مختارعاشقی کے مجموعہ کلام’’ انداز بیاں اور‘‘ کا غائر مطالعہ

\"\"
٭ڈاکٹر زیبا محمود

ایسو سی ایٹ پروفیسر،شعبہ اردو
گنپت سہائے پی جی کالج،سلطانپور یو پی۔
Email:dr.zebamahmood@gmail.com

ہندوستان کی ریاست اتر پردیش میں واقع شہر جونپور کواس میں پیدا ہونے والے صاحبان کمال کی بنا پر شیراز ہند بھی کہا جاتا ہے۔اسی شہر میں مختار عاشقی جونپوری نے ۱۹۲۹ء میںہوش و خرد کی آنکھیں کھولیں اور شعور کی منزلوں میں پہونچے۔علم و ادب اور شاعری کی روح جونپور کی فضاؤں میں رچتی بستی ہے ۔مختار عاشقی پر اگر اس کا اثر ہوا تو یہ فطری امر تھا۔چنانچہ انھیں بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا جب احساس ہوا تو وہ باقاعدہ طور پر ۱۹۴۶ء میں استاذ شاعر عاشق جونپوری کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے باقاعدہ شعر وسخن کے گیسو سنورانے کی ہنر مندیوں کی تعلیم لینا شروع کر دی۔ظاہر ہے ہنددوستان میں یہ وہ زمانہ تھا کہ جب حصول آزادی کی جنگ اپنے فیصلہ کن موڑ پر پہنچ چکی تھی۔آزادی حاصل کرنے کا جذبہ ہر ہندوستانی مرد خاتون اور بوڑھے بچوں میں پوری شدت سے سرایت کر چکا تھا۔ہندوستان میں جتنی بھی زبانوں میں شعرو ادب کی تخلیق ہو رہی تھی ہر جگہ حصول آزادی کے جذبات کا بے پناہ اظہار ہو رہا تھا۔علامات اور استعارات کی تعبیریں بدل چکی تھیں ۔کہیں کھلم کھلا سپاٹ اظہار ہو رہا تھا او’’ر کہیں کیا ہے شعر کو پردہ سخن کا‘‘پر عمل ہو رہا تھا۔اسی ماحول میں مختار عاشقی نے اپنا شعری سفر شروع کیا۔
کسی نے کہا ہے کہ شاعر لفظ خود شعور سے بنا ہے ۔اس لئے شعور بیدار ہوا تو شاعر عام انسانوں سے مختلف انداز میں سوچنے کی صلاحیت سے مالامال ہو جاتا ہے۔اس لئے کچھ روایتوں میں شاعر کو تلمیذ الرحمن بھی کہا گیا ہے اور بعضییہ کہ گئے کہ شاعری جزو پیغمبری است۔اسی لئے یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شاعر ہونے کے لئے با ضابطہ کسی قسم کی خصوصی تعلیم درکا ر نہیں ہوتی
ماحول میں مختار عاشقی نے اپنا شعری سفرمیں۲۲؍برس کی سخت ریاضت کے بعد ان کاپہلا شعری مجموعہ’’گلشن اسلام‘‘۱۹۶۸ء میں منصہ شہود پر آیا۔جب احباب اور شناسان ادب نے پذیرائی کی تو عرصہ بعد ان کا دوسرا مجموعہ ’’انداز بیان‘‘۲۰۰۷ء میںمرتب ہوا۔اب یہ حیرت ناک امر ہے کہ شاعری کی ابتدا کے بعد ان کا مجموعہ کلام ۲۲؍برس بعد آیا لیکن اس کے بعد انداز بیان تک کا فاصلہ ایک لمبا سفر اور ایک طویل خاموشی ہے جو ۳۹؍برسوں پر محیط ہے ۔ پھران کا تیسرا مجموعہ’’پیمان قلم‘‘سات برس بعد ۲۰۱۴ء میں منظرعام پر آیا۔
مختار عاشقی کے شعری سفر اور مجموعہائے کلام کی اشاعت کے دورانیہ سے یہ بات واضح ہے کہ ان کی شعر گوئی کی رفتا یا تو واقعی بہت سست تھی یا پھر وہ اپنی شاعری کو بہت زیادہ ترمیم وتنسیخ کے مراحل سے گذار کر ہی قارئین کی عدالت میں پیش کرتے تھے۔سیے بھی زود گوئی اور بسیار گوئی کوئی ایسی صفت نہیں ہے جس سے کسی فن کار کے ادبی مرتبہ مین اضافہ ہوتا ہو۔
سر دست پیش نظر مختار عاشقی کے دوسرے شعری مجموعہ کلام’’انداز بیان ‘‘سے کچھ منتخب کلاام ہے جو شاید اس لئے مہیا کرایا گیا ہے کہ معاصرین ادب کی آرا کو ’’انداز بیاں اور‘‘کے دوسرے ایڈیشن میں شامل کیا جا سکے ۔اس فراہم شدہ مواد پرایک نظر ڈالنے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ مختار عاشقی کی تخلیقی فکر ایسے ماحول میں ہوئی ہے جس میں انسانیت کی اعلی و ارفع قدریں نہ صرف کارفرما تھیں بلکہ ان پر عمل کرنے کو سعادت تصور کیا جاتا تھا۔ان کے زیادہ تر اشعارمیں اس خون کی حرارت ملتی ہے جس کو ہماری تہذیبی اور مذہبی اقدار نے جنم دیاہے۔اور جس پرآج بھی بلا تفریق مذہب و ملت نہ صرف ہر شخص بلکہ عالمی سطح پر ہر دور میں انسانیت نے فخر محسوس کیا ہے۔ملاحظہ ہوں یہ اشعار جن کے مضامین نہ صرف پاکیزہ ہیں بلکہ شاعر کے پاکیزہ خیال ہونے ،دینی اور اسلامی حمیت کے حامل ہونے اور اپنے اسلاف پر بجا طور پر فخر کرنے کے ساتھ ساتھ علمی اور ادبی روایات کی پاسداری کرنے پر بھی دال ہیں:۔
واعظ کی نگاہیں الجھی ہیں جنت کے حسیں نظاروں سے
ہے اپنا مقدر وابستہ محبوب خدا کے پیاروں سے
باطل کے فسوں کو توڑ دیا اصحاب پیمبر نے آخر
اسلامی کی عظمت منوالی کسری کے درودیواروں سے

ایسے بازو کے گو ہونے سے نہ ہونا اچھا
جو نہ ہو دہر میں شمشیر کے قابل یارو

مانا کہ مشت خاک ہوں دہر میںبے ثبات ہوں
پھر بھی مرا وجود ہی باعث کائنات ہے
جلوہ نشاں ہو تم اگر عرصۂ حیات میں
میری نگاہ شوق بھی وقف تجلیات ہے
قطرۂ خون دل مرا پلکوں پہ جھلملا گیا
نکھرا ہوا شب الم رنگ ر خ حیات ہے
انسانی کی فطرت میں جذبۂ عشق و محبت کی نمو د ہے اور اسی جذبہ محبت کے تحت آدمکا وجود ہے ورنہ نور محمدی کا پیکر منصہ شہود پر کیسے آتااور اپنے معراج کمال پر پہونچ کر جلووں میں گمہوتا۔یہی جذباتی حقیقت جب ایک فنکار کے دل یں موجزن ہو کر دماغ کی بلندی کو پہونچتے ہیں تو بے قراری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ایک حقیقی فنکار اس بے قرار کیفیت کو الفاظ کے موتیوں میں ڈال کر اشعار کی لڑی میں تبدیل کر دیتا ہے۔اور حسن باطنی کو وجود میں لا کر تسکین قلبی اور لذت روح کا سامان فراہم کر دیتا ہے۔جس میں صرف آمد ہوتی ہے۔شعوری کوشش یا آورد نہیں۔جہاں تصنع یا بناوٹ کا احسا س نہیں ہوتا ۔بس بات دل سے نکلتی ہے اور دل میں اثر کرتی ہے۔ ملاحظہ ہوں مختار عاشقی کے یہ اشعار:۔
محو خرام ناز ہے آج کوئی روش روش
صحن ِچمن ہے پھول پھول رقص میں کائنات ہے
٭
ہر قدم پر ہو رہا ہے مجھ کو جنت کا گماں
میرے کانوں میں یہ کیسی نقرئی آواز ہے
چھیڑ دے اے مطرب ِرنگیں نوا تو چھیڑ دے
آج کل خاموش میری زندگی کا راز ہے
مختار عاشقی صاحب آخر عمر تک شعر و سخن کے گیسو سنوارتے رہے ۔اس دوران انھوں نے اردو شاعری کے ان تمام مروجہ موضوعات کو ایک نئی تازگی کے ساتھ اپنی شاعری مین پیش کیا۔انھوں نے مجازی ق سم کے بھی شعر کہے اور ایسے بھی اشعار کہے جن پ حقیقت کے سوا اور کسی رنگ کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ انھوں نے زمانے کے حالات اور ارخ سے منبھی نہیں پھیرا بلکہ ایک شاعر کی شعوری ذمہ داری کا پورا پورا احساس بھی انھیں رہا جس کی ت رجمانی انھوں نے اپ نے شاعری میں جگی جگی کی ہے ملاحظہ ہوں صرف ان کے دو شعر:۔
ہر نظر مایوسیوں کی ہے شکار
ہر نفس ہے آج کل سہما ہوا
اس نے پوچھا مسکرا کر حال دل
زخم دل کا اور بھی گہرا ہوا
مختار عاشقی اپنی عمر کے آخری نو سال لقوا کی بیماری کے سبب مسلسل بستر علالت پر رہے۔اور پھر انھیں اپنے ہی شعر کے مصداق جب یہ محسوس ہوا:۔
زندگی ہم سے جہاں بھی نہ سنبھل پائے گی
ہم وہیں تیری امانت تجھے لوٹا دیں گے
تو انھوں نے 16جنوری2018 کو ۸۸؍برس کی عمر میں دو بیٹے،دوبیٹیاں ،ایک پسر زادی اور دو پسر زادوں کو چھوڑ کر داعی اجل کو بصد شوق لبیک کہہ دیا

Leave a Comment