پروینؔ شاکر کی شخصیت اور فن کا گلدستہ

\"\"
٭سیدتقی عابدی

پروینؔ شاکر نے صرف بیالیس سال (پیدایش 1952ء کراچی، انتقال 1994ء اسلام آباد، کار کا حادثہ) اِس دارالفنا میں زندگی بسر کرکے اپنے فن کے کمال کی وجہ سے فنا میں بقا کا مقام حاصل کرلیا۔ پروینؔ اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں کہ اتنی مختصر زندگی اورمحدود تخلیقی کاوش کے باوجود اُردو ادب کی ممتاز اور مقبول شاعرات کی صف میں شمار کی جاتی ہیں۔ پروینؔ کو زندگی میں ہی اپنی شخصیت کے جمال اور اپنے تخلیقی کمال کی وجہ سے اُردو دُنیا میں اعتبار حاصل ہوچکا تھا چناں چہ یہ محال تھا کہ اُردو دُنیا میں اِن کے کلام کی خوشبو سے خواص تو اپنی جگہ عوام بھی معّطر نہ ہوئیں۔ جیسا کہ پروینؔ خود اپنے خط مورخہ 2؍اگست 1978ء میں نظیر صدیقی کو لکھتی ہیں: ’’صدیقی صاحب! ہمارے ملک میںCritical recognition بڑی مشکل سے ملتی ہے۔ بعض شاعروں کو تو سو سو برس انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اپنا کام تو بس میں چاہتی ہوںکہ بے نیازانہ لکھّے جاؤں۔‘‘
پروینؔ شاکر کا خاندان پٹنہ سے تعلق رکھتا تھا یہ خاندان علم و فن سے مجہنر تھا۔ پروینؔ کے نانا پروفیسر حسن عسکری کلکتہ یونی ورسٹی میں فارسی کے پروفیسر تھے جن سے پروینؔ نے فارسی شعرا کو پڑھا اور سمجھا، باپ شاکر حسین زیدی اور دادا ابوالحسن زیدی دونوں شاعر تھے۔ اس طرح سے ادبی ماحول میں پرورش ہوئی اسی لیے پروینؔ نے پروفیشنل کورس پر آرٹس کو ترجیح دی اور سرسید گرلز کالج سے بی اے کرکے کراچی یونی ورسٹی سے انگلش لٹریچر میں ایم اے کیا اور پھر گیارہ بارہ سال تک معلمی کے فرایض انجام دیتے ہوئے سول سروس پاکستان کے بینکنگ امتحان سے فارغ التحصیل ہوئیں اور اپنی آخری عمر تک اعلیٰ عہدے پر مامور رہیں۔ اپنی تعلیم اور شغل کے بارے میں 19؍جولائی 1978ء کو نظیر صدیقی کے خط میں لکھتی ہیں: ’’صدیقی صاحب! میرا خیال ہے کہ شاعری ہی میری کیریئر ہے۔ اگر میں ڈاکٹر یا سائنس داں بن جاتی تو اس طرح اپنے کو شعر کے لیے وقف نہیں کرسکتی تھی۔ سو یہ اچھا ہوا بُرا نہ ہوا۔ دُعا کیجیے کہ میری زندگی کی کوئی خوشی اتنی شدید نہ ہو کہ مجھے شاعری سے دور لے جائے۔ اب میں خود کو Committed محسوس کرتی ہوں۔ ‘‘
پروینؔ شاکر نے اس خط میں جو وارداتِ قلبی کا ذکر کیا ہے یہی فطری شاعر کی کسوٹی بھی ہے جس کی دولت، شہرت، محبّت، رغبت، محنت شاعری ہی ہوتی ہے جو اس کے رگ وپے میں خون کے مانند دوڑتی پھرتی ہے۔ اسی لیے پروینؔ کی پہلی تخلیق ’’خوشبو‘‘ مطبوعہ 1976ء سے ان کے انتقال 1994ء تک کہ مختصر اٹھارہ سال کے دوران جو پانچ شعری مجموعے منظر عام پر آئے جن میں ’’صدبرگ‘‘ مطبوعہ 1980ء، ’’خودکلامی‘‘ 1985ء، ’’انکار‘‘ 1990ء، اور ’’کف آئینہ‘‘ جو پروینؔ کے انتقال کے بعد ان کی بہن نسرین نے 1995ء میں شائع کیا۔ مقبول اور معروف رہے جو پروینؔ کے فن کی کامیابی کی روشن دلیل ہیں۔ شاید ہی کسی اُردو شاعرہ کے مجموعے کلام اور کلیات کی جو ’’ماہ تمام‘‘ کے نام سے 2000ء میں شائع ہوا۔ ایسی پذیرائی ہوئی ہو۔
شعرا کی زندگی اور شخصیت کے مطالعے سے یہ بات بھی بڑی حد تک واضح ہے کہ اغلب ممتاز عمدہ شعرا گوشہ نشینی کو محفل پر ترجیح دیتے تھے۔ چناں چہ پروینؔ بھی گوشۂ نشین رہیں۔ پروینؔ کے کالم ’’گوشۂ چشم‘‘ بھی متعار نام ’’بینا‘‘ سے شائع ہوتے تھے۔ ایک مقام پر لکھتی ہیں۔ ’’تقریر ہجوم کی طرف اور تنہائی شاعری کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘ 6؍جولائی 1978ء کا مطبوعہ خط سینے۔’’صدیقی صاحب! کراچی میں ادبی لوگوں سے میرا ملنا جلنا بہت کم ہے۔ بلکہ تقریباً نا ہونے کے برابر ہے۔ وجہ یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر معتبر نہیں سخت اسکینڈل باز…… بس کبھی کبھار ریڈیو چلی جاتی ہوں۔ کبھی کسی کتاب کا افتتاح ہو تو فنکشن میں چلی جاتی ہوں ورنہ بیشتر گھر پر رہ کر لکھنا پڑھنا زیادہ پسند کرتی ہوں اور خواتین میں سے تو کسی کے اتنی بھی Terms نہیں ہیں۔ اس معاملے میں سخت unsocial ہوں۔‘‘
پروینؔ شاکر کے دور کے کاغذات کی روگردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ سوائے عرفانہ عزیز جنھوں نے پروین کو ریڈیو پاکستان سے متعارف کروایا، دیگر ممتاز اور معروف شاعرات کی خاموشی تعجب خیز نہ تھی کیوں کہ جب شخصیت میں جمال، فن میں کمال اور چاہت لازوال ہو تو حیرت سے خودبخود لب خاموش اور قلم خشک ہو جاتے ہیں لیکن جیسے ہی پروینؔ دفن ہوئیں یہی خشک قلم اشکبار ہوئے اور روز ناموں اور جریدوں کے صفحات کو نم کرنے لگے۔ بند لب شدت جذبے سے الفاظ اُگلنے لگے۔ یہاں اس فرق کو بھی واضح کردوں کے اس قحط الرجال کے دور میں شاعروں نے پروینؔ کو نہ صرف زندگی بلکہ ان کی موت کے بعد بھی احترام کی نظر سے دیکھا۔ احمد ندیم قاسمی نے سرپرستی کی چناں چہ پروین کا کلام ’’فنون‘‘ میں شائع ہوتا رہا۔ پروین کے اساتذہ اور احباب ہم عصروں میں منیرؔ نیازی، ممتازؔ حسین، مجنوںؔ گورکھپوری، ابنِ انشا، امجد اسلام امجدؔ، مستنصر تارڑ، غلام عباس اور کئی ممتاز شخصیتوں کے نام نظر آتے ہیں جن کا مکمل بیان اس تحریر میں ممکن نہیں۔
امجد اسلام امجد کا معرکتہ آلارا جملہ ’’پروینؔ اُردو زبان کی سب سے بڑی خاتون شاعرہ تھی۔‘‘ تمام شاعروں اورشاعرات کی جانب سے واجب کفائی سمجھا جاتا ہے۔
ہاں یہ انکشاف بھی عجیب ہے جو کہ پروین نے اپنے دو خطوط میں اپنی موت اور کلام کی بقا کی بابت کی ہے جن کے اقتباسات من و عن یہاں پیش کیے جاتے ہیں۔
27؍ فروری 1978ء کوصدیقی کولکھتی ہیں: ’’میں بنیادی طور پر بہتintransit ہوں میرے دُکھ اگر conveyہوئے ہیں تو میری خود کلامی میں۔‘‘
’’مشاعرے کی غزل کی پسندیدگی کا شکریہ اور دیگر اشعار کا بھی
میں پھر خاک کو خاک پر چھوڑ آئی
رضائے الٰہی کی تکمیل کردی
بس بات اتنی ہے کہ میں شدید بیمار ہوگئی تھی۔ دوسرے آپریشن کے بعد نہ معلوم کیوں مجھے کچھ یقین سا ہو چلا ہے کہ میں زیادہ جینے کی نہیں۔ ایسی ہی کسی کیفیت میں یہ پوری غزل لکھی تھی۔ آپ دونوں پریشان نہ ہوں۔‘‘
23؍ جون 1978ء صدیقی کو لکھتی ہیں: ’’مجھے تو روشنی کی بس ایک ہی کرن نظر آتی ہے اور وہ ہے فن۔ مثلاً میں نے یہ جان لیا ہے کہ اللہ نے میری تخلیق اس لیے کی ہے کہ میں شعر کہوں۔ بعض لوگ ساری عمر اپنے کو نہیں شناخت کرسکتے۔ اب یہ ہوا کہ مجھے ایک مقصد مل گیا ایک positive کام۔ سو اب میں یہ چاہوں گی کہ شعر مجھ سے زیادہ عمر پائیں۔ میری مجبوری تو طبعی ہے۔ عناصر میں اعتدال کب تک رہ سکتا ہے مگر یہ اشعار ایسی کسی مجبوری سے دو چار نہیں ہونے چاہیے۔‘‘
یہ سچ ہے کہ آج پروینؔ اپنی تخلیق کی وجہ سے اُردو شاعری میں فنا میں بقا کا مرتبہ حاصل کرچکی ہیں۔
ذوقؔ نے سچ کہا ہے؎
رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوقؔ
اولاد سے تو ہے یہی دو پشت چار پشت
اسی لیے تو پروینؔ کی لوح قبر پر جو شعر کندہ ہیں ان میں سے دو شعر اسی موضوع کے ترجمان ہیں؎
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے

عکسِ خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمٹے کوئی
ہم نے پروینؔ کی شخصیت کے ذیل ان کے کئی ایوارڈس، ان کے بھارت، یورپ، امریکہ، کینیڈا کے دورے، ان کے شریک حیات سید نصیر علی جو ملٹری پاکستان کے سرجن تھے، اور ان کا اکلوتا بیٹا سید مراد علی وغیرہ کا مفصل ذکر اس لیے نہیں کیا کہ ہم کو اس مختصر تحریر میں پروینؔ شاکر کی شاعری پر تنقیدی نظر دوڑانا ہے جو اشاروں، حوالوں اور الفاظ سے زیادہ بین السطور روشنی میں پڑھی جاسکے گی۔
ہم اِس تحریر میں صرف پروینؔ شاکر کی شاعری سے مربوط چند نکات پر گفتگو کریں گے۔ پروینؔ کے کالموں، چند مضامین، شعرا پر تبصرے جن کی تعداد بہت زیادہ بھی نہیں اِس مضمون کے احاطے سے باہر ہیں۔ پروینؔ پیدایشی فطری شاعرہ یا Born poet تھی۔ اِس کا مطالعہ اس کم عمری میں غضب کا تھا وہ مغربی ادب بخصوص انگلش شاعروں کے کلام سے بخوبی واقف تھی۔ پروینؔ کے نثری نمونے اور خطوط وغیرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رائج الوقت نثر سے مجہّنر تھی جس میں آسان، عام فہم اُردو کے علاوہ ہندی، انگریری، فارسی اور عربی کے الفاظ بھی کم و بیش نظر آتے ہیں۔ قدرت نے پروینؔ کو شخصیت اور بدنی حسن و جمال سے نوازا جس پر شاعرہ نے فنّی کمال حاصل کرکے ’’ماہ تمام‘‘ کی صورت میں ہمیشہ کے لیے منوّر ہوگی لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان قدروں میں وہ فنّی کمال اور انفرادیت جس نے پروینؔ کو دیگر اُردو شاعرات میں ہمدوشِ ثریا کردیا وہ کیا تھا؟ پروین ایک نظم میں لکھتی ہے۔
میری پیشانی کو دیکھ کے
میری ماں نے میرا نام
ایک تارے کے نام پر رکھّا
جگمگ کرنے والا
لیکن میری کیمسٹری میں
ایسا کوئی طلسم نہیں ہے
جو میری تقدیر کو جھل مل کردے
میری مانگ میں اِس کے نام کی افشاں بھر دے
میں اپنے سورج سے
ہزار نوری سال کے فاصلے پر ہوں
کائنات کی بے اندازہ و سعت میں
ایک تنہا سیارہ ہوں
’’خودکلامی‘‘ کی نظم خود کلام کررہی ہے کہ پروینؔ کا فخر شناخت مشرقی تہذیب سے رچی بسی عورت ہے۔ وہ نسوانی جذبات اُس خوب صورت نسانی لب و لہجہ میں بیان کرتی ہے کہ اس کے اشعار میں عورت اور شاعری دونوں کو محسوس کیا جاسکتا ہے جب کہ بعض شاعرات کے پاس یا تو صرف شعر میں روتی دھوتی عورت ہوتی ہے اور شاعری موجود نہیں رہتی، یا پھر صرف شاعری کی لَن ترانیاں اور عورت کا وجود شعر میں مشکوک و مفقود ہو جاتا ہے لیکن پروینؔ کے پاس عمدہ شاعری اور عورت کے توازن نے اِس کے مقام کو فلک بوس کردیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پروینؔ عورت کے حقوق، عظمت، مقام اور درجات سے واقف ہے وہ مسلسل مرد بنیاد ماحول کو اشعار کے جھونکوں سے ہلا کر رکھ دیتی ہے لیکن اپنی صنف نازک کے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے وہ مغربی مرد مخالف رُخ اختیار نہیں کرتی بلکہ اپنی مشت کو آ ہنی بناکر معاشرے کی بوسیدہ دیواروں کو گرا دیتی ہے۔ وہ عورت ہونے پر نادم نہیں بلکہ اشرف المخلوق ہونے اور مشرقی خاک سے پیوند رکھنے پر نازاں ہے۔ پروینؔ کی لوح قبر کے اشعار دیکھئے؎
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اِس خاک سے ہے

بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مری ساری فضیلت اِسی پوشاک سے ہے
پروینؔ شاکر کے پانچوں مجموعے شعری ’’خوشبو‘‘ (مطبوعہ 1976ء)، ’’صدِبرگ‘‘ (مطبوعہ 1980ء)، ’’خودکلامی‘‘ (مطبوعہ 1985ء)، ’’انکار‘‘ (مطبوعہ 1990ء) اور ’’کفِ آئینہ‘‘ (انتقال کے بعد مطبوعہ 1995ء) یہ سب ’’ماہ تمام‘‘ (مطبوعہ 2000ء) میں شامل ہیں۔ پروینؔ نے غزل اور نظم پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اِن کے کلام میں پابند، آزاد اور نثری نظمیں نظر آتی ہیں۔ پروینؔ کی غزل کی مقبولیت کی ایک وجہ خود پروینؔ کا اُسلوب ہے یعنی اگرچہ یہاں غزل کی روایتی ہیئت تو باقی ہے لیکن غزل کی روایتی زبان سے انحراف موجود ہے جو پروینؔ کی غزل کی شناخت بھی ہے۔ پروینؔ اپنی نظموں کی دھنک میں مشرقی عورت کی تربیت اور تہذیب کے رنگوں کو ایسے خوب صورت انداز سے پیش کرتی ہے جو نہ صرف قوس قزح کی طرح خوب صورت لگتے ہیں بلکہ شاعری کے آسماں پر درفشاں ہو جاتے ہیں۔ ان رنگوں کے نظارے کے لیے دلہن، چوڑیاں، تتلی، پازیب وغیرہ نظموں کا مطالعہ کافی ہے۔ پروینؔ نے ترنم سے شعر نہیں پڑھے اگرچہ غزلوں کی بحریں مترنم ہیں۔
پروینؔ کا پہلا مجموعہ’’خوشبو‘‘ 1976ء میں منتشر ہوکر دُنیائے شاعری کو معّطر کر گیا۔ اِس نئی خوشبو کو ہر احساس رکھنے والے نے محسوس کیا۔ یہ مجموعہ پروینؔ کے سولہ سے چوبیس سالہ زندگی کا ارمان اور تجربہ تھا۔ اس میں غم جاناں، مشرقی لڑکی کے نفسیاتی معاملات، معصومیت خود سپردگی، دلہن بنّے کی آرزو، رسومات، گلہ، شکوے اور انتظار اُس کا جس کی یادوں سے شاعرہ کی راتیں خوشبو سے بسی رہتی تھیں۔ اِس مجموعے میں غزلیں، نظمیں موجود ہیں۔ شاعرہ جرأت حق گفتار کی دُعا کرتی ہے؎
یارب مرے سکوت کو نغمہ سرائی دے
زخمِ ہنر کو حوصلۂ لب کشائی دے
وصال سے پہلے کے خوشبو بھرے خواب اور اِس گلہ اور محبّت کی چاشنی سے لبریز غزل میں پروینؔ نے حواس کے جذبوں یعنی لمس، نظر اور صدا سے گزر کر نفسیاتی کش مکش اور تجرباتی عکاسی کی کامیاب ترسیل کی ہے ہر شعر فوری دِل میں پیوست ہو جاتا ہے؎
دھنک دھنک مری پوروں کے خواب کردے گا
وہ لمس میرے بدن کو گلاب کردے گا

قبائے جسم کے ہر تار سے گزرتا ہوا
کرن کا پیار مجھے آفتاب کردے گا

سکوت شہر سخن میں وہ پھول سا لہجہ
سماعتوں کی فضا خواب خواب کردے گا

اَنا پرست ہے اتنا کہ بات سے پہلے
وہ اُٹھ کے بند مری ہر کتاب کردے گا

میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جاؤں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
مردفِ غزل کے چند اشعار میں الفاظ کی کرشمہ سازی، استعارتی دلکشی، مطالب کی گیرائی، ترسیل کی سہولت، تازگی، جدت، جذبوں کی شدت کیا کچھ ان اشعار میں نہیں اور یہی لہجہ تھا جس نے پروینؔ کو جملہ شاعرات میں منتخب کرلیا۔
اِسی طرح سے اگر چاہتا رہا پیہم
سخن وری میں مجھے انتخاب کردے گا
پروینؔ کے دوسرے مجموعے ’’صدبرگ‘‘ میں یہ ذہنی اور شعری سفر ترقی کرتا گیا۔ یہاں اب غم جاناں کے ساتھ ساتھ غم دوراں بھی اشعار کے خمیر میں گوندھا گیا۔ شاعرہ اب دلہن ہے، شادی شدہ عورتوں کے جذبات اور خیالات سے خود بھی دو چار ہے۔ لیکن وہ نہ صرف مشرقی دلہن ہے بلکہ مشرقی معاشرے کی استحصال شدہ صنف نازک کی نمایندہ بھی ہے۔ اِس مجموعے میں سماجی، ثقافتی، سیاسی اور خاندانی مسایل کا درد و کرب بھی محسوس کیا جاسکتا ہے جس کی عمدہ عکاسی اس نظم کے حصّوں سے ظاہر ہے۔
تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو
کھیلنے والے سب ہاتھوں کو، میں گڑیا ہی لگتی ہوں
جو پہنا دو مجھ پر سجے گا
میرا کوئی رنگ نہیں ہے
جس بچے کا ہاتھ تھما دو
مری کسی سے جنگ نہیں ہے
پیار کرو
آنکھوں میں بساؤ
اور پھر جب دل بھر جائے تو
دل سے اُٹھا کے طاق پہ رکھ دو
تم مجھ کو گڑیا کہتے ہو
ٹھیک ہی کہتے ہو
پروینؔ کی شاعری میں عورت کے ہر روپ پر خوب صورت اشعار ملتے ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ پروین نے نسوانیت کی فضا میں بیوی اور ماں کے کردار کا بہت ہی خوب صورت آرٹ تخلیق کیا ہے کیوں کہ یہ جذبات اور تجربات دل کے الاؤ میں پک کر قلم سے اُبلے ہیں۔
پروینؔ کے شعری سفر میں زندگی کے ہم سفر کا علیحدہ ہو جانا وہ بھی ممتا کی دولت سے ثروت مند ہونے کے بعدایک اہم واقعہ تھا لیکن یہاں بھی وہ طلاق شدہ افسردہ عورت نہیں بنی بلکہ ممتا کی قوت سے زندگی کی ناؤ کو طوفانی دریا میں کھیتی گئی۔ اب نصیر علی شوہر نہیں تو مراد علی پسر شاعرہ کی بضاعت بنا رہا۔
ہاں مجھے نہیں پروا
اب کسی اندھیرے کی
آنے والی راتوں کے
سب اُداس رستوں پر
ایک چاند روشن ہے
تیری مو ہنی صورت
کہیں اپنے بچے کو مخاطب کرکے کہتی ہے۔
مرے بچّے
تیرے حصّے میں بھی یہ تیر آئے گا
تجھے اس پدر بنیاد دُنیا میں بالاآخر
اپنے یوں مادرِ نشاں ہونے کی اک دن
بڑی قیمت ادا کرنی پڑی گی
اس نظم کے حصّے میں ’’پدر بنیاد‘‘ اور مادرِ نشاں‘‘ کلیدی جوڑواں الفاظ ساری داستان کو بیان کررہے ہیں۔
عورت کی نسوانیت کی معراج اولاد کی پرورش اور ترتبت ہے اسی لیے
ع
:
کہتے ہیں ماں کے پاؤں کے نیچے بہشت ہے
ماں کی بیٹے کے لیے نصیحت سنیئے!
مگر میں ماں ہوں
اور اک ماں اگر مایوس ہو جائے
تو دُنیا ختم ہو جائے
سو میرے خوش گماں بچّے
تو اپنی لوح آیندہ پہ
سارے خوب صورت لفظ لکھنا
سدا سچ بولنا
احسان کرنا
پیار بھی کرنا
مگر آنکھیں کھلی رکھنا
پروینؔ شاکر نے عقیدتی شاعری کے ذیل مناجات، منقبت اور کربلائی موضوعات پر ولائی اور درد ناک اشعار نظم کیے ہیں۔ ’’شام غریباں‘‘ نظم پر تبصرہ کرتے ہوئے پروفیسر نارنگ لکھتے ہیں: ’’پروینؔ نے احساسات اور جذبات زنانہ کو اس درد ناک منظر نامے کے ساتھ پیش کیا ہے، جہاں پر رسولؐ اکرم کے خاندان کی عورتیں کس طرح ظالموں سے ڈری سہمی اور کچلی ہوئیں تھیں۔
؎
:
برہنہ سر ببیاں

ہواؤں میں سوکھے پتّوں کی سرسراہٹ پر

چونک اُٹھتی ہیں

بادِ صرصر کے ہاتھ سے بچنے والوں پھولوں کو چومتی ہیں

چھپانے لگتی ہیں اپنے اندر
پروینؔ کے دردِ عشق کا معاملہ ان کے آخری مجموعے تک غزل اور نظم میں جلوہ گر ہوتا رہا ہے۔
کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی!
میں اپنے ہاتھ سے اُس کی دُلہن سجاؤں گی

سُپرد کرکے اُسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ کیا گیا کہ رفاقت کے سارے لُطف گئے
میں کس سے رُوٹھ سکوں گی، کسے مَناؤں گی

اب اس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب
میں کس کی نظم اکیلے میں گنگناؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محبّت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھول جاؤں گی!
پروینؔ شاکر کی ایک معروف رومانی غزل جو زبان ذدعام ہے جس میں تازگی، نیا رحجان، حیرت، کرشمہ سازی اور نسوانی جذبات کی سچی رواداد بیان ہوئی ہے ہم بغیر کسی تبصرے کے یہاں پیش کرتے ہیں۔
کُو بہ کُو پھَیل گئی بات شناسائی کی
اُس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

کیسے کہہ دُوں کہ مجُھے چھوڑ دیا ہے اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی

وہ کہیں بھی گیا لَوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات ہے اچھّی مرے ہرجائی کی

تیرا پہلُو ترے دل کی طرح آباد رہے
تجھ پہ گُزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی

اُس نے جلتی ہوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھ
رُوح تک آگئی تاثیر مسیحائی کی

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹُوٹتا ہے
جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی
ہم نے پروینؔ کے کلام سے جو گُل چینی کرکے گلدستہ پیش کیا ہے اس کی شیرازہ بندی کے چند شعروں کو ذیل میں لکھ کر اس گلدستہ کو شاعری کے محراب میں سجا دیتے ہیں۔
رکھّا ہے آندھیوں نے ہی ہم کو کشیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنھیں نسبت ہوا سے ہے

ہجر کی شب مری تنہائی پہ دستک دے گی
تیری خوشبو مرے کھوے ہوئے خوابوں کی طرح

میں اپنی دوستی کو شہر میں رُسوا نہیں کرتی
محبّت میں بھی کرتی ہوں مگر چرچا نہیں کرتی

کون سے پھول تھے کل رات ترے بستر پر
آج خوشبو ترے پہلو سے عجب آئی ہے

تو ملا ہے تو اب یہ غم ہے
پیار زیادہ ہے زندگی کم ہے

جو بادلوں میں بھی مجھ کو چھپائے رکھتا تھا
بڑھی ہے دھوپ تو بے سائبان چھوڑ گیا

وہ میرے پاؤں کو چھونے جھکا تھا جس لمحے
جو مانگتا اُسے دیتی امیر ایسی تھی

وہ کیا کہ وہ جب چاہے مجھے چھین لے مجھ سے
اپنے لیے وہ شخص تڑپتا بھی تو دیکھوں

لڑکیاں بیٹھی ہیں پاؤں ڈال کے
روشنی ہونے لگی تالاب میں

Leave a Comment