ہر تہذیب کا اپنا وسیع تر تخیل ہوتا ہے: پروفیسر عتیق اللہ

ہر تہذیب کا اپنا وسیع تر تخیل ہوتا ہے: پروفیسر عتیق اللہ
عالمی اردو کانفرنس کے دوسرے دن ’اردو کے سماجی و ثقافتی تناظر ‘پر اظہار خیال کیا گیا
*ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ کی دہلی سے خصوصی رپورٹ

\"Dr
نئی دہلی۔31 اکتوبر 2014، دوسرے دن کے اجلاس کے پہلے سیشن کاموضوع ’اردو کا سماجی و ثقافتی تناظر‘ میں تھا جس کی صدارت پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے کی اور ڈاکٹر شفیع ایوب نے نظامت کی۔ سیشن کا پہلا مقالہ مختار شمیم نے پڑھا۔انھوں نے اپنے مقالے میں ہندوستان کی اردو ثقافت پر روشنی ڈالی اور اردو کا ثقافتی تناظر میں جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اردو کے شعرا نے ہندوستانیت اور ہندوستانی تہذیب و ثقافت سے متعلق موضوعات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ ’اکیسویں صدی میں اردو ادب کا تاریخی و تہذیبی سیاق‘ کے موضوع پر بنارس ہندو یونیورسٹی سے تشریف لائے ڈاکٹر آفتاب عالم آفاقی نے مقالہ پڑھا۔ انھوں نے اردو فکشن میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی نشاندہی کی۔
ڈاکٹر سیما صغیر کے مقالے کا موضوع تھا ’سماجی و ثقافتی سرگرمیاں اور خواتین‘ انھوں نے خواتین کی سماجی و ثقافتی سرگرمیوں پر گفتگو کی۔ چائے کے وقفے کے بعد میرٹھ سے آئے ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری نے اپنے پرمغز مقالے سے قارئین کو سیراب کیا۔ امریکہ سے تشریف لائے جناب سید امین حیدر نے بھی اپنے گراں قدر خیالات سے نوازا۔ انھوں نے امریکہ میں فروغ اردو کو کوششوں پر بات کی اور امریکہ میں اردو کے مسائل پر بھی گفتگو کی۔ ڈاکٹر تقی عابدی نے کہا کہ ہمیں ہر جگہ ہر اندراج میں اپنی مادری زبان کے خانے میں اردو لکھوانا چاہیے۔ اکیسویں صدی کا سب سے بڑا چیلنج اردو کا رسم الخط ہے۔ اردو کو ہندی سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ممتاز ماہر لسانیات ممبئی یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر عبدالستار دلوی نے ’اردو کی تہذیبی معنویت‘ پر مقالہ پڑھا۔ پروفیسر عتیق اللہ نے بھی اپنی گراں قدر گفتگو سے سامعین کو محظوظ کیا۔ ہر تہذیب کا اپنا وسیع تر تخیل ہوتا ہے۔ صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے پروفیسر ابوالکلام قاسمی نے کہا کہ یہاں پڑھے گئے تمام مقالات پرمغز اور علمی تھے۔ سبھی مقالہ نگاروں نے اپنے مقالے میں فروغ اردو کے عالمی تصور کو پیش کیا۔
ظہرانے کے بعد دوسرے سیشن کاآغاز ہوا جس کی صدارت معروف فکشن نگار سیدمحمد اشرف نے کی۔ جب کہ نظامت ڈاکٹر شگفتہ یاسمین نے اپنے خوبصورت اور شگفتہ انداز میں انجام دی۔ پہلا مقالہ پاکستان سے تشریف لائے ڈاکٹر جمیل اصغر نے ’اقبال کی شاعری اکیسویں صدی کے تناظر میں‘ پڑھا۔ پاکستان سے ہی آئے نوجوان ممتاز ناقد ناصر عباس نیر نے ’اکیسویں صدی ار دوتنقید‘ پر اپنا بیش قیمتی مقالہ پیش جس میں انھوں نے وقت کا تصور اور اس کی قدر و قیمت اکیسویں صدی کے تناظر میں واضح کی۔ انھوں نے اپنے مقالے میں معاصر اردو تنقید پر بھی گفتگو کی۔ تہران یونیورسٹی کی اردو زبان کی استاد پروفیسر وفا یزدان منش نے ’ایران میں اردو کی صورت حال‘ پر روشنی ڈالی۔ پروفیسر ابوالکلام قاسمی کے مقالے کا موضوع تھا ’عالمی ادب کے رجحانات سے اردو ادب کی اثرپذیری‘ انھوں نے اپنے مقالے میں یہ بتایا کہ عالمی ادب کے رجحانات سے اردو ادب نے امتیازی طور پر اثرات قبول کیے ہیں۔ روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ کے گروپ ہیڈ سید فیصل علی نے ’اردو زبان کے عالمی تناظر‘ پر گفتگو کی اور یہ بتایا کہ اردو زبان کا فروغ تبھی ممکن ہے جب ہم اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کریں گے۔
چائے کے وقفے کے بعد پروفیسر فرزانہ اعظم لطفی، پروفیسر علی بیات، پروفیسر علی احمد فاطمی، ناظم الدین مقبول وغیرہ نے اپنے مقالات پیش کیے۔ صدارتی خطبہ دیتے ہوئے سید محمد اشرف نے تمام مقالات کا مختصراً جائزہ لیا اور قومی اردو کونسل کی فروغ اردو کی کوششوں کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ آج جو کام قومی اردو کونسل کے ذریعے ہورہا ہے وہ اردو کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

\"10606192_862487103764388_3596372763962425693_n\"

\"DSC_0087\"

\"DSC_0057\"

\"DSC_0080\"

Leave a Comment