اُدے پور،راجستھان میں بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم(بنات) نے منائی پہلی سا لگرہ ،شاندار تقریب کا انعقاد

بنات کی کارکردگی کو نہ صرف اردو بلکہ دوسری زبان کے ادیبوں نے بھی سراہا ہے، یہ ایک خوش آئند قدم ہے:نگار عظیم
\"\"

اُدے پور،(اسٹاف رپورٹر)بین الاقوامی نسائی ادبی تنظیم (بنات) کے یوم تاسیس31 اکتوبر 2018 کے موقع پر ادے پور کے کمبھا بھون میں ایک شاندار ادبی جلسے کا انعقاد کیا گیا ۔اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ ادے پور کے ہندی ادبی اداروں نے اس تاریخ ساز جلسے کی میزبانی کی اور بڑی تعداد میں جلسے میں رونق افروز محبان اردو ہندی کی شاندار ضیافت کا اہتمام کیا ۔بنات اپنے نصب العین کی اس منزل پہ پہنچی جہاں اسکے قیام کا مقصد اردو ادبی فکر کو دوسری ہم وطن زبانوں سے ہم آہنگ کرنا ہے ۔ادے پور کے گرمجوش مہمان نواز سامعین نے بنات کے اس پروگرام کو اپنی بھرپور شرکت سے چار چاند لگا دئے۔صبح گیارہ بجے سے رات کے گیارہ بجے تک معزز حاضرین جلسہ نے بنات کے ہمقدم ہندوستان کی کثرت میں وحدت رنگا رنگ گنگا جمنی تہذیب کو زندہ جاوید کر دیا ۔سچ تو یہ ہے کہ اقدار کی شکست و ریخت۔درکتے سماجی رشتوں کے اس دور میں اسطرح کے عوامی پروگرام تازہ ہوا کے جھونکے کی مانند ھیں۔افتتاحی اجلاس میں کئی کتابوں کی رسم اجرا ادا کی گئ جسمیں ممبئی سے تشریف لائیں سیدہ تبسم منظور ناڈکرکی تازہ تصنیف \”مہندی لہوکی،نسترن فتیحی کا آن لائن رسالہ نمبر دید بان ، پٹنہ سے تشریف لائیں شفقت نوری کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ حاصل تفہیم شامل ہیں۔اس خوبصورت محفل میں علی گڑھ سے تشریف لائیں محترمہ صبیحہ سنبل اور پونا سے تشریف لائیں محترمہ شمشاد جلیل شاد نے بنات کو معنون منقش ترانہ اور سپاس نامہ پیش کیا ۔اس یادگار تقریب میں غزل اکیڈمی ادے پور کی طرف سے بنات کے اعزاز میں آل انڈیا مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ساتھ ہی غزل اکیڈمی ، سُکرپا ، وجود اور تعمیر سوسائٹی کی جانب سے تمام بنات ممبرز کو خوبصورت مومینٹو ،اوپرنا اور شال پیش کئے گئے۔
تقریب کااہتمام معروف فکشن رائٹر تنقید نگار بنات کی راجستھان شاخ کی سربراہ ڈاکٹر ثروت خان کی رہنمائی میں راجستھان کی سنگلاخ دھرتی پہ اردو کے گلشن آباد کرتی انکی ٹیم ڈاکٹر کلثوم بانو،ڈاکٹر تسنیم خانم،ڈاکٹر حسن آرا ،ڈاکٹر فرخندہ ضمیر ،زہر ا خان،شیبااور شہناز نے کیا انکے شانہ بہ شانہ موجود تھیں ادے پور کی نہایت اہم ہستیاںڈاکٹر رجنی کلشریشٹھ، ڈاکٹر منجو چترویدی ،پروفیسر نرملا گرگ ،پروفیسر مردلا ،اقبال ساگر ،جناب امداد اللہ خان،پروفیسر سدھا جین ،پروفیسر سنیتا شرما ،جناب یشونت سنگھ کوٹھاری ،اقبال پرویز صاحب،جناب سریش پالیوال ،پروفیسر پریم بھنڈاری ،جناب کنچن سنگھ،پروفیسر جے پی شرما،ڈاکٹر ترانہ پروین اور میرا کالج کی متعدد طالبات ۔افتتاحی اجلاس میں مسند صدارت سنبھالی حیدرآباد سے تشریف لائیں بنات کی سرپرست مشہور و معروف ادیبہ،ترقی پسند تحریک کی اہم رکن محترمہ قمر جمالی اور اردو کی معروف افسانہ نگار ،شاعرہ ہر دلعزیز شخصیت صدر بنات محترمہ نگار عظیم نے۔مہمان ذی وقار تھے ایگریکلچر یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اُما شنکر شرما،مہمان خصوصی کی حیثیت سے اسٹیج پہ تشریف فرما تھے معروف سماجی کارکن ،ادیبہ ڈاکٹر رجنی کلشریشٹھ اور جناب عابد ادیب ۔ استقبالیہ کلمات ڈاکٹر ثروت خان نے ادا کئے اور نظامت کی اہم زمہ داری بھی بخوبی نبھائی ۔کلیدی خطبہ تھا بنات کی نائب صدر کہنہ مشق شاعرہ و ادیبہ محترمہ عذرا نقوی کا اور سالانہ رپورٹ پیش کی بنات کی جنرل سیکریٹری ،صحافی و افسانہ نگار محترمہ تسنیم کوثر نے۔
سنجیدہ گفتگو جاری تھی کہ آواز دی گئی بنات کی ٹرسٹی مشہور و معروف افسانہ نگار اور تنقید نگار محترمہ افشاں ملک کو انہوں نے حاضرین اور صدور حضرات و خواتین کو مخاطب کرتے ہوئے پہلے بنات کے لئے یہ شعر پڑھا :خون دل دے کے نکھاریں گے رخ برگ گلاب ۔۔۔ہم نے گلشن کو سجانے کی قسم کھائی ہے۔اسکے بعد اپنے روائیتی سنجیدہ طرز تحریر سے انحراف کرتے ہوئے ایک قہقہ زار فکاہیہ اپنے منفرد انداز میں پیش کیا ۔فکاہیہ چونکہ ماں بیٹی کی دلچسپ داستان تھا اسلئے محفل میں موجود سامعین جنمیں اکثریت خواتین کی تھی نے خوب لطف لیا اور کہیں نہ کہیں خود کو اس سے ہم آہنگ پایا۔افشاں صاحبہ کو خوب داد ملی۔معروف شاعرہ محترمہ صبیحہ سنبل نے جب اپنی مترنم آواز میں ترانہٗ بنات پیش کیا تو سب جھوم اٹھے ۔شمشاد جلیل شاد نے منظوم سپاس نامہ سنایا اور سامعین سے خوب داد وصول کی ۔
ملک کی آٹھ اسٹیٹ اتر پردیش ،بہار ،آندھرا ،مہاراشٹر،بنگال ، راجستھان ،اترا کھنڈاور دہلی کی نمائندہ ادیب و شاعرات بنات کی پہلی یوم تاسیس پہ خلوص دل سے پروانہ وار اس تقریب میں شامل ہوئیں جنکے نام مندرجہ ذیل ہیں :
صدر بنات نگار عظیم نائب صدر عذرا نقوی جنرل سیکریٹری تسنیم کوثر راجستھان اکائی کنوینر محترمہ ثروت خان کے علاوہ محترمہ قمر جمالی ،شبینہ فرشوری،آمنہ تحسین،تسنیم جوہر ،رفیعہ نوشین ،شمشاد جلیل شاد،سیدہ تبسم منظور ناڈکر،افشاں ملک،صبیحہ سنبل،آصف اظہار،رضیہ حیدر خان،ثریا جبیں،شفقت نوری،نسترن فتیحی، نعیمہ جعفری پاشا،انجم قدوائی،سفینہ،عزہ معین،فرخندہ ضمیر ،طلعت جہان سروہااورشہناز رحمت۔
بنات کی نائب صدر عزرا نقوی نے کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے کہاکہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ آج میں اتنے باوقار سامعین سے مخاطب ہوں ۔انہوں نے بتایا کہ اس تنظیم کے قیام کامقصد نسائی ادب کاایک پلیٹ فارم مہیاکراناتھا،تاکہ خواتین کے کام کااعتراف ہو۔ہم عصرلکھنے والیوں کی حوصلہ افزائی ہو۔سستی شہرت بٹورنے کاذریعہ نہ بنے۔انہوں نے بتایاکہ پٹنہ میں دوہزار سترہ میں سیمینار میں بنات کے قیام کاعمل شروع ہوا۔تسنیم کوثرنے دہلی پہنچ کر4 اکتوبر 2017 کو خواتین قلمکاروں کا وائٹس ایپ گروپ شروع کیا جو آج بنات فاونڈیشن کے نام سے دلی میں رجسٹرڈ ہے ۔انہوں نے کہاکہ ہماری تنظیم مردوں کیخلاف نہیں نایہ ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد ہے۔بلکہ ہم بنات کی صلاحیتوں کونکھارناچاہتی ہیں ۔انہوں نے کہاکہ خاموشی سے ہماری ساتھی بناتی بہنیں کام کررہی ہیں۔ہمارابنات کے قیام پراوریقین کامل ہوگیا۔یہ مقام بنانے میں دیرلگی۔بنات کاقیام بہت پہلے ہوناچاہئے تھا۔ذاتی مفادات، حسدوں اور نفرتوں سے پاک ہوکرکام کرناہے۔
بنات کی جنرل سیکریٹری تسنیم کوثر نے بنات کی سالانہ رپورٹ پیش کی۔انہوں نے کہاکہ وہ بنات کی جنرل سیکریٹری کی حیثیت سے سب کااستقبال کرتی ہیں۔ کھچا کھچ بھرے ہال میں تقریب تاسیس کے انعقاد کی خوشی انکے چہرے سے عیاں تھی انہوں نے کہا کہ اتنی تعداد میں غیر اردو داں علمی شخصیات کی موجودگی بے پایاں حوصلہ عطا کر رہی ہے ۔انہوں نے کہاکہ اردو ہندوستانی مشترکہ تہذہب میں ایک بائنڈنگ مادہ ہے جسے نکارا نہیں جا سکتا ۔انہوں نے تین حصوں میں(تکنیکی،انتظامی اورمالی) رپورٹ پیش کی۔انہوں نے کہاکہ سوشل میڈیاہمارے لئے کارگرثابت ہوا،وائٹس گروپ سے آغاز ہوا۔فیس بک پربنات لائیو نام سے پیج بنایاہے وہاں تمام سرگرمیوں کی ویڈیوز اور تعارف ،مباححثے اپ لوڈکرتے ہیں بزم بنات کی سرگرم رہنما اور قابل تقلید شخصیات محترمہ زکیہ مشہدی اور محترمہ صبیحہ انور ہر دم بناتنوں کی تخلیقات و تکلم و املا کی تراش خراش کو حاضر رہتی ہیں یوں ہم ایک ورچوئل پاٹھ شالہ سے استفادہ کرتے ہیں ۔مستقبل کا لائحہ عمل پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اشاعتی کمیٹیاور پروگرام کمیٹی بھی قائم کیجائے گی۔لٹریری سیمنار کے لئے فنڈز مہیاکرانے والے سرکاری اداروں سے رابطہ کرنے کیلئے باضابطہ ایکٹیم ترتیب دی جائے گی ۔پچھلے ایک سال میں بنات چار پروگرام کرچکی ہے۔مالیر کوٹلہ پنجاب،سری نگر کشمیر،دہلی اور بھوپال میں بنات کی چنندہ ممبران نے شاندار مقالے پیش کئے افسانے سنائے اور بہترین سنجیدہ کلام پیش کیا جسکی رپورٹ مقامی اخباروں ،نیوز پورٹلز اور بنات لائیو پہ موجود ہیں۔ بنات کی مقبولیت میں صدر بنات نگار عظیم کی بہترین منتظمانہ صلاحیتوں کا اعتراف کرتےہوئے انہوں نے بتایا کہ جب بھی کسی اکیڈمی سے بنات کو سیمنار میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا صدر نے خود کو پیچھے رکھ کر اپنی بنات کی ان بہنوں کے نام دئے جو سیمناروں میں غیر معروف ہیں ۔نام فائنل ہوتے ہی انکا پہلا حکم ہوتا کہ ایک واٹس ایپ گروپ فورا بنایا جائے اور تمام شرکا اپنی پرفارمنس ڈسکس کریں موضوع کا تعین ،عنوان کی پرکھ ،مواد کی چھان پھٹک ،کتابوں کے حوالے ،تلفظ کی پکڑ املا کی درستگی الغرض ایک ہر کولین ٹاسک انجام دیتی ہیں ۔انکی محبت بھری جھڑکی بنات کو تازہ دم رکھتی ہے۔انہوں نے کہا کہ قلمکار خواتین آگے آئیں بنات خواتین قلمکاروں کا اپنا پلیٹ فارم ہے۔
معروف ادیب عابد ادیب نے اس موقع پربولتے ہوئے کہاکہ بہت مبارک دن ادے پورکیلئے یادگار دن حوصلہ افزائی کادن ہے،بہنیں بیٹیاں مائیں آگے بڑھ رہی ہیں اورہمیں خوشی ہے۔انہوں نے کہاکہ سماج کے اندرونی حالات نےہر طبقے کی خواتین کو سب سے زیادہ تکلیف دی ہے خاص طور پر اردو کی خواتین قلمکاروں کو۔ آج یہ سامنے آئی ہیں ہمیں انہیں حوصلہ دیناچاہئے۔انہوں نے کہاکہ مطالعے کے کم ہوتے رجحان سےتحریریں کمزور ہوتی ہیں ،بچے موبائل میں وقت ضائع کرتے ہیں لیکن لکھتے نہیں،جبکہ لکھنےسےزبان پختہ ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ ادے پور کی سرزمین پرآئی ہستیوں کو سلام کرتے ہیں۔ادب کوزندہ رکھنے کیلئے چلنےوالوں کیساتھ ہم شانہ بشانہ چلنے کوتیارہیں۔اس موقعہ پرڈاکٹر رجنی کلشریشتھ نے اعتراف کیا کہ\”بنات ایک بہت بڑا سنگٹھن ہے۔آپ سب کاسواگت ہے\”۔انہوں نے مزیدکہا\”پہلی بار اردوادیبوں سے بھراہال دیکھ کرخوشی ہورہی ہے\”۔انہوں نے کہاکہ یہ میراکی دھرتی ہے میواڑ۔۔۔میراکی دھرتی آج پھرسے شاداب ہوگئی ہے۔انہوں نے ابھرتی قلمکاروں کومشورہ دیتے ہوئے کہا\”گہرائی میں جائیے۔لکھئے۔ جلدبازی نہ کیجئے۔کسی شارٹ کٹ سے ناجائیں ۔۔گاڈفادر کسی کونہ بنائیں گاڈکوہی فادر بنائیں\”۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے ادے پور زرعی یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر اوماشنکرنے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے بنات کی ادبی سرگرمیوں کوسراہااورادے پور میں شاندارتقریب کے انعقاداور انہیں میزبانی کاموقعہ دینے پراطمینان کااظہارکیا۔بنات پیٹرن وحیدرآبادسے تشریفلائیںمعروف قلمکا ر ناولسٹ محترمہ قمرجمالی نے اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ وہ محبت کے شہرسے آئی ہیں محبت کاپیغام لیکر۔انہوں نے ادے پورکی مہمان نوازی سے متاثرہوتے ہوئے کہاکہ وہاں(حیدرآباد)میں سر دکھتے ہیں انسان نہیں ادے پور میں انسان بستے ہیں۔ہم پانچ خواتین حیدر آباد سے یہاں آئے ہیں۔ ایرپورٹ سے ریزورٹ آتے ہوئے ڈرائیور نے اپنے پیسوں سے چائے پلائی۔اور ہمارے لئے گائڈ کا کام کیا ہمیں اپنے شہر کی سڑکوں محلوں اور بازار سے متعارف کراتا ہوا منزل مقصود تک لایا۔انہوں نے کہاکہ حیدرآباد اردوکاگہوارہ ہے۔اردوزبان ہندوستان کی زبان ہے۔اردوزبان کبھی مٹ نہیں سکتی انشااللہ ۔۔۔اردو ہمیشہ قائم رہے گی۔انہوں نے کہا کہ مرد ہمارے کام کی تعریف نہ کریں مگرقدر کریں انہوں نے ہال میں موجود طالبات کو بطور خاص مخاطب کرتے ہوئے انھیں آگے بڑھنے کی تلقین کی انہوں نے کہا جن آنکھوں نے خواب نہیں دیکھے وہ کنگال ہیں ۔ خواب ہماری ترقی کیلئے بنیادی ڈھانچہ ہیں۔بے چینی زندگی کی علامت ہے۔بنات پوری دنیا میں اپنانام کمائے ۔میری دعا ہے۔
افتتاحی اجلاس کا اختتام محترمہ نگار عظیم کی مدبرانہ تقریر پہ ختم ہوا انہوں نے ادےپور واسیوں کی محبتوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ بنات بھی انکی میزبانی کا شرف حاصل کرنا چاہتی ہے انکے لئے بنات کے دروازے کھلے ہیں۔بنات کا کام ہے کہ بنات کی خواتین قلمکار چاہے وہ فکشن نگار ہوں تنقید نگار یا شاعرہ اپنی سوچ فکر اور تخلیقات کے حوالےسے ایک مضبوط تنظیم کی شکل میں دنیا بھر میں جانی پہچانی جا سکیں۔ہمیں عالمی سطح پر سسٹر ہڈ( sisterhood) یعنی بہناپا فروغ دینا ہے تبھی ادب براےء زندگی، ادب براےء امن و آشتی، ادب برائے سماجی ارتقاء، ادب براےء قومی خیر سگالی کو فروغ ملے گا۔انہوں نے کہا کہ ـبنات نے ایک برس کی مختصر سی مدت میں جس استحکام کا مظاہرہ کیا ہے وہ بنات کی بنیاد کے لےء میل کا پتھر ثابت ہو گا بنات کی کارکردگی کو نہ صرف اردو بلکہ دوسری زبان کے ادیبوں نے بھی سراہا ہے، یہ ایک خوش آئند قدم ہے۔انہوں نے اردو ادب کی باکمال سینئر افسانہ نگار محترمہ زکیہ مشہدی کا پیغام پڑھ کر سنایا جسمیں زکیہ صاحبہ نے اہل بنات کو ڈھیروں مبارکباد اور دعا دی۔
تین نشستوں میں منعقد تقریب کی دوسری نشست میں بنات کے ارکان نے مقالات،انشائے،وتاثرات پیش کئے۔
1۔اردو ادب میں طنز و مزاح کی روایت اور عورت:ڈاکٹر سفینہ2۔افسانہ ۔سونے کی زنجیر :فرخندہ ضمیر3۔بت شکن ۔خاکہ:ڈاکٹر آمنہ تحسین4۔عرضی ۔افسانہ :انجم قدوائی
4۔باد مشرق تیرا انتظار باقی ہے۔افسانہ:تسنیم کوثر5۔دلی سے دہلی تک:عزہ معین6۔جمعے کی فضیلت۔۔انشایہ:نعیمہ جعفری پاشا7۔نسائ ادبی تنظیم کے تناظرمیں:تاثرات ۔نسترن احسن فتیحی8۔بنات میرے لئے:تاثرات۔سیدہ تبسم ناڈکر9۔ بہت دیر کردی مہرباں آتے آتے۔طنزو مزاح :شفقت نوری10۔ہم کو وہم نے مارا:شبینہ فرشوری
شام کومہارانا پرتاپ ایگریکلچراینڈ ٹیکنیکل یونیورسٹی کے مرکزی ہال میں غزل اکیڈمی ادے پور کے زیراہتمام اور بنات کے اشتراک سے ایک عالمی مشاعرہ منعقدہوا جس میں محبان ادب کی بڑی تعدادشریک ہوئی اورشاعرات نے بہترین کلام سےشرکاکوخوب محظوظ کیا۔اس موقع پر علی گڑھ کی شاعرہ آصف اظہار علی نے اپنا کلام پیش کرتے ہوئے کہاکہ حال ہمارا پوچھنے آئے گھبرائے ۔گھبرائے لوگ ۔۔ان سے دکھڑے کیاکیاروتے دکھ توہمارے اسکے تھے۔بنات کی صدرڈاکٹرنگار عظیم نے اپناکلام پیش کیا۔دل کے نگر میں قید ہیں چاہت کی بلبلیں۔۔۔۔۔وہ موسم بہار کے منظر نہیں رہےدہلی سے تشریف لائیں ڈاکٹر سفینہ نے اپنی خوبصورت نطم بنت حوا سنائی ۔۔۔ یہیں راہ میں ملی تھی کیسی عجب پری تھی۔وہ رنگ اسکا سونا، وہ سون سی پری تھی۔سامعین کی فرمائش پر انہوں نے اپنی ایک اور نظم اگلے جنم بھی موہے بیٹیاہی کیجیو۔اپنے خوبصورت انداز میں سنائی تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔محترمہ عذرا نقوی نے ترنم سے جو کلام پیش کیا تو سامعین کے ذہنوں دل میں یادوں کے کئی دریچے کھل گئے اور داد و تحسین کا سلسلہ چل نکلا۔:کیسے کیسے سوانگ رچائے ہم نے دنیا داری میں۔۔یوں ہی ساری عمر گنوادی اوروںکی غم خواری میں۔۔ہم بھی کتنے سادہ دل تھے سیدھی سچی بات کریں۔۔لوگوں نے کیا کیا کہہ ڈالا لہجوں کی تہ داری میں۔۔جب دنیا پر بس نہ چلے تو اندر اندر کڑھنا کیا۔۔کچھ بیلے کے پھول کھلائیں آنگن کی پھلواری میں۔۔کئ دنوں سے جسم و جاں پر اک بے کیفی چھائ ہے۔۔بھیگ رہی ہے رات سناؤ کوئ غزل درباری میں۔۔آنے والے کل کی خاطر ہر ہر پل قربان کیا۔حال کو دفنا دیتے ہیں ہم جینے کی تیاری میں۔۔تم بھی ان بیتے برسوں کی کوئ نشانی لے آنا۔۔میں تم سے ملنے آؤں گی اسی بسنتی ساری میں۔۔اب کی بار جو گھر جانا تو سارے البم لے آنا۔۔وقت کی دیمک لگ جاتی ہے یادوں کی الماری میں۔۔۔ عذرا نقوی صاحبہ نے اپنی اور بھی غزلیں پیش کیں اور سامعین سے بھر پور داد وصولی ۔کولکتہ سے آئی شاعرہ شہناز رحمت : گمنام راتوں پہ کھوئی تھی میں مستقل، چادرپہ میری دیکھئے گردسفرکارنگ۔پوناسے آئیں شاعرہ شمشاد جلیل شاد : گلابوں سی تمہاری یادہرجانب مہکتی ہے، تمہاری جستجو میں اب ہواراستہ بھٹکتی ہے۔پٹنہ کی ثریاجبیں : تومیری جست کاسہاراتھا، مشکلوں میں سنواراتھا۔ سہارنپور کی طلعت سروہا : ۔۔ہم جب اردو میں بات کرتے ہیں تولفظوں سے ایک مہک آتی ہے۔ہے یہ اردو جہاں میں،گود میں لے کے ہمیں گیت گنگناتی ہے۔نعیمہ جعفری پاشا: تجھے سلام ہے میرا اے میرے راجستھان، واہ تیرے باغ، تیرے سنستھان۔ ممبئی کی سیدہ تبسم منظور ناڈکر:تیری ہستی، تیراوجود، توپیچان ہے میری ماں۔میری زندگی کی خوشی تجھ ہی پہ قربان ہے میری ماں۔گنگناکرواہ واہی لوٹی۔صبیحہ سنبل:نرم دل ہونے میں کچھ دیر لگے گی شاید۔۔۔مضمحل ہونے میں کچھ دیر لگے گی شاید۔۔تند خیزی کا یہ عالم ہے کہ موسم کا مزاج ۔۔معتدل ہونے میں کچھ دیر لگے گی شاید۔حیدرآبادکی رفعیہ نوشین : لڑکے کوتودیتے جان لڑکی سے کیوں ہوانجان۔ آگے بڑھنے دوانکو، دونوں کی ہے ایک پہچان۔ ادے پور کی شاعرہ زہرا خان:موسم گل کا بھروسہ ہی نہیں کب لوٹے، گھرکے گلدان کو کانٹوں سے سجایاجائے۔دہلی کی رضیہ حیدر خان :ہم بھی کھیلیں گے اور جیتیں گے ۔۔۔اپنی باری ابھی نہیں آئی۔۔منتظر ہم ہیں جسکے صدیوں سے ۔۔وہ سواری ابھی نہیں آئی ۔۔۔بعد جسکے نہ ہوش آئے کبھی ۔۔۔وہ خماری ابھی نہیں آئی۔۔۔سر تو جھکتا ہے روز سجدے میں۔۔۔انکساری ابھی نہیں آئی۔۔۔یوں تو سب جانتی ہوں میں رضیہ ۔۔۔ہوشیاری ابھی نہیں آئی ۔۔
علیگڑھ کی نسترن احسن فتیحی :’’مجھے اپنی فکر میں آزاد رہنے دو‘‘گھر کی چہار دیواری میں مقید۔۔میں عادی ہو گئی تھی ۔۔حفاظتی حصار کی۔۔پھر اچانک۔۔گھر کی دہلیزسےکھینچ کر
تم نے۔۔۔مجھے۔۔۔فیمینزم کے فریم میں ۔۔۔جڑ دیا !
مجھے اس چوکھٹ اور فریم سے۔۔۔آزاد رہنے دو۔۔۔کہ میں ۔۔۔ صرف ایک عورت نہیں۔۔۔انسان بھی ہوں!
مگر تم مجھے ۔۔۔صرف ایک عورت سمجھتے ہو۔۔۔اور۔۔۔اس عورت کے وجود سے ۔۔۔۔اس قدر خوفزدہ۔۔۔کہ
اسے کسی چوکھٹ اور فریم کے باہر۔۔۔نہیں دیکھ سکتے۔
حیدر آباد کی تسنیم جوہرنے اپنے مخصوص ترنم سے غزل سنائی:میرے ہمراہ کچھ دور چل زندگی۔۔ دیکھ رستے میں کتنے ہیں بل زندگی۔۔۔وہ اچانک اگرسامنے آگئے۔۔میں بہکنے لگوں تو سنبھل زندگی۔۔تسنیم جوہر نے کچھ منتخب اشعار بھی سنائے اور سامعین سے خوب داد وصول کی :بچھڑتے وقت کا سب اہتمام کرنا تھا۔۔وہ جا رہا تھا مجھے انتظام کرنا تھا۔۔۔۔۔وہ کہتی ہیں ۔۔۔سمندر سے میرا جھگڑا بہت ہے۔۔میں قطرہ ہوں مجھے خطرہ بہت ہے۔

31 اکتوبر کے کامیاب جلسے کے بعد اگلے دن ادے پور درشن کے لئے ڈبل ڈیکر بس ہمارے خوبصورت پر سکون ریزورٹ اسپیکٹرم کے سامنے تیار کھڑی تھی ۔سٹی پیلیس،سہیلی کی باڑی،بڑی کی جھیل ،اور فتح ساگر میں بوٹنگ سے لیکر اونٹ کی سواری اور ہاتھی تول میں باندھنی دوپٹوں اور سوٹ کی خریداری ،گھر کے لئے آرائشی سامان اور اپنے پیاروں کے لئے پیارے پیارے گفٹس کی خریداری میں ہم نے پورے دو دن لگائے ،بھلا ساٹھ جھیلوں والے تاریخی شہر ادے پور کے درشن دو دن میں کیا ہوتے ۔پھر بھی اپنی سی سیر کر آئے ۔الحمدللہ۔
کہتے ہیں قطرہ قطرہ دریا می شود۔۔۔قطرہ قطرہ علم و ادب کا سمندر بن جانے کا نام ہے ’بنات‘۔
سربسر راہ بن گئ منزل ہم جہاں پہنچے کام یاب آے ( بلقیس ظفیر الحسن آپا نے ہمیں یوں مبارکباد دی)
پھر کسی محفل کی رودادلئے حاضر ہوں گی ۔اب اجازت دیجئے ۔یار زندہ صحبت باقی۔
\"\"

Leave a Comment