چمنِ سرسید کے عاشق -علامہ اقبال

\"\"
٭پروفیسر صغیر افراہیم
سابق صدر شعبہ اردو
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ-۲

\"\"
ہندوستانیوں خصوصاً مسلمانوں کے قوائے علم وعمل کو حرکت میں لانے کے لیے سرسید کو جو مشکلات پیش آئیں اُنھیں سیدوالا گُہر نے چیلنج سمجھ کر قبول کیا۔ علامہ اقبالؔ سرسید کی زمانہ شناسی، دُور اندیشی اور جذبۂ فکروعمل سے بے حد متاثر تھے۔ زمانی اعتبار سے دیکھا جائے تو اقبالؔ، سرسید سے ساٹھ برس چھوٹے تھے۔ خُرد اور بزرگ کا مقام عملی جدوجہد میں مانع نہیں ہوسکتا کیوں کہ سرسید اور اقبالؔ اِس کے قائل نہیں تھے۔ دونوں کی ذہنی قربت کا بنیادی سبب انسانی فلاح وبہبود کا لامحدود جذبہ تھا۔ سرسید کی قائدانہ صلاحیت کااعتراف کرتے ہوئے اقبالؔ نے اپنے کئی فن پاروں میں واضح اشارہ کیا ہے کہ زوال زدہ معاشرے کو جس جرأت مند، رہبر انسان کی ضرورت تھی، وہ سرسید کی شکل میں قوم کومیسر آئی۔ اُن ہی کے الفاظ میں:

’’ سرسید کی ذات بڑی بُلند تھی، بڑی ہمہ گیر، افسوس ہے مسلمانوں کو پھر ویسا کوئی رہنما نہیں ملا‘‘۔
مصلحِ قوم، تمام عمر برصغیر کے باشندوں کے خوابیدہ ضمیر کو فطری اصولوں کے تحت بیدار کرتے رہے۔ علامہ اقبالؔ نے بھی اُنھیں کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، اپنی مخصوص فکر کے ذریعے عالمی سطح پر مختلف مسائل کو سمجھنے اور سمجھانے کے جتن کیے۔پروفیسر شکیل احمد اپنے مضمون ’’ڈاکٹر علامہ محمداقبالؔ پر سرسید احمد خاں کے تصورِ مذہب کے اثرات میں رقم طراز ہیں:
’’ہندوستان میں اسلام کی تشکیل نو کا جو سلسلہ سرسید احمد نے شروع کیا تھا، علامہ اقبالؔ بھی اُسی سلسلہ کی ایک کڑی تھے۔ سرسید احمد اور اقبالؔ کے خیالات میں جو ہم آہنگی تھی اس کی حدود کا تعین کرنا خاصہ مشکل کام ہے۔ اقبالؔ ابتدا ہی سے علی گڑھ تحریک سے متاثر تھے کیوں کہ جس ماحول میں اقبالؔ نے آنکھ کھولی اُس وقت علی گڑھ تحریک کے اثرات غالب تھے‘‘۔ (ص: ۷۵)
سرسید سے اقبالؔ کی بے پناہ عقیدت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سرسید کا ذکر بچپن سے اپنے اُستاذ مکرم سید میر حسن سیالکوٹی سے سُنا کرتے تھے، جو جنون کی حد تک سرسید کے شیدائی تھے۔ اِس وساطت کا اعتراف انھوں نے خود کیا ہے:
مجھے اقبالؔ اس سید کے گھر سے فیض پہنچا ہے
پلے جو اس کے دامن میں وہی کچھ بن کے نکلے ہیں
پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں اقبالؔ ٹی۔ڈبلیو۔ آرنلڈ کے شاگرد ہوئے جو اس سے پہلے ایم۔اے۔او۔کالج علی گڑھ میں سات سال تک فلسفے کے اُستاد رہ چکے تھے۔ اقبالؔ ہمیشہ اُن کی شاگردی پر فخر کرتے اور وہ بھی اقبالؔ کو اپنا مایۂ ناز شاگرد سمجھتے تھے۔ دورانِ طالب علمی اقبالؔ، سرسید کی تحریروں کو توجہ سے پڑھتے اور اُن پر غوروفکر کرتے۔ عقیدت ومحبت کا پہلا بھرپور اظہار اُس وقت صفحۂ قرطاس پر منتقل ہوتاہے، جب ۱۸۹۸ء میں اُنھیں سرسید کے انتقال کی اطلاع ملتی ہے۔ پروفیسر اصغر عباس ’’سرسید، اقبالؔ اور علی گڑھ‘‘ میں رقم طراز ہیں:
’’۲۷؍مارچ ۱۸۹۸ء کو جب سرسید نے رحلت فرمائی تو سید میر حسن کی ایماء سے اقبال نے تاریخ وفات نکالی اور سورۂ آل عمران کے اس جز سے مادہ تاریخ نکالا جس میں حضرت عیسیٰ ؑ کے رب العالمین کی خوشنودی کا اظہار فرمایا گیا ہے اور جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہی موت دینے والا ہے، وہی درجات بلند کرنے والا ہے اور وہی الزام اوربہتان تراشیوں سے پاک کرنے والا ہے‘‘۔ فقیر سید وحیدالدین نے لکھا کہ ’’ڈاکٹر اقبال نے اس آیت سے تاریخ وفات نکال کر سرسید کی شخصیت کا بڑا حسین اعتراف کیا ہے‘‘۔ (سرسید،اقبال اور علی گڑھ،ص:۷۷)
اِسے اتفاق کہیں یا قدرت کا کھیل کہ جس سال سرسید کی ایما پر لارڈ لٹن وائسرائے نے علی گڑھ میں محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کا سنگ بنیاد رکھا، اُسی سال اقبالؔ سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ذہنی نشوونما عاشقانِ سرسید کے زیر سایہ ہوئی۔ سید والا گُہر کی وفات کے وقت اقبالؔ کی عمر اکیس برس کی تھی۔ و ہ فلسفہ میں ایم اے کررہے تھے، روشن خیال اور صاحب حیثیت تھے، اس عرصہ میں سرسید برابر دورے پر بھی رہے، ایسے میںفوری سوال جو ذہن میں اُبھرتا ہے وہ یہ کہ کیا حیات سیّدی میں اقبالؔ نے سرسیدسے ملاقات کاشرف حاصل کرنے کا کوئی جتن نہیں کیا؟ نظروں سے اوجھل یہ نکتہ تشنگی کا احساس ہی نہیں دلاتا ہے بلکہ تحقیق طلب بھی ہے۔
لندن میں اقبالؔ کے تھیوڈورماریسن سے روابط پیدا ہوئے۔ جنھوں نے ۱۸۹۹ء سے ۱۹۰۵ء تک ایم۔اے۔ او کالج کی ترقی اور اس کے نظم ونسق کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا، نیز راس مسعود کی تعلیم وتربیت پر خصوصی توجہ دی۔ بقول حبیب اللہ خاں:
’’مسعود سے ان کو اتنی محبت ہوگئی تھی جتنی اپنی اولاد سے اور ہر موقع پر ہندوستان اور انگلستان میں ان کا خیال رکھتے تھے‘‘ ۔ (ص:۵۹)
ایمان اور یقین کی دولت سے مالا مال، علامہ اقبالؔ نے اپنے عہد کی ذہنی، فکری اور عملی صلاحیتوں کو فعال کرنے کے لیے جزوی اختلافات سے گُریز کیا اور سرسید کی انسان دوستی اور علم وعمل کے نظریہ کا سہارا لیا۔ وہ سرسید کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میں تسلیم کرتا ہوں کہ سرسید کے خیالات اور ان خیالات کے ماتحت انھوں نے جو اقدامات کیے وہ تنقید سے بالا تر نہیں، ان میں گفتگو کی گنجائش ہے،لیکن یہ اقدامات ضروری تھے۔ حالات کا تقاضا تھا کہ ایسا کوئی اقدام کیا جاتا جس سے مسلمانوں کی توجہ وقت کے تقاضوں اور مستقبل کی طرف منعطف ہوتی۔ سرسید احمد خاں کی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے یہ اقدام کیا‘‘۔علامہ اقبال مزید فرماتے ہیں کہ :’’ یہ اقدام بہر حال ضروری تھا۔ یہی بات ہے جو اُن کے نکتہ چینوں کی سمجھ میں نہیں آئی‘‘۔(سید نذیر نیازی، اقبالؔ کے حضور میں، ص:۲۴-۲۶)
پیر کی اتباع میں مُرید نے اسلامی فکر کی تشکیلِ نو کے لیے جنبشِ نوکِ قلم کے توسط سے جو طریقِ کار اختیار کیا وہ عقلی اور سائنسی تھا۔ بقول شکیل احمد:
’’اقبال نے فلسفیانہ تصورات کو عقیدے سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سائنسی نظریہ اور رویے سے مدد لی‘‘۔ (ڈاکٹر علامہ محمد اقبال پر سرسید احمد کے تصورِ مذہب کے اثرات،پروفیسر شکیل احمد، ص: ۷۸)
ماضی قریب وبعید سے اخذ وقبول کرتے ہوئے اقبالؔ کا طرزِ بیان اِس لیے اہم ہے کہ اُنھوں نے مُنفرد انداز میں ماضی، حال اور مستقبل کے موضوع پر بات کی ہے وہ اشرف المخلوقات کو ظلم وجبر اور خوف ودہشت سے نجات دلا کر امن وآزادی کے جذبات واحساسات عطا کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے بندۂ مزدور اور سرمایہ دارانہ نظام کو قرآن حکیم کے توسط سے دیکھا۔ اِسی لیے اُن کے یہاں ایک ایسے مردِ مومن کاتصور اُبھرتا ہے جواستحصالی قوتوں سے ٹکرانے کا حوصلہ رکھتا ہو، جبرواستبداد کا جواب بہ بانگ دہل دے سکتا ہو۔
پچھلے سو سال کے منظر نامہ کو سامنے رکھیں تو سرسید اور اقبالؔ کی فکری اور عملی جدوجہد سے متعلق تقریباً ہر پہلو پر اردو میں تحقیق وتنقید کاگراں بہا سرمایہ موجود ہے۔ اِس کے باوجود یہ مصلحِ قوم کی عظمت کی بین دلیل ہی تو ہے کہ اُن کے افکار ونظریات اور شخصیت کی مختلف جہتوں پر صاحبانِ قلم اور ماہرین علم وادب مسلسل غوروفکر کررہے ہیں بلکہ جدید علوم وفنون کی روشنی میں دونوں کی ہم آہنگیِ فکروعمل کا بطور خاص مطالعہ کررہے ہیں۔ ان مطالعات کے نتائج کے طور پر سرسید اور اقبالؔ کے سرمائے میں خوش گوار اور چشم کشا اضافوں کا سلسلہ مستقل جاری ہے۔ جدید ترین علمی، ادبی اور فکری تناظر میں ان مصلحین قوم کے مطالعے کے نہایت مثبت نتائج منظر عام پر آرہے ہیں۔
علامہ اقبالؔ کی شاعری بنی نوع انسان خصوصاً امتِ مسلمہ کے اتحاد واتفاق کی تاریخ کے لحاظ سے موثر ومنفرد ہے۔ انھوں نے مخصوص تلمیحات، علامات اور استعارات کے سہارے مسلمانوں کو اُن کے اپنے عظیم الشان کارناموں کی یاد دلاتے ہوئے محبت ویگانگت کا درس دیتے ہیں، یہ ملحوظ رکھتے ہوئے کہ فن مجروح نہ ہوسکے۔ مثلاً ۱۹۰۳ء میں ’’مخزن‘‘ لاہور میں شائع ہونے والی نظم ’’سیّد کی لوحِ تُربت‘‘ انسانیت کی اعلیٰ قدروں کی بھی ضامن ہے۔ چار بند اور چودہ اشعار پر مشتمل نظم میں وہ اپنا پیغام سرسید کی لوحِ مزار کی زبانی ادا کرتے ہیں۔ اِسی لیے یہ نظم ہم آہنگیِ فکروعمل کی سب سے واضح مثال ہے۔ پیرومرشد کا انتخاب انھوں نے اِسی لیے کیا ہے کہ وہ مشکل ترین حالات میں قوم وملت کی فلاح وبہبود کے لیے کوشاں رہے، اُسے خوابِ غفلت سے بیدار کرنے کے امکانی جتن کرتے رہے۔ شاعرِ مشرق نے نہایت موثر اور مدلل طریقہ سے قوم کو سمجھایا کہ دین کے ساتھ دنیا کی بھی فکرلازم ہے۔ اور پھر دُنیا کے مکروفریب اور چمک دمک سے بھی متنبہ کرتے ہیں۔ بُغض ونفاق کو چھوڑتے ہوئے اتحاد واتفاق پر زور دیتے ہیں ۔ ہمت اور جرات کی وضاحت کرتے ہیں ۔ صبرواستقلال کو فوقیت دیتے ہوئے ذہن وضمیر کو بیدار کرتے ہیں ۔ نظم کی بنیادی خوبی یہ ہے کہ اپنے آئیڈیل کردار یعنی سرسید احمد خاں کے توسط سے سب کچھ کہا گیا ہے۔ لوح مزار کی زبانی ادا ہونے والے ڈرامائی مناظر قاری کو غور وفکر پر مجبور کردیتے ہیں اور وہ اِس کے توسط سے اپنی تاریخ، تہذیب وثقافت کے مدوجزر کو اشاراتی طور پر محسوس کرلیتا ہے ۔ شاعری میں اقبالؔ کا اپنا وطیرہ رہا ہے کہ وہ یقین محکم، عمل پیہم کے لیے کبھی خالد بن ولید اور طارق ابن زیاد کاسہارا لیتے ہیں تو کبھی رومیؔ اور حافظؔکا۔ علی گڑھ تحریک کی روح میں ڈوبی ہوئی اِس ناصحانہ نظم میں اقبالؔ نے عہد جدید کے سب سے بڑے مصلح قوم کا انتخاب اِس لیے کیا کہ سرسید نے مختلف زاویوں سے تعلیمی اور اصلاحی جتن کیے۔ تاریخ وتہذیب میں ڈوبی ہوئی یہ نظم قوم کو دین اور دنیا سے منسلک کرتے ہوئے مثبت رُجحان کی طرف مائل کرتی ہے۔ اِس کا محرک بُغض وعناد اور نفرت وتعصب سے لوگوں کو دُور رکھنا ہے۔ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے اتحاد واتفاق کو فروغ دینا ہے۔ وقت کی رفتار کو سمجھتے ہوئے جدید علوم وفنون سے دلچسپی پیدا کرتے ہوئے خدمتِ خلق کا جذبہ پیدا کرناہے۔ اپنی فکر اور اپنی زبان کو پاک رکھنے کی منفرد تاکید کہ خلقِ خدا کو تاریکی، غفلت اور پسپائی سے نکالتے ہوئے بلندیوں کی جانب کیسے گامزن کیا جائے، جہاں جدّت ونُدرت کا اشاریہ ہے وہیں غوروفکر کو بیدار کرنے کا موثر وسیلہ بھی بنتاہے۔
علامہ اقبالؔ کاسرسید تحریک میں ملوث آفاقی پیغام جون ۱۹۰۷ء میں شائع ہونے والی نظم ’’طلبائے علی گڑھ کالج کے نام ‘‘ میں بھی منعکس ہے۔ سات اشعار پر مشتمل ، غزل کی ہیئت میں لکھی ہوئی مذکورہ نظم سرسید کے مشن کی عکاس ہے۔ (اِس نظم میں بارہ شعر تھے’ بانگ درا‘ میں صرف سات شعر جزوی ترمیم کے ساتھ شائع ہوئے) اِس میں علم وآگہی کو تقویت بخشتے ہوئے باغِ سرسید کے نونہالوں کو جدید تعلیم وتربیت کی طرف راغب کیاگیاہے۔نظم کے خالق نے ۱۹۰۸ء میں یونیورسٹی کے قیام کے لیے چندہ دیا۔ اُس کی حمایت میں جلسے منعقد کیے، تقاریر کیں۔سرآغاخاں کی قیادت میں ایم اے او کو مسلم یونیورسٹی کا درجہ دلانے کے لیے ملک گیر تحریک شروع ہوئی۔ یہ وفد ۲۴؍فروری ۱۹۱۱ء کو لاہور پہنچا جہاں اقبالؔ بھی اِس تحریک میں شامل ہوئے ۔ (عاصم صدیقی وراحت ابرار: کافی ٹیبل بک، ۲۰۱۷ء)
کج کلاہی شان رکھنے والے شاعرِ مشرق، سرسید اور اُن کے اِس ادارے سے بے پناہ محبت وعقیدت رکھتے تھے۔ اِس لیے کہ سیدِ والا گُہر کی قوتِ ارادی، تعمیری سوچ اور علم دوستی کے اقبالؔ بے حد قائل تھے۔ اِسی سوز وسازِ آرزو کی بنا پر وہ کئی بار علی گڑھ تشریک لائے ۔ پہلی بار ۹؍فروری ۱۹۱۱ء میں، ایم اے او کالج کے اسٹریچی ہال میں انگریزی میں لکچر دیا جس کااردو ترجمہ مولانا ظفر علی خاں نے کیا۔ اِس لکچر میں اقبالؔ نے دنیاوی ترقی کے ساتھ ساتھ اسلامی شعار سے اُنسیت پر زور دیا اور قوم کی ترقی کے اسباب بتائے۔ دوسری بار وہ اپریل ۱۹۲۹ء میں تشریف لائے۔ ۲۴؍اپریل ۱۹۲۹ء کو یونین ہال میں طلبہ نے سپاس نامہ پیش کیا، اور لائف ممبر شپ دی گئی۔ تیسری مرتبہ ۱۸؍ نومبر ۱۹۲۹ء کوصدر شعبۂ فلسفہ پروفیسر ظفر الحسن کی دعوت پر ’’تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ‘‘ پر خطبات دینے کے لیے علی گڑھ تشریف لائے۔ ایک ہفتہ تک قیام رہا۔ صاحبزادہ آفتاب احمد خاں اور رشید احمد صدیقی کی عیادت کی۔ اسٹریچی ہال میں وائس چانسلر سرراس مسعود کی موجودگی میں تین خطبے انگریزی میں پیش کیے جن کا اردو ترجمہ سید نذیر نیازی نے کیا۔ چوتھی مرتبہ سالانہ کانووکیشن میں شرکت کے لیے ۱۸؍دسمبر ۱۹۳۴ء کو علی گڑھ آئے۔ ۲۲؍دسمبر کو کارگزار وائس چانسلر نواب اسماعیل نے ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری پیش کی اور سرشاہ سلیمان نے کانووکیشن ایڈریس دیا۔ علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور علی گڑھ میگزین میں ۱۹۱۱ء سے علامہ اقبالؔ کی تخلیقات شائع ہورہی تھیں۔پروفیسر اصغر عباس نے اپنے مضمون’’سرسید، اقبالؔ اور علی گڑھ‘‘ میں لکھا ہے:
’’اقبالؔ علی گڑھ کے اردو فارسی اور فلسفہ کے شعبوں کے ایک عرصے تک اکسٹرنل ممبر رہے۔ وہ ۱۹۲۲ء سے ۱۹۲۵ء تک شعبۂ اردو کے ممبر تھے۔ وہ ۱۹۲۴ء، ۱۹۲۵ء، ۱۹۳۲ء اور ۱۹۳۷ء میں شعبۂ فلسفہ کے بورڈ آف اسٹڈیز کے رکن تھے اور ۱۹۳۵ء میں شعبۂ فارسی نے اُنھیں تین سال کے لیے اپنے شعبہ کا ممبر نامزد کیاتھا‘‘۔ (ص:۱۱)
شاعر مشرق نے اپنی شاعری، خطوط اور خطبات میں مختلف زاویوں سے سرسید کے خوابوں کی تعبیریں اِس طرح پیش کی ہیں کہ مسلمان چہار جانب کامیاب وکامران ہوں، اُن کی عزت وتوقیر میں اضافہ ہو۔ در اصل اقبالؔ نے اپنے اظہار کی بھرپور قوت کے توسط سے عالمی سطح پر بیداری اور حریت پسندی کی جو نئی لہر پیدا کی، وہ قابلِ فخر اور قابلِ تقلید ہے۔ بانیِ درس گاہ کے اِس عظیم الشان ادارے نے بھی اِس عاشقِ سید والا گُہر کو سرآنکھوں پر بٹھایا ہے۔ علی گڑھ میگزین کے خصوصی نمبر شائع کیے، پروفیسر شپ آفر کی۔ یونیورسٹی کورٹ کی ممبر شپ کے علاوہ مختلف شعبوں میں رُکنیت دی، نصاب میں داخل کیا۔ سپاس نامہ پیش کیا، ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی، اور اُن کے نام سے طلبہ کی رہائش کے لیے ایک وسیع ہال تعمیر کروایا۔ غرض کہ اِس چمنِ سرسید میں علامہ اقبال ؔکے نام سے ان گنت چیزیں منسوب ہیں۔ مولوی عبدالحق ، راس مسعود، سجاد حیدر یلدرمؔ اور رشید احمد صدیقی کے نام لکھے خطوط اُن کے فکروفن کو اُجاگر کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتے ہیں۔ سرسید کو سیدوالا گُہر سے مخاطب کرنے والے پہلے شخص علامہ شبلیؔ نعمانی ہیں۔ دوسرے علامہ اقبالؔ ہیں جنھوں نے سرراس مسعود کی بیٹی نادرہ کی پیدائش پر قطع تاریخ کہتے ہوئے عورت کی عظمت کا بھی اعتراف کیا ہے ؎
راس مسعود جلیل القدر کو
جو کہ اصل ونسل میں مجدّد ہے
یادگارِ سید والا گُہر
نور چشم سیدِ محمود ہے
راحتِ جان وجگر دختر ملی
شکرِ خالق منتِ معبود ہے
خانداں میں ایک لڑکی کا وجود
باعثِ برکاتِ لامحدود ہے
کس قدر برجستہ ہے تاریخ بھی
’’باسعادت دختر مسعود ہے‘‘
۲۱؍اپریل ۱۹۳۸ء کو علی الصباح لاہور میں وفات ہوئی۔ اطلاع ملتے ہی علی گڑھ غم والم میں ڈوب گیا کیوں کہ وہ چمنِ سرسید کے عاشق اور بانئ درس گاہ کے معتقد ہی نہیں، اُن کے شاگردِ معنوی بھی تھے۔

Leave a Comment