروفیسر عارفہ بشریٰ
صدر شعبۂ اُردو
کشمیریونیورسٹی،کشمیر
٭ریاض احمد کمہار
شعبۂ اردو کشمیریونیورسٹی،کشمیر
طنز حالات اورواقعات سے شدید بے اطمینان کااظہار ہے اس میں مبالغہ اور تخیل کو بڑا دخل ہے۔اردو شاعر ی میں ابتداء ہی سے شوخی وظرافت کاعنصر تقریباً ہر شاعر کے یہاں کسی نہ کسی صورت میں ضرور دیکھنے کو ملتاہے اور بعض شعراء نے تو اس کو بطور خاص اپنا یا ہے جن میں جعفرزٹلیؔ‘ سوداؔ ‘انشا ؔاو راکبرؔ کے نام قابل ذکر ہیں۔ لیکن وہ شوخی جو غالبؔ کے یہاں پائی جاتی ہے وہ اپنی طرز کی ایک الگ شوخی ہے جس کا اردو شعر وادب میں اور کہیں ملنا امرِ محال ہے۔غالبؔ کے یہاں شوخی وظرافت کاپہلو فطری انداز میں پایا جاتا ہے ان کے یہاں ظرافت آمد کی صورت میں ملتی ہے جب کہ دیگر فنکاروں کے یہاں آورد کی صورت میں۔ اس لیے غالبؔ اور دوسرے فن کاروں کی شوخی میں یہ کھلم کھلا فرق ہے کہ عام فن کاروں کی تہہ میں کسی بغض وعناد یا رشک و حسد کے جذبے کی غماز ی ہوتی ہے جس کی الجھن ذہن کو مزیدبوجھل بنادیتی ہے لیکن غالب ؔکے یہاں کسی طرح کا ذہنی تناؤ او رالجھن پیدا نہیں ہوتا بلکہ محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ زیر لب مسکراہٹ کا سامان میسر ہوتاہے۔ غالبؔ وہ فنکار ہے جس نے شوخی وظرافت کو بحیثیت فن اپنا یا تھا او راس کو اپنے انوکھے طرز بیان اور جدت آمیز فکر کے ذریعے ایسا مقام عطا کیا کہ بعد کے ادبی حلقوں میںا سے حسن کلام کا زیور تصور کیاجانے لگا۔ عام طور پر طنز ومزاح نگاروںکے یہاں لفظی شوخیاں پائی جاتی ہے مگر غالبؔ نے لفظی شوخیوں کے ساتھ معنوی شوخیاں پیدا کرنے کاسلیقہ بھی سکھایا ہے۔ بقول ڈاکٹر عبارت بریلوی:
’’ارد ومیں ان کی سی باغ وبہار شخصیت کاکوئی شاعر او رپیدا نہیںہوا‘‘ ۔
غالبؔ کی بذلہ سنجی او رشوخی وظرافت کی حقیقی اقدار کا صحیح تجزیہ کرنا اس وقت تک نا ممکن ہے جب تک ان کی زندگی کے تمام جزئیات‘ماحول او رسماج کا بغائر مطالعہ نہ کیا جائے ۔ چونکہ غالب ؔنے بچپن سے جوانی تک شاہانہ مزاج کے سبب نئی نئی اقتصادی پریشانیاں ‘غدر کے دردناک او ردل ہلادینے والے واقعات وحادثات او رروزانہ زندگی میں پیش آنے والے گوناگوں مصائب و آلام کی زندگی گذار لی ہے ۔حقیقتاً غالب کی پوری زندگی مشکلات و حادثات کا ایک مرقع ہے۔کم سنی میں یتیم ہوکر نانہال میں پرورش ‘ نوعمری میں شادی ہوجانے کے بعد مصارف اخراجات میں روزمرہ زیادتی اور ذرائع آمدنی میںکمی ہونا‘ پینشن کا بند ہوجانا‘ شریک حیات سے عمر بھر اختلاف کے باعث عمر بھر نوک جھونک رہتا اور پھر اسی کے ساتھ غدر کی تباہی وہلاکت سے دوچار ہونے کے نتیجے میں غالبؔ اس طرح تنگ دستی و عسرت اور اقتصادی بدحالی کاشکار ہوئے۔ لیکن اس قدر مصائب و آلام اتنے رنج و غم اور اس ہجوم بلا میںمبتلاہونے کے باوجود غالبؔ ہنسو او رہنساؤ کے قائل ہیں۔
زندگی اپنی جب اس مشکل سے گذری غالبؔ ؎
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
ان تمام ہجومِ مصائب و آلام کی یلغار او ران کی پراگندہ زندگی کااجمالی جائزہ لینے کے بعد ان کا یہ شعر پوری زندگی کی عکاسی کررہا ہے ۔
ہوچکیں غالبؔ بلائیں سب تمام ؎
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
ان سب غموں کے باوجود غالبؔ نے اپنے کلام میں شوخی و ظرافت کے پہلو کو اس طرح پیش کیا ہے کہ دردِ دل بے تاب ہونے کے باوجود بھی زیر لب مسکراہٹ اورتازگی وتوانائی کا احساس ہوتا ہے جو پژمردہ اور کہُلائے ہوئے دلوں کو تازگی او رفرحت وانبساط بخشتی ہے۔ یہ غالب ؔکی شوخی ہی کاکرشمہ ہے کہ روزمرہ کی عام باتیں لطائف وظرافت بن کر افسردہ ومغموم کو اس طرح زعفران زار بنادیتی ہیں کہ اہل محفل اپنا غم بھول جاتے ہیں۔موضوع مشیت ایزدی کا ہو‘ مذہب کے طور طریقوں کا‘ حُسن وعشق کا‘ ہجر وصال کا‘جنت الفردوس ہو یا جہنم کی آگ کا‘ احباب کامعاملہ ہویا بیوی بچوں کا گھر بار کا ہو یا معشوق ستم پیشہ کی جفا و بے ادائی کا غرض کہ ہر معاملے کو غالب نے ظریفانہ انداز میں بیاں کرکے شوخی و ظرافت کے پہلو کو پُر کشش بنادیاہے۔
غالبؔ عام بول چال میں بھی بات سے بات اس طرح پیدا کردیتے ہیں کہ ان کی ہر بات بجائے خود ایک لطیفہ بن جاتی ہے گویا کہ ان کی طبیعت ہمہ وقت شوخی وظرافت سے بھری رہتی ہے ۔اردو کی پوری روایت میںاس نوع کی بے لوث طریقانہ وضع پر قادر ایسا کوئی دوسرا شخص نہ نکلے گا۔ غالب کی بذلہ سنجی اور شوخیِ طبع کے سلسلے میں حالی ؔ نے سچ کہا تھاکہ:
’’حُسن بیانی‘ حاضر جوابی اور بات میں بات پیدا کرنا مرزا کی خصوصیات میں تھا۔ان کو بجائے حیوان ناطق کے حیوان ظریف کہا جائے تو بجاہے۔مرزا کی طبیعت میں شوخی ایسی بھری ہوئی تھی جیسے ستار کے تار میں سُر بھر ے ہوئے ہیں‘‘۔
غالبؔ کی تحریر و تقریر دونوں میں شوخی وظرافت ایک شیریں لہر کی مانند موجود ہے جو اپنے اندر ایک تلخ حقیقت پنہاں رکھی ہوئی ہے۔ خطوط کی ہر ایک عبادت سے شوخی ٹپکتی ہے تہنیت کاخط ہویا تعزیت کا ہر مقام پر اس کی شوخی ایک ایسا لطیف انداز رکھتی ہے کہ پڑھنے والا اس کے حُسن ولطائف سے مسحور ہوئے بغیر نہیں رہتا غالب کی شوخی کاانداز ہم اس تحریر سے لگا سکتے ہیں کہ جب مجبوراً بیوی نے ان کے کھانے پینے کے برتن ناپاک سمجھ کرالگ کردیئے۔ ایک دن مرزا جوتے سر پر رکھ کر کھڑے ہوگئے ۔بیگم نے متعجب ہوکر پوچھا’’یہ کیا‘‘؟ مرزا نے کہا’’ گھرتواب مسجد ہوگیا‘ تو پھر قدم بھی رکھوں تو کہاں رکھوں اورکروں تو کیا کروں‘‘۔
رمضان اور روزوں کے بارے میں بھی ان کے ایسے کئی واقعات مشہور ہیں جو شوخی وظرافت کے اعلیٰ نمونے ہیں:
’’ایک دفعہ جب رمضان گزر چکا تو قلعہ میںگئے۔ بادشاہ نے پوچھا۔ مرزا تم نے کتنے روزے رکھے۔عرض کیا پیرو مرشد ایک نہیں رکھا‘‘۔
ایک دوست کو رمضان میں لکھتے ہیں:
’’دھوپ بہت تیز ہے روزہ رکھتا ہوں۔ مگر روزے کو بہلاتا رہتا ہوں۔کبھی پانی پی لیا‘کبھی حُقہ پی لیا‘ کبھی کوئی ٹکڑا روٹی کا کھالی۔ یہاں کے لوگ عجب قسم رکھتے ہیں۔ میں تو روزہ بہلاتا ہوں اور یہ صاحب فرماتے ہیں کہ تو روزہ نہیں رکھتا۔یہ نہیںسمجھتے کہ روزہ نہ رکھتا اور چیز ہے اور روزہ بہلانا اور بات ہے‘‘۔
شراب کے بارے میں مرزا کو بہت سے لطائف وظرافت مشہور ہے :
’’ ایک شخص نے ان کے سامنے شراب کی نہایت مذمت کی اور کہا شراب خوار کی دعا قبو ل نہیں ہوتی۔مرزا نے کہا بھائی جس کو شراب میّسر ہے اس کو کیا چاہیے جس کے لیے دعا مانگے‘‘۔
آم سے مرزا کی رغبت مشہور تھی کیونکہ غالبؔ آم کو بہت پسند کرتے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اپنے ایک دوست کو ایک بار شوخی وظرافت کے لہجے میں یہ بات کہی:
’’حکیم رضی الدین خاں جو مرزا کے نہایت دوست تھے ان کو آم نہیں بھاتے تھے۔ایک دن وہ مرزا کے مکان پر بر آمد ے میں بیٹھے تھے اور مرزا بھی وہیں موجود تھے۔ ایک گدھے والا اپنے گدھے لیے ہوئے گلی سے گذرا۔آم کے چھلکے پڑے تھے۔گدھے نے سونگھ کر چھوڑدیئے۔ حکیم صاحب نے کہا دیکھئے آم ایسی چیز ہے جسے گدھا بھی نہیں کھاتا۔مرزا نے کہا بے شک گدھا نہیں کھاتا‘‘۔
(یادگار غالب۔ حالیؔ)
یہ بھی غالبؔ کی مزاح کاکرشمہ ہے کہ معمولی سے اسم یا فعل کی گردش سے مزاح پیدا کرتے ہیں ملاحظہ ہو:
’’میر مہدی مجروح بیٹھے تھے اور مرزا پلنگ پر پڑے ہوئے کراہ رہے تھے۔میر مہدی پاؤں دابنے لگے۔مرزا نے کہا‘ بھئی تو سید زادہ ہے ‘ مجھے کیوں گنہگار کرتاہے؟انہوں نے نہ مانااورکہا آ پ کو ایسا ہی خیال ہے تو پیر دابنے کی اُجرت دے دیجئے گا۔مرزا نے کہا‘ ہاں اس کا مضائقہ نہیں۔ جب وہ پیر داب چکے تو انہوں نے اُجرت طلب کی۔ مرزا نے کہا‘ بھیا کیسی اُجرت‘ تم نے میرے پاؤں دابے‘ میں نے تمہارے پیسے دابے‘ حساب برابر ہوا‘‘۔
خطوط نگاری کے علاوہ غالب کاکلام بھی شوخی وظرافت کا ایک بہترین اور عمدہ سرمایہ ہے جس نے شوخی وظرافت کی مشتبہ و مشکوک حیثیت کو اپنی شوخی نگارش کے ذرائع ایک ایسا معتبر مقام سے بدلا ہے جس سے اس کی حقیقی اقدار نکھر کر سامنے آگئی ہیں۔غالب کے کلام میںمختلف النوع شوخی پائی جاتی ہے کہیں معنوی شوخی ‘کہیں الفاظ کی ترکیب سے شوخی کاپہلو سامنے لایاہے اورکہیں ایسے الفاظ کو جو زبان میں عام طور پر اظہار سوال کے لیے مخصوص رہے ہیں او رجو سوالیہ طور پر صرف کیے جاتے رہے ہیں مثلاً دیوان کا پہلا شعر ؎
نقش فریاد ی ہے کس کی شوخی تحریر کا ؎
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویر کا
عشق و عاشقی کا سفر زندگی کے ہر عہد میں اپنے اپنے طریقے سے چلتا رہا۔عاشق کبھی اپنے محبوب کو دیوی اورکبھی قبلہ نما سمجھتا رہا غرض کہ ہر عاشق اپنے عشق کو معراج تصور کرتے ہوئے توجہ برقرار رکھنے کے لیے مختلف پہلو اپناتاہے جس میں سلسلہ گفتگو کی طوالت سے کار آمد کوئی دوسری صورت نہیں ہے اس لیے اس سلسلے کو جاری رکھنے کے لیے عاشق انتہائی عاجزی وانکساری کے ساتھ محبوب کے سامنے عرض ومعروض کرنے سے بھی گریز نہیںکرتا او رکوئی ایسی بات کرنا پسند نہیں کرتا جو ذرابھی مزاجِ محبوبیت پر بار ہوسکے۔لیکن غالبؔ چونکہ ایک خوددار عاشق ہے اس لیے یہ عاجزی وانکساری راس نہیں آرہی تھی اس لیے وہ عجز و نیاز کے قائل نہ تھے۔ یہاں تک جب معشوق ان کی مقصد بر آری میں رکاوٹ پیدا کرلیتی تھی تو وہ اسے بھی نہیں بخشتے تھے۔
بہرا ہوں میں تو چاہے رونا ہو التفات ؎
سنتا نہیںہوں بات مکرر کہے بغیر
یہاں تک کہ غالب ؔکے عشق میںایسا مقام بھی آجاتا ہے جہاں بعض اوقات محبوب سے دھول دھپّے تک کی نوبت بھی آجاتی ہے۔
دھول دھپا اس سر اپا ناز کاشیوہ نہیں ؎
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن
معشوق کی بے وفائی اور بے التفائی جب سر موتجاوز کررہی ہے تووہاں بھی غالبؔ طنز کے ذریعے سے اپنا مقصد پورا کردیتے ہیں:
تم ان سے وعدے کا ذکر ان سے کیوں کرو غالبؔ ؎
یہ کیا کہ تم کہو اور وہ کہیں کہ یاد نہیں
بے نیازی حد سے گذری بندہ پرور کب تلک ؎
ہم کہیں گے حال دل اورآپ فرمائیں گے کیا؟
غیر سے دیکھے کیا خوب نبھائی اس نے ؎
نہ سہی ہم سے پرا س بت میں وفاہے تو سہی
ضد کی ہے اور بات مگر خوبُری نہیں ؎
بھولے سے اس نے سینکڑوں وعدے وفا کیے
ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام ؎
قدرت حق سے یہی حوریں اگر واں ہوگئیں
وارستہ اس سے ہیں کہ محبت ہی کیوں نہ ہو ؎
کیجئے ہمارے ساتھ عداوت ہی کیوں نہ ہو
کیا خوب تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا ؎
بس چُپ رہو‘ ہمارے بھی منہ میں زبان ہے
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا ؎
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
غالب نے اپنی شوخی میںنامہ بر کو بھی طنز کانشانہ بنادیا
تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم ؎
میرا سلام کہیو گر نام بر ملے
خدا سے واسطہ داد اس جنون شوق کی دنیا ؎
کہ اس کے گھر پر پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے
دیا ہے دل اگر اس کو بشر ہے کیا کہیے ؎
ہوا رقیب تو ہو‘ نام بر ہے کیا کہیے
قاصد کے آتے آتے خط اب اور لکھ رکھوں ؎
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جو اب میں
غالبؔ اپنے بل بوتے او راپنی صلاحیت و استعداد پر بھروسہ کے ساتھ زندگی گزارنے کے قائل تھے ‘انہیں زندگی میں کسی کا منت کش ہونا کسی طرح پسند نہیں اسے وہ توہین انسانیت سمجھتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے اس نظریہ حیات کے مطابق زندگی کے سفر میں کسی محترم و معظم شخصیت کا ممنون کرم اور مرہون منت ہونا گوارا نہیںکرتے۔وہ بحیثیت انسان خودکو ان تمام صلاحیتوں کاحامل سمجھتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑمیں پیدائشی ودیعت فرمائی تھی ۔اس اعتبار سے وہ تمام انسانوں کو مساوی قرار دیتے ہیں اور عام انسانوں کو ان پوشیدہ صلاحیتوں سے آشنا کرنا چاہتے ہیں جن سے وہ اب تک نا آشنا رہے ہیں۔ یہاں ایک طرح وہ انسان کو اپنی شوخی سے ’’خودداری‘‘ پر جینے کا سلیقہ سکھا رہے ہیں مگر دوسری طرح دوسروں کی پیروی کو ناقابل قبول قرار دے کر کسی دوسرے کا منت کش او ر دست نگرنہ رہنے کابیش وبہار مشورہ دے رہے ہیں۔
لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں ؎
مانا کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے
انسانی زندگی کی قدروقیمت اس مادی دنیا میں ایک بلبلہ جیسی ہے جو کئی وقت پانی پر رہ کر اپنے زندگی کامقصود پالیتا ہے اسی طرح انسان کی زندگی بھی ہے جو ایک نہ ایک دن موت کا شکار بن ہی جاتی ہے ۔مگر عقیدہ کے مطابق مرنے کے بعد دو فرشتے آتے ہیں او رمرنے والے سے اس کے عقائد کے ساتھ پوری زندگی کے اعمال کا حساب و کتاب بھی کرتے ہیں۔غالبؔ اس نظریے کے مطابق اپنی بد اعمالیوں کے مطابق یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حساب وکتاب لینے کے بعدمیرا نامۂ اعمال سیاہ ہوگا جس کانتیجہ دورخ ہے ۔اسی ذہنی الجھن اورکشمکش سے چھٹکارا پانے کے لیے خاطر خواہ وقتی طور پر ہی سہی قبر کے حساب وکتاب سے نجات پانے کے لیے ایک عجیب شوخی فکر تلاش کی ہے۔
ظاہر ہے کہ گھیرا کے نہ بھاگیں گے نکیر ومن ؎
ہاتھ منہ سے مگر بادۂ دوشیز کی بو آتے
یہ لحد میں بوئے مے تھی کہ نہ آسکے فرشتے ؎
میں عذاب میں پھنسا تھا جو نہ بادہ ہوتا
یہ غالبؔ کے تخیل ہی کاکرشمہ ہے کہ انہوں نے ناصح‘ زاہد اور واعظ جیسے کردار جو ہر عہد میں انتہائی برگزیدہ اورمقدس مقام کے حامل رہے ہیں ۔ہر دور میں ہر مذہب اورہر مکتبہ فکر کے لوگ ان شخصیات کو تقدس مآب سمجھ کر ان کو لائق تعظیم و احترام مانتے رہے ہیں لیکن اس برگزیدہ گروہ میں بھی چونکہ کچھ ایسے مفاد پرست اورلالچی افراد بھی اپنا اصل چو لا بدل کردنیا کمانے کے لیے ان میں شامل رہے ہیں جو ظاہری صورت ولباس کے اعتبار سے تو تقدس مآب نظر آتے ہیں مگر ان کاباطن دنیاوی غلاظتوں اورگندگیوں سے آلودہ پایا گیاہے۔ جس کے سبب ایسے لوگوں کاوجود اس مقدس گروہ کے لیے کلنک کاٹیکہ ثابت ہوسکتا ہے ۔غالبؔ نے انہی چیزوں کو اپنی شوخی اور بذلہ سنجی کانشانہ بنایاہے تاکہ سماج کے سامنے بناوٹی او راصلی تقدس و پاکیزگی کافرق پوری طرح واضح ہوجائے۔
واعظ نہ تم پیونہ کسی کو پلا سکو ؎
کیابات ہے تمہاری شراب طہور کی
کہاں میخانے کادروازہ غالب اورکہاں واعظ ؎
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
کوئی دنیا میںمگر باغ نہیںہے واعظ ؎
خلد بھی باغ ہے ہاں آب وہوا او رہی
شاعر کی یہ شوخی فکر وبیان بارگاہ انبیاء سے گذر کر حضور حق میں بھی برقرار رہتی ہے بقول رشید احمد صدیقی:
’’غالب نے طنز میں خدا کو بھی مخاطب کیا‘‘۔
پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق ؎
آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا
گرنی تھی ہم پہ برق تخیلی نہ طور پر ؎
دیتے ہیں بادہ ظرف قدح خوار دیکھ کر
کیا وہ نمرود کی خدائی تھی ؎
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا
ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد ؎
یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزاہے
زندگی اپنی جب اس مشکل سے گذری غالب ؎
ہم بھی کیا یاد کریں گے خدا رکھتے تھے
میری قسمت میں غم اگر اتنا تھا ؎
دل بھی یارب کئی دیئے ہوتے
سفینہ جب کہ کنارے پر آلگا غالب ؎
خدا سے کیا ستم وجورِ ناخدا کہیے
غالبؔ کے کلام میں بیشتر اشعار ایسے بھی ملتے ہیں جن میں رشک آمیز طنز کا اظہار ہے مثلاً اپنی ذات پر اگر رشک کرنا ہو تو اس میں مضائقہ نہیں کرتے لیکن غالب تو خدا سے بھی رشک کرتے ہیں اور اپنے محبوب کو اسے سونپنے میںتامل کرتے ہیں۔
قیامت ہے کہ ہووے مدعی کا ہمسفر غالب ؎
وہ کافر جو خدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مجھ سے
ایسی صور ت میں جب معشوق مقررہ وقت سے دیر میں پہنچتا ہے تو شبہ ہوتاہے کہ کہیں رقیب اس کی سواری کاعنان گیر نہ بن گیاہو۔
ہوئی تاخیر تو کچھ باعث تاخیر بھی تھا ؎
آپ آئے تھے مگر راہ کوئی عنان گیر بھی تھا
غالبؔکو جب تحیر کی کیفیت اپنے اندر پیدا ہوجاتی ہے اس وقت بھی وہ اللہ سے پوچھنے لگتے ہیں کہ دنیا کے وہ دلفریب منظر اورتماشے کس لیے ہیں۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں
غمزدہ و عشوہ ادا کیا ہے
شکن زلف عنبریں کیوں ہیں
مگر چشم سرمہ سا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چہرہ ہے ہوا کیا ہے
الغرض غالب ہی اردو کا پہلا شاعر ہے جنہوں نے طنز میں خدا کوبھی مخاطب کیاہے۔
یہ تھیں غالب کی وہ شوخیٔ طبیعت جس نے ان کوحیات ابدی بخشا ہے او راس نے بعدمیں آنے والے فنکاروں کے لیے ایک ایسی وسیع فنی راہ ہموار کردی ہے جس سے موجودہ زمانے میں نئی نئی راہیں ہموار ہوگئیںاور مستقبل میں بھی نئی نئی پگڈنڈیاں نکالنے میں رہنمائی حاصل کی جاتی رہے گی۔
٭٭٭