کلاسیکی اردو شاعری میں سماجی مسائل کا جائزہ

ڈاکٹر اقبال احمد خان
صدر شعبۂ اردو
ڈاکٹر منورما اینڈ پروفیسر ہری بھائو شنکر رائو پنڈکر
آرٹس ،کامرس اینڈ سائنس کالج،بالاپور ، ضلع آکولہ۔

اس بات پر علماے ادب کا اتفاق ہے کہ ادب زندگی کا جز اور انسانی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہے۔یعنی جیسے ہمارے سماج کے حالات ہونگے ویسا ہی ہمارا ادب ہوگا۔کسی بھی زبان کا ادیب یا شاعر اپنے فن کے ذریعہ اپنے دور کے سماج کی سچی تصویر پیش کرتا ہے۔ پریم چند فرماتے ہیں:
’’ادب اپنے زمانے کا عکس ہوتا ہے۔جو جذبات وخیالات لوگوں کے دلوں میں ہلچل پیداکرتے ہیں وہی ادب میں بھی اپنا سایہ ڈالتے ہیں ۔‘‘
اردو زبان وادب کے نشونما کا آغاز ایک ایسے وقت میں ہوا، جب ہندوستان میں مغلیہ سلطنت زوال پذیر تھی۔ اردو ادبا اور شعرا سماجی و معاشرتی مشکلات اور مسائل کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔ہندوستان میں امن و سکون کا خاتمہ ہوچکا تھا۔ شاہی درباروں سے رونق رخصت ہوچکی تھی، ہر طرف انتشار پھیلا ہوا تھا، مگر اس شمالی ہنداور دہلی پر اس کا سب سے زیادہ اثر تھا۔اور یہی وہ علاقہ تھا، جہاں اردو شاعری کا راج تھا۔ اس لیے اردو شعرا نے اپنے اشعار میں اس زمانے کے حالات کی عکاسی کی ہے۔اس دور کی شاعری کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ شعرا نے اپنے دور کے مسائل، لوگوں کی اخلاقی پستی ، اور حکومت کی کمزوری وغیرہ کو بیان کرنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں کی۔یہی مضامین و موضوعات ہمیں ہندوستان کے دیگر علاقوں کی اردو شاعری میں بھی نظر آتے ہیں۔جیسے میر جعفر زٹلی ،جو ایک ذولسانی شاعر تھا، اس کی کئی نظموں میں اس کے دور کے حالات کی زبونی و پریشانی کی جھلک موجود ہے۔اس نے شاہ عالمگیر کے فرزندوںکی نالائقی،عیاشی،سازش پسندی اور ظلم وستم وغیرہ کو اپنی نظموں میں طنزیہ انداز میں بیان کیا ہے۔مثلاً بہادر شاہ نے حیدرآباد لوٹا تو جعفر نے کہا۔
نخستیں کلان تر چہ پاکھنڈ کرد

چنان لوٹ شد بستیٔ بھک نگر
جہان ہووے ایسا کلچھن کپوت

ہمہ کاروبار پدر بھنڈ کرد
کہ خذ ما صفا ماند و نہ ما کدر

لگے خلق کے مونہہ کالک بھبھوت
دنیا سے خلوص کے خاتمے اور ہنر مندوں کی مفلوک الحالی پر کہا ہے۔
گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا

ہنر مندان ہرجائی پھریں دردر بہ رسوائی
ڈریں سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے

رذل قوموں کی بن آئی عجب یہ دور آیا ہے
اسی دور کے ایک اور مشہور شاعر حاتم ہیں۔ انہوں نے مندرجہ ذیل اشعار میں مغلیہ سلطنت کے زوال کی وجہ سے ملک میں پھیلی بدامنی کا نقشہ نہایت موثر انداز میں کھینچا ہے:
کیا بیاں کیجئے نیرنگیٔ اوضاع جہاں

جن کے ہاتھی تھے سواری کو سو اب ننگے پاؤں
جن کے پوشاک سے معمور تھے توشک خانے

کہ بیک چشم زدن ہوگیا عالم ویراں
پھرے ہیں جوتے کو محتاج پڑے سرگرداں

سو وہ پیوند کوپھرتے ہیں ترستے عریاں
پرچہ ٔ نان کو رکھ ہاتھ میں کھاتے ہیں امیر

جس کو دیکھوں ہوں سو ہے فکر میں غلطاںپیچاں
گرم ہے ظلم کا بازار خدا خیر کرے

کہیں مظلوموں کے رونے سے نہ آوے طوفاں
کچھ لوگ ہیں جو آج بھی اردو کی کلاسیکل شاعری پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ حسن وعشق اور مے ومینا سے ہی سے لبریز ہے، لیکن جن شعرا پر یہ الزام لگایا جاتا ہے ان کے کلام میں سماجی حالات کی تصویریں بھی موجود ہیں۔ جیسے اردو کے مشہور قصیدہ گو شاعر سودا کے شہر آشوب کے یہ اشعار :
کیا کیا میں بتاؤںکی زمانے میں کئی شکل

گھوڑا لے اگر نوکری کرتے ہیں کسو کی
گذرے ہے سدا یوں علف ودانہ کی خاطر

اور ما حضر اخوند کا اب کیا میں بتاؤں
دن کو تو بچارہ وہ پڑھایا کرے لڑکے

ہے وجہ معاش اپنی سو جس کا یہ بیاں ہے
تنخواہ کا پھر عالم بالا پہ نشاں ہے

شمشیر جو گھر میں تو سپر بنیے کے یہاں ہے
یک کاسۂ دال عدس وجو کی دوناں ہے

شب خرچ لکھے گھر کا اگر ہندسہ داں ہے
اس نظم میں سماج کی ابتری کا وہ نقشہ نظر آتا ہے جو تاریخوں میں اس انداز سے نہیں ملتا ۔شاعر نے مختلف طبقات کی روداد غم جس تفصیل سے بیان کی ہے اسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ ملازم پیشہ،سوداگر ،شاعر، مولوی، شیخ اور کاشتکار سب تباہ حال اور مفلس تھے۔میر ؔ نے بھی معاشرے کی بد حالی،بداخلاقی اور بے چارگی کو بڑے موثر انداز میں بیان کیا ہے۔ایک بند ملاحظٰہ فرمائیے:
زندگانی ہوئی ہے سب پہ وبال

پوچھ مت کچھ سپاہیوں کا حال
کنجڑے جھینکے ہیں روتے ہیں بقال

ایک تلوار بیچے یک ڈھال
بادشاہ و وزیر سب قلاش
کلاسیکی دور کے تقریباً ہر شاعر کے کلام میں اپنی زندگی،ماحول اور معاشرے کی جھلکیاںموجود ہیں۔ان میں سے کسی نے غزل کو اظہار خیال کا ذریعہ بنایا تو کسی نے قصیدہ کو،کسی نے مثنوی میں کچھ کہا توکسی نے شہر آشوب میں۔ کسی نے اپنی بات سنجیدہ پیرائے میں کہی تو کسی نے طنز وظرافت سے کام لیا۔بہر حال زمانے پر سب کی نظر رہی اور اس کی عکاسی میں سب کوشاں رہے۔مثلاً میر غزل کے شاعر ہیں، ان کی غزلوں میں اٹھارویں صدی کے سیاسی نراج اور جماعتی انتشار کا عکس نظر آتا ہے ۔اسی طرح دردؔ کے متصوفانہ کلام میں جو فرار پسند ذہنیت کار فرما نظر آتی ہے وہ اس دور کی سماجی اور اقتصادی بدحالی کا نتیجہتھی،غالبؔ کا حزن اسلامی تمدن وسیاست کی مکمل شکست کا پرتو ہے اور لکھنو کی ابتدائی شاعری میںجو زنانہ پن ،فحاشی،عریانی،رکاکت اور سخافت نظر آتی ہے وہ اپنے دور کے مخصوص تمدنی وسیاسی حالات کی پیداوار تھی۔مختصر یہ کہ اردو کی کلاسیکی شاعری جاگیردارانہ نظام اور طبقاتی سماج کے اثرات سے آزاد نظر نہیں آتی۔
اردو شعرا میں عوامی زندگی کی جانب توجہ کی سب سے پہلی شعوری کوشش نظیراکبرآبادی کی شاعری میں نظرآتی ہے۔اسی لیے ترقی پسند شاعر متفقہ طور پر انہیں اپنے پیشروؤں میںشمار کرتے ہیں۔انہوں نے سماجی بگاڑ اور انتشار کو جابجااپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ وہ چوںکہ عوام کے درمیان زندگی گزارتے تھے، ان سے میل جول رکھتے تھے ،اس لیے انہوں نے غربت و افلاس جیسے عوامی مسائل کو کامیابی کے ساتھ اپنی شاعری میں سمویا ہے۔ایک نظم میں لوگوں کی بدحالی اور مفلسی کا نقشہ یوں پیش کرتے ہیں:
بے روزگاری نے یہ دکھائی ہے مفلسی

دیوارودر کے بیچ سمائی ہے مفلسی
کوٹھے کی چھت نہیں ہے یہ چھائی ہے مفلسی

ہر گھر میں اس طرح سے پھر آئی ہے مفلسی
پانی کا ٹوٹ جاوے ہے جوں ایک بار بند
مختلف طبقات ،پیشہ ور اور کاروبار کرنے والوں کی پریشانی کا عالم دیکھئے:
صرّاف، بنیے، جوہری اور سیٹھ ساہوکار

بازار میں اڑے ہے پڑی خاک بے شمار
دیتے تھے سب کو نقد سو کھاتے ہیں اب ادھار

بیٹھے ہیں یوں دوکانوں پراپنی دوکاندار
جیسے کہ چور بیٹھے ہوں قیدوقطاربند
عدم مساوات کو پیش کیا ہے ۔ایک بند دیکھئے:
ایک ایسے ہیں کہ جن کے بچھے ہیں نئے پلنگ

سوتے ہیں لپٹے چھاتی سے معشوق شوخ وشنگ
پھولوں کی سیج ان پہ جھمک تی ہے تازہ رنگ

سو سوطرح سے عیش کے کرتے ہیں رنگ ڈھنگ
اور خاک میں پڑا ہے سو ہے وہ بھی آدمی
اس دور میں اراذیل اور پست اخلاق لوگوں کو مال و نعمت سے نوازا جاتا تھا، اور اہل علم و فضل اور ہنرمند افراد کی ناقدری کی جاتی تھی، وہ فاقہ کشی اور مفلسی کے شکار تھے۔ اس لیے سماج میں بیقدری کی وجہ سے اکثر لوگ گوشہ نشینی اختیار کرلیتے تھے۔ سودا فرماتے ہیں:
ناقدر شناسی سے خلائق کی جہاں میں

ہے اب جہاں میں بد گہری کس ہنر سے کم
جس کو ہنر آیا اسے انکار ہنر ہے

عیب اس زمانے میں جو کہو سو ہنر میں ہے
۱۸۵۷؁ء ہندوستان کی سیاسی وثقافتی تاریخ میںایک اہم سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستان کے بڑے حصے پر مسلمانوں کے تسلط کا خاتمہ ہوگیا اور انگریزوں کے برسراقتدار ہوتے ہی ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ اس جنگ میں مسلمان سب سے زیادہ تباہ و برباد ہوئے ۔ان پر زبردست ظلم و ستم کیا گیا۔ اس کا اظہار اس دور کے تمام شعرا نے کیا ہے۔ داغ دہلوی فرماتے ہیں:
خدا پرستوں کا شیوہ جفا پرستی ہے

بجائے ابر کرم مفلسی برستی ہے
جو مال مست تھے اب ان کو فاقہ مستی ہے

بہ تنگ جینے سے ہیں ایسی تنگ دستی ہے
غضب میں آئی رعیت بلا میں شہر آیا

یہ پوربئے نہیں آئے خدا کا قہر آیا
۱۸۵۷؁ء کے قیا مت خیز ہنگا مے کا ذکر غالبؔ سے بھی سن لیجیے:
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے

چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا
۱۸۵۷ء ؁ کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کو دیکھ کر سر سید احمد خان اور ان کے ساتھیوں نے مسلمانوں میں اصلاح کی کوششوں کا آغاز کیا ان کی نظر میں اس کا اہم سبب تعلیم سے دوری ہے۔ علی گڑھ تحریک کی وجہ سے اردو ادب میں بھی ایک جدید دور کا آغاز ہوا۔ یعنی ادب براے زندگی کے نظریے کو شعوری طور پر شعرا اور ادبا نے اختیار کیا۔ لاہور میں ’’انجمن پنجاب‘‘ قائم کی گئی۔اس کا مقصد یہ تھا کہ شعرا کو موضوعاتی شاعری کی طرف متوجہ کیا جائے۔ اس انجمن کے زیر اہتمام کسی نہ کسی موضوع پر مشاعرے منعقد کیے جاتے تھے اور شعرا ان میں میں اپنی نظمیں سنایا کرتے تھے۔ اسی سلسلے کی ایک اہم کوشش مسدس حالی ہے۔ مولانا الطاف حسین حالی نے کئی اہم موضوعات پر نظمیں تصنیف کیں۔ ایک نظم میں کہتے ہیں:
قلب ماہیت میں انگلستان گر ہے کیمیا

آن کر آزادیاں آزاد رہ سکتا نہیں
کم نہیں کچھ قلب ماہیت میں ہندوستان بھی

وہ رہے ہوکر غلام اس کی ہوا جس کو لگی
حالی کا اہم کارنامہ اردو غزل کی اصلاح ہے۔ ڈاکٹر عبادت بریلوی غزل کے متعلق حالی کی اصلاحات کی تحسین کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
انقلابی تبدیلی کی دوسری منزل سرسید کی تحریک ہے ،جس نے حالی کو پیدا کیا اور حالی نے غزل کی دنیا ہی بدل دی ۔ حالی نے غزل کو پیروں پر کھڑا ہونا سکھایا اور اس طرح نئے امکانات کا شعور اس میں پیدا کیا ۔حالی نہ ہوتے تو غزل جدید رجحانات سے ہمکنار ہونے کے لیے ترقی کی منزلیں اتنی تیزی کے ساتھ طے نہ کرپاتی۔
(جدید شاعری، عبادت بریلوی، ۱۹۸۳ء ،ص ۲۴۳)
حالیؔ،آزادؔ اور شبلیؔ کے بعد اکبرؔ الہ آبادی نے انداز بیان اور طرز تخیل کا ایک نیا راستہ نکالا۔انہوں نے طنز ومزاح کے تیز نشتروں سے قوم کی رگ حمیت کو چھیڑا۔مسلم معاشرہ جس تیزی سے مغرب کی اندھی تقلید کررہا تھا،اس پر طنزیہ و مزاحیہ انداز میں اکبر نے خوب تنقید کی۔اس دور کے شعرا میں سب سے اہم نام علامہ اقبال کا ہے۔ اقبال نے مغربی تہذیب کی مادیت ،سوداگری اور اخلاقی دیوالیہ پن پر بڑی سخت تنقید کی ہے۔اور امت مسلمہ کو اس کا فرض منصبی یاد دلایا ہے۔ انہوں نے اپنا پیغام اردو کے ساتھ فارسی زبان میں بھی پیش کیا ،تاکہ عالم اسلام ان کے افکار و خیالات سے روشناس ہوسکے۔
مختصر یہ کہ اردو شعرا نے ابتدا ہی سے سماجی مسائل کی عکاسی کی ہے۔ لیکن اگر کوئی دور حاضر کو نظر میں رکھتے ہوئے، ان کے کلام کا جائزہ لے گا تو اسے یہ عنصر بہت کم دکھائی دے گا۔ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ اس دور کے سماجی و سیاسی حالات کی روشنی ہی میں ان کے کلام کا جائزہ لیا جائے۔

Leave a Comment