وجہ ۔۔ ترنم جمال، کلکتہ

٭ترنم جمال، کلکتہ
(Mob: 9088992422)
عدالت لوگوں سے کھچاکھچ بھرا ہوا تھا اور لوگ آپس میں ایک دوسرے سے چہ میگوئیاں کررہے تھے۔ آج راکیش کے کیس کی کورٹ میں شنوائی تھی۔ جج صاحب کچھ ہی دیر میں تشریف لانے والے تھے۔
راکیش کٹہرے میں لاپروائی سے یوں کھڑا تھا جیسے ملزم نہیں۔ وہ تماشائی بن کر آیا ہے۔ اس کے چہرے پر ذرا بھی پریشانی کے آثار نہیں تھے۔ جیسے اسے معلوم ہو کہ جج صاحب کا فیصلہ کیا ہوگا۔ کئی ہفتوں سے کیس کا ٹرائل چل رہا تھا۔ راکیش ہنوز خاموش تھا۔ وہ نہ اپنا جرم قبول رہا تھا نہ انکار کررہا تھا۔ چشم دید گواہ خود اس کے ماں اور بابو جی تھے۔ کورٹ کی کارروائی شروع ہوتی ہے۔ آخر میں وکیل صفائی اس کے پاس آتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں۔ ’’ملزم راکیش سارے ثبوت اشارہ کرتے ہیں کہ مجرم تم ہو۔ آخری دفعہ تمہیں موقع دیا جاتا ہے۔ تمہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنا ہے۔ اب بھی خاموش رہے تو انجام کے ذمہ دار تم خود ہوگے۔ لیکن جواب میں راکیش کی پھر وہی جامد خاموشی رہی۔ کچھ ہی دیر بعد آرڈر۔ آرڈر کے ساتھ جج ایس کے سنہا کی پاٹ دار آواز سنائی دی۔ ’’ملزم راکیش کی خاموشی اس کے جرم کا اعتراف ہے۔ لہٰذا عدالت اسے مجرم قرار دیتے ہوئے تاعمر قید کی سزا سناتی ہے۔‘‘
عدالت برخاست ہوجاتی ہے۔ وہاں موجود اس کے ضعیف ماں باپ اور چھوٹی بہن راکیش کی طرف بے بسی سے دیکھتے ہیں۔ اور اس سے ملے بغیر چلے جاتے ہیں۔ سارے گواہ اور ثبوت اسے قاتل ثابت کررہے تھے۔ لیکن قتل کی وجہ سے سبھی لاعلم تھے۔ اس کے والدین کو بیٹے سے بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔ ان دونوں پر غموں کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ ایک طرف بیٹی کے سر پر بیوگی کی چادر، دوسری طرف بیٹا اپنے سگے جیجا کے قتل کے الزام میں سلاخوں کے پیچھے۔
دونوں گھر سے باہر کم نکلتے۔ زمانے کی نظروں اور سوالوں کا سامنا کرنے کی ہمت ان میں نہیں تھی۔ ’’راکیش نے ایسا کیوں کیا مسٹر شرما؟‘‘’’مسز شرما بتائیں نا کیا بات ہوئی جو راکیش نے جیجا کا خون کردیا۔‘‘ان لوگوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا جو خود ان کے لئے ایک معمہ تھا۔
راکیش اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے بابو جی انگریزی کے لیکچرر تھے اور ماں گرلز اسکول میں پرنسپل تھیں۔ راکیش جب پانچ سال کا ہوا تو اس کی بہن موہنی کی پیدائش ہوئی۔ جسے وہ بہت چاہتا تھا۔ پیاری سی گول مٹول موہنی اسے بہت عزیز تھی۔
وقت گزرتا گیا۔ دونوں بڑے ہوگئے۔ خوشحال گھرانا تھا۔ زندگی کی ساری آسائشیں مہیا تھیں۔ راکیش اپنی محنت اور لگن سے ایک کامیاب انجینئر بن چکا تھا اور اسے ایک دوسرے شہر میں ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت مل گئی تھی۔ جب چھٹی ہوتی وہ گھر پہلی فرصت میں آتا۔ اسے سب سے الگ رہنا بالکل پسند نہیں تھا۔ ماں اور بابو جی بھی اس کی راہ بے صبری سے دیکھتے اور ان سے بھی زیادہ انتظار موہنی کو رہتا۔
ٍ اس دفعہ راکیش چھٹیوں میں گھر آیا تو کچھ بجھا بجھا سا تھا۔ نہ ماں سے کچھ پکاکر کھلانے کی فرمائش اور نہ موہنی سے کوئی شرارت۔ بس وہ خاموشی سے اپنے کمرے میں پڑا رہتا۔ اس دن بھی وہ بیڈ پر لیٹا چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کسی سوچ میں گم تھا۔
تبھی موہنی اندر آکر بولی: ’’بھیا اکیلے کیوں پڑے ہو، اتنی خاموشی تو کبھی نہیں رہی گھر میں تمہارے ہوتے ہوئے۔ چلو اٹھو، بابو جی تمہیں بلا رہے ہیں۔ کوئی ملنے آیا ہے تم سے۔‘‘ کسی کے آنے کا سن کر راکیش اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’موہنی کون آیا ہے۔ تم لوگوں نے نام پوچھا۔‘‘ موہنی نفی میں سر ہلاکر بیڈ پر بیٹھ جاتی ہے۔ اور بھائی کا موبائل اٹھا لیتی ہے۔ راکیش ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ جاتا ہے۔
دفعتاً باہر سے گولی چلنے کی آواز آتی ہے۔ موہنی موبائل پھینک کر ڈرائنگ روم کی طرف بھاگتی ہے۔ وہاں کا منظر دیکھتے ہی اس کے ہوش اڑ جاتے ہیں۔ اس کا پتی پریتم زمین پر خون میں لہولہان پڑا تھا۔ راکیش کے ہاتھ میں پستول تھا۔ ماں بابوجی بھی گنگ کھڑے تھے۔
پریتم سے موہنی کا لگن ہوچکا تھا۔ وداعی اس کے گریجویشن کے بعد ہونا طے پائی تھی۔ لیکن پریتم کے گھر آنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ داماد والی آئو بھگت بھی خوب ہوتی تھی۔ راکیش اور پریتم بچپن کے دوست تھے۔ دونوں خاندانوں میں پرانی دوستی تھی اس لئے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔
راکیش کی سزا کوپورے دو ماہ بیت چکے تھے۔ اس عرصے میں کسی نے اس کے کمرے میں قدم نہیں رکھا۔ موہنی جو بھائی سے بے انتہا محبت کرتی تھی، آج اس کی سالگرہ کے دن اپنے آپ کو روک نہیں پائی اور چپکے سے اس کے کمرے میں چلی گئی۔ جبکہ بابو کی سخت ہدایت تھی کہ وہاں کوئی نہیں جائے۔ باوجود اس کے وہ وہاں جاتی ہے۔ اس کی ساری چیزوں کی صفائی کرکے نئے سرے سے سجاتی ہے۔ جیسے ہی بیڈ کی چادر بدلنے کے لئے اٹھاتی ہے، بھائی کے موبائیل پر نظر پڑتی ہے جسے وہ اس دن ویسے ہی بیڈپر چھوڑ کر بھاگی تھی۔ اسے وہ آن کرتی ہے لیکن اس کا چارج ختم ہوچکا تھا۔ اسے وہ چارج میں لگاتی ہے اور سارا کام ختم ہونے کے بعد وہ موبائیل لے کر بیڈ پر لیٹ جاتی ہے۔ پھر اس میں جتنی تصویریں تھیں، سب دیکھتی رہتی ہے۔ تبھی ایک ویڈیو سامنے آجاتا ہے جسے دیکھ کروہ ششدر رہ جاتی ہے۔ اسے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آتا ہے۔ ایک دفعہ، دوسری دفعہ، تبھی بابو کی کرخت آواز اس کے کانوں سے ٹکراتی ہے اور موبائیل اس کے ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے۔ وہ اٹھانا چاہتی ہے لیکن بابو جی اس سے پہلے اٹھا لیتے ہیں اور دیکھنے لگتے ہیں۔
موہنی شرمندگی اور احساسِ جرم کے باعث نظر نہیں اٹھا پا رہی تھی۔ اسے لگ رہا تھا زمین پھٹ جائے اور وہ اس میں سما جائے۔ اس ویڈیو میں وہ لمحات تھے جب ایک دن پریتم گھر والوں کی غیر موجودگی میں آتا ہے اور تنہائی کی وہ خطا موہنی کے لئے سزا بن جاتی ہے اور اس کے بعد تو پریتم کی عادت بن گئی تھی۔ جب بھی موہنی کے ماں بابوجی گھر میں نہیں ہوتے وہ آجاتا اور اسے وہ موہ جال میں پھنساکر پتی ہونے کا حق جتاتا۔ لیکن اس نے خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ وہ ایک خبیث انسان ہے۔ اس نے ان لمحوں کی کب ویڈیو بنالی اس کی خبر اسے تب ہوئی جب وہ اسے بلیک میل کرنے لگا۔ اور وہ بضد تھا کہ وہ اس کے ساتھ باہر چلے کیونکہ گھر میں کبھی بھی راز فاش ہوسکتا ہے اور ایسا نہیں کرنے پر یہ ویڈیو سوشل نیٹ ورک پر وائرل کردے گا اور کس طرح ی ویڈیو راکیش کے موبائل میں سینڈ ہوجاتا ہے اور وہ خاندان کی مریادا کو بچانے کے لئے اپنے جیجا کی جان لے لیتا ہے۔
……………

Leave a Comment