٭محمد عادل
ہلال ہائوس،نگلہ ملاح سول لائین علی گڑھ ،یوپی۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؔ کا شمار اردو ادب کے عظیم شاعروں میں ہوتا ہے۔ان کے کلام میں افکار و شعور کاایک ایسا طلسم ہے جو رہتی دنیا تک آنے والے قارئین ِ ادب کو متاثر کرتا رہے گاکیونکہ ان کی شاعری میں خیالات،احساسات،اور جذبات کا ایک حسین امتزاج دیکھنے کو ملتا ہے۔ فنی اعتبار سے ان کی شاعری فکر اور نقطۂ نظر کی مثبت وادیوں میں سفر کرتے ہوئے اپنے ہم عصر شعراء سے بہت آگے نظر آتی ہے۔
ان کے کلام کا مرتبہ یہ ہے کہ اُسے دنیا کے کسی بھی بڑے فنکار کی بڑی تخلیق کے سامنے اس اعتماد و اعتبار کے ساتھ رکھا جا سکتا کہ وہ ذرہ برابر بھی اُس سے کسی طرح کم نظر نہیں آئے گا۔مثلاً اگر ہم شیکسپئیر،گیٹے،رومیؔ،فردوسیؔ،حافظؔ اور بیدلؔ کے کلام کا مطالعہ کرتے ہوئے علامہ اقبالؔ کی تخلیقی صلاحیتوں کا جائزہ لیں تو ثابت ہوگاکہ ان کی کاوشیں معیار کے اعلیٰ درجے پر فائز ہیں۔ان کے کلام کا کمال یہ بھی ہے کہ اس میں عالمی سطح پر تہذیب،آرٹ اور سائنس کے نمونے بھی نظر آتے ہیں۔انھوں نے اپنی شاعری میں مختلف اسالیب کو جگہ دی ہے انھوں نے نہ صرف غزلیں اور نظمیں تصنیف کیں بلکہ مسدس، مرثیہ،قصیدہ،قطعہ،رباعی،تضمین کے میدان میں بھی اپنا جلوہ دکھایا ہے۔گویا کہ انھوں نے اپنی شاعری کو ایک گل دستۂ حیات بنا کر اور رنگا رنگ پھولوں سے سجا کر سخن شناس حضرات کے روبرو نہایت خلوص کے ساتھ پیش کیا۔ان کے کلام میں جہاں حسن و جمال ہے وہیں فلسفے کی گہری چھاپ بھی ہے۔وہ محبِ وطن بھی ہیں اور قوم و ملّت کے دلدادہ بھی ۔ان کا کلام تصوف کی وادیوں میں بھی سرگرداں ہے تو کہیں وہ ایسی دنیا کے مخالف بھی ہیں جو انسان کی صلاحیتوں اور پرواز کو کوتاہ کرتی ہے۔وہ روایت شکن بھی ہیں اور روایت کے پاسدار بھی وہ جدید ذہن و دل کے مالک بھی ہیں اور اپنے تہذیبی سرمائے کے محافظ بھی۔وہ تشبیہات و استعارات و علامات کا سہارا بھی لیتے ہیں تو کہیں صاف اور شفاف گفتگو کرنے کے قائل نظر آتے ہیں اور نہایت سادہ و سلیس زبان میں سماج اور کائنات کو پیغام دینے کا عمل انجام دیتے ہیں۔گویا کہ وہ بہ یک وقت مفکر بھی ہیں مبلغ بھی ہیں قوم پرست بھی ہیں وطن پرست بھی ہیں اور درد منداور حساس دل کے مالک بھی مثلا ً ان کی نظم’’ ترانۂ ہندی‘‘یا ’’ہمالہ‘‘ کا مطالعہ کیا جائے توان کے جواہرکھل کر سامنے آتے ہیں۔’’ترانۂ ہندی‘‘میں وہ وطن کی محبت اور مختلف اقوام کے اتحاد کو اپنا نصب العین سمجھتے ہیںان کے نذدیک ان کے وطن کی عظمت ساری دنیا سے عظیم تر ہے۔کہتے ہیں:
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیںہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہیں ہم وطن ہے ہندوستاں ہمارا
(ترانۂ ہندی)
اے ہمالہ! اے فصیلِ کشورِ ہندوستاں
چومتا ہے تیری پیشانی کو جھک کر آسماں
تجھ میں کچھ پیدا نہیں دیرینہ روزی کے نشاں
تو جواں ہے گردشِ شام و سحر کے درمیاں
ایک جلوہ تھا کلیم طورسینا کے لئے
تو تجلی ہے سراپا چشم بینا کے لئے
(ہمالہ)
ان کے کلام میں ایک قسم کا ڈرامائی انداز بھی پایا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بڑی شاعری ڈرامے کے نزدیک تر ہوتی چلی جاتی ہے اس میںڈرامے کے عناصر نمایا ںنظر آنے لگتے ہیںیعنی اندازِ مخاطب، خودکلامی،مکالمہ اورفضا بندی جو کہ اقبالؔ کی شاعری کا خاصہ ہیں۔ان سب کے علاوہ ان کے یہاں تیسری آواز کی بھی جھلک ملتی ہے جو ڈرامے میں اہم مقام رکھتی ہے۔ ان کی نظموںمیں’’مکالمۂ جبریل و ابلیس‘‘، ’’خضرِراہ‘‘،’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ ڈرامائی اندازکی اہم نظمیں ہیں ۔کچھ مثالیں دیکھئے:
مرے خورشید! کبھی تو اٹھا اپنی نقاب
بہر نظارہ تڑپتی ہے نگاہ بے تاب
اٹھ کر ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں
قمر کا خوف کہ ہے خطرۂ سحر تجھ کو
مآل حسن کی کیا مل گئی خبر تجھ کو
اے چاند ! حسن تیرا فطرت کی آبرو ہے
طوف حریم خاکی تیری قدیم خو ہے
ان کی نظم’’شکوہ‘‘ بھی اسی نوعیت کی ہے جس میں انھوں نے اپنا خونِ دل بھی نچوڑ رکھ دیا ہے اور اپنے پورے تہذیبی سرمائے کی عظمت و رفعت کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔ مثلاً:
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر، کہیں معبود شجر
خوگر پیکر محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی ان دیکھے خدا کو کیوں کر
تجھ کو معلوم ہے لیتا تھا کوئی نام تیرا
قوت بازئوے مسلم نے کیا کام ترا
صفحہ دہر سے باطل کو مٹایا ہم نے
نوع انساں کو غلامی سے چھڑایا ہم نے
تیرے کعبے کو جبینوں سے بسایا ہم نے
تیرے قرآن کو سینوں سے لگایا ہم نے
پھر بھی ہم سے یہ گلہ ہے کہ وفادار نہیں
ہم وفادار نہیں، تو بھی تو دل دار نہیں
اس کلام کی روشنی میں اور ان کی بعض دوسری نظمیں پڑھنے کے بعدیہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ان کے یہاں میر انیسؔ کا طرزِ تحریر اور بیان کا سا انداز اورلب و لہجہ بھی نظر آتا ہے جو ان کے کثیر مطالعہ کی دلیل فراہم کرتا ہے۔اسی طرح نظم ’’عقل و دل‘‘ میں کہتے ہیں:
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمیں پر، گزر فلک پہ مرا
دیکھ تو کس قدر رسا ہوں میں
ہوں مفسر کتاب ہستی کی
مظہرِشانِ کبریا ہوں میں
بوند اک خون کی ہے تو، لیکن
غیرت لعل بے بہا ہوں میں
دل نے سن کر کہا یہ سب سچ ہے
پر مجھے بھی تو دیکھ کیا ہوں میں
راز ہستی کو تو سمجھتی ہے
اور آنکھوں سے دیکھتا ہوں میں
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو، خدا نما ہوں میں
علم کی انتہا ہے بے تابی
اس مرض کی مگر دوا ہوں میں
شمع تو محفل ِ صداقت کی
حسن کی بزم کا دیا ہوں میں
کس بلندی پی ہے مقام مرا
عرش رب جلیل کا ہوں میں
وہ الفاظ کی عظمت سے بخوبی واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ الفاظ کے صحیح در و بست میں مصور کے موقلم جیسی جادو گری ہوتی ہے جس کے توسل سے اَن دیکھی دنیا کو بھی دیکھا جاسکتا ہے یا کسی خاص ماحول و معاشرے کی تصویر کشی بھی کی جاسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں پیکر تراشی کے بھی اچھے نمونے دیکھنے کو ملتے ہیںجس میں لمسی،مشامی،سماعی ،بصری ،حرکی پیکر کی مثالیں مندرجہ ذیل ہیں:
پتیاں پھول کی گرتی ہیںخزاں میں اس طرح
دستِ طفلِ خستہ سے رنگیں کھلونے جس طرح
چاند جو صورت گرِہستی کا اک اعجاز ہے
پہنے سیمابی قبا محوِخرامِ ناز ہے
وہ تمثیل نگاری میں بھی کم نظر نہیں آتے ان کے کلام میں تمثیل نگاری کے حوالے سے منفرداور دلپزیر اشعار دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔مثال کے طور سے ان کی نظم ’’ حقیقتِ حسن‘‘کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔اس نظم میں حسن اپنے فانی ہونے پر خدا کے حضور میں شکایت کر رہا ہے۔
خدا سے حسن نے اک روز یہ سوال کیا
جہاں میں کیوں نہ مجھے تو نے لازوال کیا
ملا جواب کہ تصویر خانہ ہے دنیا
شبِ دراز عدم کا فسانہ ہے دنیا
ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب نمود اس کی
وہی حسیں ہے حقیقت زوال ہے جس کی
کہیں قریب تھا یہ گفتگو قمر نے سنی
فلک پہ عام ہوئی، اختر سحر نے سنی
پھر آئے پھول کے آنسو پیام شبنم سے
کلی کا ننھا سا دل خون ہو گیا غم سے
چمن سے روتا ہوا موسم بہار گیا
شباب سیر کو آیا تھا سوگوار گیا
اقبالؔ نے اپنے کلام میں تصوف کی بھی ترجمانی کی ہے لیکن ان کے یہاں تصوف کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اپنی کاوشیں چھوڑ کر رہبانیت اختیار کر کے دنیا سے دامن چھڑا لے بلکہ وہ ایسے تصوف کے قائل ہیں جس سے انسان خودی کی منزلیں طے کرتا ہوا کائنات کی حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی مسلسل سعی کرتا رہے اسی وجہ سے وہ وحدت الوجود کے ان ماننے والوں سے گریزاں رہے جنھوں نے اس فلسفے کی غلط تشریح و تعبیر کرکے لوگوں میں بے عملی کی فضا عام کی البتہّ ان کے یہاں بھی ’’ فلسفۂ وحت الوجود ‘‘پر مشتمل اشعار ملتے ہیں۔ مثلاً:
چمک تیری عیاں بجلی میں آتش میں شرارے میں
جھلک تیری ہویدا چاند میں سورج میں تارے میں
وہی اک حسن ہے لیکن نظر آتا ہے ہر شئے میں
یہ شیریں بھی ہے گویا بیستوں بھی،کوہکن بھی ہے
حسنِ ازل کی پیدا ہر چیز میں جھلک ہے
انساں میں وہ سخن ہے،غنچے میں وہ چٹک ہے
(بانگِ درا)
جیسا کہ ارض کیا وہ ایسے تصوف کے قائل نہیں کہ جو بے عمل بناتا ہے بلکہ ان کا تصوف انسان کو ہمہ وقت متحرک رہنے کی دعوت دیتا ہے اُس کے اندر بلند ہمتی اور اعلیٰ پروازی کا جذبہ بیدار کرتا ہے اسی لئے ان کے یہاں ایسے اشعار بہت ملتے ہیں جن سے تحریک ملتی ہے مثلاً:
ایک صورت پر نہیں رہتا کسی شئے کو قرار
ذوقِ جدّت سے ہے ترکیبِ مزاجِ روزگار
فریب ِ نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات
(بانگِ درا)
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظ ہے تازہ نشانِ وجود
(بالِ جبریل)
ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں
(بالِ جبریل)
غرض کہ اقبالؔ کے کلام میں وہ گہرائی اورگیرائی ہے جس کو ایک مختصرسے مضمون میںبیان کرنا ممکن نہیں بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کہ ہر بڑا شاعر زمان و مکان کی قید سے ما وریٰ ہوتا ہے اُس کی تخلیق ہر دور پر صادق اُترتی ہے اور اقبالؔ کے لئے یہ بات بہ بانگِ دہل کہی جا سکتی ہے کہ ان کی شاعری ہر دور کی آواز بن کر ابھرے گی اور رہتی دنیا ان کو یاد رکھے گی۔