مسلمان، جمہوریت، میڈیا ۔۔۔۔۔۔ تقاضے، امکانات مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں 17، 18مارچ کو انٹرنیشنل کانفرنسہندوپاک کے ممتاز صحافیوں کی کہکشاں

\"538581_410802385616059_1379449024_n
*ڈاکٹرسیدفاضل حسین پرویز

حیدر آباد ۔مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد کے ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے زیر اہتمام 17اور18مارچ کو دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہورہی ہے جس کا موضوع ہے ’’مسلمان، جمہوریت، میڈیا تقاضے اور امکانات‘‘ ہندو پاک کے ممتاز صحافی اس میں شرکت کررہے ہیں۔ ہندوستان کے سرکردہ سیکولرصحافی جو پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کے ذریعہ مسلمانوں کیلئے آواز اٹھاتے رہے ہیں، جنہوں نے اپنی تحریروں سے ملک کی گنگاجمنی تہذیب کو برقرار رکھنے میں اہم رول اداکیا، ان کی شرکت، اظہارِخیال اور ان کی تجاویز کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ کانفرنس ایک طرح سے مسلمانوں کی کامیابی و ترقی کیلئے ایک نئی راہ دکھائے گی۔ جمہوری ممالک میں ان کے حقوق کے تحفظ کیلئے آواز بلند کی جائے گی، اس بات کی باز گشت میڈیا کے ذریعہ ساری دنیا میں سنی جاسکے گی۔ این رام راج ویب سرد سائی شیکھرگپتا، ستیش جیکپ، ششاورری چاری نے ہمیشہ مسلمانوں کے حقوق و مفادات کے تحفظ اپنا رول ادا کیا ہے۔
\"download\"
ہمسایہ ملک پاکستان کے صحافیوں کو مدعو کرکے اس کانفرنس کی اہمیت میں اضافہ کیاگیاہے۔ دونوں ممالک کے صحافی اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان کے درمیان خیالات کا تبادلہ ایک نئے دور کی شروعات کا حامل رہے گا۔ ادارہ ’’گواہ‘‘ پڑوسی ملک کے صحافیوں کا تاریخی شہر حیدرآباد میں خیرمقدم کرتاہے جو پاکستانی صحافی شرکت کریں گے ان میں پیش رو اور نئی نسل کے نمائندے شامل ہیں۔ پیش رو نسل کے نمائندے شاید جانتے ہوں تاہم نئی نسل کی نمائندگی کرنے والوں کو تاریخی حقائق سے شاید زیادہ واقفیت نہ ہو کہ پاکستان کی تعمیر و ترقی میں حیدرآباد دکن کا ناقابل فراموش رول رہاہے۔ قیام پاکستان اور اس کے بعد وہاں صنعتوں کا قیام ہو یا تعلیمی میدان، سیاسی ہو۔
سائنس و ٹکنالوجی کا شعبہ حیدرآبادیوں کا اہم رول رہاہے۔ حتیٰ کہ 1950 کے وسط میں جب پاکستان شدید مالی بحران سے دوچار تھا۔ سرکاری ملازمین کو تنخواہوں کی دائیگی کیلئے خزانہ میں پیسہ نہیں تھا۔ آصف جاہ سابع نواب میرعثمان علی خان نے غالباً بیس کروڑ روپئے کی رقم فراہم کی تھی۔ پاکستان کے کئی علمائے دین کا تعلق حیدرآباد سے رہا جن میں شاہ بلیغ الدین، مصباح الدین شکیل کے نام قابل ذکر ہیں۔ پروفیسر رضی الدین صدیقی جامعہ عثمانیہ کے بھی وائس چانسلررہے اور کراچی یونیورسٹی کے بھی۔
پاکستانی سیاسی تاریخ میں لائق علی خان ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ان کابھی تعلق حیدرآباد ہی سے رہا۔ بہرحال حیدرآباد اور پاکستان میں ایک تعلق رہاہے۔ امید کہ یہ تعلق رشتہ اور بھی مستحکم ہوگا۔ اس انٹرنیشنل کانفرنس کے سرپرست وائس چانسلرپیروفیسر محمدمیاں ہیں جبکہ مانو کے ماس کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ ڈاکٹر احتشام احمدخان اس کے کنوینر ہیں۔ گواہ کو اس بات کی خوشی ہے کہ لمحہ آخر میں ہی سہی میزبان حیدرآباد کے بھی صحافیوں کو اس میں شامل کیاگیاہے۔ اگر چہ کہ اب بھی بعض سینئر صحافیوں کو نظرانداز کیاگیاہے، خیر اردو اور مسلم اداروں کی یہ روایت رہی ہے۔ اس روایت شکنی کی ہمت کی جائے تو اردو بھی ترقی کرے گی اورمسلمان بھی ۔ گواہ بہرحال، کانفرنس کے مہمانوں کا خیرمقدم کرتاہے، امید ہے کہ خوشگوار تاثرات اور یادوں کی سوغات کے ساتھ وہ یہاں سے واپس ہوں گے۔ اس کانفرنس کے ایک اسپانسر میسکو بھی ہیں جس کے روح رواں ڈاکٹرفخرالدین محمدہیں۔

Leave a Comment