٭ڈاکٹر انیس صدیقی
ڈاکٹربی محمد دائود محسن کے نام سے میری شناسائی کم و بیش دو دہائیوں قبل اس وقت سے ہے، جب ان کی شعری و نثری تخلیقات ریاست اور بیرون ریاست کے اخبارات کے ادبی صفحات کے علاوہ معروف وغیرمعروف رسائل کی متواتر زینت ہوا کرتی تھیں۔ کسی ہفتے کوئی غزل تو اگلے ہفتے کوئی افسانہ یا مضمون ، کچھ تخلیقات پڑھی بھی تھیں، اچھی بھی لگی تھیں۔ لیکن کسی قلم کار کی تخلیقات کا مسلسل و متواتر شائع ہونا، اس قلم کار کے تئیں قاری کے اشتیاق و دلچسپی کوکم اور کبھی کبھی ختم کردیتا ہے۔ غالباً ڈاکٹر بی محمد دائود محسن کی تحریروں اور میرے درمیان کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا۔ شروع شروع میں جب بھی میں ان کی تخلیقات کے ساتھ ان کے نام کو دیکھتا تو مجھے یہ نام بڑا غیر شاعرانہ اور اٹ پٹا سالگتا تھا۔ اس پر مستزاد نام کے ساتھ ڈاکٹر کا سابقہ اور ایم اے ،پی ایچ ڈی کا لاحقہ ، پھر عہدہ ، کالج اور شہر کا نام مع پن کوڈ، میری دانست میں سندوں اور عہدوں کے بالمقابل قلم کار کا منصب بذات خود زیادہ عالی مرتبت اور لائق احترام ہوتا ہے اور پھر دائود محسن جیسے ذی جوہر، گرامی قدر اور جینوین قلم کار کو تو اس طرح کے لاحقوں اورسابقوں کی چنداں ضرورت نہیں۔
دائود محسن سے میری پہلی شخصی ملاقات 2006یا 2007میں پی یو سی سال دوم کے امتحانی پرچے جانچنے سے متعلق کیمپ بنگلور میں ہوئی تھی۔ ہمارے مشترکہ دوست ڈاکٹر خلیل نے تعارف کرایا تھا۔ میں تو دائود محسن کے نام اور کام سے غائبانہ واقف تھا ہی، اتفاقاً وہ بھی میری کم مایہ ادبی کار گزاریوں سے واقف تھے۔ ان کی تحریروں اور ان کے ہمراہ شائع ہونے والی تصویر نے میرے قرطاس ذہن پر جو ان کی شبیہ بنائی تھی۔ اس سے دائود محسن کچھ زیادہ مختلف نہیں تھے۔ میانہ سے کسی قدر کم قد اور اسی قدر ڈیل ڈول بھی، یعنی نہ تو موٹے اور نہ ہی دبلاپے کا نمونہ ، گول چہرہ، رنگت سیاہ و سپید کے بالکل درمیان، چہرے کی مناسبت سے کسی قدر چوڑا دہانہ، سلیقے سے تراشیدہ مونچھوں پر ٹکی متناسب ستواں ناک، سنہری، چوکور قیمتی قسم کی عینک سے جھانکتی ذہانت اور شرافت سے متصف چمک دار آنکھیں اور ان کی پہرہ داری کرتی گہری بھوئیں ،چہرے کو پروقار اور جاذب نظر بناتی ہیں، کشادہ جبیں عموماً ثروت اور اقبال مندی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس معاملے میں دائود محسن بڑے خوش قسمت واقع ہوئے ہیں کہ ان کی پیشانی اتنی کشادہ ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کہاں ختم ہے اور سر کدھر سے شروع ۔ کانوں کے اوپر سے لے کر پیچھے گردن کے قریب قریب ، اپنے انجام کے منتظر بے جان اور ادھ مرے بالوں کی روز بہ روز مختصر ہوتی ہوئی جھالر، دونوں کانوں کے کناروں اور لوئوں پر اگے گھنے سیاہ بال … ہلکے رنگوں کی پوری آستین والی شرٹ اور گہرے رنگوں کے پینٹ، پیروں میں کبھی بلیک تو کبھی برائون رنگ کے چم چماتے جوتے، بائیں ہاتھ کی کلائی پر بہ پابندی پہنی جانی والی رسٹ واچ اور شرٹ کی جیب میں سنہری کیاپ والا گرین انک کا پارکر پین۔ یہی وہ ظاہری خدو خال ہیں جو دائود محسن کی شخصیت کو پرکشش اور جاذبی بناتے ہیں۔
دائود محسن کی پیدائش ریاست کرناٹک کے ضلع داونگیرہ کے ایک چھوٹے سے قصبے بیون ہلی کے متمول گھرانے میں ہوئی ان کے والد پیشہ زراعت سے وابستہ زمین دار تھے۔ نہایت مذہبی اور اپنے علاقے کے تعلیم یافتہ ، نامور، معتبر اور لائق تعظیم لوگوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ خاندان کے نہایت مذہبی و علمی ماحول میں دائود محسن کی تعلیم بیون ہلی میں ہی ہوئی۔ میٹرک ، پی یو سی اور بی ایس سی کے امتحانات ہری ہر کے مختلف کالجس سے پاس کیے۔ بی ایس سی میں امتیازی نشانات سے کامیاب ہونے کے باوجود ایم ایس سی کرنے کی بجائے اردو سے ایم اے کرنے کا ان کا فیصلہ اردو زبان و ادب کے تئیں ان کی گہری اور سچی محبت کا مظہر تھا۔
دائود محسن کی اور میری عمر میں محض تیس دنوں کا تفاوت ہے۔ وہ مجھ سے تیس دن بڑے ہیں۔ لیکن میں انھیں خود سے دو ایک سال بڑا ہی مانتا ہوں۔ اس لیے نہیں کہ وہ باقاعدہ اور مسلسل لکھنے اور چھپنے والے قلم کار ہیں، اس لیے نہیں کہ میں لکچرر ہوں اور وہ گذشتہ پندرہ برسوں سے پرنسپال کے عہدے پر فائز ہیں۔ اس لیے بھی نہیں کہ وہ مجھ سے زیادہ فطانت و ذہانت اور فہم و دانش کے مالک ہیں بلکہ اس لیے کہ تفکر اور سنجیدگی ہمیشہ ان کے چہرے پر سایہ افگن رہتی ہے۔ کھلنڈرا پن، خوش باشی و چہل کبھی انھیں مرغوب نہیں رہا۔ اس کی وجہ غالباً یہ ہے کہ دور طالب علمی میں کلاس کی مانیٹری ہمیشہ ان کے حصہ میں آئی۔ سلسلہ تعلیم ختم ہوا تو کچھ برس اردو کے لکچرر کی حیثیت سے کام کیا۔ پھر اسی کالج کے پرنسپال مقرر ہوئے۔ یعنی مانیٹری ایک بار پھر ان کے حصے میں آئی۔ بچپن میں کلاس کے مانیٹر تھے۔ اب کالج کے مانیٹربن گئے۔ پھر نتیجہ یہ ہوا کہ سمینار ہو کہ شعری نشست، پرچے جانچنے کا کیمپ ہو کہ نجی محفل، حتیٰ کہ فیس بک اور واٹس اپ گروپس۔ ہر جگہ مانیٹری کا یہی رنگ اپنی بہار دکھاتا رہتا ہے۔ فیصلہ کن تحکمانہ لب و لہجہ ، ڈانٹ ڈپٹ ، کج بحثی، ہم کاروں کی کردہ و ناکردہ غلطیوں پر انگلی دھرنا، ان کا ایسا شعار ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہم نفسوں کے بیچ محبوب بھی ہیں اور معتوب بھی۔ جن احباب کے نزدیک دائود محسن معتوب ہیں ، دراصل وہ اس چشم بینا سے محروم ہیں جو کسی شخص کے ظاہر سے پرے باطن میں اترنے کا ہنر رکھتی ہو۔ فی الحقیقت دائود محسن ظاہر میں جتنے سخت، کرخت اور کھردرے لگتے ہیں، بہ باطن اتنے ہی نرم خو، نرم دل، نرم مزاج، حلیم، بردبار یعنی مجموعی اعتبار سے شریف النفس انسان ہیں۔ میں نے اکثر دیکھا ہے کہ وہ کسی کو کچھ کہہ دیں، کسی سے کچھ نا چاقی ہوجائے یا کوئی ان کے کسی نادانستہ عمل سے ناراض ہو جائے تو وہ فوراً اس سے اظہارتاسف کرتے ہیں۔ وہ کسی ناخوش گوار بات کو دل میں رکھنے اور اس قبیل کی باتوں کو طول دینے سے ہمیشہ اجتناب کرتے ہیں۔
دائود محسن نہایت ہمدرد اور بے مروتی کی حد تک با مروت ہیں۔ کسی بات سے انکار اور اظہار نفی ان کے بس کی بات نہیں۔ بسا اوقات انھیں خود اپنے اس وصف پر غصہ آتا ہے۔ اکثر احباب اور ریسرچ اسکالر ان کی نہایت قیمتی اور بڑی جانفشانی سے جمع کی ہوئی کتابیں اور نادر و نایاب قسم کے رسائل مانگنے آجاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ کتابیں اور رسائل واپس نہیں ہوں گے،دائود محسن انکار نہیں کرپاتے۔ انھیں دے دیتے ہیں اور بعد میں جب ان کتابوں کی خود کو ضرورت ہوتی ہے اور وہ نہیں ملتیں تو خود پر ہی غصہ ہوتے ہیں۔ اسکالر س کی درخواست پر یم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالوں میںان کی مدد کرنااور تو اور سمیناری ادیبوں کی فرمائش پر ان کے لیے مضامین لکھ دینا اور بعد میں پشیمان ہونا، نہ صرف ان کے محبوب مشغلے ہیں بلکہ یہ ان کے بامروت ہونے کی دلیل بھی ہیں۔ اسی طرح اطراف و اکناف کے لکھاریوں کے شعری و نثری مسودوں کی تصحیح کرتے ہوئے ان پر پیش لفظ لکھ دیتے ہیںیا کم از کم تاثرات ہی قلم بند کردیتے ہیں۔ جس سے دائود محسن کی مروت اور فیاض طبعی ظاہرتو ہوتی ہے لیکن وہ بعض قلم کاروںکے فن کی ایسی ایسی خوبیاں بھی ضبط تحریر میں لاتے ہیں جو ان کتابوں میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتیں۔ میں نے بارہا کہا کہ اس طرح آپ اپنے قلم کے اعتبار کو مجروح کرتے ہیں، باز آجائیے۔ میری بات پر سرنگوں کرتے ہیں اور تہیہ بھی کرلیتے ہیں کہ انھیں آئندہ ایسا نہیں کرنا ہے۔ لیکن پھر کوئی درخواست آجائے تو خود سے کیا ہوا وعدہ بھول جاتے ہیں۔
دائود محسن عمر کی چھپن بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ ان برسوں میں وہ زمانے کے سردو گرم سے نبرد آزما بھی ہوئے اور رد و قبول کے عمل سے بھی گذرے ہیں۔ لیکن بچپن میںگھر کے دینی ماحول میں ان کی والدہ ماجدہ نے جس طرح ان کی تربیت کی تھی اس کا پرتو آج بھی دائو دمحسن کی سیرت و شخصیت پر نمایاں نظرآتا ہے۔ بہ پابندی وقت نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن مجید ان کے روزمرہ معاملات زندگی کا حصہ ہیں۔ سفر ہو کہ حضر روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ عمرہ کی سعادت بھی حاصل کی ہے۔ حضور اکرم ؐ کے سچے عاشق ہیں۔ ساتھ ہی بزرگان دین اور اولیائے اکرام کے فیوض و برکات کے بھی دل سے قائل ہیں۔ صبر و توکل اور اللہ تبارک تعالیٰ کے مشکل کشا ہونے پر کامل یقین دائود محسن میں بہ درجہ اتم پایا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں وہ ایک ایسے صبر آزما دور سے گزرے کہ اچھے اچھوں کی ہمت ٹوٹ جائے۔ شدید ذہنی اذیتیں اور تکلیفیں جھلیں ،لیکن صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ کبھی اللہ تعالیٰ کے شاکی نہیں ہوئے۔ مسلسل اللہ تعالیٰ سے دعائیں اس یقین کے ساتھ کرتے رہے کہ وہ انھیں ان تکلیفوں کی گرفت سے آزاد کردے گا۔ ہوا بھی ایسے ہی ایک دن اللہ تعالیٰ نے ان کی ساری تکلیفوں کا مداوا کردیا۔
ایک انگریزی قول کے مطابق انسان کی کامیابی کے پس پشت ایک عورت ہوتی ہے۔ دائود محسن کا اپنے فرائض کو نہایت خوش اسلوبی اور طمانیت کے ساتھ انجام دینا، زبان وا دب کے میدان میں ان کی ناموری اور شہرت کے عقب میں ان کی شریک زندگی کا بڑا ہاتھ اور ساتھ رہا ہے۔ میں نے شریک زندگی کا لفظ’ بیوی‘ کے روایتی معنوں میں استعمال نہیں کیا ہے۔ واقعتا وہ دائود محسن کی زندگی کے ہرمعاملے میں برابر کی شراکت دار ہیں۔ عموماً بیویاں اپنے شوہروں کی دفتری مصروفیتوں یا ان کی ادبی سرگرمیوں سے کوئی سروکار نہیںرکھتیں۔ لیکن یہ اپنی تمام تر گھریلو ذمہ داریوں ، جن میں اپنے دو بچوں کی تعلیم و تربیت شامل ہے، کے ساتھ ساتھ دائود محسن کے ادبی کام کاج میں بھی بڑی تند ہی سے مدد کرتی ہیں۔ روزانہ ڈاک سے موصول ہونے والی نئی کتابوں اور رسائل کو سلیقے سے جمع رکھنا، کوئی نیا مضمون لکھنے کے لیے مطلوبہ کتابوں اور رسائل کو ڈھونڈ نکالنا،مطالعہ کے لیے نکالی گئی، بکھری کتابوںکو سمیٹ کر ان کو اپنی جگہ پر رکھنا۔ ان کے معمول میں شامل ہے۔ علاوہ ازیں سمیناروں اور مشاعروںکی تواریخ کو یاد رکھنا اور ان کی تیاری کے لیے یاد دہانی کرانا ، کس پر مضمون لکھنا ہے اور کس پر نہیں، اس میں بھی ان کا دخل ضرور ہوتا ہے۔ عموماً دائود محسن کی تحریر وں کی پہلی قاری وہی ہوتی ہیں۔ اکثر و بیشتر شہر اور بیرون شہر سے وارد ہونے والے ادبی دوستوں کی خاطرداری بھی ان کی ذمہ داریوں کا حصہ ہیں۔ جسے وہ نہایت خوش دلی سے انجام دیتی ہیں۔ شاید یہ دائود محسن کے والدین کی دعائوں کا ثمر ہے کہ دائود محسن کو اتنی سگھڑ،سلیقہ مند، وفاشعار، نیک طینت اور صوم و صلوٰۃ کی پابند شریک حیات نصیب ہوئیں۔ مزید خوش نصیبی کی بات یہ بھی ہے کہ انھیں دو اولادہوئیں۔ ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ یہ دونوں بھی نہایت فرماںبردار ، سلیقہ شعار اور مہذب ہیں ۔ لڑکا انجینئرنگ کے بعد بنگلور میں ملازم ہے جب کہ لڑکی بی اے ایم یس کرنے کے بعد اپنے ذاتی کلنک میں پریکٹس کررہی ہے۔ گھریلو زندگی کی اسی طمانیت کا نتیجہ ہے کہ دائود محسن باب شعرو ادب میں اتنی کامیابیاں حاصل کر پائے۔
دائود محسن نے اپنی زندگی کو دوحصوں میں منقسم کررکھا ہے۔ ایک بہ حیثیت پرنسپال ان کی پروفیشنل زندگی اور دوسری ادبی زندگی، کالج کے اوقات میں وہ صرف پرنسپال ہوتے ہیں، ادیب وشاعر نہیں، یہاں وہ کتب و رسائل کی ورق گردانی تو دور کی بات، ادبی دوستوں کے فون کالس تک رسیو نہیں کرتے۔ کالج سے گھرواپسی کے بعد ان کا روپ صرف اور صرف ادیب و شاعر کا ہوتا ہے ۔ شام تارات گیارہ بارہ بجے تک کھانے پینے اور نمازوں کا وقفہ منفی کریں تو جو کچھ بھی وقت میسرآتا ہے وہ سو فیصد لکھنے پڑھنے میں صرف کرتے ہیں ۔ داونگرے جیسے بڑے شہر میں بھی ان کا کوئی ادبی دوست ،ہمدم نہیں ہے۔ رات دیر گئے تک کسی سڑک کی نکڑ کے چائے خانے میں دوستوں کی محفلیں، گپ شپ، غیر موجود احباب کی غیبتیں عام طور سے شعرا و ادباکے پسندیدہ شغل ہیں۔ دائود محسن اس طرح کی ساری علتوں سے دور ہیں۔ شام کالج سے گھر پہنچے تو پھر صبح ہی کالج کے لیے گھر سے باہر قدم نکالیں گے۔ البتہ رات دیر گئے ڈاکٹر بیٹی کے کلنک سے لوٹنے اور رات کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ننگے پیروں چہل قدمی ضرور کرتے ہیں۔ چہل قدمی کے اس وقت کو بھی وہ ضائع کرنے کے قائل نہیں۔ بلکہ اس وقت کو دور دراز کی ادبی شخصیتوں سے فون پر اپنے تعلقات اور مراسم کو استوا ر اور مستحکم کرنے میں صرف کرتے ہیں۔
جہاں تک سوشیل میڈیا کا تعلق ہے۔ مختلف واٹس اپ گروپس میں شامل ضرور ہیں مگر سرگرم نہیں۔ کبھی کبھار نظرآبھی جاتے ہیں تو وہی اپنے مانیٹری والے رنگ میں۔ البتہ فیس بک انھیں زیادہ پسند ہے۔ نئی تصویریں، مضامین، اخباروں کے تراشے اکثر پوسٹ کرتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ سب وہ خود نمائی اورخود تشہیری کے مقصد سے نہیں بلکہ اس لیے کرتے ہیں کہ یہ چیزیں فیس بک اکائونٹ میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتی ہیں۔
دائود محسن شخصی اعتبار سے یا تو پرنسپال ہیں یا پھر شاعر و ادیب، اپنی دیگر حیثیتوں میں وہ کس طرح اپنی ذمہ داریاں سر انجام دیتے ہیں اس کا اندازہ نہیں ہے۔ البتہ یہ ضرور معلوم ہے کہ دائود محسن کو گھر کی چھوٹی موٹی ضرورتوں کی تکمیل یا درپیش گھریلو مسائل کی یکسوئی کا ہنر کم کم ہی آتا ہے۔ سوداسلف کی خریداری ، بازاروں اور شاپنگ مالس میں گھومنے پھرنے اور خرید و فروخت کا انھیں تجربہ ہے اور نہ ہی شوق۔ کبھی جاتے بھی ہیں تو بیگم صاحبہ یا بچوں کے ہمراہ ، اور پھر ان کے ساتھ جانے یا انھیں ساتھ لے جانے کا واحد مقصد بلوں کی ادائیگی کرنا ہوتا ہے۔ ان کی ضرورت کی چیزیں جیسے کپڑے، چپلیں، جوتے وغیرہ یہ سب وہ خود نہیں خریدتے بلکہ یہ کام بھی بیگم صاحبہ ہی انجام دیتی ہیں۔ کبھی کبھار قیام بنگلور کے دوران انھیں گھر کے لیے کچھ خریدنے کا شوق چراتا ہے اور وہ ہمیں لیے دوکان دوکان گھومتے ہیں۔
دائود محسن جس کام کو نہایت عمدگی اور خوش سلیقگی سے انجام دیتے ہیں وہ پڑھنے لکھنے کا کام ہے۔ کالج سے واپسی کے بعد ان کا زیادہ تر وقت اپنے گھر کے ریڈنگ روم میں کتابوں اور کمپیوٹر کے ساتھ گذرتا ہے۔ مطالعے سے شغف انھیں کالج کے زمانے سے ہی رہا ہے۔ مزاجاً چونکہ مذہبی انسان ہیںاس لیے ابتدا میں مذہبی کتابوں کا شدت سے مطالعہ کیا۔ پھر ادب کی جانب راغب ہوئے تو سب سے پہلے اقبال کو راست کلام اقبال کی توسط سے سمجھنے کی کوشش کی۔ جس کا ثبوت کلام اقبال کے بعض نئے اور مختلف گوشوں پر روشنی ڈالنے والے ان کے مضامین ہیں۔ کلاسیکی ادب کے علاوہ اہم اصناف شعرو ادب کی نمائندہ شخصیتوں کی حیات و خدمات سے متعلق ان کا مطالعہ لائق صد تحسین ہے۔ آج بھی وہ عصری ادب کے سنجیدہ قاری ہیں اور جہان ادب میں جو کچھ ہورہا ہے، اس سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جہاں تک دائود محسن کے لکھنے لکھانے کا تعلق ہے، اس سلسلے کا آغاز مانسا گنگو تری میسور، میں ایم اے کی تعلیم کے دوران ہوا۔ تخلیقی جوہر تو خلقی تھے ہی، یونیورسٹی کے ماحول ،پروفیسر مسعود سراج ادیبیؔ، پروفیسر محمد ہاشم علی ، پروفیسر جمیلہ بیگم نیئرہ اور ڈاکٹر برجیس سلطانہ جیسے شفیق اساتذہ کی صھبتوں اور شعبہ میںوقتاً فوقتاً آنے والی قومی سطح کی ادبی شخصیتوں کے ساتھ قیل و قال نے ان صلاحیتوں کو مہمیز کیا۔ ابتدا شعری تخلیق سے ہوئی کہ افسانہ نگاری یا مضمون نویسی سے۔ اس کا اندازہ خود دائود محسن کو بھی نہیں ہے، کہ کب شاعری نے ان کا دل چرایا اور کب ان میں افسانہ نگاری اور مضمون نگاری کے سوتے پھوٹے۔ کسی موقع پر انھوں نے بتایا تھا کہ وہ ان میدانوں میں ایک ساتھ ہی کود پڑے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ ادب میں انھوں نے کسی کو استاد نہیں کیا، کسی کو رہنما نہیں بنایا۔ شعر وادب سے محبت جو ان کے دل میں طالب علمی کے زمانے میں پیدا ہوئی تھی، خود بہ خود پروان چڑھتی گئی اور اب ایک تناور درخت بن گئی ہے۔ البتہ شاعری کے ضمن میں اس کی روایت کی پاسداری کرتے ہوئے اپنے ہم وطن کہنہ مشق اور پختہ کا رشاعر سرقاضی قمر الدین قمر کے آگے زانوئے تلمذ تہ کیا اور کچھ عرصہ ان سے کلام کی اصلاح لی اور رموز شعری سے واقف ہوئے ۔اپنے استاد کی ایما اور اصرار پر ہی پہلا مشاعرہ بھی پڑھا تھا۔ آج بھی داونگرے میں دائود محسن کے واحد استاد، سینئر دوست، صلاح کار، ہم درد اور غم گسار کوئی ہیں تو وہ سرقاضی قمر الدین قمر ہی ہیں۔ جب بھی دائود محسن ان کا ذکر کرتے ہیں، بہ صد احترام کرتے ہیں۔ ایم اے کی تکمیل کے بعد جب انھوں نے پی ایچ ڈی کا ارادہ کیا تو کوئمپویونیورسٹی پہنچے اور ڈاکٹر یس یم عقیل کی زیر نگرانی ، ’کنڑا اردو تراجم کا تجزیاتی مطالعہ‘کے زیر عنوان وقیع مقالہ قلم بند کیا۔ ڈاکٹر یس یم عقیل بھی دائود محسن کی ان چند پسندیدہ شخصیتوں میں ایک ہیں جن کے لیے ان کے دل میں بڑی عزت و توقیر ہے۔
منٹو کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ انھوں نے قلم وقرطاس کو ترک کردیا تھا اور اپنی تحریریں ٹائپ رائٹر پر راست ٹائپ کیا کرتے تھے۔ دائود محسن کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ جب سے اردو ٹائپنگ سیکھی ہے قلم کو ہاتھ نہیں لگایا۔ اب قلم صرف دفتری فائلوں پر دستخط کرنے کی خاطر ہی جیب سے نکلتا ہے۔ یہاں منٹو اور دائود محسن کا تقابل مقصود نہیں ہے۔ منٹو تو بہر حال منٹو ہیں۔ میں اکثر ان سے کہتا رہتا ہوں کہ کمپیوٹر پر ٹائپ شدہ تحریر کا ایک پرنٹ لے کر اسے دوبارہ پڑھ لیں۔ اس عمل سے تحریر میں عدم تسلسل، املا و انشا کی اغلاط، زبان کی سطحیت ، خیالات کی تکرار جیسے سقم گرفت میں آئیں گے۔ جو کمپیوٹر کے اسکرین پر پڑھنے سے کم از کم میری دانست میں آسان کام نہیں۔ لیکن یہاں بھی ان کا وہی مانیٹری والا انداز۔
دنیائے ادب میں دائود محسن کی پہلی محبت شاید شاعری تھی، پھر افسانے سے عشق ہوا۔ لیکن ان کے ادبی تشخص کو تنقید و تبصرے نے مستحکم کیا ہے۔ اس بات کا جواز یہ ہے کہ دائود محسن کی جو پہلی کتاب منظر عام پر آئی وہ ان کا شعری مجموعہ ’سواد شب‘ تھی۔ پھر افسانوں کا مجموعہ ’سناٹے بول اٹھے‘ منصہ شہود پر آیا۔ اس کے بعد تنقیدی ، تبصراتی اور تحقیقی نوعیت کے مختلف النوع موضوعات والے مضامین پر مشتمل چار تصانیف شائع ہوئیں۔ تنقیدو تحقیق سے ان کی غیر معمولی رغبت اور دلچسپی کی وجہ دراصل مختلف یونیورسٹیوں ، کالجوں، اداروں اور انجمنوں کے زیر اہتمام منعقد کیے جانے والے سمیناروں میں شرکت کا ان کا شوق ہے ۔ یہی شوق ان کے درون میں بسے تخلیقی فن کار کا قاتل بھی ہے۔ جب سے سمیناروں میں شرکت دائود محسن کی ترجیح بنی، تب سے ہی تخلیقیت ان سے رخصت ہونے لگی۔ دائود محسن ہندوستان بھر میںکسی بھی مقام پر اور کسی بھی موضوع پر منعقد ہ سمیناروں میں مقالہ پیش کرنے کے ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں۔ موضوع کے معاملے میں بھی ان کا کوئی اختصاص نہیں۔ موضوع جو بھی اور جتنا بھی کم وقت ملے۔ ایک رات، کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے اور مضمون تیار۔ پھر ان سمیناروں میں شرکت کے لیے دو ردراز سفر کی صعوبتیں برداشت کریں گے۔ سمینار کے بد انتظامی یا کم اعزازیے یا کم سفر خرچ پر عدم اطمینان کا اظہار کریں گے۔ آئندہ سمیناروں میںشرکت سے توبہ کریں گے۔ لیکن پھر کہیں سے دعوت آجائے تو ’ توبہ توبہ سمینارسے توبہ‘ کہہ کر مقالے کی تیاری میں جٹ جائیں گے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ چار مجموعوں کی اشاعت کے بعد بھی درجنوں مضامین ان کے کمپیوٹر کی ہارڈ ڈسک میں کسی نئی کتاب میں شمولیت کے منتظر ہیں۔
بہر حال دائود محسن جتنی متنوع رنگ شخصیت کے مالک ہیں، ان کے تخلیقی اظہاریے بھی اتنے ہی رنگا رنگ ہیں۔ انھوں نے شاعری کی ، افسانے لکھے، تنقیدو تبصرہ نگاری میں قلم آزمائی کی، پیش لفظ و تقریظیں لکھیں، طنز و مزاح اور خاکہ نگاری کے باب میں زور قلم دکھایا۔ اردو سے کنڑا اور کنڑا سے اردو میں تراجم بھی کیے۔ اس طرح انھوں نے اپنی مثال سے یہ ثابت کردیا کہ محنت و ریاضت، مسلسل جستجو و لگن چاہے زندگی میں ہو کہ ادب میں رائیگاں نہیں جاتی۔ اسی محنت و ریاضت کی بدولت آج دائود محسن اپنے ہم عصر اور ہم عمر اصحاب قلم میں قد آور اور بلند سر ہیں۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭