ہندوستانی زبان کا جشن ریختہ اور اردوپر عرش منیر کے تاثرات

\"\"
٭عرش منیر،کلکتہ

اردو زبان کو لے کرہمیشہ سے فرقہ پرست طاقتیں پریشان رہی ہیں اور شاید آنے والے دنوں میں بھی اردو ان کی دل میں بلاکیج کا کارن بنتی رہے گی۔ہم لوگوں کو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔نہ ہم نے اردو زبان کو نہ مسجد میں لے جاکر کلمہ پڑھایا نہ مندروں میں ماتھا ٹیکوایا نہ گنگا گھاٹ پر اس کو اشنان کروایا ہے ۔یہ کل بھی ہماری مادری زبان تھی اور ہمیشہ رہے گی۔۔یہ کسی خاص فرقے یا مذہب کی قید میں نہ کل تھی نہ آج ہے ۔۔کچھ ناعاقبت اندیش سیاسی لوگوں نے اس کے ساتھ کافی سیاست کی تھی ۔اس غریب زبان پر کسی بھی سیاست کا رنگ نہیں چڑھا لیکن۔سنجیو صراف صاحب کو کس نے اردو کی خدمت کا ٹھیکہ دیا تھا وہ خود ہی اردو زبان سے محبت کا راگ الاپنا شروع کیے تھے۔جشن اردو کے نام پر بہت عزت اور شہرت بھی کما چکے ہیں ہم آج تک انہیں اردو زبان سے محبت کرنے والا ایک اردو کا خدمتگار ہی سمجھتے ہیں ۔اب اردو کے بڑے بڑے نام جنہوں نے ریختہ کی بے پناہ خدمت کی ہے اور اب بھی اس سے جڑے ہیں اور خدمت انجام دے رہے ہیں ۔سب سے پہلے اردو کے لئے ہندوستانی لفظ کا جو استعمال ہوا ہے اس پر انہیں اعتراض کرنا تھا ان کی طرف سے کوئی بیان آنا چاہیے تھا۔لیکن الٹا ہو رہا ہے ۔سنجیو صراف صاحب کو جو کرنا ہے کریں خواہ مخواہ اردو زبان کو لے کر کوئی مسئلہ نہ کھڑا کریں ۔اردو کو ہندوستانی کہہ کر خود انہوں نے اپنی خدمات پر نہ صرف پانی پھیرا ہے بلکہ اپنی شناخت کو بھی اجاگر کر دیا ہے۔

Leave a Comment