لوح کاافسانہ نمبر ۲۰۱۷

\"11082528_675933665863275_8242913526998370697_n\"
٭پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی
\"22179819_10213955097648697_1155239825633020949_o\"
ؒلوح کا ضخیم شمارہ پنجم،ششم۱۱۲۰ /صفحات اور ۱۷۰ /افسانوں پرمشتمل تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ موصول ہوالوح کے افسانہ نمبر کا شور بہت عرصے سے سن رہے تھے اور اس کی آمد کا بہت شدت سے انتظار تھا کہ دیکھیں ؎اس بار ممتاز شیخ صاحب اپنے دعووں میں کہاں تک کامیاب ہوتے ہیں، اور جب لوح کو دیکھا تو ان کے اس دعوے کی تصدیق ہوگئی لوح کے سرورق پر درج عبارت ۱۱۵ سالہ افسانوی تاریخ کے اہم اور ناگزیر افسانوں کا انتخاب اس دعوے کا ثبوت فراہم کرتی ہے،بلاشبہ اس افسانہ نمبر کو مرتب کرتے ہوئے وہ اپنی تمام تر مدیرانہ اور مدبرانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہیں، اس سے پہلے اردو کے کئی ادبی رسائل افسانہ نمبر مرتب کرچکے ہیں افکار،نگار، فنون، نقوش ، سیپ،مکالمہ اور روشنائی کے افسانہ نمبر یقینا تاریخی اہمیت کے حامل ہیں،اردو افسانہ پر تحقیقی کام کرتے ہوئے تقریبا تمام افسانہ نگار اور افسانہ نمبرز میرے زیرِ مطالعے رہے تھے۔ اور مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیں کہ لوح کا تازہ ترین افسانہ نمبر اپنے معیا راور مواد کے اعتبار سے اپنی ایک امتیازی اور انفرادی حیثیت رکھتا ہے،جس کو مرتب کرتے ہوئے یہ خیال رکھا گیا کہ ان افسانوں کا انتخاب کیا جائے جو دیگر افسانہ نمبرز میں شایع نہ ہوئے ہوں،پریم چند کے کفن کی بجائے شطرنج کے کھلاڑی،منٹو کے کالی شلوار یا ٹھنڈا گوشت کی بجائے یزید،عصمت چغتائی کے لحاف کی بجائے پہلی لڑکی کا انتخاب کیا گیا ہے،دیگر افسانہ نگاروں کے بھی منفرد لیکن کم مشہور افسانے شامل کیے گئے ہیں،پاکستان اور ہندوستان کے نامور افسانہ نگاروں کے ایسے افسانوں کا انتخاب کیا گیا ہے جو اردو افسانے کے ارتقاء، مختلف ادوار رجحانات،میلانات،اسالیب، تحریکات اور نظریات کو سامنے لاتے ہیں،چھ ادوار میں منقسم یہ افسانے اپنے ادوار کے نمائندہ افسانے ہیں جن کو پڑھ کر اس عہد کی زندہ تصویریں سامنے آجاتی ہیںجو ان افسانہ نگاروں نے اپنے خونِ جگر سے بنائی ہیں،اردو افسانے نے بیسویں اور اب اکیسویں صدی میں ترقی کی جو منزلیں طے کی ہیں اور موضوعات کا جو تنوع اس صنف میں موجود ہے اس نے افسانے کو اردو نثر کی سب سے مقبول صنف بنادیا ہے لوح کے افسانہ نمبر میں اردو افسانے کی روایت باقر علی سے لے کر عہدِ حاضر کے اہم نادرونایاب افسانوں کا انتخاب اسے ایک معرکۃا لارا ٓشاہکار ادبی تاریخی دستاویز بناتا ہے، خاص طور پر عہدِ حاضر کے جو افسانے منتخب کیے گئے ان میں اکیسویں صدی کے جدید سائنسی افکار بھی نظر آتے ہیں،مشرف عالم ذوقی کا افسانہ قدیم آوازوں کی کٹنگ پیسٹنگ ایک منفرد رنگ کا افسانہ ہے جو اردو افسانے کی سائنسی جہت کو سامنے لاتا ہے اسی طرح شہناز شورو کا افسانہ قدرت کے بچے بھی اپنی نوعیت کا منفرد افسانہ ہے اس عہد کے دیگر افسانہ نگاروں میں رشید امجد،حمید شاہد،نجم الحسن رضوی،آصف فرخی،مبین مرزا، نجیبہ عارف وغیرہ اہم نام ہیں،کچھ اہم افسانہ نگاروں کی کمی بھی محسوس ہوئی،اکیسویں صدی میں اردو افسانہ کتنی منازل طے کررہا ہے،یہ اس افسانہ نمبر سے بخوبی ظاہر ہے، اس نمبر میں کوئی مضمون نہیں ہے ممتاز صاحب صرف اسے تخلیقی افسانہ نمبر بنانا چاہتے ہیں،مضمون شامل کرکے وہ مضمون نگاروں کی رائے قاری پر مسلط نہیں کرنا چاہتے افسانے کے قاری،طالبِ علموں اور محققین کے لیے اس شمارے کا مطالعہ ناگزیر ہوجاتا ہے،لوح کو ہر لائبریری میں ہونا چاہیے،اور اسی طرز پر لوح کا شاعری نمبر بھی مرتب ہونا چاہیے، امید ہے کہ ممتاز شیخ صاحب یہ کام بھی کرگزریں گے کہ بقول غالب
ٔ مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہوگئیں

Leave a Comment