غالب نے انسانیت کی عظمت کو اپنی شاعری میں بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا : ڈاکٹر تقی عابدی

غالب کی شاعری میں معانی پرت در پرت پوشیدہ: پروفیسر خواجہ اکرام الدین

انسانیت کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت ہے۔پرو فیسر یو سف عامر

شعبۂ اردو،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی میں یوم غالب پر’’یہ ترا بیان غالبؔ۔۔۔۔۔‘‘ پربین الاقوامی پروگرام کا انعقاد

میرٹھ 28؍ دسمبر2016(اسٹاف رپورٹر)
\"_mg_0078\"

’’ ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ ہم میرٹھ کی سر زمین پر جمع ہیں جس سر زمین میں غالب کے خطوط کی باز یافت میں اہم کا ر نامہ انجام دیا ہے۔غالبؔ خوش نصیب ہیں کہ آج ہم ان کا تذکرہ کررہے ہیں اور بد نصیب ہیں اس اعتبار سے کہ ہم نے غا لب کو بھلا دیامرزا غالب ؔدنیا کے بہترین شاعروں میں سر فہرست تھے۔ انہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے کائنات کے رموز و نکات پر جس فلسفیانہ انداز سے نظر ڈالی ہے اس کی مثال دوسرے شعراء کے یہاں مفقود ہے۔لیکن ان سے ابھی پورے طور پر استفادہ نہیں کیا گیا ہے۔ غالب نے انسانیت کی عظمت کو اپنی شاعری میں بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔‘‘یہ الفاظ تھے کناڈا سے تشریف لائے ڈاکٹر سید تقی عابدی کے جو شعبۂ اردو،چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کے پریم چند سیمینار ہال میںمعروف ادیب و شاعر مرزااسداللہ خاں غا لبؔ کے2019ء ویں یوم پیدائش کے موقع پر منعقدہ ادبی محفل بعنوان’’یہ ترا بیان غا لبؔ‘‘ کے موقع پرخصوصی مقرر کی حیثیت سے خطبہ پیش کررہے تھے۔
ڈاکٹر سید تقی عابدی نے غالبؔ کے تعلق سے مزیدکہا کہ قدیم نقادوں نے غالبؔ پر جس طرح آدھی ادھوری حقیقتیں پیش کی ہیں اور نئے نا قدوں اور محققوں نے بھی انہیں ہی اپنا جز و ایمان بنا لیا ہے جب کہ عہد حاضر اور ترقیات کے اس دور میں غالبؔ کی معنویت مزید بڑھ گئی ہے۔بیرونی ممالک میںیہ رواج ہے کہ وہ اپنے آئیڈیل اور فن کا روں کے نام سے بڑے بڑے تعلیمی ادا رے اور ان کی یاد گاریںقائم کرتے ہیں مثلاً شیکسپئر، ملٹن، فردوسی، حافظ، مولا نا رومی وغیرہ جیسے ادیبوں کی بڑی بڑی یاد گاریں قائم ہیں جنہیں دیکھنے اور ان سے واقفیت کے لیے زیادہ سے زیادہ لوگ آ تے ہیں۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ غالبؔ کے نام پر کوئی ایسا بڑا تعلیمی ادارہ وجود میں نہیں آیا جو ان کی حیات و خدمات کے تمام گوشوں کو منظر عام پر لا کر استفادہ عام کی راہ ہموار کرے اور یہ بھی یاد رہے کہ وہ قومیں جو اپنے اسلاف کے کارناموں اور خدمات کو بھلا دیتی ہیں وہ صفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہیں۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ آج کے محققین اور ناقدین غالبؔ کی خدمات کا از سر نو جائزہ لیں اور انہیں تاریخ میں وہ مقام دلائیں جو ان کا جائز حق تھا۔
اس اد بی محفل کی صدارت کے فرائض پروفیسر خواجہ اکرام الدین (سابق ڈائریکٹر،قومی کونسل برا ئے فروغ اردو زبان، نئی دہلی) نے انجام دیے۔ مہمان خصوصی کے طور پر پروفیسر ایچ ایس سنگھ(نائب شیخ الجامعہ،سی سی ایس یو) اور مہمانان ذی وقار کی حیثیت سے پروفیسریوسف عامر( صدرشعبۂ اردو، جامعہ ازہر یو نیورسٹی،قاہرہ،مصر)،پروفیسر رانیہ محمد فوضی(مصر) نے شرکت کی۔استقبال ڈاکٹر شاداب علیم ، مہمانوںکاتفصیلی تعارف صدر شعبہ اردو، ڈاکٹر اسلم جمشید پوری اور شکریے کی رسم محترم آفاق احمد خاں نے انجام دی جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر آصف علی نے بحسن و خوبی انجام دیے۔
محفل کا آ غازنجم الدین نے تلا وت کلام پاک سے کیا۔ مہمانوں کا پھولوں کے ذریعے استقبال کیا گیا بعد ازاں محمد صادق اورسعید احمد سہارنپوری نے غالب کی غزلیں اپنی مترنم آواز میں پیش کر سامعین کو محظوظ کیا۔
اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پرو فیسر یوسف عامر ( صدرشعبۂ اردو، جامعہ ازہر یو نیورسٹی،قاہرہ،مصر) نے اردو کے بڑھتے دائرہ اثر اور غالبؔ کی معنویت پر رو شنی ڈالتے ہوئے کہا کہ غالبؔ نے انسانیت کو وجود خاکی کا اصلی زیور بتایا تھا جسے دنیا نے بھلا دیا ہے۔آج آدمی کااعلی سے اعلی مقام حاصل کرنا تو آسان ہے لیکن انسان بننا خاصا مشکل ہے۔انسانیت کا تحفظ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ میرٹھ اور جامعہ ازہر کا خاص تعلق بتاتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اسماعیل میرٹھی کی بچوں کی شاعری اور ڈا کٹر اسلم جمشید پوری کے افسانوں پر با قاعدہ تحقیقی کام ہو چکا ہے۔کئی اور موضوع زیر غور ہیں جن پر عنقریب کام شروع ہو جائے گا۔اور اس پر بھی بات چل رہی ہے کہ سی سی ایس اور جامعہ ازہر کے اردو شعبوں کے طلبہ ایک دوسرے کے یہاں جا کر استفا دہ کر سکیں گے۔
پروفیسر رانیہ محمد فوضی نے کہا کہ مصر میں ہندو ستانی ادب کو فو قیت دی جا تی ہے ۔میں نے خود بھی دیگر کتب کے ساتھ ساتھ عظیم ناول نگار منشی پریم چند کے’’ گئو دان‘‘ کا عربی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔
پرو فیسر خواجہ اکرام الدین نے شعبۂ اردو، میرٹھ کے حوالے سے کہا کہ اسلم جمشید پوری نے اس ذرہ کو آفتاب بنایا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ کیا اور کیوں کا مطلب سمجھ سکتے ہیں تو آپ غا لب کو سمجھ سکتے ہیں اور غالب کی شاعری میں پرت در پرت معانی چھپے ہوئے ہیں اور غالب کا جو استفہامیہ انداز ہے وہ کسی شاعر کو نصیب نہیں ہوا۔غالب کی شاعری کا دائرہ نہایت وسیع ہے اور اس پر مزید کام ہو سکتا ہے اور نئے جہاں دریافت کیے جاسکتے ہیں۔
مہمان خصوصی پروفیسرایچ ایس سنگھ نے اس تقریب کے انعقاد پر اراکین شعبہ کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ غالب جیسی شخصیتیں ہزاروں سال میں پیدا ہوتی ہیں مگر اپنے پیچھے اتنے کارنامے چھوڑ جاتی ہیں جو رہتی دنیا تک لوگوں کی رہنمائی کا کام کرتے ہیں۔غالب نے اپنا جو سرمایہ ادب میں چھوڑا ہے وہ بھی قیامت تک ادیبوں کی رہنمائی کرتا رہے گا۔
پروگرام میں ڈا کٹر ایشور چندر گمبھیر،ڈا کٹر محمد یو نس غازی، ڈا کٹر فو زیہ بانو، ڈا کٹر قمر النساء زیدی، ڈا کٹر ہما مسعود،ڈا کٹر ہاشم رضا زیدی،ڈاکٹر ضیاء زیدی، ڈا کٹر ریحانہ سلطا نہ،ڈا کٹر عفت ذکیہ، حا جی عمران صدیقی، حا جی مشتاق سیفی، سلیم سیفی، انجینئر رفعت جمالی،بھارت بھوشن شرما، انل شرما،سید جاوید اختر،نذیر میرٹھی ، طاہرہ رضوی ظہیر انور، محمد سمیع خان، ایاز احمد ایڈوکیٹ،سر تاج احمد ایڈ وکیٹ، اکرام بالیان، محمد منتظر،فرح ناز، ثنا خان، شبستاں پروین،طاہرہ پروین سمیت عمائدین شہر اور کثیر تعداد میں طلبہ و طا لبات نے شرکت کی۔
\"_mg_0091\"
\"_mg_0116\"

Leave a Comment