ملالہ کے لیے کچھ نظمیں

تبسم فاطمہ
(۱)
ملالہ
پیاری ملالہ
یہاں سب کچھ ناقابل یقین ہے /تمہاری طرح
کہوں/ کہ تمہارے اپنے آتے ہیں/
توشاید تم بھی یقین نہیں کروگی/
کہوں/ کہ ایک نوجوان بیٹے کی ماں ہوتے ہوئے بھی/
ان دنوں میں پریوں کی دنیا میں ہوں/
تو شاید میری طرف تم تعجب سے دیکھو/

ملالہ، پیاری ملالہ
لیکن مجھے/
ایسے خوشگوار اورمسلسل آنے والے خوابوں پر
کوئی ملال نہیں ہے۔

جیسے طلسمی افسانوں میں
ایک شہزادی دیو کو مار گراتی تھی۔۔۔
یا ایک ننھی منی راجکماری/
منہ سے شعلے اگلتے راکشس کو
موت کی نیند سلادیتی تھی

ملالہ، پیاری ملالہ
تم ان شہزادیوں اور راجکماریوں سے بھی/
کمسن ہو/
خونخوار طالبانیوں کی سلطنت میں تمہاری موجودگی
اب بھی میرے لیے کسی پری کتھا جیسی ہے/
آسمان پر بدلیوں کے درمیان چاند کو
کبھی اس سے پہلے اتنا چمکدار نہیں دیکھا تھا میں نے/
(۲)
ملالہ
جان ملالہ،
تمہیں گلِ مکئی ۱ ؂ کہوں یا کس نام سے پکاروں/
ملال سے پیداہوئی تم/
آج کے خوفناک منظرنامہ میں/
کب کیسے بن گئی
ساری دنیا میں خوشبو بکھیرتی
پھول کی علامت
شاید یہ تم بھی نہیں جانتی تھی
اس غیر مہذب دنیا میں
تیزی سے/
تمہاری خوشبو کو پھیلتے دیکھ رہی ہوں/
میں/
(۳)
ملالہ،
میری پیاری ملالہ،
سوچتی ہوں تو تعجب ہوتا ہے/
جمپر اور شلوار میں
ایک پیاری سی چنری سے منہ ڈھکے/
اسکولی بستے کو کندھے سے لگائے/
جب آخری بار/
پلٹ کر دیکھا ہوگا تم نے اپنے اسکول کو/

دیکھا ہوگا۔
گھنی داڑھیوں والے ہاتھوں کو آر ڈی ایکس/
اور زہریلے ہتھیاروں سے کھیلتے/

سنے ہونگے،
کان کی پرتیں پھاڑنے والے خوفناک دھماکے/

اور کیسی معصوم سی تم
گھر آ کر بن گئی ہوگی۔
ملالہ سے گلِ مکئی

میں اس پرندے کے قصے کو جانتی ہوں
جو آگ میں جل کر ایک نئے جسم کو پا لیتا تھا/

بندوق سے نکلی
بے رحم گولی کی تپش کو لے کر/
ملالہ،
پیاری ملالہ
تم بھی ایک نئے جسم میں داخل ہو گئی ہو/

سورج طلوع ہونے والا ہے
بد عنوان،غیر مہذب اور دہشت سے لرزتی دنیا میں
تمہاری ننھی سی اور معصوم سی عمر کی قسم/

ملالہ
پیاری ملالہ
اس بے رحم اور سنگدل دنیا میں
تمہارے اندر
ایک بدلتی ہوئی تقدیر دیکھ لی ہے میں نے /
(۴)
میں اس پاکستان کو جانتی تھی
جہاں پچھلے ۶۷ برسوں میں سیاست اور مذہب کے تعلق سے/
ایک کہرام مچا تھا/
جہاں جلتا ہوا تخت تھا
مرتے ہوئے راج نیتا تھے
جھلستی ہوئی جنتا تھی
جہاں دہشت کے سائے میں مرجھائے ہوئے گلاب تھے
جہاں مسجدوں سے چلتی تھیں گولیاں/
جہاں سوات کی اندھی گھاٹیوں میں/
آزادی کی سزا کے طور پر/
کوڑے پڑتے تھے دین کی بیٹیوں پر

جہاں ٹوپی، داڑھی اور فوج کے سائے میں
عام آدمی بھول چکا تھا، جینا
ملک کی اب تک کی تاریخ میں
جہاں ایک نام/
صرف نفرت کا باب لکھنے کے نام سے/
جانا جاتا تھا/

ملالہ،
خوش آمدید
غضب کیا تم نے ملالہ
عمر کے ۱۵ برسوں کی خوشبو دے کر
دھو ڈالے داغ کے دھبے
اور بن گئی/
اپنے چمکتے چہرے کے ساتھ/
نئی دنیا کی آبرو
خوش آمدید
پتہ:
D-304 تاج انکلیو، گیتا کالونی، دلی۱۱۰۰۳۱
tabassumfatima2020@gmail.com

Leave a Comment