مکاتبِ اقبال میں منظر نگاری

\"22709924_1376090022518256_1687166803_n\"

ٌ٭رابعہ الرَبّاء 
افسانہ نگار،لاہور،پاکستان

\"turkey-honors-allama-muhammad-iqbal-award-for-service-to-islam-1481983630-1388\"
اُردو ادب میں علامہ اقبال کا تذکرہ زیادہ تر اُن کی شاعر ی کے حوالے سے ہوا ہے ،بلا شبہ اُن کی شاعرانہ عظمت اُردو شاعری کی آبرو ہے ۔ جیسے کسی طور اُنکار ممکن نہیں ۔ وہ قومی شاعر تو ہیں ہی مگر اسلام کی فکری تہذیب کے اہم نُمائندہ بھی ہیں اُنھوں نے شاعری کے علاوہ نثر نگاری کا بھی ایک مایہ ناز ذخیرہ چھوڑا ہے۔۔ اگرچہ اس کی طرف اقبالیات کے طُلبہ و ماہرین کی توجہ کم کم رہی ہے مگر اس کے باوجود اس کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں اگر ان کی شاعری کے بعد ان کے نثری ذخیروں میں اہم ذخیرے کا ذکر کیا جائے تو وہ بلا شبہ مکاتب ِاقبال ہی ہیں۔کیوں کہ ان کے شعروں کی تفسیر و فکر کو سمجھنے کا بھی یہ اہم ذریعہ ہے ۔اور ان کے افکار کے مطالعہ کا بھی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی شخصیت بھی ان مکاتب کے الفاظ میں پنہاں ہے ۔
اقبال نے بلا شبہ بے شمار خطوط لکھے ابھی تک محقیقین کو کوئی نہ کوئی نادرو نایاب تحریراقبال کا سُراغ مل ہی جاتا ہے ۔ اگرچہ بہت سے خطوط کتابی صورت میں منظرِعام پر آ بھی چکے ہیں ،ان خطوط میں (جو ابھی تک منظرِعام پر نہیں ہیں) اقبال کی ذاتی و شخصی زندگی کے کئی پہلو نظر آتے ہیں۔ مختلف حوالوں سے مختلف رجحانات و افکار اور نفسیاتی و جذباتی کیفیتیں بھی آئینہ ہوئی ہیں اس لیئے یہ خطوط کسی طور بھی شاعرانہ عظمت سے کم نہیں بلکہ اسی تسلسل کی ایک کڑی ہیں۔
وفاتِ اقبال کے بعد ان کے مکاتب کے مجموعے شائع ہو چُکے ہیں۔ جن میں سب سے زیادہ مقبولیت ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کے مجموئے ’’خطوطِ اقبال‘‘ کو ملی۔ تر تیب وار جو مجموعے شائع ہوئے وہ کُچھ یوں ہیں ۔
۱- شادِ اقبال مرتبہ ڈکٹر معین الدین قادری زورؔ ۱۹۴۳۲ء
یہ مجموعہ حیدرآباد دکن میں شائع ہوا تھا اور اس میں اقبال کے انچاس مکاتب شامل ہیں۔۔۔
۲- اقبال بنام شاد مرتبہ محمد عبدللہ قریشی ۱۹۸۶ء
یہ مجموعہ’’ شادِاقبال‘‘ ہی کی اشاعت ِ مکرر ہے اس میںمزیدکئی خطوط کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔۔۔
۳- اقبال نامہ (حصہ اوّل) مرتبہ شیخ عطاء اللہ ۲۹۴۴ء
یہ مکاتب کا سب سے ضخیم مجموعہ ہے جس میں جامعیت اور تنو ع بھی نظر آتا ہے۔۔۔
۴- اقبال نامہ (حصہ دوم) مرتبہ شیخ عطاء اللہ ۱۹۵۱ء
۵- مکاتبِِ اقبال بنام خان مُحمد نیازالدین خان(مرحوم) ۱۹۵۴ء
۶-مکتوباتِ اقبال مرتبہ سید نذیر نیازی ۱۹۵۷ء
اس مضمون میں ایک کے علاوہ تمام خطوط سید نذیر نیازی کے نام ہی ہیں۔۔۔
۷- انوارِاقبال مرتبہ بشیر احمد ڈار ۱۹۶۷ء
اس مجموعے میں اقبال کے دو فارسی خطوط بھی شامل ہیں۔۔۔
۸-مکاتیب اقبال(بنام گرامی) مرتبہ مُحمد عبدللہ قریشی ۱۹۶۹ء
اس میں سب خطوط شیخ عبدلقادر گرامی کے نام ہیں۔۔۔
۹- خطوط اقبال مرتبہ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ۱۹۷۶ء
اس مجموعہ میں ایک عربی خط بھی شامل ہے اس کے علاوہ کچھ انگریزی خطوط بمعہ ترجمہ شامل ہیں۔۔۔اس مجموعے کی اہمیت کا اندازہ ڈاکٹر صاحب کے اپنے الفاظ میں بہتر ہوگا۔لکھتے ہیں۔۔۔
’میں نے اول تو خطوط کی عکسی نقول کی مہیا کرنے کی کوشش کی اور جس قدر خطوں کی عکسی نقول مل سکیں اسے سامنے رکھ کر خطوط کے متون نقل کرنے میں حتی الامکان پوری احتیاط سے کام لیا‘‘ ’’ جن خطوط کی عکسی نقول دستیاب نہیں ہو سکیں، دوسرے ذرائع سے امکانی حدتک ، ان کا صحیح متن دریافت کرنے کی سعی کی گئی اس کے با وجود کئی خطوط کے دو دو متن ملے۔ چناچہ نسبتاً زیادہ قابلِ ترجیح متن اختیار کر کے اختلافات کی نشاندہی حواشی میں کر دی گئی ۔
اس سے قبل کسی بھی مجموعے کے مرتب کرنے میں ان احتیاطوں سے کام نہیں لیا گیا تھا ۔ اس مختصر سی تفصیل کے بعد اب ہم آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف یعنی مکاتیب اقبال میں منظر ِنگاری۔ ان کے خطوط میں جو منظر نگاری ملتی ہے وہ کسی بھی بہترین نثر نگاری سے کہیں بہترہے اور اس کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہ منظر سرا سر سب کے سب حقیقی ہیں اور اس میں رنگ ، خوبصورتی اقبال کے علمِ عظیم اور تخیل عظیم کے باعث ہے۔
مولوی انشائاللہ خان ایڈیٹر ’’وطن ‘‘ کے نام اپنے خظ میں ایسی ایسی نظر نگاری کی ہے کہ عش عش کرنے کو دل مچلتا ہے(یہ خظ ۶ اکتوبر ۱۹۰۵ میں لکھا گیا ہے)۔
ؔؔایک روز ایک افسر تختہ جہاز پر کھڑا تھا کہ ایک حسین عورت کا اُدھر سے گُزر ہوا۔ اتفاق سے یا غالباً اراداۃً یہ عورت اس افسر کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہوئے گُزری ،ہمارے نوجوان افسر نے اس توجہ کے جواب میں ایک ایسی ادا سے جنبش کی کہ ہمارے مُلک کے حسین بھی اس کی نکل نہیں اُتار سکتے (ص،۵۷۰)
’’بمبئی سے ذرا آگے نکل کر سمندر کی حالت کسی قدر متلاتم تھی خواجہ خضر صاحب کُچھ خفا سے معلوم ہوتے تھے انتی اُونچی اُونچی موجیں آتی تھیں کہ خُدا کی پناہ دیکھ کر دہشت آتی تھی یک شب ہم کھانا کھا کر تختہ جہاز پر آبیٹھے ۔کُچھ عرصے بعد سمندر کی سرد ہوا نے ہم سب کو سُلا دیا۔ مگر دفعتہ ایک خوفناک موج نے اُچھل کر ہم سب پر حملہ کیا اور مُسافروں کے کپڑے بھیگ گے ۔ عورتیں ، بچے اور مرد بھاگ کر اپنے اپنے کمروں میں جا سوئے اور ہم تھوڑی دیر کے لیئے جہاز کے مُلازموں اور افسروں کے تمسخر کا باعث بنے رہے (ض،۵۸)۔
ــ’’ سمندر کا پانی بالکل سیاہ معلوم ہوتا ہے اور موجیں جو زور سے اُٹھتی ہیں ان کو سفید چاندی کی کلغی سی پہنا دیتی ہے اور دور دور تک ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا کسی نے سفید سمندر پر روئی کے گالے بکھیر ڈالے ہیں۔ یہ نظارہ نہایت دلفریب ہے اگر اس میں موجوں کی دہشت ناک کشا کش کی آمیزش نہ ہو ۔ ان کی قوّت سے جہاز ایک معمولی کشتی کی طرح جنبش کرتاہے آسمان اُوپر تلے معلوم ہوتا ہے۔ مگر آنکھیں چونکہ اس نظارے سے کس قدر مانوس ہو گئیں ہیں اور جہاز والوں کے چہروں کے اطمینان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک معمولی بات ہے ( ص،۵۸)۔۔
ؔؔ’ ’ آج ۱۲ ستمبر کی صبح ہے میں بہت سویرے اُٹھا ہوں ۔ جہاز کے جارو ب کش ابھی تختے صاف کر رہے ہیں چراغوں کی روشنی دھیمی پڑگئی ہے۔ آفتاب چشمہ آب میں سے اُٹھتا ہوا معلوم ہوتا ہے اور سمندر ایسا ہی ہے جیسا ہمارا دریائے راوی ۔ شاید صبح کے پُر تاثیر نظارے نے اس کو سمجھا دیا ہے کے سکون ِ قلب بھی ایک نایاب شے ہے ، ہر وقت کی اُلجھن اور بے تابی اچھی نہیںطلوع آفتاب کا نظارہ ایک درد مند دل کے لیئے تلاوت کا حُکم رکھتا ہے جس کی طلوع و غروب کو میدان میں ہم نے کئی دفعہ دیکھا ہے مگر یہاں سمندر میں اس کی کیفیت ایسی ہے کہ ۔۔
نظازجنیدن مژگاںگلہ دارد(ص،۶۰)
(مولوی انشائاللہ خان کے نام ایک خط ۲۲ ستمبر ۱۹۰۵ء میں لکھا )
ــ ’’ عدن میں قدیم ایرانی بادشاہوں کے بنائے ہوئے تالاب میں ،اور یہ اس طرح بنائے گئے ہیں کہ ایک دفعہ بارش کا تمام پانی ہر جگہ سے ڈھل کر ان میں جا گرتا ہے کیوں کہ مُلک خُشک ہے اس واسطے ایسی تعمیر کی سخت ضرورت تھی (ص، ۶۲)۔
’ ’ کوئی پھل بیچتا ہے کئی کوئی پوسٹ کارڈ دیکھاتا ہے کوئی مصر کے پورانے بُت بیچتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ یہ ذرا سابت اٹھارا ہزار برس کا ہے جو ابھی کھنڈرکھودنے سے ملا ہے غرض کے یہ لوگ گاہگوںکو قیدکرنے میں کوئی دقیقہ فرد گُزاشت نہیں کرتے انھیںلوگوں میں ایک شعبدہ باز بھی ہے جو ایک مُرغی کا بچہ ہاتھ میں لیئے ہے اور کسی نا معلوم ترکیب سے ایک کے دو بنا کر دیکھا تا ہے(ص،۶۳)۔
ــ آہستہ آہستہ سوئز کنال میں جا داخل ہوا۔ یہ کنال جسے ایک فرانسسی انجینئر نے تعمیر کیا تھا دُنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے بعض بعض جگہ تو یہ کنال ایس تنگ ہے کہ دو جہاز مُشکل سے اس میں سے گُزر سکتے ہیں اور کسی کسی جگہ ایسی بھی ہے کہ اگر کوئی غنیم چاہے تو رات میں اسے مٹی سے پُر کردے تو آسانی سے کر سکتا ہے۔ سیکڑوں آدمی ہر وقت کام کرتے ہیں، جب ٹھیک رہتی ہے اور اُس کا ہمیشہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ دونوںجانب سے جو ریت ہوا اے اڑاکراس میں گرتی رہتی ہے اس کا انتظام ہوتا رہتا ہے۔ کنارے پر جو مزدور کام کرتے ہیں بعض نہایت شریر ہیں جب ہمارا جہازآہستہ آستہ جا رہا تھا اور جہاز کی چند انگریز بیبیاںکھڑی ساحل کی سیر کر رہی تھیں تو ان میں سے ایک مزدور سر تا پا برہنہ ہو کر ناچنے لگا ۔ یہ بے چاری دوڑ کر اپنے اپنے کمروں میں چلی گئی۔ (ص،۶۵)۔۔۔
’’ تختہ جہاز پر تین اطالین عورتیں اور دو مرد وائلن بجا رہے تھے اورخوب رقص وِ سرور ہو رہا تھا ان عورتوںمیں ایک لڑکی جس کی عمر ۱۳ ، ۱۴ سال کی ہو گی ، نہایت حسین تھی۔ مُجھے دیانت داری کے ساتھ اس بات کا اعتراف کرنا چاہیئے کہ اس کے حُسن نے تھوڑی دیر کے لیئے مجھ پر سخت اثر کیا لیکن جب اس نے ایک چھوٹی سی تھالی میں انعام مانگنا شروع کیا تو وہ تمام اثرزائل ہو گیا کیونکہ میری نگا ہ میں وہ حُسن جس میں استغا کا غازہ نہ ہو بدصورتی سے بھی بد تر ہو جاتا ہے (ص،۶۶)۔
سیّد سُلمان ندوی کے نام ایک خط مورخہ ۱۱ اکتوبر۱۹۳۳ء
اکتوبر میں موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ راتیں عام طور پر ایسی ہوتی ہیں جیسے شملہ میں۔ البتہ نومبر میں سردی کسی قدر بڑھ جاتی ہے۔(ص۱۷۴)
مُنشی سراج الدین کے نام ایک خط۔مورخہ ۱۱ مارچ( ۱۹۰۳ء)
( اس خط میں علامہ کے اپنے ارد گردکا ایک منظر دیکھئے)
ــ ’’آج عیدکادن ہے اور بارش ہو رہی ہے گراّمی صاحب اور شعرو سخن کی محفل گرم ہے۔شیخ عبدلقادرابھی اُٹھ کر کسی کام کو گئے۔سیّد شبیر حیدربیٹھے ہیں اور ابر گہریار کی اصل علت کی آمد آمد ہے‘‘۔(ص۔۸۰)
(پروفیسر مُحمد الیاس برنی کے نام ایک خط مورخہ ۱۳ جون ۱۹۳۶ء)
’’دو سال سے اوپر ہو گئے جنوری کے مہینے میں عید کی نماز پڑھ کر واپس آیا سویاں دہی کے ساتھ کھاتے ہی زکام ہوگیا۔ بہدا نہ پینے پر زکام بند ہوا تو گلا بیٹھ گیا یہ کیفیت دو سال سے جاری رہی بلند آواز میںاقبال بول نہیں سکتا۔اسی وجہ سے مجھے بلآخر بیرسٹری کا کام چھوڑنا پڑا ‘‘ (ص۔۳۰۵)
(قائد اعظم مُحمد علی جناح کے نام ایک خط مورخہ ۲۱ جون ۱۹۳۷ء)
’’گذشتہ چند ماہ میں کم از کم تین فرقہ وارنہ فسادات رونما ہو چکے ہیںصرف شمال مغربی ہند میں ام تین ماہ میںکم از کم تین فرقہ وارانہ فسادات رونما ہو چکے ہیںہندووئں اور سکھوںکی طرف سے تو ہین رسول ﷺ کی چار وارداتیں پیش آچکی ہیں ۔توہینِ رسولﷺکی ان چاروارداتوں میں ان چار مُجرم فی النار کر دیا گیا‘‘ (ص۳۶۲)
اکبر الہ آبادی کے نام ایک خظ مورخہ ۱۶ جولائی ۱۹۱۴ء
’’لاہور میں اب کے بارش بالکل نہیں ہوئی ۔ابرروز آتا ہے مگر لاہور کی چارد یواری کے اندر اُسے برسنے کا حکم نہیں ‘‘(ص،۳۷۷)
سرکشن پرشادکے نام ایک خظ( تاریخ موجود نہیں)
’’آج آٹھ دن سے مارشل لاء یعنی قانون عسکری یہاں جاری ہے ۔ پنجاب کے بعض دیگر اضلا ع میں بھی گورنمنٹ یہی قانون جاری کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ جن لوگوں نے قصورر اور امرت سرمیں قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا ان کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر مقدما ت چلائے گئے ہیں کل سے ان کا ٹرائل بھی شروع ہے ‘‘ (ص،۴۷۸،۴۷۹)
مُحمد بن فوق کے نام ایک خط۔ (مورخہ ۲۵ نومبر ۱۹۰۵ء)
’’آخر مسلمانوں کے اس گروہ کو چھوڑ کر ہمارا جہاز رُخصت ہوا اور آہستہ آہستہ سویز کنال میں داخل ہوا یہ کنال جسے ایک فرانسسی انجینئر نے تعمیر کیا تھا، دُنیا کے عجائبات میں سے ایک ہے ۔ کنال کیا ہے، عرب اور افریقہ کی جُدائی ہے اور مشر ق اور مغرب کا اتحاد ہے ۔ دُنیا کی روحانی زندگی پر مہاتما بد ھ نے بھی اس قدر اثر نہیں کیا جس قدر اس مغربی اخترا ع میں زمانہ حال کی تجارت پر کیا ہے ۔کسی شاعر کا قلم اور کسی تراش کا ہنر اسی شخص کے تخیل کی داد نہیں دے سکتا۔ جس نے اقوامِ عالم میں اس تجارتی تغیر کی بنیاد رکھی، جس نے حال کی دُنیا ،تہذیب و تمدن کو کُچھ کا کُچھ کر دیا ‘‘(ص،۵۵۵)
مولانا انشاء اللہ کے نام ایک خظ (مورخہ ۱۴ ستمبر )
’’ میں نے اسکول کے پارسی لڑکو ں اور لٖڑکیوں کو بازار میں پھرتے دیکھا۔ چستی کی مورتیںتھیں۔ مگر تعجب ہے کے ان کی خوبصورت آنکھیں اسّی فیصد کے حساب سے عینک پوش تھیں دریافت کرنے پر معلوم ہو کے عینک پوشی پارسیوں کا قومی فیشن ہے ‘‘ (ص،۵۶۔۵۱)
’’ آج کل لاہور میں موسم عجیب و غریب ہے مئی اور جون کے مہینے میں لو ُ کی شدّت و حرارت نا قابلِ برداشت ہوا کرتی ہے ۔ مگر آج کل یہ حال ہے کہ تقریباً ہر روز آسمان ابر آلود رہتا ہے اور صبح کے وقت خاصی سردی ہوتی ہے۔ مغرب سے آفتاب نکلنے کا وہی مفہوم ہے،(ص،۴۵)
سر سیّد راس مسعود کے نام ایک خظ ( مورخہ ۱۵ جنوری ۱۹۳۷ ء)
’’ لاہور میں الیکشن کی گرم بازاری ہے ۔ پنچاب میں الیکشن کے سلسلے میں قتل کی دو وارداتیں ہو چُکی ہیں۔ سرحدپھر جنگ اور قصہ وہی مسجد شہد گنج کا ،(ص،۲۸۶)
غُلام قادر گرامی کے نام ایک خظ( مورخہ ۱۱ مارچ ۱۹۱۰ء)
’’اس میں علامہ نے ایک واقعہ کو اپنے قلم سے منظر کیا ہے،‘‘
’’ بضیر نام کا ایک شخص تھا ہجرت سے پہلے رسولِ پاک ﷺ کو سخت ایذا دیتا تھا۔ فتح مکہ کے بعد جب رسول ِ اللہ ﷺ شہر میں داخل ہوئے تو ایک مجمع عام میں آپﷺ نے علی مر تضیٰ کو حکم دیا تھا کے اس کی گردن اُڑا دو ۔ ذوالفقار حیدر ی نے ایک آن میں اس کمبخت کا خاتمہ کر دیا ۔ اس کی لاش خاک و خون میں تڑپ رہی تھی لیکن وہ ہستی جن کی آنکھوں میں دو شیزہ لڑکیوں سے بھی زیادہ حیاء تھی جس کا قلب تاثراتِ لطیفہ کا سر چشمہ تھا ، جو اہل عالم کے لیئے سراپا رحمت و شفقت تھی اس درد انگیز منظر سے مطلق متاثر نہ ہوئیں۔ نضیر کی بیٹی نے باپ کے قتل کی خبر سنی تو نوحہ و فریاد کرتی رہی اور باپ کی جُدائی میں درد انگیز اشعار پڑھتی ہوئی(یہ اشعار حماسہ میں منقول ہیں) دربار ِ نبوی ﷺ میں حاظر ہوئی۔ اللہ اکبر۔ اشعار سُنے تو رسولِ پاک ﷺ اس قدر مُتاثر ہوئے کہ اس لڑکی کیساتھ مل کر رونے لگے یہاں تک کے جوش ِ ہمدردی میں ان سب سے زیادہ ان سب سے زیادہ ضبط کرنے والے انسان ﷺ کے سینے سے ایک آہ ِ سرد نکلوا کے چھوڑی ۔ پھر نضیر کی تڑپتی ہوئی لاش کی طر ف اشارہ کر کے فرمایا کے یہ فضلِ رسول اللہ ﷺ اللہ کا ہے اور اپنی روتی ہوئی آنکھ پر اُنگلی رکھ کر کہا کے یہ فصل مُحمد بن عبدللہ کا ہے پھر حُکم دیا کاے نضیر کے بعد کوئی شخص مکہ میں قتل نہ کیا جائے‘‘(ص،۷۶۰)
مولوی انشائاللہ خان کے نام ایک خظ( مورخہ ۲۵ نومبر ۱۹۰۵ء)
’’ہحر روم کے ابتدائی حصّے میں سمندر کا نظارہ بہت دلچسپ تھا اور ہوا میں ایسا اثر تھا کے غیر موزوں طبع آدمی بھی موزوں ہو جائے‘‘(س،۶۷ء)
مولوی انشائاللہ خان کے نام ایک خظ( مورخہ ۱۲ ستمبر ۱۹۰۵ء)
ـــ ’’ جہاز پر دیا سلائی استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے تختہ جہا ز کے ایک طرف کمرے کی دیوار پر پیتل کی ایک اُنگیٹھی سی لگارکھی ہے۔ جس میں چند لکڑیا ںآگ لگا کر رکھ دیتے ہیںجن لوگوں کو سگریٹ یا سگارردوی کرنا ہو اس انگیٹھی سے ایک لکڑی اُٹھالیں ‘‘(ص، ۵۹ ء)
لا دھنپت رام وکیل لاہور اور ان کے ایک دوست ڈاکٹرصاحب اس روز حُسن اتفاق سے بمبئی میں تھے۔ میں اُن کا نہایت سپاس گزارہوں کہ یہ دونوں صاحب مُجھے رُخصت کرنے کے لیئے ڈاک پر تشریف لائے ۔ بہت سے او رلوگ بھی جہاز پہ سوار ہوئے ۔ ان کے دوستوں اور رشتہ داروں کا ایک ہجوم ڈاک پر تھا کوئی تین بجے جہاز نے حر کت کی اور ہم دوستوں کوسلام کہتے اور رومال ہلاتے ہوئے سمند ر پر چلے گئے۔ یہاں تک کہ موجیں ادھر اُدھرسے آکر ہمارے جہاز کو چھونے لگے ۔ فرانسسی قوم کامذاق اسی جہاز کی عمدگی اور نفاست سے ظاہر ہے ۔ اور ہر روز صبح کو کئی آدمی جہاز کی صفائی میں مصروف رہتے ہیں اور ایسی صفائی کرتے ہیں کے ایک تنکا بھی جہاز پر نہیں رہنے دیتے ،(ص،۵۷ء)
بمبئی (خُدا اسے آباد رکھے) عجب شہر ہے بازار کُشادہ ، ہر طرف پختہ سر بفلک عمارتیں ہیں کہ دیکھنے والے کی نگاہ ان سے خیرہ ہوتی ہے۔ بازاروں میں گاڑیوں کی آمدو رفت اس قدر ہے کے پیدل چلنا محال ہوجاتا ہے۔ یہاں ہر چیز مل سکتی ہے یورپ و امریکہ کے کارخانے کی کوئی چیز طلب کرو فوراً ملے گی۔ ہاں البتہ ایک چیز ایسی ہے جو اس شہر میں نہیں مل سکتی یعنی فراغت۔(ص،۵۵)
ان تمام اقتباسات و سطورسے اندازہ ہوتا ہے کہ خطوط میں کس قدر لطافت کا عنصر موجود ہے،کہ وہ ایسے منظر نگاری کرتے ہیں کہ پورے کا پورا نقشہ کھینچ جاتا ہے۔
خطوط میں یہ منظر نامہ ان کی نثر کی ایک خاص خصوصیت ہے۔ جس میں حقیقت تو ہے، ایک رومان و لطیف بھی موجود ہے جو کم از کم آج کی قاری کوبھی اسیر کرتا ہے اور جن کو یہ خطوط لکھے گئے ہوں گے ان کو تو حالات و مقامات آج کی کسی ٹی وی چینل کی طرح معلوم ہوتے ہوں گے جن میں تمام خصوصییا ت بصری درآئی ہیں۔
علامہ کے خطوط کی یہ خاص خوبی ،ان کی نثر کے اس خاص آہنگ، کی طرف ابھی اتنی توجہ مرکوز نہیں کی گئی ۔ جب کہ ان کی اس نثری خوبی میں کہانی پن کا عنصر بھی موجود ہے اور اس کو حقیقی منظر نامہ یا حقیقی منظر نگاری کی عمدہ ترین مثال بھی کہا جاسکتا ہے ۔ جس کو ان کی ایک خاص اہم اور منفرد نثری خصوصیت تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ جہاں علامہ ایک مخصوص فریم سے الگ نظر آتے ہیںجس میں فلسفہ ہے ، فکر ہے،عشق ہے ، دین ہے مگر یہاں علامہ کا رنگ اس سب سے الگ و جُدا ہے جو اگرچہ ان کی پہچان نہیں تھا مگر عظمت کیایک اور دلیل ضرور ہے۔

Leave a Comment