غزل

\"394831_10200274523562895_1812583047_n\"

شازیہ نورین جرمنی

وہ آنکھوں میں اتر کر دیکھتا ہے
سمندر ہے سمندر دیکھتا ہے
سجے رنگوں سے منظر دیکھتا ہے
مجھے جب وہ برابر دیکھتا ہے
سر ۔ محفل ہے اس دیکھنا یوں
نہیں بھی دیکھتا \’ پر دیکھتا ہے
کمی ہوتی ہے کوئی گھر کے اندر
وگرنہ کون باہر دیکھتا ہے
جو راس آ جائے شدت موسموں کی
تو پھر کوئی کہاں گھر دیکھتا ہے
ترے دست ۔ کشادہ کا ہنر ہے
تجھے اب تک گداگر دیکھتا ہے
یہاں رک جاتی ہیں نظریں بدن پر
کوئی کب دل کے اندر دیکھتا ہے
دیا بھی لو بڑھا دیتا ہے اپنی
ہوا کے جب یہ تیور دیکھتا ہے
مرا صییاد پنجرے میں فقط اب
مرے ٹوٹے ہوے پر دیکھتا ہے

شازیہ نورین جرمنی

Leave a Comment