عورت توخود ایک کچلاہواخواب ہے: شبنم عشائی

\"\"
٭حقانی القاسمی،نئی دہلی۔
روبرو
\"\"

عورت کے من میں برف جم جائے تواسے پگھلنے میں بہت دیرلگتی ہے۔عورت اگر حد سے زیادہ حساس ہوتو پگھلنے کی مدت بڑھ بھی سکتی ہے۔
وادیٔ کشمیر کے تاپرپٹن سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹرشبنم عشائی کا معاملہ یہ ہے کہ وہ نہایت حساس خاتون ہیں۔ وہ نہ انفعالی ہیںاورنہ ہی Ineffectual۔ان کے وجود میں اتنی اضطراب آمیزلہریں ہیںکہ کسی ایک لہر کو گرفت میں لیناآسان نہیں۔ وہ جتنی وارفتگی سے شبنمی لے میں بہتی رہتی ہیں،اتنی ہی شدت سے شعلگی کا لباس بھی پہن لیتی ہیں۔ ان کی سرکشی میں تابع داری اور اطاعت میں بغاوت کا گماں گزرتاہے۔ وہ خوشبوئیں خرچ کرکے درد خریدنا جانتی بھی ہیں اور اپنی آنکھوں کو آنسوؤں سے طلاق دینے کے ہنر سے بھی واقف ہیں۔ انھیں رفاقتوں کی آنچ میںپگھلنا بھی آتاہے اور لاتعلقی کے پانی میں تیرنا بھی۔
من کی دنیا میں گھربنانے کی آرزومند شبنم عشائی اپنے خوابوں کے ٹکڑے کاٹ کاٹ کر زندگی بسرتوکررہی ہیں مگر ان کی آنکھوں میں نہ توکاجل ہے نہ سپنا،شایدان کے خواب مصلوب کردیے گئے ہیں۔ اب ان کی آنکھوںمیں صرف خوف اور اندیشے ہیں یا وہ اپنے سپنے ٹرالیزمیں لیے خلاؤں میں گھوم رہی ہیں۔
ایک جاگیردارگھرانے سے تعلق رکھنے کے باوجود شبنم عشائی کی زندگی جدوجہد سے عبارت ہے اور ہندوستان میں ان کی طرح ہزاروں ملازمت پیشہ خواتین کا دکھ یہ ہے کہ وہ اکیلے پن کی اذیتیں سہتی ہیں اور اپنے حصے کے ساون سے بھی محروم رہ جاتی ہیں۔
اکیلی( 1999)،میں سوچتی ہوں(2000)، من بانی (2002)، کتھارسس(2008)، من میں جمی برف (2013)جیسے مجموعوں کے ذریعے دنیا سے اپنے من کی بات بانٹنے والی شبنم کے دل میں بہت سی باتیں ایسی ضرور ہوں گی جو شاید Defamationکے ڈر سے کہہ نہ پائی ہوں یا سب کچھ کہنے کے باوجود بھی کہنے کے لیے بہت کچھ باقی رہ جاتاہے ۔ یوں بھی خواتین اپنے Dark & Deepسکریٹس کوکسی سے شیئر نہیں کرتیں۔ وہ بہت سی سچائیوں کو اپنے سینے میں دفن کرلیتی ہیں۔ خاموش رہ جاتی ہیں اور یہی خاموشی عورت کی اذیت بن جاتی ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے شعبہ فلسفہ سے وجودیت پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کرنے والی اور انگریزی میں Alienationجیسی کتاب کی مصنفہ کے من میں اترنے کی کوشش کی تومجھے لگا کہ عورت کے من کی تھاہ پانا خردمند مردوں کے لیے بھی مشکل ہے،خاص طورپرایسی عورت کی جو اپنے جسم پرٹیلکم نہیں اپنے وجود پر نمک چھڑکنے کی عادی ہو اورجس کے من کی مٹی میں موت بودی گئی ہو۔
معاصرنظمیہ افق پرجوچندhigh-endشاعرات ہیں، ان میں ایک نام شبنم عشائی کا بھی ہے مگریہاں ان سے ادب پرنہیں بلکہ خواتین، سماج اورسیاست کے مسائل ومتعلقات کے حوالے سے گفتگو کی گئی ہے کیونکہ آج کا فن کارزندگی کی نامیاتی حقیقتوں اورجدلیاتی حرکتوں سے اپنا رشتہ توڑتا جارہاہے، وہ اپنی ذات کے خول میں اس طرح بندہوگیاہے کہ باہر کی واردات اور وقوعات سے اس کا کوئی واسطہ ہی نہیں رہ گیاہے اورپھرسوال یہ بھی ہے کہ کیاصرف میروغالب پرگفتگو سے جدیدمعاشرے کے مسائل حل کیے جاسکتے ہیں۔
پیش ہیں شبنم عشائی سے حقانی القاسمی کی گفتگو کے کچھ اقتباسات:
کیافیمنزم نے آزادی کے نام پر عورتوں کوعریاں کیاہے؟
شبنم:میری لکنت
اس قلم کی زبان ہے جس کو
تمہاری انانے تراشا
اوریہ جو گونج ہے
میرے وجود کے
ٹوٹنے کی آواز ہے
کوئی فیمنزم نہیں
بے حیثیتی ہے
مرد کی انا نے عورت کے ان چاہے وجود کو جس انجان سڑک پر پھینکاہے، وہی اس کی منزل ہے۔آدم کی پسلی سے نکلی ہوئی حوا کواس جہان فانی میں سرگرداں خاک بسرپھرتے یہ گیان ہے کہ مرد کے ہاتھوں سے وہ صحیفے کھوگئے ہیں، جن میں امن، انصاف،عقل وفہم،مروت وہمدردی کی عبارتیں درج تھیں۔ اس لیے وہ اپنے کھوئے ہوئے صحیفوں کو یاد دلا کر اس مادری نظام کو روشن کرناچاہتی ہے جسے نسائی احتجاج کانام دے دیا گیاہے۔
آج کی عورت اتنی مزاحمت پسندکیوں ہوتی جارہی ہے؟
شبنم:باشعورخواتین مرد اساس معاشرے کے خلاف مزاحمتی ردعمل ظاہر کرتی رہی ہیں کیونکہ انھیں احساس ہے کہ عورت محض جنسی معروض نہیں ہے بلکہ اس کا زندہ اورتواناوجود ہے۔ وہ یہ احساس دلاناچاہتی ہیں کہ انھیں اپنی ترجیحات کے تعین کا پوراحق حاصل ہے۔
کیاعورتوں کے امپاورمینٹ کی آڑمیں مردوں کو مفلوج بنایاجارہاہے؟
شبنم:میں سمجھتی ہوں کہ دونوں ہی مفلوج ہورہے ہیں۔ عورت تمدن کی جڑ ہے، وہ ماں ہے، وہ بیٹی ہے، بہن ہے، بیوی ہے۔عورت کے وجود سے ہی زندگی میں حسن ہے اوراس کے سوز وساز سے ہی گھرآبادہے۔ امپاورمنٹ کی آڑ میں یہ جڑ کہیں اکھڑنہ جائے۔اس جڑکو سینچتے رہیے۔
کیافیمنزم کی وجہ سے عورت مرد سے دور ہوتی جارہی ہے؟
شبنم:ایسانہیں ہے۔ مردکی خودمختاری کے غلط استعمال سے عورت مرد کے مابین رشتے کے استحکام اوراعتبار پرمنفی اثرات پڑے۔ عورت اپنے اندرسفرکرنے لگی کیونکہ بیرونی زندگی کے معنی اورمطلب اوررشتوں کی بے لذتی اس پرآشکار ہوئی۔
تم محبت سے میرامن گوندھتے
میں روشنائی سے
اپنی تنہائی نہ گوندھتی
تنہائی گوندھتے گوندھتے
میں روٹی پکانا
بھول گئی ہوں
کیاعورت ایسی ہوتی ہے؟
حیرت کے دکھ کو
کیسے سہلاؤں؟
من کے تسمے کستی ہوں
سفرمیراخواب نہیں
گھرکادروازہ بندپڑاہے
کیاگلوبلائزیشن کے عہدکی عورت مرد کے مساوی ہے اور کیا وہ ایکول ہوکر self-sufficientبھی ہے؟
شبنم:عورت مرد کے برابرکیوں ہوبھائی۔ جب اس کی پیدائش ہی مختلف ہے۔جنت میں آدم کے اکیلے پن کو دور کرنے کے لیے وہ وجودمیں آئی تھی۔بغیرآدم کے عورت self-sufficientکیسے ہوسکتی ہے؟
مردعورت کے درمیان bone of contention (تنازع کی جڑ)کیاہے؟
شبنم:Awareness،آگہی۔عورت جان چکی ہے کہ وہ انسان کہلانے کی مستحق ہے۔ وہ سوچی ہوئی سوچ کوجی نہیں سکتی۔ اس کے اندر بھی اناپیداہوگئی ہے۔ اس کا بھی ایک مزاج اور موڈ ہے۔
نہ جانے کیاخریدنے
گھر سے چلی تھی
کہیں کچھ بھی ایسا
بازار میںنہیں
جودامن گیرہوتا
اب
خالی ہاتھ
تماشائی بنی
بازار سے گزرجاؤں گی
کوئی خواہش کوئی خواب جس کے پورانہ ہونے کاملال ہو؟
شبنم:عورت کا خواب اس کاگھرہوتاہے۔ جہاں وہ پہلے اپنے میاں کاخواب سجاتی ہے پھراولاد کے خواب پرونے لگتی ہے۔ عورت کے خواب ہی کہاں ہوتے ہیں؟ وہ اپنی ذات کے لیے جیتی ہی کب ہے۔ وہ کون سالمحہ ہے جب عورت صرف اورصرف اپنی ذات کے لیے جئے۔ اگر وہ خواب دیکھ لے تونافرمان کہلاتی ہے اورنافرمان کہلانا کوئی بھی عورت afford نہیںکرسکتی۔ عورت توبذات خود کچلاہواخواب ہے۔ وہ عذاب کی زندگی جی رہی ہے۔ میں لعنت بھیجتی ہوں ایسی عورت پر،جودن بھرمزدوری کرتی ہے ،مارکیٹنگ کرتی ہے اور پھرخود ہی پکاتی اورخود ہی کھاتی ہے۔میں خود بھی زندگی چلانے کے لیے کبھی مرد بن جاتی ہوں کبھی عورت۔ میرے تلوے ترستے ہیں کہ میں صحن کو چھو لوں مگر میں ایسا کرنہیں پاتی۔
کیاعورت مرد نے رشتوں کی نزاکتوں کو سمجھنا چھوڑ دیاہے؟
شبنم:ان کے پاس وقت ہی کہاں ہے کہ وہ رشتے کی نزاکتوں کو سمجھیں۔مادیت حاوی ہوگئی ہے۔ صرف ایک ہی ویلیوباقی ہے اور وہ ہے پیسہ۔
کیامرد کے بغیرتعلیم یافتہ نوکری پیشہ عورت محفوظ ہے؟
شبنم:نہ تعلیم نہ نوکری اورنہ مردعورت کی عصمت کے محافظ ہیں۔ عورت ہی خود اپنی نسوانیت کی محافظ بن سکتی ہے۔ کیونکہ عورت جس معاشرے میں جیتی ہے وہاں مرد عورت کی عظمت کونہیں سمجھتا۔ یا سمجھنے کے باوجود عورت کی عظمت کو نہیں مانتاایسی صورت میں پھرعورت بھی عورت نہیں رہ پاتی۔

Leave a Comment