مہاراشٹرساہتیہ اکادیمی کی اعزازی ٹرافی پر وزیر اورچیئرمین کی تصویروںپر اردوداں طبقہ کی ناراضگی اور مذمت

\"Trophy\"

\"Trophy1\"
ممبئی(پریس ریلیز)ممبئی میں گزِشتہ شب مہاراشٹر اسٹیٹ اردو اکیڈمی کے ایوارڈجلسہ میں ریاستی وزیر برائے اقلیتی امور ایکنا تھ کھڑسے نے جہاں ریاست میں اردوکی ترقی وفروغ کے لیے جو بڑے بڑے اعلانات کیے ،وہیں انعامات یافتگان کو دی جانے والی ٹرافی پر ریاستی وزیر کھڑسے اور اکادیمی کے چیئرمین عبدالرئوف خان کی تصویریں چسپاں کرنے سے اردوداں طبقہ میں سخت ناراضگی پائی جاتی اور کئی تنظیموں اور شخصیات نے اس نئی روایت کی سخت لہجے میں مذمت کی اور ٹرافی تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
مہاراشٹر اردوساہتیہ اکادیمی کے سابق کارگزار چیئرمین خورشید صدیقی نے ایک بیان میں مہاراشٹر اردوساہتیہ اکادیمی کی ٹرافی (سرکاری ٹرافی)پرپہلی بار ریاستی وزیر برائے اقلیتی امور اور کارگزارچیئرمین کی تصویریں شائع کیے جانے کی مذمت کی ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ فوری طورپرٹرافی کو تبدیل کی جائے ۔انہوںنے مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ دیویندر فڑنویس کو ایک مکتوب روانہ کرتے ہوئے اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
سابق ممبر اسٹنڈنگ کمیٹی برائے قومی اقلیتی کمیشن سلیم الوارے نے بھی اس معاملہ کی مذمت کرتے ہوئے وزیراعلیٰ فڑنویس کو خط لکھا ہے ۔جس میں وزیراعلیٰ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ اردواکادیمی کے میمنٹو پر تصویریں شائع کیے جانے کی انکوائری کرائی جائے اور سخت اقدامات کیے جائیں ورنہ مستقبل میں کالج اور یونیورسٹیو ںکی ڈگریوں پر بھی وائس چانسلر اور پرنسپل کی تصویر شائع کی جانے لگے گی۔انہوںنے قصورواروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔سنیئر صحافی اور اردوجرنلسٹ ایسوسی ایشن کے نائب صدر جاوید جمال الدین نے بھی مذمت کی ہے ،انہوںنے مطلع کیا کہ سپریم کورٹ نے پہلے ہی سرکاری اشتہارات پر پابندی عائد کی ہے اور صرف صدر جمہوریہ,نائب صدر اور وزیراعظم اور وزارت کے وزیرکی تصویروں کی اجازت دے دی ہے۔ لیکن پھر سرکاری ایوارڈ پر اس طرح کی تصویریں کیا معنی رکھتی ہیں۔ اسے انفرادی حیثیت نہیں حاصل ہونا چاہئے یہ سرکاری ایوارڈ ہے۔کسی وزیریا فردواحد نے نہیں دیا ہے۔
اس تعلق سے سوشل میڈیا پر بھی مذمت کا دور شروع ہوگیا ،بھیونڈی کے مشہور صحافی ڈاکٹر ریحان انصاری نے اسے ایک شرمناک حرکت قراردیتے ہوئے ،ٹرافیوںکو واپس بھیجنے کی مہم شروع کی جانی چاہئے اور اس کا مقصد تصویروں کو ہٹانا ہونا چاہئے اور یہی ان کا اصلی جواب ہوگا ورنہ جادوسرچڑھ کربولے گا۔ ناول نگار رحمن عباس نے بھی اس کی مذمت کی اور مطالبہ کیا ہے کہ انعام یافتگاں کو ٹرافی واپس کردینے کی جسارت کی جانی چاہئے۔نوجوان مصنف اور شاعر قمر صدیقی نے بھی اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ گویا اشتہاری سند اور اشتہاری ٹرافی ہے۔اس سلسلے میں انہوںنے کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔

Leave a Comment