ہندوستانی تہذیب کا علمبردار: جاں نثار اختر

\"\"
٭پروفیسر صغیر افراہیم

\"\"
روزِ اول سے ہمارا یہ ملک امن و انسانیت کا گہوارہ اور ظلمتوں کی فضاؤںمیں دمکتا ہوا ماہتاب رہا ہے۔موہن جوداڑو اور ہڑپّا، اجنتا اور ایلورا کے نشانات، قطب و تاج کے اونچے مینار اس کی عظمتوں کے گواہ ہیں۔ اس ملک میں مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں تاہم سب کی قومی حیثیت ایک ہے۔ جس طرح چمن میں کھلنے والے رنگا رنگ پھول اپنی انفرادیت کے باوجود گلدستہ میں مجموعی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں، اُسی طرح جُدا جُدا شکل و صورت اور زبان و عقائد کے لوگ قومی اعتبار سے ایک ہی صف میں شامل ہوکر تمیز و تخصیص ختم کر دیتے ہیں۔ ہمارے عقائد، رسم و رواج ایک دوسرے سے متاثر ہیں۔ یہ قدرِ مشترک ہندوستان کی اصل دین ہے جس میں زمانۂ قدیم سے برگزیدہ شخصیتیں پیدا ہوتی رہی ہیں اور جنھوں نے علم و حکمت، شعر و ادب کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کی بے لوث اور قابلِ قدر خدمات انجام دی ہیں۔ ایسی ہی ایک جیتی جاگتی مثال ہے جاں نثار اختر ؔ کی۔ جنھوں نے ملک و ملت اور تہذیب و ثقافت پر اپنی جان نثار کی ہے۔

’باب العلم‘ کے زیر سایہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اردو کے جن اہم ادیبوں کی ذہنی تربیت ہوئی اور جنھوں نے قوم کو بے حد متاثر کیا اُن میں جاں نثار اخترؔ شامل ہیں۔ اُن کا پورا نام جاں نثار حسین رضوی اور تخلص اخترؔ تھا۔ وہ ۸؍ فروری ۱۹۱۴ء کو گوالیار کے ایک ذی علم گھرانے میں پیدا ہوئے جو ریاست ٹونک کے مشہور خانوادے سے تعلق رکھتا تھا۔ اُن کے والد افتخار حسین رضوی مضطرؔ خیر آبادی خود ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ وہ مولانا فضل الحق خیر آبادی کی دختر اور مولانا عبدالحق خیر آبادی کی ہمشیرہ سید النساء جن کا تخلص حرماںؔ تھا، کے فرزند تھے اور شعر و شاعری کے آداب اپنی والدۂ محترمہ سے سیکھے تھے۔ مضطرؔ خیر آبادی بعد میں امیرؔ مینائی کے شاگرد ہوئے۔ وہ ریاست گوالیار کے وکیل،مجسٹریٹ اور سیشن جج کے عہدوں پر فائز رہے۔ جاں نثار اخترؔ کے خاندان کے دوسرے افراد کا پس منظر بھی ادبی اور تہذیبی تھا۔ ان میں علامہ تفضّل حسین اور بسملؔ خیر آبادی خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔ علم و فن اور شعر و ادب کا سلسلہ ہنوز بر قرار ہے۔ سامنے کی مثال جاوید اخترؔ کی ہے۔
جاں نثار اختر ؔکے پس منظر پر نظر ڈالیں تو اُن کا بچپن گوالیار میں گزرا۔ وکٹوریہ ہائی اسکول سے آٹھویں جماعت کا امتحان پاس کیا تھا کہ اچانک والد کا انتقال ہو گیا۔ میٹرک کے بعد والدہ نے انھیں علی گڑھ بھیج دیا۔ ۱۹۳۴ء میں انٹر میڈیٹ، ۱۹۳۷ء میں بی۔ اے۔ اور ۱۹۳۹ء میں ایم۔ اے۔ کیا۔ ۱۹۴۰ء میں پی ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری کے لیے داخلہ لیا لیکن گوالیار کے وکٹوریہ کالج میں لکچرار کی حیثیت سے تقرر ہو گیا۔ ۲۵؍ دسمبر ۱۹۴۳ء کو مجازؔ کی بہن صفیہ سراج الحق سے شادی ہوئی۔صفیہ اخترؔ شروع میں اے۔ ایم۔ یو۔ گرلس کالج میں لکچرر ہوئیں۔ آزادیٔ ہند کے ایک ماہ بعد دونوں حمیدیہ کالج بھوپال چلے گئے۔بھوپال میں جاں نثار اخترؔ انجمن ترقی پسند مصنفین کے علاقائی صدر تھے۔ کمیونسٹ پارٹی پر سخت پابندیاں عائد ہوئیں تو وہ ۱۹۵۰ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے کر بمبئی آگئے۔۱۹۵۳ء میں اُن کی بیگم، صفیہ اختر کا انتقال ہو گیا۔ ۱۹۵۶ء میں انھوں نے مشہور ہاکی کھلاڑی شمس اللطیف کی مُطَلَقہ خاتون خدیجہ طلعت سے نکاح کر لیا۔ بمبئی میں فلمی دُنیا سے وابستہ ہو ئے، نغمے، مکالمے لکھے۔ ’’بہو بیگم‘‘کے نام سے فلم بنائی۔ ملک اور بیرون ملک کے مختلف انعامات و اعزازات ملے۔ ۱۸؍ اگست ۱۹۷۶ء کو باسٹھ سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوا۔
اردو کے بیشتر شعرا کی طرح جاں نثار اخترؔ کی شاعری کا آغاز بھی غزل سے ہوا۔کلاسیکی رچاؤ اور روایتی انداز اُن کو ورثہ میں ملا تھا جو آخر تک قائم رہا۔ حصولِ علم کے لیے ۱۹۳۲ء میں علی گڑھ آئے تو ایک نئی دنیا سے آشنا ہوئے اور اُن کے ادبی نقطۂ نظر میں بھی تبدیلی آئی۔افسانوی مجموعہ ’’انگارے‘‘ کی اشاعت نے ایک ہنگامہ برپا کر دیا تھا۔ علی گڑھ کی رومانی فضا میں ترقی پسند تحریک کے واضح نقوش بن رہے تھے۔ اشتراکی خیالات کی بنیاد پر کئی ذہین اور با صلاحیت نوجوان جمع ہو گئے تھے۔ اسرار الحق مجازؔ،علی سردار جعفریؔ، معین احسن جذبیؔ، حیات اللہ انصاریؔ، اختر حسینؔ رائے پوری، سبط حسنؔ، خواجہ احمد عباس، شاہد لطیف، شان الحق حقی سے جب قربت حاصل ہوئی تووہ نہ صرف قوم پر ستانہ تصورات سے متاثر ہوئے بلکہ اشتراکی نظریات کے حامی ہوئے۔ علی سردار جعفری نے اپنی کتاب ’’لکھنؤ کی پانچ راتیں‘‘ میں اس کی واضح نشاندہی کی ہے۔خود جاں نثار اخترؔ نے اپنی کتاب ’’ہزار وں باتیں‘‘ میں علی گڑھ میں برپا ہونے والی ادبی اور ثقافتی ہلچل کا نہایت دلچسپ ذکر کیا ہے۔ عصمت چغتائی نے اپنے ایک مضمون میں ان حسین یادوں کو کانٹوں بھری وادیاں قرار دیا ہے۔ مجازؔ نے بھی ان سے اپنی دلی وابستگی کا اظہار کیا ہے۔
پروفیسر عقیل احمد صدیقی،خورشید انور خاں اور ڈاکٹر قمر گوالیاری نے لکھا ہے کہ اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ جاں نثار اختر کی شاعری نئے سماج کی نئی آواز ہے۔ اس میں نہ تو شدّت پسندی ہے اور نہ ہی خطابیہ انداز۔ انھوں نے اپنے نظریاتی موقف سے شاعری کو کبھی بوجھل نہیں کیا ہے۔ اُن کا پہلا مجموعہ ’’سلاسل‘‘ ۱۹۴۲ء میں شائع ہوکر مقبولِ عام ہوا۔ اِس میں تخلیقی جمال کے ساتھ غزل کا حسن ، رمز و کنایہ، سوز و گداز، سادگی و خلوص ہے۔ دوسرا مجموعہ ’’تارِ گریباں‘‘ ۱۹۴۹ء میںشائع ہوا، جس میں الفاظ کا ترتیبی نظام، شاعرانہ نغمگی، غنائی کیفیت موجود ہے۔اس کے بعد ’’جاوداں‘‘ کے نام سے ایک اور مجموعہ منظر عام پر آیا جس نے کافی شہرت حاصل کی۔
’’گھر آنگن‘‘ جاں نثار اخترؔ کی رباعیات کامجموعہ ہے۔ ’’خاکِ دل‘‘ اُن کے کلام کا جامع انتخاب ہے۔ اس کے علاوہ ’’پچھلے پہر‘‘ کے نام سے آخری دور کی غزلوں کا ایک نمائندہ مجموعہ بھی منظرِ عام پر آیا۔گنگا جمنی تہذیب سے مزین اِس خوبصورت گلدستوں کی مخصوص لفظیات کا مطالعہ کریں تو محسوس ہوگا کہ انھوں نے ہندی لفظیات کا خاص التزام رکھا ہے۔ڈاکٹر خدیجہ آئین نے اپنے تحقیقی مقالہ میں اس کی مثالیں درج کی ہیںمثلاً بانسری/ رام کا بن باس/ گنگا، دیپ/ برکھا/ مندر/ ناگ/ دیوتاؤں/ لتاؤں/ گپھاؤں/ پائل/ آنچل اور سنگھار وغیرہ ایسے الفاظ ہیں جو اُن کی شاعری میں مخصوص ہندوستانی فضا قائم کرنے پر قادر ہیں۔ اسی طرح سمان/ اتہاس/ پروائی/ من/ بھید/ تس/ تٹ/ جی/ کوسوں/ کٹھن/ بجلی/ ناگ/ گوری/ سنسار/ روپ/ جھری/ گونج/ راگ/ بیر/ مدھر/ گھٹا/ دیا/ دہائی/ راگنی/ اوجھل/ بھنور/ ندی/ دیس/ بیوپار وغیرہ مانوس ہندی لفظیات کے موزوں استعمال سے اُن کی شعریات کا مخصوص آہنگ بن گیا ہے۔ ویسے بھی اردو زبان کا دامن وسیع ہے کہ دنیا کے ہر حسین لفظ کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن جملوں کی ترتیب میں اس کی موزونیت کو پرونا کمالِ فن ہے اور اخترؔ اِس ہُنر سے بخوبی واقف ہیں۔ ان کی شعری کائنات میں ہندی لفظیات اس طرح در آئی ہے کہ وہ ان کے کلام کا حصہ بن گئی ہے۔
جاں نثار اخترؔ کے کلام کی پہلی بڑی خوبی یہ ہے کہ منظومات اور غزلیات اُن کے باطن سے ہم آہنگ ہیںاور شعری نظام میں عصری حسّیت اور حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ تخلیقی اظہار کی تازگی کا احساس ہوتا ہے۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ غزل کے کلاسیکی اسلوب اور رمزیت سے کام لیتے ہوئے انھوں نے غزل کی عظمت کا خیال رکھا ہے۔اسی لیے اُن کی شاعری پیوند کاری اور سطحی جذبات سے عاری ہے ؎
اسی سبب سے ہیں شاید عذاب جتنے ہیں
جھٹک کے پھینک دوں ، پلکوں پہ خواب جتنے ہیں
غزلوں کی طرح جاں نثار اخترؔ کی نظموں میںبھی احساس کی لطافت، گداز اور سبک نوائی کے نمونے جگہ جگہ مل جاتے ہیں۔ نظم ’’نذر بتاں‘‘ کے اشعار دیکھیں ؎
چند لمحوں کو تیرے آنے سے
تپشِ دل نے کیا سکوں پایا

دھوپ میں گرم کوہساروں میں
ابر کا جیسے دوڑتا سایہ

یادِ ماضی میں یوں خیال ترا
ڈال دیتا ہے دل میں اِک ہلچل

دوڑنے میں کسی حسینہ کا
جیسے آجائے پاؤں میں آنچل
ان اشعار میں ہمیں محبوب کے قرب کا لمس محسوس ہونے کے ساتھ ہندوستانی فضا کا بھی بھر پور احساس ہوتا ہے۔تیسری خوبی یہ ہے کہ اُن کی شاعری میں انسان دوستی، قومی ہمدردی اور گنگا جمنی تہذیب کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔سبب یہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے سے ہی وہ سیکولر مزاج کے حامی رہے ہیں اور اُن کا ہمیشہ یہی یقین رہا ہے کہ ترقی اسی صورت ممکن ہے جب ہم مذہبی شدت پسندی سے بلند ہوکر سوچیں تبھی ؎
ہر ایک سمت سے اک آفتاب اُبھرے گا
چراغ دیر و حرم کے بجھا کے دیکھ ذرا
———-
حدودِ ذات سے باہر نکل کے دیکھ ذرا
نہ کوئی غیر نہ کوئی رقیب لگتا ہے
اردو شاعری اپنے آغاز سے ہی مشترکہ تہذیب کی وارث رہی ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ ہندو اور مسلم قومیں جب آپس میں ملیں تو انھوں نے ایک دوسرے کو اپنی اپنی تہذیبوں سے متاثر کیا جس سے ایک متحدہ قوم اور مشترکہ تہذیب کا تصور ابھر کر آیا جسے ہم ہندوستانی تہذیب کہتے ہیں۔اِس تہذیب کا رچا ہوا شعور اخترؔ کے خطوط کے مجموعے ’’خاموش آواز‘‘ میںجلوہ گر ہے۔ انھوںنے اردو زبان کی قومی نظموں کا جو انتخاب’’ہندوستان ہمارا‘‘ کے عنوان سے دو جلدوں میں شائع کیا ہے، وہ ’’ہندوستانیت‘‘ کا غماز ہے۔ دراصل باہمی اشتراک کے عمل میں مسلمان صوفیوں اور ہندو سنتوںکا اہم ترین کردار رہا ہے۔ اپنشد،گیتا کا فلسفہ، صوفیوں کی تحریک، ایرانی تصوف، شنکر اچاریہ کے وحدتِ وجود کے تصور نے تہذیبی اور مذہبی تفریقیں مٹا دیں اور دوئی کے احساس کو بے معنی کر دیا۔ رام اور رحیم ایک ہی خیال کے حامل نظر آنے لگے۔ یہی وہ مرحلہ تھا جو دونوں مذاہب کی بنیادی روح کے لیے یک جہتی کا تصور، ایک سنگم کا کام دے سکا۔
مسلمان صوفیوں میں خواجہ معین الدین چشتیؒ، خواجہ بختیار کاکیؒ، خواجہ فرید الدین گنج شکرؒ، نظام الدین اولیاءؒ کا خاص طور سے نام لیا جا سکتا ہے۔جاں نثار اخترؔ کے انتخاب کے طویل مقدمہ سے یہ تاثر ملتا ہے کہ اکبر اعظم کا دور صحیح معنوں میں ہندو مسلم تہذیبوں کے ملاپ کا زمانہ تھا۔ اُس عہد کی شعوری کوششوں نے متحدہ قومیت اور متحدہ تہذیب کی رفتار کو تیز کر دیاتھا۔ یہ اثرات فنونِ لطیفہ کے ہر شعبہ میں واضح ہوتے چلے گئے۔ مصوّری ، موسیقی، فنِ تعمیر غرض اس اشتراک سے ہر شعبہ متاثر نظر آنے لگا۔
اکبر کے زمانے میں اگرچہ ہندوؤں اور مسلمانوں کی مشترکہ تہذیب نے جسے ہندوستانی تہذیب کہنا چاہیے، سُرعت کے ساتھ ترقی کرنا شروع کر دی تھی لیکن اس نئی ہندوستانی زبان کی ترقی کا عمل بہت سست تھا۔ البتہ دکن میں دکنی اردو نے بہت کچھ فروغ حاصل کر لیا تھا۔ سلطان قلی قطب شاہ کے عہد میں دکنی اردو کی بنیاد پڑنے لگی تھی۔عادل شاہی اور قطب شاہی دور میں اگر ایک طرف دکنی زبان و ادب کو عروج ہوا تو دوسری طرف ہندو اور مسلمانوں کے تہذیبی اشتراک سے نیا معاشرہ روز بروز ترقی کرتا گیا۔ اگر قلی قطب شاہ کے دیوان میں ہندوستانی موسموں، تہواروں، رسم و رواج اور ہندو دیو مالا کے حوالے ہیں تو شمالی ہند کے اولین شعراء میں فائز دہلوی کی شاعری میں پنگھٹ اور ہندوستان کے اصلی مناظر کے عکس نظر آتے ہیں۔مذکورہ انتخاب کے دونوں حصوں پر اگر ایک غائر نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجے پر آسانی سے پہنچیں گے کہ وہ غزل ہو یا نظم، مثنوی ہو یا قصیدہ حتیٰ کہ مرثیوں تک میں مشترکہ ہندوستانی تہذیب کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔’’ہندوستاں ہمارا‘‘ میں جاں نثار اخترؔ نے اس کو بھی موضوعِ بحث بنایا ہے کہ جدید نظم کی ابتدا آزادؔ اور حالیؔ کے زمانہ میں ہوئی۔ آزاد کی ’’ابرِ کرم‘‘ اور’’ زمستان‘‘ اور حالیؔ کی ’’برکھا رت‘‘ میں ہندوستانی موسموں کی عکاسی ہے۔ نیچرل شاعری کے اس دور میں ہندوستان کے مناظر اور یہاں کے موسموں پر کافی مواد ملتا ہے۔اقبالؔ، سرورؔ اور چکبستؔ کے یہاں قومی گیت اور متحدہ ہندوستان کے عنوان سے متعدد نظمیں ملتی ہیں۔ جوشؔ کی نظمیں انفرادی تاثر لیے ہوئے ہیں پھر بھی کروڑوں دلوں کی دھڑکن بنی ہوئی ہیں۔فراقؔ کی رباعیوں میں ہندوستان کی ہمہ گیر اور پُر عظمت تصویر ملتی ہے۔ جمیل مظہریؔ، آنند نارائن ملاؔ، ساغر نظامیؔ کی نظموں میں ہندوستانی تاریخ اور تہذیب کو خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔جاں نثار اخترؔ اِس سے بے حد متاثرنظر آتے ہیں۔ اُن کی مشہور نظم ’’بادۂ وطن‘‘میں ہندوستان کے مناظر، تہوار، رسم و رواج، فنونِ لطیفہ کی ترجمانی ملتی ہے۔ اس کا کینوس خاصا وسیع ہے جس میں ہندوستانی تہذیب، سماجی پسِ منظر سمٹ آیا ہے ؎
پلا ساقیا ! بادۂ خانہ ساز
کہ ہندوستاں پر رہے ہم کو ناز
محبت ہے خاکِ وطن سے ہمیں
محبت ہے اپنے چمن سے ہمیں
مذکورہ نظم میں حب الوطنی کے جذبہ کے ساتھ خاکِ وطن کی عظمت کو اُبھاراگیا ہے۔’جنت نشاں‘ کے صبح و شام، گاؤں کے درختوں، برگدوں کی گھنی چھاؤں، شہروں کی وسیع و عریض عمارتوں، رسم و رواج اور تیج تیوہار کا ذکر پُر جمال انداز میں ملتا ہے جو وطنِ عزیز سے محبت کے جذبات کا حسین عکس ہے۔
نظم ’’بادۂ وطن‘‘ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہندوستان کی صدیوں کی تہذیب اور عظمت جاں نثار اخترؔ کے فکر و فن کا جزو بن گئی ہے۔ اس نظم میں جہاں پہاڑوں، دریاؤں، دشت و دمن، گنگ وجمن، خنک چاندنی، نرم دھوپ کی جلوہ گری ہے وہیں ایلورا اور اجنتا ، اساطیر کا ذکر بھی نمایاں طور سے کیاگیا ہے۔ سب پربتوں میں ہمالیہ کی حیثیت سب سے اعلیٰ ہے۔ اس کی مختلف چوٹیوں کو مختلف دیویوں اور دیوتاؤں کا مسکن ماناگیا ہے۔ ہمالیہ کے تقدس کا اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ بڑے بڑے رشی مُنی، ریاضت اور عبادت کے لیے ہمالیہ یا اس کی ترائی کو اپنا استھان بناتے رہے ہیں۔ اس مذہبی عقیدت سے الگ ہمالیہ کی جغرافیائی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں ؎
نگاہیں ہِمالہ کی اونچی رہیں
سدا چاند تاروں کو چھوتی رہیں
رہے پاک گنگوتری کی پھبن
مچلتی رہے زلفِ گنگ و جمن
اس نظم میں ہندوستانی تہذیب و تمدن، فنون لطیفہ، دیوی دیوتاؤں ، شعراء اور ادباء کا ذکر بھی ملتا ہے۔ ہیر رانجھے کے گیت، محبت کے ترانے جو ہندوستانی کلچر کی شناخت ہے کی طرف اشارہ کرکے وطن کی محبت کے جذبہ کو ابھارا ہے۔انھوںنے چکبستؔ و اقبالؔ، غالبؔ اور رواںؔ کی عظمت کو بیان کرتے ہوئے ارضِ ہند کی شان کی وضاحت کی ہے۔
قدرتی مناظر کا خوبصورت اظہارجاں نثار اخترؔ کی شاہکار نظم ’’ایک وادی سے گزرتے ہوئے‘‘ میں ملتا ہے۔اِس میں نرمی، لطافت اور جمالیاتی احساس و افر انداز میں ہے۔ چونکہ شاعر کو زبان و بیان پر پوری قدرت حاصل ہے اس لیے وہ سبک لہجہ میں نہایت سادگی اورانتہائی روانی سے اپنی بات کہہ جاتا ہے ؎
کس قدر آزاد ہے یہ روحِ صحرا یہ بھی دیکھ
کس طرح ذروں میں ہے طوفان برپا یہ بھی دیکھ
اٹھ بگولے کی طرح میدان میں گاتا نکل
زندگی کی روح ہر ذرّہ میں دوڑاتا نکل
(بگولہ)
جاں نثار اخترؔ کی نظموں میں جہاں رومانیت، جمالیات اور احساس کی لطافت ملتی ہے، وہیں ترقی پسند تحریک کے حقیقی و فطری اثرات بھی اُن کے تخلیقی سفر میں دکھائی دیتے ہیں۔حقیقت و رومان کی اس آمیزش میں انسان دوستی، قومی ہمدردی، حب الوطنی کے جذبات کے ساتھ ساتھ گنگا جمنی تہذیب کی جھلکیاں جلوہ گر ہیں۔ خصوصی طور سے ان کی نظمیں’’ اتحاد‘‘، ’’روس کو سلام‘‘، ’’دانائے راز‘‘، ’’ستاروں کی صدا‘‘ اور بالخصوص ’’مورخ سے‘‘ پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے نظم کے آغاز میں مورخ کے حافظہ کی بنیاد پر حکومتوں اور سلاطین کا ذکر ہے اور اس کے متوازی تاریخی عمارتوں اور معماروں کی فنکاری اور غارت گروں اور حملہ آوروں کے اوپر فنکارانہ طنز بھی ہے ؎
مختلف طبقوں کے باہم کش مکش کی داستاں
ایک کو شوقِ تگ و دو ، ایک کو فکرِ قیام
کس طرح سرمایہ داری اپنی قوت کے لیے
خون سے مزدور کے پیتی رہی گل رنگ جام
جاں نثار اخترؔ مکمل طور سے ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے اس کے باوجود اُن کے لہجہ میں نرمی، شگفتگی اور مٹھاس تھی۔ وہ گھن گرج اور صدائے کرخت سے دور رہے۔ انھوں نے اپنی نظموں میں سبک نوائی اور اثر انگیزی کے اوصاف بھر دیے ہیں۔ ہندوستانی تہذیب کے اِس علمبردار کی زبان میں فارسی اور ہندی کے رنگ و آہنگ کی آمیزش ملتی ہے جسے الگ کرنا آسان نہیں ؎
انگڑائی یہ کس نے لی ادا سے
کیسی یہ کرن فضا میں پھوٹی
کیوں رنگ برس پڑا چمن میں
کیا قوسِ قُزح لچک کے ٹوٹی
(نذرِ بتاں)
جاں نثار اخترؔ نے اپنے عہد کے مقاصد کا پاس و لحاظ رکھا ہے۔ ترقی پسندی کو فروغ دیا مگر تحریک سے وابستہ دیگر شاعروں کی طرح نہیں وعظ اور خطابت یا انقلابی باتیں اُن کے یہاں کم نظر آتی ہیں۔ انھوں نے اخلاقی مسائل پر بھی روشنی ڈالی ہے۔تاہم اُن کی نظمیں سماجی اور سیاسی حقیقت نگاری کی بنیاد پر تخلیق ہوئی ہیں۔ اُن کے مرغوب موضوعات میں قومی اتحاد، ہم آہنگی، یگانگت اور قومی ہمدردی کے علاوہ گنگا جمنی تہذیب کی روایت ہے۔
’’اے اہلِ وطن‘‘، ’’جذبۂ بیدار‘‘، ’’آخری مرحلہ‘‘، ’’فریب بہار‘‘، ’’امن نامہ‘‘، ’’آخری لمحہ‘‘ وغیرہ اہم نظمیں ہیں۔ نظم ’’سویرا‘‘ میں آزادی اور امید کی شعاعوں کا پرتو دیکھا جا سکتا ہے۔ جس کو پانے کے لیے قومی ہم آہنگی ہونا ضروری ہے۔ ’’امن نامہ‘‘، ’’ساقی نامہ‘‘ اور دیگر نظموں میں امن کی تحریک کے انسانی اور تہذیبی پہلوؤں کو موضوع بنایاگیا ہے۔
جاں نثار اخترؔ کے کلام کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے مزدوروں اور غریبوں کے جذبات کی ترجمانی کی ہے۔ ظلم و جبر کے خلاف سینہ سپر ہونے کے گیت بھی گائے ہیں۔ایسا اِس لیے کہ وہ زمینی حقیقت اور زندگی کے مسائل و مصائب سے جڑے فن کار تھے۔خاص طور سے’’گھر آنگن‘‘ میں عصری حسیت اور حقیقت شعاری کے ساتھ ساتھ تخلیقی اظہار کی تازگی کے کرشمے نظر آتے ہیں۔ کسی روایتی محبوب کے ہجر و وصال کے بجائے ایک گھریلو شریک حیات کے انوکھے روپ رنگ ہیں۔ ہندوستانی مٹی کی سوندھی سوندھی خوشبو، پھل پھول کی مٹھاس، تیج تہوار کی خوشیاں، بسنت و بہار کی خوشگواریاں اور ایسے متعدد مظاہر کے جلوے دکھائی دیتے ہیں۔اُن کے یہاں دیہاتوں کا وہ پُر فضا ماحول ہی نہیں شہری زندگی میں رقصاں ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی جھلکیاں بھی نظر آتی ہیں۔ اِس صفت سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ حُسن و جمال کا عاشق یہ رومان پسند شاعر خواتین کی فلاح و بہبود کے جتن کرتا رہا۔ ازدواجی زندگی میں صفیہ اور خدیجہ کی شمولیت بھی اِس نقطۂ نگاہ کو تقویت پہنچاتے ہیں کہ وہ صنفِ نسواں کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔دوستوں میں عذرا کا کردار بھی اس کا ضامن ہے۔نظم ’’عذرا منی‘‘ کے چند مصرعے ملاحظہ ہوں ؎

تیری پُر عزم مسکراہٹ میں
اک نئی نسل مسکراتی ہے
آخری تیرگی زمانے کی
اِن شعاعوں سے تھرتھراتی ہے
جادۂ وقت پر عزائم کی
نو بہ نو مشعلیں جلاتی ہے
آسمانوں کو کہکشاؤں کو
گردِ راہِ سفر بناتی ہے
نظموں کے علاوہ اُن کی رباعیات میں ایک گر ہست عورت کا وہ روپ ہے جو خالص ہندوستانی ہے۔ دیہی ماحول، رسم و رواج سے جڑی عورت کا بڑا حسین مرقع اُن کے شعری مجموعہ ’’گھر آنگن‘‘ میں اُبھرتا ہے۔ اِس میں ہندوستانی تاریخ و تہذیب اور معاشرتی زندگی لطیف جزئیات کے ساتھ موجود ہے۔ جمالیاتی کیفیت کو شرنگار رس کا حسن عطا کر دیا ہے۔ بلا شبہ عورت کے معاشرتی رتبے اس کے سماجی وقار اور اس کی تہذیبی شخصیت کے مختلف پہلو اس میں اُجاگر ہوتے ہیں ؎
وہ ناز جسے دیش کا کہیے سوبھاگ
ہر سانس تپسّیا ، نظر پریم کا تیاگ
جو آگ کے شعلوں سے گزر سکتی ہے
جو موت سے اپنا چھین سکتی ہے سہاگ
اخترؔکی شاعری میں ایرانی تہذیب و ثقافت اور ہندو دیو مالائی عناصر اور لوک گیتوں کا ترنم و گداز موجزن ہے۔فارسی تراکیب و استعارات کے ساتھ ساتھ ہندی لفظیات اور تلمیحات بھی اُن کی شاعری میں اس طرح تحلیل ہوئے ہیں کہ کلام کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ ان کی شاعری میں ہندایرانی روایات کے عناصر، گنگا جمنی تہذیب و تمدن کی جاذبیت انتہائی سلیقے سے موجود ہے۔ موضوعات کا تنوع، مخصوص طرزِ فکر اور اظہار کی ندرت نے جاں نثار اخترؔ کواردو شاعری میں ممتاز اور قدر و منزلت کا شاعر بنا دیاہے،جس پر آنے والی نسلیں بھی ناز کریں گی۔
٭٭٭٭٭

Leave a Comment