جموں کشمیر(اسٹاف رپورٹر)یہ خبر نہایت پُر مسرت ہے کہ اُترپردیش اُردو اکادمی نے ڈاکٹر مشتاق احمد وانی، اسسٹنٹ پروفیسرشعبۂ اردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری( جموں کشمیر) کو اُن کی تحقیقی وتنقیدی کتاب ’’افہام وتفہیم زبان وادب‘‘پر انعام دیا ہے ۔انعام 10,000روپے کا چیک اور ایک توصیفی سند کی صورت میں ہے ۔ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کا ادبی سفر 1989ء میں ایک افسانہ ’’تڑپتے پنچھی ‘‘سے شروع ہوا۔اس وقت تک اُن کی دودرجن کے قریب کتابیں زیور ِ طباعت سے آراستہ ہوکر منظر پر آچکی ہیں ۔اُردو ادب میں اُن کی حیثیت افسانہ نگار ،محقق اور نقاد کی ہے ۔ہند اور بیرونِ ہند کے موقر ومعیاری رسائل وجرائد میں اُن کے افسانے اور تحقیقی وتنقیدی مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں ۔وہ ادب برائے زندگی کے نظریے کے قائل ہیں ۔اُن کی علمی وادبی خدمات پہ دو ایم فل اور ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جاچکا ہے ۔یہاں یہ بات ذہن نشیں رہے کہ ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کی علمی وادبی صلاحیتوں کے اعتراف میں اس انعام سے قبل بہار اُردو اکادمی،یوپی اردو اکادمی،گلوبل اچیور ایوارڈ بمبئی،وقار ادب ایوارڈ مالیگاؤں( مہاراشٹر)کاوش بدری ایوارڈ ( مدراس)کرشن چندر ایوارڈ ،ملیرکوٹلہ(پنجاب)اور 2018ء میں بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری نے اُنھیں ممتاز محقق ایوارڈ سے نوازہ ہے ۔ڈاکٹر مشتاق احمد وانی کے پانچ افسانوی مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔اُن کی چھ کتابیں زیرترتیب ہیں جن کے نام ہیں ’’نئی تنقیدی معنویت ’’ارتکازِ فکر’’تنقیدی فکر وفن ’’زبان وبیان’’آج میں کل تُو‘‘( افسانے)اور ’’خارستان کا مسافر‘‘(خود نوشت سوانح عمری)ڈاکٹر مشتاق احمد وانی ادب کے ذریعے انسانی اقدار وروایات کو فروغ دینااپنا ادبی فریضہ سمجھتے ہیں ۔اُن کے افسانے فنی اور موضوعاتی اعتبار سے گہری معنویت کے حامل ہوتے ہیں ۔اُن کے تحقیقی وتنقیدی مضامین میں لفظ ومعانی کی حرمت اور بصیرت وبصارت کا پہلو ہر جگہ جلوہ گر نظر آتاہے ۔اتر پردیش اردو اکادمی کا انعام حاصل ہونے پر اُن کے چاہنے والوں اور اردو ادب کے شیدائیوں میں خوشی کی اک لہر سی دوڑ گئی۔