جبارواصف

\"Poet

رنج سے یوں بر سرِ پیکار ہونا چاہئے
مسکرانے کا کوئی تہوار ہونا چاہئے
ایک پل میں کٹ نہ جائے زندگی کا یہ سفَر
راستہ تھوڑا بہت دشوار ہونا چاہئے
سوتے سوتے کٹ گئی ہے نصف سے اُوپر صدی
اب تو ہم کو نیند سے بیدار ہونا چاہئے
اپنے گھرکے آپ ہی سب سے بڑے دشمن ہیں ہم
ہم کو اپنے شَر سے ہی ہُشیار ہونا چاہئے
سربُریدہ لاش میری اب ہے سب کے سامنے
اب تو میرے قتل کا اقرار ہونا چاہئے
کب کسی مسند کے قابل ہے ہماری سادگی
صاحبِ مسند کو تو عیّار ہونا چاہئے
جو صحافی خُوں سے لکھنا چاہتے ہیں سچ یہاں
اُن کی خاطر بھی کوئی اخبار ہونا چاہئے
ناتواں ماں باپ تنہا ہو گئے تو کیا ہوا؟
نوجواں بیٹا سمُندر پار ہونا چاہئے
مجھ کو مغرب سے محبت کا کوئی شکوہ نہیں
پر ہمیں مشرق سے بھی تو پیار ہونا چاہئے
غزلوں جیسے ہوں دفاتر، نظموں جیسی کرسیاں
اور کوئی شاعرانہ کار ہونا چاہئے
کب سے لاوارث پڑی ہے جسم کی جلتی زمیں
کوئی بادل اِس کا دعویدار ہونا چاہئے
میں بھی واصفؔ شہر کے کچھ شاعروں کا پیر ہوں
مر گیا تو میرا بھی دربار ہونا چاہئے

جبارواصف

\"Pic
مرے اِدراک کا جب تُو سہارا ہی نہیں تھا
سُخن کے چاک پر لفظوں کا گارا ہی نہیں تھا
مرا خود سے بچھڑ جانا تھا بہتر میرے حق میں
کہ میرے ساتھ اب میرا گزارہ ہی نہیں تھا
نہ جانے خواب میں تو کیوں دکھائی دے رہا ہے
تری خاطر تو میرا استخارہ ہی نہیں تھا
کسی رُخ کا اُجالا مانگتا تھا میرا کمرہ
دِیّے کی لَو سے اب اِس کا گزارہ ہی نہیں تھا
دمِ رخصت مجھے تُو روکتی میں رک بھی جاتا
تری آنکھوں میں تو کوئی اشارہ ہی نہیں تھا
محبت پر مری کرتا بھروسہ چاند کیسے
مری مٹھی میں تو کوئی ستارہ ہی نہیں تھا
بس اپنے قتل سے پہلے اُسے آواز دی تھی
پھر اُس کے بعد تو میں نے پکارا ہی نہیں تھا
عطا ہوتا بھلا کیسے مجھے ساحل خوشی کا
کہ بحرِ درد کا کوئی کنارہ ہی نہیں تھا
سبھی کو فکر لاحق ہو گئی اپنے لہو کی
رخِ گلشن ابھی ہم نے نکھارا ہی نہیں تھا
ارے جس ماں کا بیٹا ظالموں نے مار ڈالا
ارے اُس ماں کا تو کوئی سہارا ہی نہیں تھا
جو بچہ بیچتا تھا رزق کی خاطر غبارے
غبارا اُس کی نظروں میں غبارا ہی نہیں تھا
خرَد مندوں کی محفل سے بھلا اُٹھتا میں کیسے
کہ رازِ عشق مجھ پر آشکارا ہی نہیں تھا
کروں واصف میں کیسے کربلا والوں کا ماتم
کہ اُن کی موت نے تو اُن کو مارا ہی نہیں تھا

Leave a Comment