٭غلام زہرا
ghulamzahira@yahoo.com
اِس خِطّے میں صوفیائے کرام کی تعلیم رچی بسی ہے تقسیم ہند میں جو تباہی و بربادی ہوئی،اس میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہواقدامت پرستی سے دور رہ کر تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے
پاکستان میں ریسرچ مقالے بہت اعلیٰ لکھے جارہے ہیں، ہم معیار کو تحقیق میں اِس طرح برقرار نہیں رکھ سکے اب دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ نہیں اب دبستان علی گڑھ قائم ہوگیا ہے
حالی و شبلی نے سر سید کا ساتھ دیتے ہوئے سرسید تحریک کوعوامی بنانے میں اپناصدفی صد تعاون دیاہم نے نسل نو کو تہذیب ، فنون اور آرٹ سے دور کردیا اور صرف کیریئر کے لیے کتابی کیڑا بنا دیاعلی گڑھ میں سرسید کے عہد میں جوخمیر رکھا گیا تھا وہ آج بھی قائم ہے
یہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور ان کی یہ عادت مجھے حد پسند ہے،ڈاکٹر سیما صغیربیگم ہر لباس میں اچھی لگتی ہیں،ڈاکٹر صغیر افراہیم دوران حج، بیگ جس میں سامان رکھا ہوا تھا ،کھو گیا ابھی تک یاد ہے
مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے وابستہ مدیر تہذیب الاخلاق‘ ممتاز ادیب اور ماہر تعلیم پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم اور مسز ڈاکٹرسیما صغیر افراہیم سے خصوصی گفتگو
پروفیسرڈاکٹر صغیرافراہیم معروف تاریخی رسالہ تہذیب الاخلاق کے مدیر اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے پروفیسر ہیں ۔وہ ایک اچھے استاد اور بہترین فکشن رائٹر ہیں۔اپنی سعی سے آج فکشن اور تنقید کی ایک معتبر آواز بن چکے ہیں۔صغیرافراہیم مثبت اورمقصدیت سے بھرپور تخلیقات پیش کرتے ہیں۔
شعبہ اردو کے استاد اور فکشن کے نقادڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی کے بقول صغیر صاحب فکشن کے ناقد ہیں اس لیے اس کے فنی لوازمات پران کی گہری نظر ہے۔ان کے موضوعات سماجی ہے اور سماج کو مثبت انداز فکر ،روشنی اور بصیرت بخشتے ہیں۔شعبہ صدر ڈاکٹر جاوید حیات کے مطا بق افراہیم صاحب نے زندگی کی کڑی دھوپ کا سفر طے کیااور اسی کے تجربات کو کہانیوں میں پیش کیاان کی تمام کہانیاں ان کے موضوعات اور اسلوبیات انفرادیت کی غماز ہیں ۔
افسانہ نگاری‘ ترجمہ اور تنقید نگاری ان کا خاص میدان ہے۔ ان کی بارہ کتابیں اور دوسو سے زائد مضامین منظر عام پر آچکے ہیں۔ اردو زبان و ادب کی خدمت کے لئے کمربستہ ڈاکٹر صغیر افراہیم پرپی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ بعنوان صغیر افراہیم کا تنقیدی شعور لکھا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے ایسے موضوعات پر بھی توجہ دی ہے جو ادب سے وابستہ ہونے کے باوجود نئے تقاضوں کی دلیل ثابت ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر صغیر افراہیم نے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف علم و ہنر کی توسیع و اشاعت کی جانب توجہ مرکوز کی بلکہ شعر و ادب کی ہمہ جہت ترقی کو بھی منظرعام پر لانے کی سعی کی ہے۔ ’’ہونہار برواکے چکنے چکنے پات‘‘ والی مثل اُن کی تحقیق و جستجو پر صادق آتا ہے۔وہ نہ صرف اعلیٰ پائے کے ادیب ہیں بلکہ بہترین نقاد اور محقق بھی ہیں اس کے علاوہ انہوں نے دو درجن سے زائد افسانے بھی لکھے ہیں انہوں نے آزاد نظم میں بھی طبع آزمائی کی ہے مگر ان کا اصلی میدان فکشن کی تنقید ہے۔ ان کے مضامین کی تعداد تقریباً دو سو کے قریب ہے جو مختلف موضوعات پر مبنی ہیں۔ جن کی خانہ بندی اس طرح کی جا سکتی ہے۔
غزل فن اور تنقید، شعراء کی تنقید، تحقیقی مضامین‘ خاکے‘ انشائیے‘ تبصرے، ادبی ترجمے، اردو سے انگریزی ہندی‘ انگریزی‘ ہندی سے اردو میں۔،سائنسی تراجم، ہندی اور بنگالی ادب خصوصاً ٹیگور کے فکشن سے متعلق مضامین، پریم چند کا اُن کے معاصرین سے تقابلی مطالعہ،نثری داستانیں‘ ناول‘ افسانے اور غیر افسانوی ادب، مرثیہ‘ قصیدہ‘ رباعی اور دیگر اصناف پر مضامین،صغیر افراہیم نے تنقیدی مضامین کا جو سلسلہ شروع کیا تھا وہ تاہنوز جاری ہے۔ ان کے تحقیقی و تنقیدی مضامین ملک اور بیرون ملک اور بیرون ملک کے مختلف شہرت یافتہ رسائل و جرائد میں چھپ رہے ہیں اور آئے دن ان کے مضامین رسائل و جرائد میں دیکھنے کو مل جاتے ہیں جو اردو ادب کی بقاء کے لئے کارگر ثابت ہو رہے ہیں ۔
ڈاکٹر صغیر نے اپنی توجہ صرف ادبی موضوعات پر ہی محدود نہیں رکھی بلکہ سماجی‘ تہذیبی اور سائنسی موضوعات پر انہوں نے قلم اٹھایا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان میں سائنس کی ترقی اور مسلمان ’’نوبل انعام‘ سائنس اور اسلام‘‘ لیزر سرجری‘ سائنسی سیارچوں کی تاریخ جیسے مضامین اور تراجم ملاحظہ کئے جا سکتے ہیں بقول پروفیسر مجید بیدار’’صغیر افراہیم نے معاصر نقادوں اور محققین میں اپنی راہ الگ بنائی ہے جس کے تحت سائنسی علوم نے اردو داں طبقے کو واقفیت کے لئے ساز گار ماحول پیدا کیا ہے جیسے بلاشبہ سر سید احمد خاں کی فکر کا نتیجہ قرار دیا جائے گا…‘‘
ڈاکٹر صغیر کی بیگم ڈاکٹر سیما صغیر بھی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبۂ اردو میں بطور پروفیسر خدمات انجام دے رہی ہیں۔
ڈاکٹر سیما صغیر کی پیدائش باندہ (اتر پردیش) کے ایک زمیندار گھرانے میں ہوئی۔ والد بزرگوار سید عبیدالرحمن حسنی فرنگی محل سے فارغ التحصیل‘ عالم دین اور معروف خطیب تھے۔ ابتدائی تعلیم رواج کے مطابق باندہ کے مقامی سکولوں میں حاصل کی۔ کانپور یونیورسٹی سے بی اے اور بی ایڈ کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے (اردو) اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ 9 اگست 1990ء کو وہ پروفیسر صغیر افراہیم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ فی الوقت وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے وابستہ ہیں اور درس و تدریس کے فرائض بحسن و خوبی انجام دے رہی ہیں۔ ان کی دلچسپی کا خاص میدان فکشن اور نسائی ادب ہے۔ ان کی آٹھ کتابوں کے علاوہ پچاس سے زائد تنقیدی اور تحقیقی مضامین ملک اور بیرون ملک کے معتبر رسالوں میں شائع ہو کر منظرعام پر آچکے ہیں‘ جنہیں ادبی حلقوں میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا۔ درجنوں تمغات و اعزازات پا چُکے ہیں۔ اُن کی بیگم پروفیسرڈاکٹر سیما بھی بہت ہی بااخلاق اور ہنس مکھ شخصیت کی مالک ہیں۔ جب ہماری ان سے فون پر بات ہوئی تو وہ اس بات پر بہت ہی خوشی کا اظہار کر رہی تھیں کہ پاکستان سے ان کے لئے فون آیا ہے۔ انٹرویو کی بات کی تو انہوں نے بلا تامل رضامندی کا اظہار کیا۔ مگر بدقسمتی سے وہ شدید علیل ہو کر ہوسپٹلائز ہو گئی مگر انہوں نے اپنی ناسازی طبعیت کا ذکر ہم سے نہیں کیا بلکہ انہی کے کالج کے پروفیسر ڈاکٹر راغب دیش مکھ کی زبانی معلوم ہوا کہ میڈیم تو کافی علیل ہیں یہی وجہ ہے کہ اس بات چیت میں ڈاکٹر سیما افراہیم چند سوالات کے مختصر ہی جواب دے سکیں۔ڈاکٹر صغیر افراہیم سے بھی جب فون پر بات ہوئی ہر بار انہوں نے وضعداری اور مہذب پن کا ثبوت دیا اور وعدہ ایفا کرتے ہوئے فیملی میگزین کو انٹرویو دیا ۔ڈاکٹر صغیر افراہیم اور ڈاکٹر سیما صغیر سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
غلام زہرا:۔ کچھ ذکر ہو جائے آپ کی پیدائش کا؟بچپن کا واقعہ تو یاد ہوگا؟
پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم: میں اتر پردیش کے ضلع اناؤ میں 12 جولائی 1953ء کو پیدا ہوا۔مولانا حسرت موہانی کا پیدائشی مقام بھی یہیں ہے۔ہندوستان میں ریاست اتر پردیش ریاست ہمیشہ سے ہی علم و ادب کا گہوارہ رہی ہے۔ اس سرزمین نے بعض ایسے شعراء و ادباء کو جنم دیا جنہوں نے ملکی و عالمی پر بھرپور شدت پائی جن کی خدمات سے اردو ادب میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ مولانا حسرت موہانی سمیت قاضی عبدالستار‘ خلیل الرحمن اعظمی‘ قاضی عبدالستار‘ اسلوب احمد انصاری‘ خورشید اسلام‘ نیر مسعود اور پھر شمیم حنفی‘ شافع قدوائی‘ قاضی افضال حسین‘ مہتاب حیدر نقوی‘ آشفتہ چنگیزی اور کئی شعراء و ادباء تحقیق و تنقید اور ادبی میدان میں سرگرم عمل ہیں۔
یہاں تک شرارتوں کا تعلق ہے تو بچپن میں بہت شرارتیں کیں اور سزائیں بھی خوب پائیں۔
غلام زہرا:۔ تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم: انٹر میڈیٹ تک تعلیم اپنے آبائی علاقے اناؤ سے حاصل کی‘ بعدازاں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے بی اے آنرز اور ایم اے اردو کیا۔ 1985ء میں ’’ترقی پسند تحریک سے قبل‘‘ کے عنوان سے مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
غلام زہرا:۔ پیشہ ورانہ اُمور کا آغاز کبا کیا؟
پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم: پیشہ وارانہ امور کا آغاز 1993ء میں ویمن کالج اے ایم یو علی گڑھ سے کیا۔ 94,93 میں مستقل لیکچرر ہو گئے۔ 97ء میں بطور سینئر لیکچرار خدمات سرانجام دیں۔ فروری 2005ء سے اب تک شعبہ اردو مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں بطور پروفیسر خدمات سرانجام دے رہا ہوں۔
غلام زہرا:۔ تخلیقی سفر کی بابت کچھ بتائیے؟
پروفیسر ڈاکٹر صغیر افراہیم:والد کا پیشہ اگرچہ حکمت تھا اور ان کا مطب کافی مقبول تھا ۔ گھر کا ماحول ادبی تھا۔ والد کو ادب سے بڑی دیچسپی تھی انہوں نے گھر میں ایک ذاتی کتب خانہ ’’کتاب گھر‘‘ بھی قائم کر رکھا تھا جہاں اس زمانے کے بہت سے رسائل اور جاسوسی‘ روحانی کتابیں موجود تھیں۔ اس اعتبار سے شروع سے کتابیں اور رسائل پڑھنے کا شوق رہا ہے۔ لہٰذا آپ یہ کہہ سکتے ہیںکہ پڑھنے اور لکھنے کا شوق ورثے میں ملا۔
میں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا جبکہ میں گیارہویں جماعت کا طالب علم تھا لیکن میری تحریریں باقاعدہ طور پر 1978ء سے چھپنا شروع ہوئیں جبکہ میں بی اے آنرز کر رہا تھا۔ ان دنوں بدایوں سے ایک رسالہ ’’روشن‘‘ نکلتا تھا۔ جس میں میرے مضامین باقاعدگی سے شائع ہوئے تھے۔ اس 1979ء میں میرا ایک طویل مضمون بعنوان ’’نثری داستانوں کا سفر‘‘ معروف رسالہ ’’شاعر‘‘ میں شائع ہوا۔ بس پھر کیا تھا یہ مضمون میری تنقیدی سفر کی طرف ایک اہم قدم تھا۔ اس مضمون کے شائع ہونے کی خوشی تو مجھے تھی ہی مگر اس نے مجھے تنقید کے خار زارنوں میں پوری طرح دھکیل دیا۔ اساتذہ میں سے پروفیسر نعیم احمد اور پروفیسر انصار نے خاص طور پر پدم شری قاضی عبدالستار سے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ اب تم تنقید کی طرف آجاؤ اور پھر آہستہ آہستہ میں اس چینل اور خشک راہ پر چلنے لگا۔
غلام زہرا:۔ فکشن پر توجہ مرکوز ہونے کے باوجود آپ نے دیگر اصناف پر بھی خوب لکھا ہے ،اس حوالے سے کچھ بتائیے؟
ڈاکٹر صغیر افراہیم: جی بالکل میں نے ناول‘ افسانہ اور نثر نگاری کے علاوہ شاعری کے تجزیہ کو بھی قلمبند کیا ہے۔ دکن میں اردو مرثیہ‘ مرثیہ اور اس کا ابتدائی دور‘ قصیدہ تعریف اور عناصر ترکیبی کے نام سے مضامین لکھے جو ملک کے ممتاز جریدوں میں شائع ہوئے۔اس کے علاوہ میں نے صوفی ازم‘ سودا‘ میر اور میر حسن کی مثنویوں کا تجزیہ بھی کیا جو ماہنامہ ’’ادیب‘‘ کی زینت بنے۔
غلام زہرا:۔ تنقید میں آپ کس سے متاثر ہیں؟
ڈاکٹرصغیر افراہیم:۔شمس الرحمان فاروقی سے
غلام زہرا:۔کس قسم کی کتابیں شوق سے پڑھتے تھے؟
ڈاکٹرصغیر افراہیم:۔کلاسیکل لٹریچر کا دلدادہ ہوںکیونکہ والد بھی ایسے ادب سے گہرے شغف رکھتے تھے۔تاریخی اور افسانوی ادب سے بڑی دلچسپی تھی۔
غلام زہرا:۔اردو شعرو ادب میں کس سے متاثر ہوئے؟
ڈاکٹرصغیر افراہیم:سرسید، علامہ اقبال اور پریم چند سے۔
غلام زہرا:۔پاک و ہند میں اُردو کی ترقی کیسے ممکن ہے اورکیسا کام ہو رہا ہے؟
ڈاکٹرصغیر افراہیم:۔ دیکھیے جی، ہمارے ہاں گُھلی مِلی تہذیب موجود ہے ،اس خطے میں صوفیائے کرام کی تعلیم رچی بسی ہے ۔ یہ روایت امیر خسرو،حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء اور خواجہ معین الدین چشتی کی وجہ سے ہے ۔یہاں تک تحقیقی ،علمی و ادبی کام کی بات ہے توپاکستان میں ریسرچ مقالے بہت اعلیٰ لکھے جارہے ہیں جبکہ ہم معیار کو تحقیق میں اِس طرح برقرار نہیں رکھ سکے ،فکشن میں ہندوستان تھوڑا اگے ہے۔شاعری دونوں جگہ اچھی ہورہی ہے۔ پاکستان میں خواتین رائٹرز افسانہ، شاعری اور تنقید بہت عمدہ لکھ رہی ہیں، کمال کے افسانے سامنے آ رہے ہیں۔
غلام زہرا:۔ تقسیم ہند کے حوالے سے کچھ بتائیں؟
ڈاکٹر صغیر افراہیم : برصغیر کی تقسیم تو دیر سویر ہونی ہی تھی لیکن جو تباہی بربادی ہوئی،اس میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کا ہوا،کوشش کرنی چاہیے کہ قدامت پرستی سے دور رہ کر تاریخ سے سبق حاصل کیا جائے ا ور عزم نو کے ساتھ قدم آگے بڑھاتے جائیں۔
غلام زہرا:۔تحریک علی گڑھ نے مسلمانان ہندکی زندگی میں انقلاب برپا کردیاتھا،کیاابھی بھی اِس کے اثرات باقی ہیں؟
ڈاکٹرصغیر افراہیم :۔ جنوبی ایشیاء کے عظیم رہبر و مفکر سرسید احمد خان نے اپنی غیرمعمولی علمی و فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے سماج کی تعمیر بذریعہ تعلیم کی مہم کا آغاز کیا جو تحریک علیگڑھ کے نام سے تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب بن گئی۔مسلمانوں کے فنڈز سے علیگڑھ مسلم یونیورسٹی بنی اور اس یونیورسٹی کا فارغ التحصیل پہلا گریجویٹ ایک ہندوتھا۔سر سید تحریک سے کئی ایسے لوگ بھی جُڑے تھے جو اردو نہیں جانتے تھے،جو دیگر مذاہب کے تھے۔راجہ مہندر پرتاپ کے والد سر سید کے دوست تھے انہوں نے راجہ جی کو گود میں لے کر یہ کہا تھا اسے مجھے دے دو اور اُن کی تعلیم و تربیت کی تھی۔علیگڑھ میں رواداری کا ماحول ہے۔ اب دبستان دہلی اور دبستان لکھنؤ نہیں اب دبستان علیگڑھ قائم ہوگیا ہے۔ہم نے اپنی نسل نو کو تہذیب ، فنون اور آرٹ سے دور کردیا اور صرف اپنے کیریئر کے لیے کتابی کیڑا بنا دیا ہے ۔علیگڑھ میں سرسید کے عہد میں جوخمیر رکھا گیا تھا وہ آج بھی قائم ہے ،سر سید اپنے ساتھیوں کو ایک سمجھتے تھے،اُن کے یہاں سینئر اور جونیئر نہیں ہوا کرتے تھے جب کہ آج یہ عام بات ہو تی جارہی ہے۔ سر سید کے تعلیمی مشن کی کا میابی کا راز بھی یہی تھا۔آج سر سیدکے مشن کو آگے بڑھانا ہی ان کوسچا خراج ہے۔حالی و شبلی نے سر سید کا ساتھ دیتے ہوئے سرسید تحریک کوعوامی بنانے میں اپناصدفی صد تعاون دیا۔سر سید کے انتقال کے بعد بھی ان دونوں نے سر سید کے مشن کو آگے بڑھانے کا کام بخوبی انجام دیا۔آج جو کچھ بھی ہوں علیگڑھ یونیورسٹی کی وجہ سے ہوں۔
غلام زہرا:۔سرسیدکے بعد بتدریج تہذیب الاخلاق کی کارکردگی کیسی رہی؟
پروفیسر ڈاکٹر صغیر افرا ہیم :سر سید او ر ان کا عہد عظیم لوگوں کا عہد تھا۔سر سید کے معاصرین اپنے اپنے شعبے کے ماہرین تھے۔ ڈپٹی نذیر احمد کے سر اردو ناول کی شروعات کا سہرا ہے۔حالی سے اردو میں تنقید اور شاعری میں اسلامی موضوعات کی شروعات ہوئی،توشبلی نے تقابلی تنقیداور مشرقی تنقید کو اردو میں متعارف کرایا۔وہیں سر سید کا سب سے بڑا کار نامہ تعلیمی مشن ہے جس نے ’’جدید ہندوستان‘‘کی بنیاد سازی کا کام کیا۔آج سر سید کے اس مشن کو آگے بڑھا نے کا چیلینج ہمارے سامنے ہے۔ سید حامد کے زمانے سے اس نے بہت ترقی کی۔ 1981 ء میں دوبارہ اشاعت کے بعد الللہ کے کرم سے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ پوری آب وتاب سے شائع ہو رہا ہے۔دیگربہت سے خاص نمبرز سمیت رسالہ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کا سر سید نمبر بھی عمل میں آچُکا ہے۔
غلام زہرا :۔ پاک و ہند میں اُردو کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
ڈاکٹرصغیر افراہیم :۔اردو زبان کی خوبی یہ ہے کہ ہم کسی بھی زبان کو اس کے لہجے میں بول سکتے ہیں یہ خوبی دیگر زبانوں میں نہیں۔ آپ جو بھی زبان پڑھتے ہیں اس میں مہارت حاصل کیجیے کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ میں نے ضرورت کے تحت ریڈیو کے لیے افسانے لکھے۔یہ افسانے اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔اور پھر انہیں کتابی شکل دے دی۔
غلام زہرا :۔ بطورنقاد مسلمانوں کی علمی وادبی اور تہذیبی ترقی پر آراء قائم کیجیے ؟
پروفیسر صغیر افراہیم :۔ فکر ی انحطاط کے اس دور میں تہذیبی روایات اور اقدار کا اعتبار قائم رکھنا آسان کام نہیں ہے۔ہم روایات سے جڑے ہوئے لوگ ہیں اور ہمیں ماضی میں سفر کرتے رہنا اچھا لگتا ہے۔لیکن ارتقائی مراحل طے کرنے کے لیے ماضی کے سحر سے باہر نکلنا بہت ضروری ہے۔1857ء کے بعد سرسید احمد خان کی رہنمائی میں جنوبی ایشیاء میں ایک بڑی تبدیلی آئی۔سرسید احمد خان نے ایک جدید طرز فکر کوروشناس کرایا اور انگریزی تعلیم کوترقی کے لیے لازمی قراردیا۔
لیکن ہمارا معاشرہ ایک مرتبہ پھر خلفشار کا شکار ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی محدود سوچ سے باہر نکلا جائے اور ملک کے عظیم تر مفاد کے لیے انفرادی فائدہ و نقصان سے بالاتر ہو کر کام کیا جائے۔
غلام زہرا:۔کیا حال میں سرسید جیسے مزید مادرعلمی کی ضرورت ہے ؟
پروفیسر صغیر افراہیم:۔جی بالکل موجودہ وقت کے تقاضوں کے پیش نظر سرسید کے فکر و فلسفے کی روشنی میں لوگوں کی رہنمائی کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ اردو کی تعلیم کے لیے یوپی کے ہر شہر میں سرسید احمد خان کے نام سے ایک اسکول قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ہمارے پاس بے پناہ فنڈز آتے ہیں جس سے ہم غریب طلباء کی مدد کرتے ہیں اور غریب طلباء کی ایک بڑی تعداد علیگڑھ مسلم یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے۔سرسید یونیورسٹی ایک دوسری علیگڑھ مسلم یونیورسٹی ہے اور سرسید یونیورسٹی میں بھی علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی طرح تمام شعبہ جات ہونے چاہیں۔
غلام زہرا:۔آپ کو ہاسٹل میں رہنے کا بھی موقع ملا یہ تجربہ کیسارہا؟
ڈاکٹرصغیر افراہیم:۔ یہ تجربہ بہت اچھارہا،ہاسٹل کی زندگی بہترین ہوتی ہے جہاں تہذیب سکھائی جاتی ہے اور تربیت خود بخود ہوجاتی ہے۔دوسرا یہ طلباء پر بھی منحصر ہوتا ہے ،اُن کو اچھے بُرے کی تمیز ہونی چاہییں۔ طلبا وطالبات کو مثبت سوچ اور مثبت پہلو کو اپناناچاہیے۔
غلام زہرا:۔ اب باتوں کا رُخ بدلتے ہیں کچھ بات ہو جائے آپ کی نجی زندگی کے بارے میں‘ شادی کب ہوئی؟
مسز ڈاکٹر سیما صغیر: 9 اگست 1990ء کو ہماری شادی سرانجام پائی۔ ارینج میریج تھی۔ نکاح کے بعد ایک دوسرے کو دیکھا تھا۔
غلام زہرا:۔ شادی کی سالگرہ کا دن کون یاد رکھتا ہے؟
مسز ڈاکٹر سیما صغیر: ہم دونوں ہی یہ دن یاد رکھتے ہیں۔
غلام زہرا:۔ شادی کے موقع پر کس قسم کی رسمیں ہوتیں تھیں؟
ڈاکٹر صغیر مسز سیما صغیر: ممکن حد تک سفر سے گریز کیا۔
غلام زہرا:۔ بیگم کو رونمائی میں کیا دیا تھا۔
ڈاکٹر صغیر: انگوٹھی
غلام زہرا:۔ ہنی مون پر کہاں گئے تھے؟
ڈاکٹر صغیر: کہیں نہیں۔
غلام زہرا:۔ بیگم صاحبہ کیا یہ درست کہہ رہے ہیں؟
ڈاکٹر سیما صغیر: سو فیصد درست کہہ رہے ہیں۔
غلام زہرا:۔ ڈاکٹر صاحب کون سے لباس میں اچھے لگتے ہیں؟
ڈاکٹر سیما صغیر: شیروانی اور سوٹ دونوں ہی ان پر خوب جچتے ہیں۔
غلام زہرا:۔ بیگم کون سے لباس میں اچھی لگتی ہیں؟
ڈاکٹر صغیر افراہیم: یہ مجھے ہر لباس میں اچھی لگتی ہیں۔
غلام زہرا:۔ بیگم صاحبہ‘ ڈاکٹر صاحبہ کو آپ کی کون سی عادت سب سے زیادہ پسند ہے؟
ڈاکٹر سیما صغیر: یہ میرا بہت خیال رکھتے ہیں اور انکی یہ عادت مجھے حد پسند ہے۔
غلام زہرا:۔ آپ کے کتنے بچے ہیں؟
ڈاکٹر سیما صغیر: ایک بیٹی ہے اُس کی تعلیم و تربیت میں دونوں ہی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
غلام زہرا:۔ خواتین کے فون پر بیگم کا ردعمل کیا ہوتا ہے؟
ڈاکٹر صغیر افراہیم: کوئی خاص نہیں۔
غلام زہرا:۔ فیشن کے بارے میں آپ کا نظریہ ؟
ڈاکٹر صغیر، مسز سیما صغیر: نئی چیز کو قبول کرنا مگر تہذیب و شائستگی کے ساتھ۔
غلام زہرا:۔تدریس سے وابستہ نہ ہوتے تو کیا ہوتے؟
ڈاکٹر صغیر افراہیم: والد صاحب کے مطب پر بیٹھا ہوتا۔
غلام زہرا:۔ زندگی کا کوئی ناقابل فراموش واقعہ؟
ڈاکٹر صغیر ،مسز سیما صغیر: دوران حج،وہ بیگ جس میں سامان رکھا ہوا تھا کھو گیا تھا۔ بغیر سامان کے ایک دوسرے کا خیال رکھنا۔ اکثر یہ بات یاد آتی ہے۔
اردو فکشن سے فکری و روحانی رشتہ
صغیر افراہیم نے سائنس اور تاریخ سے وابستہ مضامین کو بھی اپنا شعار بنایا ہے۔ وہ کسی بھی موضوع کو زندہ جاوداں بنانے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں۔ نئے نئے موضوعات کی تعبیر و تشریح کرنا ان کا نمایاں وصف ہے۔ اُن کے بیشتر مضامین ہمہ جہت افکار کی نمائندگی کرتے ہیں‘ اُن کی یہی خصوصیت اپنے معاصر نقادوں اور محققوں سے انہیں الگ کرنے کی ضامن بھی ہے۔ تقریباً پچھلی چار دہائیوں سے تصنیف و تالیف کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔انہوں نے بنیادی طور پر اردو فکشن سے اپنا فکری اور روحانی رشتہ جوڑا ہوا ہے جس کے تحت وہ اپنے مقصد کو وفاداری کے ساتھ نبھا رہے ہیں۔
قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا ایک اہم وسیلہ زبان
یہ بات کسی سے مخفی نہیں ہے کہ رسالہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے بانی سر سید احمد خاں تھے اور آج بھی ان کو اس رسالہ کے بانی کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے کیونکہ ان ہی کی کاوشوں کی وجہ سے اس رسالہ کی ایجاد ہوئی جس کا مقصد یہ تھا کہ کسی بھی قوم کا تہذیبی اور ثقافتی ورثہ اس کی زبان‘ تاریخ‘ ادبی‘ علمی اور عملی صلاحیتیں ہوتی ہیں جن پر وہ ہمیشہ ناز کرتی ہے۔ آپسی تال میل اور قوموں کے درمیان اتحاد و اتفاق کا ایک اہم وسیلہ ان کی زبان ہوتی ہے جس کے بل بوتے پر قومیں ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہیں اسی لئے جو قوم اپنی زبان کو زیادہ ترجیح دیتی ہے وہ اپنی زبان کو ہی نہیں بلکہ تہذیب و ثقافت کے فروغ کو بھی دوام بخشتی ہے۔ اسی بنا پر معاشرے میں بیداری بھی آتی ہے جس کی ضرورت‘ اہمیت و افادیت کبھی کم نہیں ہو سکتی۔
جس طرح زبان اظہار خیال اور سمجھنے سمجھانے کا بہترین آلہ ہے اسی طرح تہذیب و تمدن کو فروغ دینے کے لئے ادب مناسب وسیلہ بھی ہے۔ خصوصاً وہ ادب جو مادری زبان میں خلق کیا گیا ہو۔ کیونکہ وہ زبان زدعام ہوتا ہے‘ اس کی شیرینی فضا میں رس گھولتی ہے۔
سر سید احمد خاں نے جن جذبوں اور مقاصد کو ملحوظ رکھتے ہوئے رسالے کا آغاز کیا تھا اس پر توجہ صرف کی جائے نیز ان کے ذریعہ چلائی گئی تحریک کے احیاء پر بھی توجہ مرکوز کی جائے۔