کوئی بھی قابل عمل حل جو کیا جاسکتا ہے وہ بشمول بازیابی خوداختیاری
از: بی آر سنگھ ( 19-08-2016، ٹائمز آف انڈیا)
ترجمہ و تلخیص : ایڈوکیٹ بہاء الدین ، ناندیڑ مہاراشٹر ( 9890245367)
ہندوستانی ہو یا پاکستانی، سبھوں نے اس بات کو جاری رکھا ہے کہ کشمیری جنت ارضی’’مشرق کی جنت‘‘ ’’ ہندوستان کا سوئزر لینڈ‘‘ وغیرہ وغیرہ قبول عام جیسے الفاظ جیسے اٹوٹ انگ، شہ رگ، اور اب کشمیر بنے گا پاکستان اور آزادی جیسے نعرے پیدا کرنے والے جادوئی تصورات سے گھبرائے ہوئے مجمع جن کے متبدلہ اور متغیرہ چہرے جو اندھے ہیں ، اس تصوراتی جم غفیر سے حساس ہندوستانی پسپائی محسوس کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اب کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟
سب سے پہلے ہمیں اسے بحث سے خارج کرنا چاہئے کہ اب کچھ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا استصواب رائے عامہ ناممکن ہے؟ اقوام متحدہ کی منظورہ دو قراردادیں جو ریفرنڈم سے متعلق ہیں جو 13؍اگست 1948 اور 5؍جنوری 1949 کی ہے اس استصواب رائے عامہ کے لئے مکمل طور پر قبائلی مداخلت کاروں کا اور پاکستانی فوج کا انخلہ جس کے بعد ہندوستان لاء اینڈ آر ڈر کو قائم کرنے کے مطابق فوج رکھتے ہوئے تاکہ ریفرنڈم کا انعقاد کرایا جاسکے۔ پاکستان اپنے ٹروپس کو نہیں ہٹایا۔ اور اس کا تصور بھی کوئی نہیں کرسکتا کہ وہ ابھی بھی ہٹائیں گے۔ اور وہی استصواب رائے عامہ کو خارج کرتا ہے۔ اور ہمیں سوچنا ہے اس بدگمانی کے تعطل اور اصل مقصد کے حـصول کے لئے یعنی امن کے لئے ہم کیا کرسکتے ہیں؟ کشمیری مسلمانوں کے مسائل صحیح اور درست ہیں۔ ان کے جذبات گھائوزدہ ہیں۔ کوئی بھی عمل دہلی کی جانب سے جسے تسلیم کیا جائے اور جو 1953 ء سے عمل آوری میں ہیں تصور کریں کہ 1980ء میں بھی اس جانب عمل ہوتا۔ جبکہ اسے کھینچ کر 1990 تک لے جایا گیا اور اس کا تسلسل نئی صدی میں حتیٰ کہ 2016ء تک آپہنچا۔
باوجود ایس اے ایس گیلانی کی سخت گیری اور اسلام پسند نوجوانوں کا موجودہ احتجاج سے یہ سمجھ لینا غلط ہوگا کہ کشمیری معتدل مزاج و آواز کے نہیں ہیں۔ اس مختصر مضمون میں ان کا احاطہ کرنا مشکل ہے کہ کشمیریوں کو ہندوستان سے شکایتیں ہیں جس میں سے کچھ حقیقی ہیں اور کچھ تصوراتی ہیں۔ انہوں نے اس عرصہ کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی کرلیا ہے۔ شیخ عبداللہ کی گرفتاری اسی بات کا باعث بنی۔ بخشی غلام محمد اور بعد کے دور میں پولیس کا نظم تھا۔
تشدد کے بڑھنے کے بعد انسانی حقوق کی پامالی کی کارروائی، کشمیری کی تحقیر و تذلیل ، ان کے ساتھ کئے گئے قول سے انحراف نے انہیں علیحدہ کردیا۔ جو ہماری روایتی جمہوریت اور قانونی حکمرانی کے خلاف ہے۔ کشمیریوں نے ان چیزوں کو بہت حد تک محسوس کیا ہے ان کا پکا یقین ہے کہ شیخ عبداللہ نے 1947ء میں انتخاب کے موقع پر غلطی کی ہے کہ انہوں نے ہندو انڈیا کو مسلم پاکستا ن پر ترجیح دی ہے۔
اب کوئی بھی کسی طرح کشمیر کے غصہ کا حل ہونا چاہئے۔ اگر اس وقت یہ تنائو اور کھینچائو میں کمی ہوجائے تو ہندوستان کے خلاف جذبات میں بھی کمی آجائے گی۔ ہندوستان کی ایک ریاست کو مستقلاً نسل در نسل کہلانے والا جس کی وجہ سے تشدد اور ناراضگی اور غصہ کے جذبات ہوں جس کے لئے ہم کمزور محسوس ہوتے ہیں۔ مختصراً ہندوستان کو بہتری کی توقع رکھنی چاہئے کہ ان کے غصہ میں کمی آئے گی اور وہ اس طرح جذباتی پل کی تعمیر ہونی چاہئے جس کے لئے صدق دل سے کوشش کرنی چاہئے۔
مسئلہ کے حل کے موقع پر ہمیں اس بات کی تمیز بھی ہونی چاہئے کہ یہ بین الاقوامی مسئلہ ہے جو ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ہے اور ہندوستان کے لئے یہ مسئلہ داخلی اور گھریلو ہے۔ کشمیریوں کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں ہوسکتا لیکن ہندوستان کیلئے مسئلہ کشمیر مثبت اور قابل حل ہے۔ نتیجتاًدوررس نگاہ سے اس پر گرفت کرنی ہوگی۔ جس سے پسندیدہ موقف مقامی طور پر و بین الاقوامی طور پر حاصل ہوسکے۔ لچکدار رویہ اگر اس جانب ہو تو اس کے لئے کئی راستے نکل سکتے ہیں جو کشمیر کی اکثریت اور جموں کے ہندوئوں کو اطمینان و لداخ کے بدھسٹ ہو اور غیر کشمیری مسلمانوں کے لئے بھی قابل قبول ہو۔ جس میں پنڈتوں کی بازآبادی بھی ضروری ہے۔ دستور میں ترمیمات اور اس میں ہونے والے مواقعات جو پیش آتے ہیں اس کے علاوہ ہمیں اس دستاویز میں ایک سے زائد مرتبہ ترمیم کرچکے ہیں۔ درحقیقت کشمیر کے دستور میں بھی ترمیم کی جاسکتی ہے اور اس کی ضرورت بھی ہے۔ علیحدگی پسند اس دستور کو ترمیم کے لائق سمجھتے ہیں۔ لیکن اسے وہ لوگ گلاب سنگھ اور انگریزوں کے درمیان معاہدہ کی غلط تعبیر و تشریح پر محلول کرتے ہیں اور کشمیری اس پر بدگمانی کا ڈھیر ڈالتے ہیں۔
دستوری حدود سے یہ ممکن ہے کہ ریاست کا کلی طو رپر خوداختیار بناسکتے ہیں یا جز کی حد تک جیسے وادی کی حد تک ، اگر وہاں کے لوگ چاہے یا متصلہ آبادی والے لوگ علاقائی خود مختاری ، بہ حد لداخ و جموں بھی ممکن ہے۔ اور خصوصی اختیارات علاقائی طور پر ان کے درمیان معاہدے کے ذریعہ قائم ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کشمیر کو کلی خوداختیاری کے تمام معاملات حاصل ہوجائیں گے جس کا ذکر آرٹیکل 370 کے باہر بھی ہو۔ پنڈت جو واپس آنا چاہتے ہیں ان کو غیر مشروط طور پر آنے کا موقع ملنا چاہئے کیونکہ یہ ان کا قانونی حق ہے۔ جس طرح کشمیری مسلمانوں کی اکثریت بغیر کسی ہندوئوں کی مداخلت کے جموں شہر میں آچکی ہے اس طرح کے اصول کا ان پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ حکومت کی سرکردگی میں تیار ہونے والی کالونیوں کا خیال اچھا نہیں ہے۔ لیکن وہاں کیا ہے کہ ہائوسنگ کوآپریٹیو سوسائٹیز کو روکا جائے؟
آرٹیکل 370 ایل او سی کے باہر بیوپار اور سفر کی اجازت دیتا ہے۔ اس پابند شدہ تجارت کو ایل او سی کے باہر توسیع دینی چاہئے۔ جو کرنسی کے انتظامات کے ذریعہ ہوں۔ اگر کشمیری اپنی کرنسی چاہتے ہیں تو انہیں کیوں روکا جائے؟ اسکاٹ لینڈ میں تمام کے باوجود یو کے میں اسکاٹ کے پائونڈ کا بہ آسانی استعمال ہوتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے جب قطعی طور پر کہا کہ کشمیریوں کو زیادہ آزادی حاصل ہے بہ نسبت دوسرے ہندوستانیوں کے۔ یہاں اس بات کی غلطی ہے کہ جس آزادی کے لئے کشمیری جدوجہد کررہے ہیں وہ دیگر ریاست والے نہیں کرتے۔ کیونکہ ان کی ان سے کہیں زیادہ مانگ ہے۔ یہ وہی ہے جو دستور نے وعدہ کیا ہے۔ تمام ریاستیں مرکز کی مداخلت کو کم پسند کرتی ہے۔ لیکن جموں کشمیر ہی ایسی ریاست ہے جسے آرٹیکل 370 کی ضمانت حاصل ہے۔ اگر اسلام پسندوں کو اس معاملہ میں Upper Hand مل رہا ہے تو صرف دہلی کا اس معاملہ میں نرم نہ پڑھنے والا رویہ جس سے ان کا منشور منظور شدہ حق کی بازیابی نہیں ہوئی۔
( مضمون نگار ایک ریٹائرڈ آئی اے ایس آفیسر ہیں جو جموں کشمیر میں مامور تھے)