قصر نظامت کا چوتھا ستون تھے انور جلال پوری

\"\"
٭ڈاکٹر شفیع ایوب
ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی۔
Mob. 9810027532


\"\"
کسی مضبوط ، مستحکم اور بلند عمارت کے لئے چار ستون بیحد اہم تصوّر کئے جاتے ہیں۔ ہندستان میں مشاعروں کی نظامت کو اگر ایک خوبصورت عمارت تصوّر کر لیں تو اِس کے چار ستونوں کے نام ہیں۔ ثقلین حیدر، عمر قریشی، ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری۔ ہندستان کے طول وعرض میں بے شمار مشاعرے منعقد ہوتے رہتے ہیں ۔ ہر مشاعرے میں ایک ناظم ضرور ہوتا ہے۔ کبھی کوئی نوآموز تو کبھی کوئی کہنہ مشق شاعر نظامت کے فرائض انجام دیتا ہے۔ لیکن جن حضرات نے نظامت کو با قاعدہ ایک فن کا درجہ عطا کر دیا ہو ان میں سرِ فہرست یہی چار حضرات ہیں جن کا ذکر سطورِ بالا میں ہوا ہے۔سب سے پہلے محترم ثقلین حیدر اس دنیا سے رخصت ہوئے پھر دیار فراق و مجنوں گورکھپور کی علمی و ادبی فضا کو سوگوار چھوڑ کر عمر قریشی راہی ملک عدم ہوئے۔ سنہ ۲۰۱۶ ؁ء میں پروفیسر ملک زادہ منظور احمد بھی داغ مفارقت دے گئے۔ اور سال ۲۰۱۸ ؁ء کا ابھی آغاز ہی ہوا تھا، احباب ایک دوسرے کو نئے سال کی مبارکباد پیش کر رہے تھے کہ شہر آرزو لکھنئو سے ۲ جنوری ۲۰۱۸؁ء کو یہ جانکاہ خبر آئی کہ انور جلال پوری بھی مالک حقیقی سے جا ملے۔
انور جلال پوری کی شخصیت کے کئی پہلو ہیں۔ لیکن مشاعروں میں ان کی نظامت نے ایسی چمک پیدا کی کہ باقی صلاحیتیں اور کارگزاریاں دھندھلی نظر آنے لگیں۔ فراق گورکھپوری ، کلیم الدین احمد اور شمس الرحمٰن فاروقی کی طرح انور جلال پوری بھی اردو کے نہیں بلکہ انگریزی زبان و ادب کے استاد تھے۔ اودھ کے علاقے میں ضلع امبیڈکر نگر میں جلال پور ایک تاریخی قصبہ ہے۔ اسی تاریخی قصبے میں ۶ جولائی ۱۹۴۷ ؁ء کو حافظ محمد ہارون کے گھر ایک بچے نے جنم لیا جس کا نام والدین نے انوار احمد رکھا۔یہی انوار احمد انور جلال پوری بن کر دنیا بھر میں علم کی روشنی پھیلاتا رہا۔ ابتدائی تعلیم مقامی اسکول میں حاصل کرنے کے بعد گورکھپور یونیورسٹی سے گریجوایشن اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں ایم اے کیا۔ وہ جلال پور کے این ڈی کالج میں انگریزی کے لکچرر مقرر ہوئے۔ بعد میں انھوں نے اودھ یونیورسٹی سے اردو میں بھی ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔ انھوں نے نہ صرف انگریزی ادب کا مطالعہ کیا بلکہ اردو اور ہندی ادب کا مطالعہ بھی وسیع تھا۔ انھیں تینوں زبانوں پر یکساں عبور حاصل تھا۔ انور جلال پوری ایک خوش فکر شاعر تھے۔ انھوں نے صرف مشاعروں کی ضرورت کے لئے شاعری نہیں کی بلکہ جو دل پہ گزرتی تھی اسے رقم کرتے رہے۔ ان کی بیشتر شاعری مٹتی ہوئی تہذیب کا نوحہ ہے۔انھوں نے نعتیہ شاعری کے باب میں بھی بیش بہا اضافہ کیا ہے۔ ’ضرب لا الہ‘ ’ بعد از خدا ‘اور ’ حرف ابجد ‘ ان کے نعتیہ مجموعے ہیں۔ ’جمال محمد ‘ کے نام سے سیرت محمد ﷺ کو منظوم کیا۔ ’ راہروسے راہنما تک ‘ سیرت خلفائے راشدین بھی ان کا ایک انمول تحفہ ہے۔ انھوں نے پارہ عم کا منظوم ترجمہ ’ توشہ آخرت ‘ کے نام سے کیا ہے۔ ’کھارے پانیوں کا سلسلہ‘ ’خوشبو کی رشتہ داری‘ اور دیو ناگری میں ’’جاگتی آنکھیں ‘‘ کے نام سے ان کی غزلوں کا مجموعہ منظر عام پہ آیا اور پسند کیا گیا۔ انھوں نے گرودیو رابندر ناتھ ٹیگور کی شہرہ آفاق کتاب گیتانجلی کا منظوم اردو ترجمہ کیا۔ ’اردو شاعری میں گیتانجلی‘‘ نام سے یہ کتاب شائع ہوئی تو عالمی سطح پر اس کی پذیرائی ہوئی۔ اور پھر بھگوت گیتا کے مفہوم کا منظوم اردو ترجمہ کر کے انور جلال پوری نے نہ صرف اپنی قادر الکلامی کا ثبوت پیش کیا بلکہ اپنے چاہنے والوں کے دائرے میں مزید وسعت پیدا کی۔ ادئے پرتاپ سنگھ، ڈاکٹر گوپال داس نیرج اور مراری باپو جیسی عظیم شخصیات نے انور جلال پوری کے فن کو تسلیم کیا اور انھیں اپنا آشیرواد دیا۔
جہاں تک انور جلال پوری کی نثر نگاری کا تعلق ہے تو انھوں نے اپنی نثر سے بھی اہل علم کو متاثر کیا۔ ان کے مضامین کے دو مجموعے شائع ہو کر مقبول خاص و عام ہوئے۔ اردو میں ’روشنائی کے سفیر ‘ اور دیوناگری میں ’ اپنی دھرتی اپنے لوگ ‘ مضامین کا مجموعہ ہے۔ انور جلال پوری کی نثرمیں جادو ہے۔ یہ نثر راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کی نثر جیسی کھردری بھی نہیں ہے اور کرشن چندر کے افسانوں کی نثر جیسی رنگین بھی نہیں۔ ہاں اس نثر میں انور جلال پوری کے خلوص کی چاشنی اور اودھی کی مٹھاس ضرور ہے۔ مشہور صحافی اور ہندوستان میں وائس آف امریکا کے نمائندہ سہیل انجم ان کی نثر نگاری کے بارے میں رقمطراز ہیں :
’’ اگر کوئی مجھ سے پہلے پوچھتا کہ انور جلال پوری ایک اچھے شاعر اور ناظم مشاعرہ تھے
یا ایک اچھے نثر نگار تو میں فوراً جواب دیتا کہ وہ تو شاعر اور ناظم تھے ان کا نثر سے کیا تعلق؟
لیکن جب میں نے ان کے مضامین کے مجموعے ’’ روشنائی کے سفیر ‘‘ کا مطالعہ کیا تو میں
شش و پنج میں پڑ گیا ۔ میرے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ وہ ایک اچھے شاعر اور
ناظم مشاعرہ تھے یا ایک بہترین نثر نگار ۔ سچ بات یہ ہے کہ وہ جتنے اچھے شاعر و ناظم
تھے اتنے ہی اچھے نثر نگار بھی تھے۔ ‘‘
( سہیل انجم ، انور جلال پوری اپنی نثر کے آئینے میں ، اردو اسٹار نیوز ٹوڈے )
انور جلال پوری نے بہت کم عمری میں شاعری شروع کر دی تھی۔ ان کے ہم عصر شاعر و ادیب ان کی پر گوئی کے قائل تھے۔ زبان پہ انھیں بھرپور دسترس حاصل تھی۔ وہ ایک بہترین خطیب تھے۔ کسی بھی موضوع پہ گھنٹوں تقریر کر سکتے تھے۔ ان کی خطابت میں پہاڑی ندی کی روانی تھی۔ اپنی فلسفیانہ گفتگو میں اَودھ کی شیرینی ملا کر پیش کرتے تو سامعین پر جادو کر دیتے تھے۔ عام طور پر مشاعروں کے شاعر مطالعہ سے پرہیز کرتے ہیں۔ انھیں مطالعہ کی فرصت بھی نہیں ملتی کہ پاپی پیٹ ملکوں ملکوں شہروں شہروں انھیں پھراتا رہتا ہے۔ کچھ اس قدر نرگیسیت کے شکار ہو جاتے ہیں کہ انھیں میر و غالب سب حقیر نظر آتے ہیں۔ لیکن انور جلال پوری حقیقت پسند تھے۔ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر بھی قدم زمین پر رکھتے تھے۔ وہ سراپہ عاجزی و انکساری تھے۔ مطالعہ کے شوقین تھے۔ تمام مصروفیات کے باوجود پڑھنے کے لئے وقت نکالتے تھے۔ اور صرف اردو ادب نہیں پڑھتے بلکہ ہندی اور انگریزی ادب کا بھی مطالعہ خاصہ وسیع تھا۔ ٹیگور کی گیتانجلی کو پڑھنا ، سمجھنا ، اپنی فکر کا حصہ بنانا اور پھر منظوم ترجمہ کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ لیکن اس کام کو انور جلال پوری نے نہایت مہارت سے انجام دیا۔ایک طرف انھوں نے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا تھا تو دوسری جانب قدیم ہندوستانی تہذیب پہ بھی ان کی گہری نظر تھی۔ جس ڈھائی ہزار سال کی تہذیبی تاریخ کو قرۃالعین حیدر نے شہرہ آفاق ناول ’’ آگ کا دریا ‘‘ میں سمیٹنے کی کوشش کی تھی ، اس تاریخ پہ انور جلال پوری بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ جنگ بدر ، صلح حد یبیہ اور سانحہ کربلا پر نظر رکھنے والے انور جلال پوری مہابھارت کی جنگ پہ بھی نظر رکھتے تھے۔اسی لئے وہ نہ صرف گیتا کے مفہوم کو سمجھ سکتے تھے بلکہ گیتا کے اُپدیش کی گہرائی اور معنویت سے پوری طرح واقف تھے۔ انھیں زمانہ طالب علمی سے گیتا میں دلچسپی تھی۔ انھوں نے گیتا کے حوالے سے اپنی پی ایچ ڈی کا خاکہ بھی تیار کیا تھا جو کسی وجہ سے مکمل نہ ہو سکا۔ لیکن ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد انھوں نے ایک بار پھر گیتا کی تعلیمات کو اپنے مطالعہ کا موضوع بنایا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انور جلال پوری نے شری مد بھگوت گیتا کے سات سو ایک شلوکوں کو کس فنی مہارت کے ساتھ ۱۷۶۱ اشعار کے قالب میں ڈھال کر اردو کے شعری سرمائے میں گراں قدر اضافہ کیا۔
لیکن اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ انور جلال پوری کی عالمی شہرت ان کی بے مثال نظامت کی مرہونِ منت ہے۔ عہدِ میر یا عہدِ غالب میں مشاعروں کا جو بھی رنگ رہا ہو لیکن ہندوستان میں حصول آزادی (۱۹۴۷؁ء) کے بعد جب عاشقانِ اردو نے ذرا سنبھالا لیا تو مشاعروں نے زبردست عوامی مقبولیت حاصل کی۔ ۱۵ اگست ۱۹۴۷؁ء کو ملک کی آزادی کے ساتھ تقسیم وطن کا سانحہ بھی پیش آیا۔ ارود اور اہل اردو پر بھی بڑی ضرب پڑی۔ ان حالات میں اردو والوں کی نفسیات کا اندازہ کرنا آج کی نسل کے لئے آسان نہیں ہے۔ اس پُر آشوب دور میں سرحد پار سے آئے ہوئے لوگ اردو کے لئے ماحول سازگار بنانے میں پیش پیش تھے۔ ان میں جگن ناتھ آزاد، گوپال متل، دیوندر اِسر، بلراج کومل، کلدیب نیر اور ان جیسے بے شمار اردو والے تھے۔ پھر ہر محاذ پر اردو کے لئے ماحول سازگار کرنے کی کوششیں ہونے لگیں۔ ان کوششوں میں عوامی مشاعروں کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم اردو کو میسر آیا جو دنیا کی کسی اور زبان کے پاس نہیں تھا۔ ہندوستان کے طول وعرض میں عوامی مشاعرے منعقد ہونے لگے۔ جوش ملیح آبادی، جگر مراد آبادی، مخدوم محی الدین، ساحر لدھیانوی، فراق گورکھپوری جیسے بڑے شاعر مشاعروں کے پلیٹ فارم سے عوام میں مقبولیت کے نئے ریکارڈ قائم کرنے لگے۔ نوح ناروی، انور صابری، نخشب جارچوی، تاجور نجیب آبادی، نشور واحدی، فنا نظامی اور مشیر جھنجھانوی جیسے شاعروں نے مشاعروں کی مقبولیت میں اضافہ کیا اور مشاعروں کے وقار کو بھی قائم رکھا۔اردو تہذیب میں پلے بڑھے سامعین ایک زمانے میں روش صدیقی کی فارسی تراکیب سے سجی شاعری کو مشاعروں میں سنتے بھی تھے اور داد و تحسین سے نوازتے بھی تھے۔
صبا کو اس گلِ رعنا سے ہم سخن پاکر
یہ سوچتا ہوں کہ موضوع گفتگو کیا ہے
یا پھر نشور واحدی کے یہ اشعار بھی مشاعروں کے پلیٹ فارم سے ہر خاص و عام تک پہنچے۔
شبِ غم مری شبِ غم سرِ شام لوٹ آنا
نہ کہیں ترا ٹھکانہ، نہ کہیں مر ا ٹھکانہ
دیا خاموش ہے لیکن کسی کا دل تو جلتا ہے
چلے آئو جہاں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
مشیر جھنجھانوی، فنا نظامی کانپوری، قمر مراد آبادی اور بیکل اتساہی جیسے شعرا نے جہاں ایک طرف شعری تقاضوں کا خیال رکھا وہیں عوامی مقبولیت کے پیش نظر بھی اشعار کہے۔ اب مشاعرے شہروں سے نکل کر قصبات اور دیہاتوں تک پھیل گئے۔ مشاعروں کا دائرہ بڑھنے لگا۔ مشاعروں میں سامعین کی تعداد بڑھنے لگی۔ مشاعرے رفتہ رفتہ ایک انڈسٹری کی شکل اختیار کرنے لگے۔ ایسے میں ناظم مشاعرہ کی ذمہ داریاں بڑھنے لگیں۔ اسی ماحول میں یہ اشعار کہے گئے۔
میں بھی کسی کی زلف سنوارے چلا گیا
کچھ ضد سی ہو گئی تھی نسیم سحر کے ساتھ ( مشیر جھنجھانوی)
بے ادب ہم سے نہ اے گردشِ دوراں ہونا
ہم سکھا دیں گے ہر اک قطرے کو طوفاں ہونا ( قمر مراد آبادی)
سب کے ہونٹوں پہ تبسم تھا مرے قتل کے بعد
جانے کیا سوچ کے روتا رہا قاتل تنہا ( بیکل اتساہی )
ترکِ تعلقات کو اک لمحہ چاہیے
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا ( فنا نظامی کانپوری)
اب اس ماحول میں نظامت نے ایک نئی شکل اختیار کی۔ اب مشاعروں میں سرمایہ کاری ہونے لگی۔ گانے بجانے کا چلن بھی عام ہونے لگا۔ اب شاعر کا تعارف ایک فن بن گیا۔ اب مشاعرے کی کامیابی ناکامی بہت حد تک ناظم مشاعرہ کے کاندھوں پہ آ پڑی۔ یوںتو بہ حالتِ مجبوری کوئی بھی شاعر نظامت کے فرائض انجام دے سکتا ہے اور دیتا بھی ہے۔ منتظمین ایک فہرست ناظم ِ مشاعرہ کے ہاتھوں میں پکڑا دیتے ہیں ۔ کبھی کبھی اس فہرست میں یہ ترتیب بھی ہوتی ہے کہ مشاعرے میں سب سے پہلے کون شاعر اپنا کلام سنائے گا اور کس شاعر کو فجر کی اذان کے وقت اپنا کلام سنانا ہے۔ ناظم ِ مشاعرہ ایک کے بعد دیگر شاعر کا نام پکارتا ہے، شاعر مائک پر آتا ہے، جس قدر چاہے کلام سناتا ہے، پھر دوسرا شاعر آتا ہے، سلسلہ چلتا رہتا ہے، سامعین جماہیاں لیتے رہتے ہیں۔ مجمع منتشر ہوتا رہتا ہے۔ اسٹیج پر بھی افرا تفری کا عالم ہوتا ہے۔ ناظمِ مشاعرہ مشینی ڈھنگ سے اپنا کام انجام دیتا رہتا ہے۔ جبکہ ایک کہنہ مشق ناظمِ مشاعرہ شاعروں کے ساتھ ساتھ سامعین کو بھی باندھ کے رکھتا ہے۔ وقت اور حالات کے مطابق شاعر کو زحمتِ کلام دیتا ہے۔ مجمع منتشر ہو رہا ہو تو کسی خوشگلو اور خوش شکل شاعرہ کو آواز دیتا ہے اور سامعین کو بیٹھنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ یہ سب کمالات جناب انور جلال پوری مرحوم میں موجود تھے۔ وہ بلا کے ذہین، حاضر جواب، بزلہ سنج اور نباض تھے۔ جلال پور کی علمی ادبی فضائوں نے انور صاحب کی ایسی پرورش کی تھی وہ ہر محفل میں اپنی انمٹ جھاپ جھوڑنے میں کامیاب رہتے تھے۔
یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ قصر نظامت کے چار ستونوں میں تین ستون یعنی عمر قریشی، ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کا تعلق کسی نہ کسی حوالے سے دیار فراق و مجنوں گورکھپور سے رہا ہے۔ گورکھپور کے آسمانِ ادب پہ جو چاند ستارے ہمیشہ جگ مگ کرتے رہے ہیں ان میں مہدی افادی، ریاض خیرآبادی، فراق گورکھپوری، مجنوں گورکھپوری، ہندی گورکھپوری، پروفیسر محمود الٰہی ، پروفیسر احمر لاری، جناب شمس الرحمٰن فاروقی، پروفیسر اختر بستوی، پروفیسر افغان اللہ خان، ڈاکٹر سلام سندیلوی، ماسٹر احمر گورکھپوری کے ساتھ عمر قریشی، ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کا نام بھی شامل ہے۔ یہاں جن چند حضرات کا نام لیا گیا ہے وہ محض ایک مثال ہے ورنہ فہرست تو کافی طویل ہے۔ اس فہرست میں بابائے اردو افسانہ منشی پریم چند کا نام بھی شامل ہوگا کہ وہ نارمل اسکول میں ٹیچر تھے۔ گورکھپور سے منشی پریم چند کا بڑا گہرا تعلق رہا ہے۔ انکی بہت سی مشہور تخلیقات کا تعلق گورکھپور سے رہا ہے۔ نارمل اسکول کے احاطے میں جہاں منشی پریم چند قیام پذیر تھے وہاں سے فرلانگ بھر کی دوری پہ عید گاہ مبارک خاں شہید ہے۔ آپ کو منشی پریم چند کی کہانی ـ ’’ عید گاہ‘‘ تو یاد ہے نا؟ بہر حال ہم تو انور جلال پوری کی نظامت کا جائزہ لے رہے ہیں۔ اور اس جائزے میں گورکھپور کا ذکر یوں آ جائے گا کہ انور جلال پوری نے اپنی تعلیمی زندگی کے کچھ برس گورکھپور میں گزارے تھے۔ اور اسی گورکھپور نے ملک زادہ منظور احمد کی بھی پرورش کی تھی۔ جہاں بھی ملک زادہ منظور احمد کا ذکر آتا انور جلال استاد محترم کہا کرتے تھے۔ اور ملک زادہ منظور احمد نے بارہا نظامت میں عمر قریشی کی استادی کو تسلیم کیا ہے۔اس طرح گورکھپور کی علمی ادبی فضائوں نے بھی انور جلال پوری کی نظامت کو سنوارنے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا کیا۔
نظامت کے جن چار ستونوں کی بات ابتدا میں کی ہے وہ چاروں اپنے اپنے انداز کے، اپنے اسلوب کے بادشاہ ہیں۔ اپنے لہجے اور آواز سے پہچانے جاتے ہیں۔جناب ثقلین حیدر اپنی نظامت کے دوران بیشمار اشعار سناتے تھے۔ انکا حافظہ زبردست تھا۔ برمحل اشعار سے محفل میں جان ڈال دیتے تھے۔ ہزاروں اشعار انکی نوکِ زبان پہ تھے۔ مشاعروں کا بڑا سے بڑا شاعر اپنا کلام پڑھ کے بیٹھتا اور ثقلین حیدر شروع ہو جاتے۔ شاعر نے جس مضمون کا شعر پڑھا تھا اسی مضمون کو میر انیس نے کیسے باندھا ہے یہ بتانا ثقلین حیدر کا کام تھا۔ جس زمین میں شعر پڑھا گیا ہے اسی زمین میں مصحفی اور ناسخ کے شعر سنا دیتے۔ شاعر جس ردیف قافیہ کا استعمال کرتا اسی ردیف قافیہ میں کبھی داغ دہلوی تو کبھی علامہ اقبال کے اشعار برمحل سنا دیتے۔ مشاعرہ سن رہے ہزاروں سامعین جھوم اٹھتے ، واہ واہ کی صدا بلند ہوتی، لوگ ثقلین حیدر کی سخن فہمی اور زبردست یادداشت کی داد دیتے۔ لیکن بیچارہ شاعر سر دھن کے رہ جاتا۔ جو داد و تحسین اس کے حصے میں آنی تھی وہ ناظم ِ مشاعرہ ثقلین حیدر لوٹ لیتے تھے۔ ثقلین حیدر کی زبردست نظامت کا منفی پہلو یہ تھا کہ شاعر پھیکا پڑ جاتا تھا۔ نظامت چمک جاتی تھی۔
دوسرے کامیاب طرین ناظمِ مشاعرہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد تھے ۔ جنھوں نے مشاعروں کو کسی حد تک ادبی وقار عطا کیا ۔ عمر قریشی کے شہر سے ملک زادہ منظور احمد کا بھی گہرا تعلق رہا ہے۔ ابتدائی اور اعلیٰ تعلیم گورکھپور میں حاصل کرنے کے بعدکچھ زمانے تک درس و تدریس کا سلسلہ بھی گورکھپور میں رہا۔ پھر اعظم گڑھ اور لکھنئو میں تدریسی فرائض انجام دیتے رہے۔ ملک زادہ منظور احمد لکھنئو یونیورسٹی میں اردو زبان و ادب کے استاد رہے۔ اردو اور انگریزی ادب کا گہرا مطالعہ ہے۔ دورانِ نظامت ایک خاص معیار سے گر کر کبھی گفتگو نہیں کرتے۔ کچھ خاندانی روایت، کچھ بزرگوں کی صحبت نے ملک زادہ منظور احمد کو ایک خاص طرزِ گفتگو عطا کیا تھا ۔ شاعروں کی شان میں بیجا قصیدہ نہیں پڑھتے اور اول جلول لطیفے سنا کر سامعین کے ذوق کو خراب نہیں کرتے تھے۔ آواز میں قدرتی بھاری پن اور کھنک تھی اسی لئے مائیکروفون پہ ملک زادہ منظور احمد کی آواز دوسروں کے مقابلے زیادہ بلند اور صاف سنائی دیتی تھی۔ شاعروں کو داد بھی ایک خاص کڑک دار آواز میں دیتے تھے۔ شاعروں کا تعارف کراتے وقت بیجا طوالت سے عام طور پہ بچتے تھے۔
تیسرے کامیاب ترین ناظم مشاعرہ عمر قریشی تھے۔ وہ ہندوستان کے تقریباً تمام اہم شہروں کی ادبی وراثت سے واقف تھے۔ ایک خاص بات انکے حوالے سے یہ ہے کہ وہ کبھی بھی مشاعروں میں اپنا کلام نہیں سناتے تھے۔ دورانِ نظامت اپنے لا تعداد اشعار بر محل سناتے تھے لیکن بطور شاعر مائک پہ آکر اپنا کلام نہیں سناتے تھے۔ جبکہ دنیا کو معلوم ہے کہ وہ ایک بہترین شاعر تھے، انکے کئی مجموعے شائع ہوئے۔ شہرِ صدا، زخمِ صدا وغیرہ کو بے حد سراہا گیا۔ لیکن انکی عادت تھی کہ وہ مشاعروں میں صرف نظامت کرتے تھے۔ ایک اور بات انھیں اپنے ہم عصر ناظموں سے الگ کرتی ہے کہ وہ شاعر کی قابلیت پہ بہت غور نہیں کرتے تھے۔ شاعر کسی سطح کا ہو ، بطور ناظمِ مشاعرہ وہ چاہتے تھے کہ شاعر اسٹیج سے کامیاب و کامران واپس جائے۔ شاعر اور شاعری کمزور ہو تو عمر قریشی کی نظامت اسے سہارا دینے کا کام کرتی تھی۔ کسی طرح شاعر کامیاب ہو جائے اور مجموعی طور پر مشاعرہ کامیاب ہو جائے یہ عمر قریشی کی کوشش ہوتی تھی۔
چوتھے کامیاب ترین اور عظیم ناظمِ مشاعرہ جنابِ انور جلال پوری تھے ۔ ملک زادہ منظور احمد کی طرح انور صاحب بھی تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں۔ لیکن آپ اردو کے نہیںبلکہ فراق گورکھپوری کی طرح انگریزی زبان و ادب کے استاد رہے ہیں۔ جلال پور کے کالج میں بھرپور تدریسی خدمات انجام دینے کے بعد آپ لکھنئو میں سکونت پذیر تھے ۔ انور جلال پوری اپنے خاص انداز میں کسی سنت یا ملنگ کی طرح مشاعرے کے اسٹیج پر نمودار ہوتے تھے ۔ کسی محفل میں یا کسی اسٹیج پر خاموش بھی بیٹھے ہوں تو دیکھنے والا کہہ اٹھے گا کہ کوئی مفکر بیٹھا ہے۔ انکی سوچتی ہوئی دو ذہین آنکھیں اکثر بہت کچھ بیان کر دیتی تھیں ۔
انور جلال پوری کو قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ جتنے اچھے شاعر تھے اس سے اچھے ناظمِ مشاعرہ تھے اور اس سے اچھے انسان تھے۔ حالانکہ مشہور و معروف شاعر منور رانا کا خیال ہے کہ انور جلال پوری اول تا آخر شاعر تھے، نظامت تو وہ یوں ہی کر لیتے تھے ۔ لیکن اس سچائی سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں انور جلال پوری کو انکی شاعری نہیں بلکہ انکی زبردست نظامت کے لئے جانا جاتا ہے۔ شانوں پہ ایک خاص ادا سے شال اوڑھے ہوئے وہ جس ٹھہرے ہوئے انداز میں گفتگو کرتے تھے اس کی سحر انگیز ی سے کون بچ سکتا تھا۔ وہ ایک زبردست خطیب تھے ۔ وہ کسی موضوع پر بے تکان بول سکتے تھے۔ اردو سے نابلد کسی چینی، جاپانی یا فرانسیسی کے سامنے اگر انور جلال پوری گفتگو کر رہے ہوں تو کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی وہ گھنٹوں ان کی گفتگو سے لطف اندوز ہو سکتا تھا ۔ انکے بولنے کا لہجہ ، آواز کا زیر و بم،جملوں کی موسیقی جادو کر دیتی تھی ۔ انکی گفتگو میں ایک خاص ٹھہرائو بڑی قاتل چیز تھی۔ مشاعروں کے اسٹیج پر انکی جادو بیانی کے ساتھ ساتھ انکی شخصیت کا جادو بھی جان لیوا ہوتا تھا۔ وہ غزل کے شعر کی طرح اپنے جملوں پر داد وصول کرتے تھے۔ صرف ہندوستان میں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں جہاں اردو ہے وہاں مشاعرے منعقد ہوتے ہیں اور جہاں مشاعرے منعقد ہوتے ہیں وہاں جنابِ انور جلال پوری کے جلال و جمال کے شیدائی آج بھی موجود ہیں۔
مشاعروں میں فنِ نظامت کے چوتھے ستون انور جلال پوری کا رنگ سخن سب سے جدا تھا۔ ثقلین حیدر، ملک زادہ منظور احمد اور عمر قریشی سے بالکل الگ انداز تھا جنابِ انور جلال پوری کی نظامت کا۔ وہ عمر قریشی کی طرح شاعروں کا تعارف انکے شہروں کے حوالے سے نہیں کراتے تھے۔ وہ ثقلین حیدر کی طرح بے شمار اشعار نہیں سناتے تھے۔ اور ملک زادہ منظور احمد سے ذرا کم ادبیت کی راہ اختیار کرتے تھے۔ خدائے سخن میر تقی میر کی طرح وہ بھی جانتے تھے کہ اشعار ان کے خواص پسند ہیں مگر گفتگو عوام سے ہے۔ عوام سے بھی گفتگو کا ایک خاص سلیقہ تھا انور جلال پوری کے پاس۔ وہ سلیقہ تھا کہ عوام ان کی بات سمجھ جائیں اور خواص کے طبع نازک پہ گراں نہ گزرے۔ نظامت کا یہ سلیقہ انور جلال پوری کے ساتھ رخصت ہوا۔اگرچہ پروفیسر ملک زادہ منظور احمد اور انور جلال پوری کے بعد کی نسل میں مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے بالکل سنّاٹا نہیں ہے۔ اپنے زمانے میںمعراج فیض آبادی، ڈاکٹر بشیر بدر اور منور رانا بھی اچھی نظامت کیا کرتے تھے۔ لیکن معراج فیض آبادی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اور جہاں تک بشیر بدر اور منور رانا کا تعلق ہے تو اب ان کی صحت اور عمر اجازت نہیں دیتی۔ ڈاکٹر ماجد دیو بندی او ر جناب اقبال اشہر بھی نظامت کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں لیکن یہ دونوں بطور شاعر بھی خاصے مقبول ہیں۔ اس لئے عموماً مشاعروں میں نظامت سے گریز کرتے ہیں یا پھر منتظمین مشاعرہ ہی انھیں ناظم کے بجائے بطور شاعر ہی مدعو کرنا پسند کرتے ہیں۔ مرادآباد سے منصور عثمانی ، گورکھپور سے کلیم قیصر، رامپور سے شکیل غوث رام پوری اور دہلی سے ( وطن عزیز بجنور) شکیل جمالی و معین شاداب نے عالمی سطح پر بطور ناظمِ مشاعرہ اپنی پہچان قائم کی ہے۔ عہد حاضر میں دکن کے ممتاز شاعرڈاکٹر سلیم محی الدین کا خیال ہے کہ اورنگ آباد، پربھنی، نانڈیر اور امراوتی کے علاقے سے ابرار کاشف نے نظامت میں اپنی ہنر مندی سے متاثر کیا ہے۔ فاروق سید ممبئی سے بچوں کا رسالہ ’’ماہنامہ گُل بوٹے‘‘ نکالتے ہیں۔ وہ ایک کامیاب اور ذی فہم ایڈیٹر ہیں۔ سخن اور سخن وروں پہ بڑی گہری نظر رکھتے ہیں۔ فاروق سید کا خیال ہے کہ ممبئی میں ڈاکٹر قاسم امام سے بہترین نظامت کوئی نہیں کرتا۔ ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی کا خیال ہے کہ قاسم امام مشاعروں کی نظامت کے بھی امام ہیں۔ ڈاکٹر قاسم امام چونکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ رہے ہیں، اس لئے وہ مشاعروں کی نظامت کے دوران بھی ایک خاص علمی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ بقول ڈاکٹر احمد کفیل کلکتہ (کولکاتا) میں مشاعروں کی نظامت کے حوالے سے ڈاکٹر عاصم شاہنواز شبلی سے اہل نظر کو امیدیں وابستہ ہیں۔ ادھر حیدر آباد میں کچھ عرصے تک محمد اسلم فرشوری نے بھی مشاعروں میں ادبی وقار قائم رکھنے کی کوشش کی۔ گلبرگہ خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کی دھرتی ہے۔ گلبرگہ کے علمی و ادبی منظر نامے پر گہری نظر رکھنے والے ادیب ڈاکٹر غضنفر اقبال کے بیان کے مطابق گلبرگہ میں محب کوثر نے ایک زمانے تک یہ کوشش کی کہ مشاعروں کی نظامت میں پھکّڑ پن نہ آنے پائے۔ ڈاکٹر غضنفر اقبال نے بنگلور کے پاس علی پور کی ادبی فضائوں کو بھی یاد کیا ہے جہاں ناطق علی پوری اور شفیق عابدی علی پوری نے اپنی نظامت سے ہزاروں کو متاثر کیا ہے۔ امید ہے کہ کچھ اور نام ابھر کر سامنے آئیں گے اور انور جلال پوری کی شکل میں قصر نظامت کے چوتھے ستون کے گرنے کے بعد جو خلاء پیدا ہوا ہے اسے پُر کریں گے۔
ڈاکٹر شفیع ایوب
ہندوستانی زبانوں کا مرکز، جے این یو، نئی دہلی67

Leave a Comment