٭ ڈاکٹر محبوب ثاقب
اسسٹنٹ پروفیسر
شعبہ اردو شیواجی کالج، اودگیر ضلع لاتور ۔
اردو ناول کو نئی فکر ،نئی جہت، نئی نظر اور نئی سمت عطا کرنے والی ادیبہ عصمت چغتائی ایوانِ ادب میںداخل ہوئی تو ادب کی رومانی فضا پر جمود چھا یا ہوا تھا اور ایک نیا’’ سرخ سویرا‘‘ ترقی پسندی کی شکل میں ادبی بساط پر روشنی بکھیر رہا تھا جس نے سماجی حقیقت پسندی ، دولت کی نابرابری،ظلم و زیادتی، طبقاتی کشمکش، جنسی الجھنیں ، رشتوں کی پیچیدگیاں ، اندھے عقائد ، اندھی مذہبیت ، خواتین کے حقوق، سرمایہ داری کی لعنت،جاگیر دارانہ نظام کی کھوکھلی معاشرت جیسے موضوعات سے نقاب کشائی کی۔ترقی پسند تحریک نے ’ ادب برائے زندگی ‘ اور مظلوموں اور محنت کشوں کی حمایت کا جو نعرہ بلند کیا تھا اس کی کشش نے عصمت کو اپنا گرویدہ بنا لیا ۔ انہوں نے ایسے موضوعات پر قلم اٹھایاجنہیں احاطۂ تحریر میں لانا ضابطۂ اخلاق کے خلاف سمجھا جاتا تھا۔ جنس اور نفسیات ان کے پسندیدہ موضوعات تھے۔
عصمت بنیادی طور پر افسانہ نگار تھیں لیکن ان پر یہ حقیقت منکشف ہوگئی تھی کہ افسانے کا کینوس زندگی کو وضاحت اور وسعت سے پیش کرنے کے لیے کافی نہیںہے۔اس لیے انہوں نے ناول کا انتخاب کیاکیونکہ ناول کے فن میں بے پناہ وسعت ہے ۔ناول حیات و کائنات کی تفسیر کا فن ہے۔ یہ سیلِ وقت بھی ہے اورعکس سماج و کائنات بھی۔جہاں اس میں زندگی کے متنوع رنگ ہیں،وہیں تدبر وتفکر ،اختراع واجتہاد ، فکرو فلسفہ،گہرائی و گیرائی کے ساتھ معاشرے کی عکاسی ، صداقت ِحیات کی جدلیاتی آنچ، رشتوں کے الجھاو اور تہذیب کی ترجمانی بھی پائی جاتی ہے۔ناول کے کردار جہاں ظاہری حسن و آرائش سے مملو ہوتے ہیں وہیں باطنی انتشار اور بکھراو کی بھی عکاسی کرتے ہیں اوران میں زندگی کی معنویت بھی دیکھی جاسکتی ہے ۔
عصمت نے کئی ناول لکھے ۔ ان کی تحریروںکے موضوعات کادائرہ محدود ضرور ہے لیکن اس محدود دائرے میں رہ کر انہوں نے متوسط مسلم گھرانوں کے لڑکے لڑکیوں کے مسائل کا ادراک جس ڈھنگ سے کیا ہے ‘ اس کی نظیر دوسرے ناول نگاروں کے یہاں مشکل ہی سے ملے گی۔عصمت کو محض عریاں نگار جان کر قلم انداز کردینا ادبی دیانت داری نہیں ہوگی۔وہ ایک روایت شکن عورت کی آواز تھیں۔ ان کے فن کا معروضی مطالعہ کرنا تقاضائے وقت ہے۔اس سلسلے میں سیدہ جعفر کا الزام درست لگتا ہے کہ :
’’ وہ نقاد عصمت کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ہیں ‘ جنہیں اس کی تخلیقات
میں صرف جنس اور گندگی نظر آتی ہے۔اس کیچڑ میں فن کے خوبصورت کنول
بھی نظر آتے ہیں ‘‘ ( سیدہ جعفر، تاریخ ِ ادب اردو ، عہد میر سے ترقی پسند تحریک تک ، جلد چہارم ، صفحہ ۶۰)
یعنی سیدہ جعفر بھی اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ عصمت کے فن میں جنس اور گندگی ہے لیکن وہ عصمت کے فن کی خوبیوں کو نظر انداز کیے جانے کو نا انصافی سے تعبیر کر رہی ہیں ۔سیدہ جعفر کی طرح شائستہ فاخری بھی شاکی ہیں کہ زمانے نے عصمت کی حق تلفی کی ہے۔وہ لکھتی ہیں :
’’ ان (عصمت)کے جسم کی مٹی میں ایسی زخم خوردہ عورت سوئی ہوئی تھی،
جو پیدائش سے لے کر آخری لمحے تک زندگی کے وہ رنگ نہیں جی سکی ،
جس کی وہ حق دار تھی۔‘‘ ( شائستہ فاخری، ہند و پاک : خواتین ناول نگار ، فکر و تحقیق ، ناول نمبر ،اپریل تاجون ۲۰۱۶ ، ص۱۴۶)
عصمت کے ناولوں کا مرکزو محور عورت کے مسائل ہیں۔اگر’ ضدّی‘ کو ناولٹ کے زمرے میں رکھا جائے تو’ تیڑھی لکیر ‘کے بعد’ معصومہ‘ عصمت کادوسرا ناول ہے اور اس وقت لکھا گیا ہے ‘ جب ترقی پسند تحریک زوال پذیر تھی۔یہ ناول دہلی سے ۱۹۶۱ ء میں منصہ شہود پر آیا لیکن میرے پیش نظر’’ معصومہ ‘‘ کا ۱۹۸ صفحات پر پھیلا ہوا، نصرت پبلشر ز امین آباد لکھنو سے شائع شدہ ۱۹۸۸ء کا ایڈیشن ہے۔
تقسیم ملک کے خوں آشام المیے نے بر صغیر میں جو تباہی مچائی تھی‘ وہ کچھ کم نہ تھی کہ ایک برس بعد ہی پولیس ایکشن نے جنوبی ہندکی آصف جاہی سلطنت کا شیرازہ بکھیر دیا تھا۔اس سانحہ نے مسلمانوں کی ہجرت کو مزید تقویت دی ۔’’ معصومہ‘‘ کا موضوع ہجرت سے پیدا شدہ مسائل ہیں۔حیدرآباد کے پس منظر سے ہوتا ہوا بمبئی کے ماحول پر لکھا ہوا یہ ناول فلمی دنیا سے جڑے ہوئے لوگوں کی کھوکھلی زندگی سے پردہ بھی اُٹھا تا ہے۔ اس ناول میں ایک اعلیٰ متوسط مسلم گھرانے کے اخلاقی زوال ،معاشرتی انحطاط ،خواتین کی بے چارگی وبے بضاعتی کو عصمت نے موثر انداز میں پیش کیا۔اس میں ان کی اس جنسی الجھن اور نفسیات کی نقاب کشائی بھی کی گئی ہے جو جاگیردارانہ نظام کی مرہونِ منت تھی۔
یہ ناول پانچ ابواب پر مشتمل ہے۔ ۱۷ صفحات پر پھیلا ہوا پہلا باب بیگم صاحبہ کی اپنے بچوں کے ساتھ حیدر آباد سے بمبئی ہجرت اور وہاں کے ماحول میں ان کے مرتبے کا احاطہ کرتاہے ، دوسرا باب۳۵ صفحات پر محیط ہے اور اس میں فلیش بیک کے سہارے مصنفہ نے کہانی کو آگے بڑھایا ہے۔اسی باب میں معصومہ کا نیلوفر بننا، فلمی دنیا کی مکر و فریب سے بھری ہوئی کہانی ،بیگم کا دلالہ بننا ،احسان صاحب ، احمد بھائی ،اظہر اور احسان کی بیوی کی بے وفائی ، مکاری اور عیاشی، ان کی ذاتی زندگی کے بھید ،ایک ایک کر کے مصنفہ پیش کرتی ہیں۔ تیسراباب ۴۳ صفحات پر مشتمل ہے اس میں سور ج مل اور سریتا کے عشق کی داستان ہے ، فلمی دنیا کے معاملات کا ذکربھی ہے اور سنسر بورڈ کی رشوت ستانی کو بھی طنز کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ،چوتھا باب ۶۲ صفحات پر پھیلا ہوا ہے اس میں نیلوفر کی بکھری ہوئی شخصیت، اس کا سورج مل کے بیٹی کی ماں بننا ،سورج مل اور نیلوفر کی ناجائز اولاد کوبطور باپ احسان صاحب کا نام دینا ،سورج مل کا نیلوفر کو نشے کی حالت میں شادی کے کاغذات پر دستخط لینا اور اس کی شادی کاغذی طور پر احسان صاحب سے کردینا۔نیلوفر کو ایک ڈرائیور کے ساتھ لاج میں چھوڑ دینا ، لاج منیجر اور ڈرائیور کا نیلوفر کے ساتھ عیاشی کرنا،پھر راجہ صاحب سے نیلو فر کی شادی ہونا ، میجر صاحب سے نیلوفر کا رشتہ وغیرہ یہ سب اس باب کا حصہ ہیں ۔پانچواں باب۳۰صفحات پر پھیلا ہوا ہے اس میں کلائمکس ہے۔
ناول کی ابتدا میں مصنفہ خود قاری سے مخاطب ہے اور بمبئی کے چرچ گیٹ ریلوے اسٹیشن سے نیلوفر کے گھر تک قاری کی رہبر بن کر چلتی ہے اور چلتے چلتے بمبئی کی تہذیبی زندگی اور گندگی ،سرکاری ملازمین کی لاپرواہی ، مجلس بلدیہ کی بے توجہی ، انڈس کورٹ کے عوام کی بے راہ روی، مندر کے پجاری کے بنائوٹی انداز ، مذہب سے بیزاری،وغیرہ کو طنز کا نشانہ بناتی ہیں اس دوران وہ ایک ایسے کردار کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔جس کا ناول کے اصل قصے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے‘ یہ بس اشتراکیت کی جھلک ہے۔یہ صرف سرمایہ داری کے خلاف آواز بلند کر نے کے لیے شامل کیا گیا کردار ہے ۔یہ ایک پاگل عورت ہے بمبئی کے فٹ پات پر بیٹھی بالوں سے لیکھیں نکال نکال کر مارہی ہے۔ یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیںـ:
’’ اگر آپ انہیں جوں مارتے دیکھیں تو یہی سمجھیں گے کہ وہ بڑی کاری گری سے کسی نازک سی انگوٹھی میں کوئی
انمول نگینہ جڑرہی ہیں۔جو ں کو ٹھکانے لگا کر ان کی آنکھوں کی بھڑکتی ہوئی انتقام کی آگ دم بھر کو ٹھنڈی پڑجاتی
ہے‘ جیسے انھوں نے ایک موٹی سی جوں نہیں کسی سود خور توند والے کا صفایا کردیاہے۔‘‘
(معصومہ ، نصرت پبلشرز ،امین آباد لکھنؤ،سن اشاعت ۱۹۸۸ء ،ص ، ۶)
ترقی پسند تحریک سے جڑے احباب سود خور سرمایہ داروں کا اسی طرح صفایا کر نا چا ہتے تھے جیسے کہ یہ بڑھیا۔یہاں دراصل خون چوستی جوئیں سودخور وں کی اور یہ عورت ’ترقی پسندوں‘ کی علامت ہے ۔عصمت تادمِ حیات ترقی پسند تحریک کی علم برداررہی ہیں اور اس تحریک کے مبلغین فن پارے میں ترقی پسندی کے عناصر کسی نہ کسی طرح شامل کرنا چاہتے تھے ۔حالانکہ اس کی وجہ سے ان کا فن مجروح بھی ہوا۔فن پر مقصدیت غالب آگئی ہے۔
محنت کش ،مظلوم ، بے بس ، بے چارہ ،بے چہرہ ،بے بضاعت اور بے سہارا خواتین ترقی پسندوں کے پسندیدہ کردار رہے ہیں۔بالخصوص عصمت کے ۔ عصمت کو کردار نگاری، مکالمہ نگاری، معاشرہ نگاری اور تحلیل نفسی میں زبردست مہارت حاصل تھی ۔وہ انسانی نفسیات کی نبض شناس تھیں۔ناول معصومہ کی کہانی جوں جوں آگے بڑھتی ہے‘ آہستہ آہستہ جوکردار ناول کے کینو س پر ابھرتے ہیں ان میں بیگم صاحبہ ، بڑے میاں، معصومہ عرف نیلوفر، حلیمہ، زبیدہ ،سلیم، چھوٹے ماموں، خالہ جانی، احسان بھائی، احمد بھائی ،سورج مل ، راجہ صاحب ، لاج منیجر، میجر صاحب ، شامل ہیں۔ معصومہ عرف نیلوفر اس کا مرکزی کردار ہے لیکن اس سے جاندار کردر معصومہ کی ماں یعنی بیگم صاحبہ کاہے جسے عصمت کے اہم کرداروں میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ عصمت ناول کی راویہ ہے اور کردار بھی ‘ایک جگہ مصلح قوم بن کر اپنے نقطہ ٔ نظر کو واضح کرتی ہیں جو ان کے اس ناول کی کمزوری بھی ہے۔ناول کا یہ اقتباس دیکھئے:
’’جاگیرداری نظام کی تمام لعنتیں سوئی پڑی تھیں ۔فاقوں اورغربت نے انھیں رگوں میںپھر زندہ کردیا ۔ اگر بیگم درمیانہ
طبقے کی کمزوریوں میں جکڑی ہوتیں تو بجائے بیٹی کا سودا کرنے کے سلائی کر کے پیٹ پالتی ،لڑکی کو کسی اسکول میں چھوٹی
موٹی نوکری مل جاتی۔روکھی سوکھی میں گزر کرتیں تو زیور ہی کئی سال ساتھ دے جاتے،مگر تنگی ترشی کی نہ تو انھیں عادت تھی
اور نہ ہی کبھی کسی کو کرتے دیکھا تھا۔ہاں لڑکیوں کے سودے تو پشتوں سے ہوتے چلے آرہے تھے۔ان کی بڑی خالہ بوڑھے
پھونس نواب قمروالدین کو پیسوں کی خاطر بیاہی گئیں ۔کھلے بندوں ان کا سول سرجن صاحب سے تعلق تھا۔خود ان کی بڑی
کے شوہر نے ایک میم سے شادی کرلی تھی۔اس کا غم وہ ایک شاعر کی آغوش میں غلط کرتی تھیں۔ عزت اور شرافت کا پیمانہ تھا
دولت اور مرتبہ! پھر وہ کونسا پاپ کررہی تھی جو انھیں ندامت ہوتی ۔‘‘ (معصومہ ، ص ۸۲)
یہاں مقصدیت فن پر غالب آگئی ہے۔ عصمت نے اصل مسئلہ اور اس کا حل واضح انداز میں بیان کردیا۔ ’ معصومہ‘ کی اس’ عصمت بازاری‘ کے لیے وہ بیگم صاحبہ کی پرورش اور اس کے ماحول اورمعاشرے کو ذمہ دار ٹھہراتی ہیں کہ جس معاشرے میں عزت اور شرافت کا پیمانہ دولت اور مرتبہ تھا،اس میںکسی لڑکی کومحض دولت کی خاطر قربان کردینا عام بات تھی ۔عورت کو سوچنے سمجھنے کا موقع ہی نہیں تھا۔جب کسی مسئلے کا حل پہلے سے اس کے دماغ میں موجود ہو تو وہ زیادہ فکر کیوں کرتی ؟ ہمارے بعض ناقدین کا کہنا ہے کہ معصومہ کو پڑھنے کے بعد قاری کے دل میں معصومہ کے لیے نفرت کے بجائے ہمدردی پیدا ہوجاتی ہے اور بیگم صاحبہ کے لئے نفرت کیونکہ معصومہ کی’ آوارگی‘ کی ذمہ دار بیگم صاحبہ ہیں! لیکن وہ بیٹی کی عصمت کو دائو پر لگانے سے پہلے مسائل کے حل کی کوشش ضرور کرتی ہے۔بن جل مچھلی کی طرح تڑپ اٹھتی ہے۔کسی نے رائے دی کہ فلمی دنیا میں داخل ہوجائے ۔بیگم صاحبہ بیٹی کو لئے فلمی دنیا کے چکر کاٹتی رہی ۔لیکن معصومہ’ معصومہ ‘بن کر ان کے ساتھ تھی نیلوفر بن کر نہیں ! اور فلی دنیا تو’ نیلوفر‘ جیسی لڑکیوں کی قدر کرتی ہے۔پھر بیگم کو بات بنانے کے گُر بھی تو نہیں آتے ۔ بے چاری فلمی دنیا کے لوگوں کو بھی اپنے نوابانہ پس منظر کے حوالے سے منوانے چلی تھی ‘لیکن دال نہیں گلی اور وہ مایوس ہوکر لوٹ آتی ہیں ۔بیگم کی ذہنی الجھنوں کو عصمت نے بڑی عمدگی سے پیش کیاہے۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ بیگم مکمل طورپر اتنی قابل نفرت عورت نہیں جتنا ہمارے ناقد ین نے سمجھ رکھا ہے ۔ان جملوں پر غور کیجئے ۔۔۔ ’’مگر جب بیگم کو احسان میاں کی دلالی کا پتہ چلا تو ان کی سوکھی آنکھوں میں شعلے بھڑک اٹھے۔‘‘ (معصومہ ، ص ۱۳)
’’پھر تو بیگم شتابہ بن گئیں ۔ہر طرف چنگاریاں برسنے لگیں ۔انہوں نے اتنا تکلف کیا کہ احسان میاں کو نکالتے وقت
جوتے نہیں لگوائے۔‘‘ (معصومہ ، ص ۱۳)
غرض کہ کوششوں کے باوجود ناکامی کے بعد مجبور ، بے سہارا ، بے بس بیگم کی یہ حالت تھی :
’’ بیگم کمر کمر دلدل میں پھنسی جارہی تھیں ‘ مگر ہلکی سی جنبش بھی انھیں اور نیچے کھینچ رہی تھی۔اژدہے کا دہانہ چوڑا ہوتا
جارہا تھا۔چھ سات مہینے کا کرایہ نہیں دیا تھا۔ باورچی روز غراتا ۔کمبخت نمک کی ڈلی میں سے بھی اپنا حصہ نکال لیتا تھا
گوشت لاتا جیسے چھیچھڑے‘ کوڑے پر سے ترکاری اٹھا لاتااور ان سے پورے دام لیتا۔‘‘ (معصومہ ، ص۱۵)
بیگم اور اس کے خاندان پر فاقے پڑنے لگے، ملازموں نے آنکھیں دکھانی شروع کی ،باورچی اپنا حق مانگنے لگا،دواخانے کے لیے پیسے نہیں ہے، اسکول کی فیس بھرنا محال ہوگیا ۔ جب کہیں جا کربیگم صاحبہ یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوئی ۔مطلب یہ کہ اگر وہ عیش و عشرت کی خاطر بیٹی کا سودا کرتی تو اتنا سب کچھ ہونے ہی نہیں دیتی اور ایک ہی کیوں باقی دو بیٹیوں کو بھی داؤ پر لگادیتی لیکن وہ ایسا نہیں کرتی ۔ اس کا دل بار بار افسوس کرتا ہے :
’’ نہیں یہ ان سے نہ ہوگا۔ روتے روتے صبح ہوگئی ۔‘‘ (معصومہ ،ص۲۲)
’’ وہ پٹی سے لگ کرکھڑی دھاروں دھار روتی رہیں‘ ‘ (معصومہ ، ص۲۳)
معصومہ میں بیانیہ کی تکنیک کے علاوہ مصنفہ نے فلیش بیک اور فلیش فارورڈ کی تکنیک کا استعمال کیا ہے۔اکثر ناولوں میں قصہ خوانی غائب واحد متکلم کے وسیلے سے کی جاتی ہے‘لیکن معصومہ میں کہانی حاضر متکلم کے توسط سے ہمارے سامنے آتی ہے اور یہ متکلم خود ناول کی فاضل مصنفہ ہے۔
عصمت بھی بیدی کی طرح کہانی کو درمیان سے شروع کرتی ہیں اور پھر فنی چابکدستی سے موقع کی مناسبت سے فلیش بیک یعنی جست ماضی کے سہارے واقعات کے سلسلے کوکڑی میں پروتی ہوئی ناول کو اس طرح آگے بڑھاتی ہیں پلاٹ میں جنبش نہیں آتی ۔اس ناول میں بھی اسی طرح کا مظاہرہ عصمت نے کیا ہے۔ناول کے دوسرے باب کے آغاز ہی میں جست ماضی کی ایک مثال دیکھیے ۔۔
’’ کیا دھوم دھام تھی ۔ تین بیٹوں پر بیٹی ہوئی تھی ۔نازک سی۔ پیٹ میں تھی تب ہی اندازہ ہو گیا تھا ‘ کیونکہ پیٹ بیٹوں
کے دفعہ چھاتی تک چڑھ آتا تھا ۔معصومہ نازک چڑیا سی پیٹ میں معلوم بھی تو نہ ہوتی تھی۔ذرا سادودھ پی کر پیٹ بھر
جاتا تھا۔ ہو ا بھی الغروں دودھ تھا ۔جو ماں کے دودھ زیادہ اترے تو کہتے ہیں بچہ بڑا خوش نصیب ہوتا ہے۔ روپے کی
افراط رہتی ہے۔ بڑی طالع ور بچی ہے۔ بڑی برکت لائے گی۔ در وازے پر ہاتھی جھومے گا۔ہاتھی !! ( جست حال )
احمد بھائی تو بالکل خچر تھے !۔‘‘ (معصومہ ، ص۲۵)
اس ناول میں عصمت نے سماج کے نام نہاد اور مکرو چہروں سے نقاب کشائی کی ہے۔چرچ گیٹ ریل ٹکٹ کلکٹرکی سستی کا ہلی ، بمبئی کی گندگی، معصومہ کے باپ کااپنی بیٹی کی عمر کی انیس برس کی لڑکی سے شادی کرکے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بے وفائی کرنا ، احسان صاحب کی مطلب پرستانہ ہمدردی اور اصلی دلالی، احمد بھائی کی مکاری،سورج مل کی کالابازاری ، راجہ صاحب کی دکھاوے کی سماج سیوا ،فلمی ہدایت کاروں اور پورڈیوسروں کے فریبی چہرے وغیرہ ۔ان سب کی پرت در پرت ایسی پول کھولی ہے کہ قاری عصمت کی زمانہ شناسی کی داد کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
جنسی حقیقت نگاری ترقی پسندوں کا ایک اہم موضوع رہا ہے ۔عصمت نے اس ناول میں جنسی پہلو کو شامل کرنے کی کوشش کی بعض جگہ یہ جنسیت فحاشیت کے احاطے میں پہنچ گئی ۔ناول کے دوسرے باب سے جنس اور فحش نگاری کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔جب معصومہ نیلوفر بن جاتی ہے۔ناول کا عنوان بھی طنزاََ ’معصومہ ‘ رکھا گیا ہے۔معصومہ جس نے اپنے خاندان کی ڈوبتی نائو سہارنے کے لیے اپنی عصمت دائو پر لگادی لیکن اس کی جنسی پیاس بھی بجھ نہ سکی قسمت کا کھیل ایسا کہ اس کی زندگی میں یا تو اس سے دوگنے یا تین گنابڑے اور بوڑھے لوگ آئے صرف ایک نوجوان سے اس کا سابقہ پڑتا ہے اور وہ بھی اس کی نیم بے ہوشی کے عالم میں اس کے ساتھ عیاشی کرکے نکل جاتا ہے ۔عصمت نے یہاں معصومہ کی جنسی تشنگی کا اظہار کیا ہے یہ اقتباس دیکھئے:
’’نہ جانے کیوں نیلوفر اداس ہوگئی ۔اس کے نصیب میں یہ اترے ہوئے آم کیوں لکھے تھے؟کیا زندگی میں ایک بار
بھی وہ جوان باہوں کے حلقے میں نہ جھوم سکے گی؟ احمد بھائی سے لے کر کرنل صاحب تک ‘ سب ہی اس سے عمر میں
دگنے یا ڈھائی گنے تھے۔ایک دم اسے پونا کا ٹیکسی ڈرائیور یاد آگیا ۔وہ ضرور نوجوان ہوگا۔کاش وہ اتنی مدہوش نہ ہوتی !‘‘
(معصومہ ، ص۱۵۱۔۱۵۰)
عصمت کے یہاں زبان کا لطف ہے۔مردوں کی زبان ہو یا عورت کی محلوں کی زبان ہو یا بازاری ‘ عصمت نے اس ناول میں اپنی زباندانی سے ضرور متاثر کیا ۔ناول میں بمبئی کی زبان کا مناسب استعمال کیا گیا ہے جو اس ناول کی خوبی ہے ۔لیکن یہاں ایک کمزوری رہ پاگئی ہے انہوں نے حیدرآدی خاندان کی اس کہانی میں کہیں بھی حیدرآبادی لب و لہجہ کا استعمال نہیں کیا ۔لیکن اردو کے چست اور بر محل محاوروں کا بخوبی استعمال کیا ہے۔بمبئی کی بازاری زبان ملاحظہ فرمائیں:
’’اماں ذرا نگاہیں داب کے ۔۔۔ہاں! ورنہ سارا معاملہ چوپٹ ہوجائیگا۔‘‘ ’’ سالا پیسہ جاستی مانگتا تو کوئی واندہ نہیں۔۔
ہم دے گا بابا۔‘‘ احمد بھائی بلبلائے۔
’’ اے یار پیسہ نہیں اونچے گھرانے کی لونڈیا ہے۔سلونا برس لگا ہے ۔کسی نے آج تک اس کا آنچل بھی نہیں دیکھا ۔اتنی
اُتاولی نہیں چلے گی ۔جلدی کام شیطان کا ۔احسان نے سمجھایا۔ ‘‘ (معصومہ ، ص۱۴۔۱۳)
’’احمد بھائی کی آنکھوں میں آنسو تھے!
’’ تم ہم کو اُلو کا پٹھا سمجھتا ہے سالہ۔۔۔۔پہلے بولا چھوکری ملتا ‘ پھر بولا نئیں ملتا۔ ۔۔۔یہ کیا لفڑا ہے ؟ ‘‘
دھیرج کا کام ہے سیٹھ۔ پکا پھل کتنے دن ڈال پر اٹکا رہے گا ؟ تم میرے پر بھروسہ رکھو ۔ اونچا مال فٹ پاتھ پر نہیں ملتا ۔
۔صبر تو کرو کچھ دن ‘‘ (معصومہ ، ص۱۴)
’’ جی وہی بلڈنگ ‘جس کے سامنے تگڑی تگڑی موٹریں ڈٹی ہوئی ہیں ۔یہ موٹریں یہاں سرِ شام ہی آجاتی ہیں اور
’’ رت جگہ‘‘ منا کر صبح چلی جاتی ہیں ‘‘ (معصومہ ، ص۸)
عصمت نے بیگم کے کردار کے ذریعے عورت کے ایک بے معنی انتقامی جذبے کی بھی عکاسی کی ہے جو قاری کے دل پر گراں گزرتا ہے۔ایک آدمی کے غلطی کی دوسرے کو سزا دینا او روہ بھی اپنی ہی اولاد کو عجیب سا لگتا ہے۔شوہر نے جب انیس برس کی لڑکی سے دوسری شادی کرلی تو بیگم کو اس بات کا بڑا دکھ ہوا ۔انہوں نے اپنے بیٹوں کے بے وفائی پر بھی آنسوں نہیں بہائے اور نہ ہی ان کے بیاہ کی خبر سن کر وہ خوش ہوئی البتہ بڑے میاں کے شادی کی خبر ان کے لیے رد عمل کا باعث بن گئی یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں :
’’ اس دن بیگم کی خاندانی جھجھک نے دم توڑ دیا ۔ انھوں نے حامی بھرلی۔فلیٹ بچی کے نام ہوگا۔ایک ہزار کا بندھا
خرچ ہے۔لڑکی بغیر ان کی مرضی سے رات کو باہر نہیں رہے گی۔شاید اس طرح انہوں نے اپنے شوہر سے بدلہ لے
لیا ادھر وہ کسی انیس برس کی کونپل کو کھرل کر رہے تھے اِ دھر ان کی اسی عمر کی بیٹی کے دام لگ رہے تھے۔بڑے میاں
کو خبر ملے گی کہ صاحبزادی نے دھندا شروع کرلیا تو مزہ آجائے گا۔ ‘‘ (معصومہ ، ص۱۹)
ناول کے ختم پر عصمت نے طنز کے بہترین نشتر چلائے ہیں اور سماج کے کھوکھلے پن ،رشتوں کے توٹتے بھرم ، قدروں کی پامالی،نیلوفر کے بے ثبات وجود کی خوف ناک تصویر بھی پیش کی ہے جو قاری کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیـ‘وہ پوری طرح بر باد ہوچکی تھی :
’’ایک دم نیلوفر کو محسوس ہو ا کہ وہ بالکل اکیلی دور کہیں ایک بنجر چٹان پر کھڑی ہے ۔چاروں طرف سنّاٹا گرج رہا تھا۔
موت کی سی خاموشی رو رہی ہے۔اگر پیدا ہونے سے پہلے کسی نے اس سے پوچھ لیا ہوتا تو وہ جان بوجھ کر تو دنیا میں
نہ آتی ۔بے اختیار اسے زندگی کی بے بسی پر رونا آنے لگااور وہ راجہ صاحب سے لپٹ کر پھوٹ پڑی۔‘‘
(معصومہ ، ص۱۸۹۔۱۸۸)
لیکن ناول کی بنیاد جس حادثے پر رکھی گئی ہے ۔وہ فطری نہیں لگتا ۔کوئی انسان اپنی بیوی بچوں کو یونہی چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے کیسے چلاجاسکتا؟ عصمت نے معصومہ کے باپ کو پہلے تو ترقی یافتہ تعلیم یافتہ اور کھلے ذہن کا انسان بتایاجو اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم کے لیے ولایت بھیجنے کا متمنی ہے‘ اور بعد میں اسی باپ کو لا پروہ، غیر ذمہ دار اور مطلبی دکھانے کی کوشش کی جبکہ بیگم سے ان کی کوئی دشمنی نہیں تھی یا کوئی بدلے کی آگ بھی دل میں نہیں تھی کہ اپنے بڑے لڑکوں کے ساتھ سونے کے مہنگے زیورات اور نقد روپیہ پیسہ سب لے کر رفوچکر ہوگیے اور پھر کبھی بیٹیوں اور بیوی کے ساتھ پل رہے چھوٹے بیٹے کی کوئی خبر بھی نہیں لی او ر تو اور ایک انیس برس کی لڑکی کے ساتھ شادی کر کے بے فکری کی زندگی گزار رہے تھے۔ یہ سب بناوٹی قصہ محسوس ہوتا ہے ناول کے مرکزی کردار کو بے سہارا کرنے کی ناکام کوشش صاف نظر آتی ہے جو اس ناول کو کمزور بناتی ہے۔سوا ل یہ بھی اٹھتا ہے کہ اگر بڑے میاں گھر چھوڑ کا اڑن چھو ہوبھی گئے تھے‘ تو کیا بیگم صاحبہ کے بھائی بہن بھی نہیں تھے؟ ناول میں معصومہ کی پیدائش پر چھوٹے ماموں اور خالہ جانی کا ذکر کیا گیا کہ دونوں میں لڑائی ہوئی تھی معصومہ کو اپنے اپنے بیٹو ں کے ساتھ بیاہ کر کے لے جانے کے لئے۔یہ اقتباس دیکھئے۔
’’ تین بیٹوں پر بیٹی جو پیدا ہوئی تو جی بھر کے لاڈ و پیار ہوئے ۔ خالہ جانی اور چھوٹے ماموں میں جھگڑا ہو گیا تھا۔
دونوں ہی اپنے بیٹے کے لیے اسے مانگنے پر اڑے ہوئے تھے‘‘ (معصومہ ، ص۸)
اور یہ بھی کہ بڑے میاں تو معصومہ سے بہت محبت کرتے تھے وہ اسے تعلیم حاصل کرنے کے لئے ولایت بھیجنے کے خواہش مند تھے اور اچھے گھرانے میں اس کا بیاہ رچانا چاہتے تھے ۔پھر اتنی سخت بے مروتی کیوں ؟اس من گھڑت قصے پر ناول کے پلاٹ کا تانابانابنا گیا ہے۔امراو ٗ جان میں بھی لڑکی کو بے سہارا کر کے ناول کی بنیاد رکھی گئی تھی لیکن وہاں سارے واقعات فطری تھے۔بیدی نے بھی اپنے ناولٹ ’ ایک چادر میلی سی ‘ کی رانی عرف رانو کو بے سہارا بنا کر مرکزی کردار رانو کو گھاٹ گھاٹ اتارا اور لہر لہر ڈبایا لیکن حادثات اور واقعات وہاں بھی نہایت فطری انداز میں رونما ہوتے ہیں لیکن معصومہ میں ایسا نظر نہیں آتا۔غرض کہ عصمت کا یہ ناول جس میں ترقی پسندی کے عناصر تو جا بہ جا نظر آتے ہیں ‘ فنی اعتبار سے کمزور ہے ۔حالانکہ وہ اس ناول سے چند برس پہلے ’’ تیڑھی لکیر ‘‘ لکھ چکی تھیں جسے ان کا سب سے جاندار اور کامیاب ناول مانا جاتا ہے لیکن معصومہ میں تیڑھی لکیر کسی سی فنی بالیدگی نظر نہیں آتی ۔اس میں فن کے تقاضے کو نظر انداز کر دیا گیا ہے ۔پھر بھی زبان و بیان اور عصمت کی زمانہ شناسی ،مکالموں کی برجستگی ، کردار نگاری کے لحاظ سے یہ زوال پذیر ترقی پسند ادب کا تخلیقی مظہر ضرورہے ۔ ٭٭٭٭
Dr.Maheboob Saqib
(Shaikh Maheboob)
Assistant Professor,Department of Urdu,Shivaji College, Udgir-413517
District Latur (M.S)
Cell : 07588977543