اردوادب کے فروغ میں الیکٹرانک میڈیاکا کردار

\"drzakia\"
٭ڈاکٹر ذکیہ رانی
اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اردو
وفاقی اردویونیورسٹی،کراچی،پاکستان۔
Email:drzakiaraniurdu7@gmail.com

دنیاسات براعظموں میں تقسیم ہے ۔ ان براعظموں میں مختلف زبانیں مختلف ثقافتوں کی نمائندگی کرتی ہیں ۔طرزِ حکمرانی بھی جداگانہ اہمیت کاحامل ہوتا ہے۔جب ہم کسی سماج کو کسی براعظم کاحصہ سمجھیں تو یہ ساری نوعیت ہرپھِرکے ذرائع ابلاغ کی مرہونِ منت ہوجاتی ہے۔اجتماعی زندگی گزارنے کے قواعد وضوابط یا اخلاقی اصول اجتماعی سطح پر اتفاق کیے بغیر وضع ہی نہیں کیے جاسکتے تھے کوئی بھی بڑا کارنامہ کسی بھی سماج کے دانشوروں کی کارفرمائی ہوتا ہے۔یہ کارفرمائی ذرائع ابلاغ کے ذریعے اجتماعی شعورکاحصہ بنتی ہے ۔تب جاکر کہیں اجتماعی سطح کا اتفاق ممکن ہوپاتا ہے۔
زندگی اورسماج کے رشتے ازل سے جاری ہیں اور تاابد جاری رہیں گے۔زندگی اورسماج کی نمائندگی کرنے والا واحد مضمون ادب ہے کہ جس کے ذریعے جہاں جہاں زندگی پائی جاتی ہے وہاں وہاں ادب کارشتہ استوارنظرآتا ہے ۔ادب کے فروغ میں ابتداء ہی سے ذرائع ابلاغ نے کردار اداکیا ہے۔ذرائع ابلاغ کاآغاز چوپالوں سے ہوتا ہوا تحریری نوعیت اختیارکرگیا۔ابتداء میں اِسے ہم نے صحافت کہا بعدازاں ابلاغِ عامہ کے نام سے ہم اسے جاننے لگے اورپھر یوں ہواکہ ریڈیونے جست بھری ٹی۔وی آگیانتیجتاً ابلاغِ عامہ نے میڈیا کاروپ دھارنا شروع کیا اوراَب یہ میڈیا ،میڈیا نہیں میڈیا سائنس ہوگیاہے۔میڈیا سائنس جب ہم نے کہاتو اس میں الیکٹرونکس میڈیااورانفارمیشن ٹیکنالوجی کے کرشمے بھی آگئے۔
اکیسویں صدی اسی کرشماتی فضاسے عبارت ہے۔ہم ادب کے فروغ میں میڈیا کاکرداردیکھتے ہیں توہمیں لگتاہے کہ ادیب سے زیادہ میڈیا کی اہمیت ہے۔آج اشاعتی سرگرمیوں میں تیزی آچکی ہے۔اب ویب سائٹس یا ویب گاہوں کے ساتھ ساتھ فیس بک بھی تختۂ مشق بنی ہوئی ہے۔معیارسے زیادہ مقدارکامعاملہ تیزی سے آگے بڑھتا جارہا ہے۔اردو کی تقریباً ۳۵ہزارویب گاہیں اس ضمن میں کارہائے نمایاں انجام دے رہی ہیں ۔انہی ویب گاہوں میں ۸۰۰ تا ۱۰۰۰ ویب گاہیں ایسی بھی ہیں جن میں معیارکاخیال رکھا جاتا ہے۔یہی احوال میڈیا کابھی سمجھنا چاہیے۔بہت کم چینلز ایسے ہیں کہ جہاں خبروں ،ٹاک شوزاوردیگرپروگراموں میں زبان وبیان کاخیال رکھا جاتا ہے اورادبی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔جہاں ادبی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں وہا ں ادبی رحجانات ،علمی وادبی مسائل کی نسبت شخصی مکالمے زیادہ ہوتے ہیں ۔
یہ امرملحوظ رہے کہ میڈیا کی زبان یا اظہاریہ اکہرا ہوتا ہے جواکہری زبان کی ترسیل کرتا ہے جبکہ ادبی زبان تہہ داری لیے ہوئے ہوتی ہے ۔زبان عوام کے پیچھے چلتی ہے لغت کے پیچھے نہیںچلتی لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ الفاظ جو فصیح نہیں انھیں فصاحت کی سان پر چڑھا دیا جائے۔ ۱۹۷۱ء کے بعد سے پاکستانی میڈیا میں واضح تبدیلی آناشروع ہوئی عوامی بول چال کی زبان میڈیا کاحصہ بننے لگی۔پاکستانی زبان وادب کوفروغ ملا۔صوبائی ثقافتیں اورروایات زبان میں شامل ہونے لگیںجس سے پاکستانیت کی تصویر واضح ہونے لگی۔میڈیا میں غلط محاورات وغلط الفاظ کی ادائیگی اوراملاکی روش عام ہوچلی ہے۔اس کے اسباب پر غورکریں تو یہ ہمارے سماج میں دوہرے تہرے تعلیمی نظام کی کارفرمائی محسوس ہوتی ہے۔تعلیمی نظام نے طبقاتی خلیج کو ہی وسیع نہیں کیا بلکہ سوچنے،بولنے اورلکھنے پڑھنے کے بھی جداجدا نظام متعارف کرادیئے ۔ہماری روایتی تعلیم میں مکتبی روایت سے جڑے لوگ جواعلیٰ مدارج تک گئے اُن سے کبھی ث۔س۔ص یا ذ۔ض۔ظ سمجھنے یا لکھنے کی غلطیاں نہیں ہوئیں اورآج اعلیٰ تعلیمی اسٹینڈرڈکے دعوے دار اسکولوں کے بچے بھی ان غلطیوں سے مبّرا نہیں۔چونکہ میڈیا کی زبان الگ ہے لہذا ادب کے فروغ میں اس کاکرداربھی جداگانہ حیثیت کاحامل ہے۔
میڈیا کے ذریعے پاپولر اورفکشن جڑے ادب کا فروغ توہورہاہے مگر کلاسیکی ادب کے اعلیٰ نمونوں کافروغ نہیں ہورہا۔ماضی میں ہمیں ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی مثلاً ؎ گلزارِ ہست وبود کودیوانہ وار دیکھ یا ؎ مدت ہوئی ہے یارکو مہماں کیے ہوئے جب میڈیا کے ذریعے عوام تک پہنچے توداد پائی اورلازوال ٹھہرے لیکن آج ان کی مقبولیت شاید ماضی مانند نہ ہوسکے کیونکہ وہ روایت دم توڑچکی ہے جس میں اعلیٰ ادبی نمونوں کو بطورِ خاص پیش کیا جاتا تھا اب تو گلزارِ ہست وبو د اور جوشِ قدح کو سمجھنے والے سامعین کم رہ گئے۔
میڈیا کواس ضمن میں سوچنا ہوگا اورمیڈیا یقینا اس ضمن میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے کہ یہ اس کی بقا ہی نہیں پاکستان کی قومی زبان کاافتخارہے کہ اشرافیہ کی رکاوٹوں کے باوجود بہت سے انگریزی چینلز اردونشریات کرنے پر مجبورہوئے ۔انگریزی اخبارکے ساتھ اردو اخبار جاری رکھنا بھی مجبوری ہے کہ عوام تک رسائی اس کے بغیر دشوارہی نہیں ناممکن ہے۔
آج میڈیا کی ترجیح خبرکی ترسیل اور بروقت ترسیل ہے توایک اورترجیح بھی اپنالینے میں کیا حرج ہے کہ ادبی پروگرام اورادبی نوعیت کے علمی وتحقیقی پروگراموں کی ترویج کی جائے۔کسی حد تک سرکاری چینلز اورکچھ نجی چینلز بھی اس کارہائے گراں مایہ میں حصہ دارہیں ۔البتہ زبان کی وہ غلطیاں جوزبان زد عام ہوتی جارہی ہیں کہ ’’استفادہ حاصل کیا‘‘ اگر ’’ استفادہ ‘‘کی جگہ مفید یا کوئی اورلفظ استعمال کرلیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں اسی طرح’’ ٹوپی اوڑھی‘‘ کی جگہ’’ ٹوپی پہنی ‘‘جوکہ غلط ہے ۔ ’’گفتگو‘‘ کو’’ گفت گو‘‘ لکھنایا قاعدہ سے’’ قواعد‘‘ ہے اس کی جگہ ’’قوائد‘‘ کو قواعد کے معنوں میں لکھنا (یعنی قائد کی جمع قوائد کردی گئی ۔)اور بھی بے شمار الفاظ طوالت کے سبب درج نہیں کیے جارہے ۔ان چند مثالوںکو مشتے نمونہ از خروارے سمجھنا چاہیے ۔اس حوالے سے میڈیا کو اپنی سمت کاتعین کرنا چاہیے۔میڈیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ خبر کا تعلق واقعات سے ہوتا ہے اورواقعہ کی موت خبرکی موت ہوتی ہے جبکہ ادب کامعاملہ زندگی سے عبارت ہوتا ہے تاقیامت زندگی کا تسلسل جاری رہے گا ۔اس جاری رہنے والے تسلسل کے بارے میں بھی میڈیا کوسوچناچاہیے ۔تہہ داراظہارکواکہرے اظہار کے لیے کس طرح رہنمابنایا جاسکتا ہے۔بات بالکل وہی ہے جب تک میڈیا ادب کے زیرِ اثر تھا تواکہرے اورتہہ دار اظہار کے روابط نہایت مستحکم تھے لیکن آج ادب میڈیا کے زیرِ اثرہے تو مذکورہ روابط ناصرف غیرمستحکم ہوچلے ہیں بلکہ تہہ دار اظہار کا مستقبل مشکوک ہوتا جارہا ہے۔
الیکٹرونکس میڈیا کے ذریعے ادب کے فروغ میں سب سے بڑامسئلہ یہ درپیش ہے کہ کوئی ایسا ٹھنک ٹینک موجود نہیں جوادب کے فروغ میں معیارات کوبھی سامنے لائے۔آج نہیں توکل ان معیارات کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرناپڑے گاورنہ بڑاادیب یا بڑاشاعر پیداہونے کاامکان کم سے کم ہوتا چلاجائے گااورایسا لگے گاادب معاشرے سے کوئی علاقہ نہیں رکھتا ۔معیاری ادب ہمیشہ سماعتیں پیداکرتا ہے جبکہ وہ ادب جو سماعتوں کے لیے لکھا جاتا ہے اس کی نوعیت زندگی اورادب سے زیادہ وقتی اورکمرشل ہوتی ہے۔اردوادب پر الیکٹرونکس میڈیا کے تیزی سے جواثرات مرتب ہورہے ہیں ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ ادبی اظہار اورصحافیانہ اظہارمیں کوئی فرق نہیں رہا۔یہ بات یقینا غوروفکرکے نئے دریچے واکرنے کے لیے کافی ہے یعنی تیزی سے ادبی اظہار کی تہہ داری کوالیکٹرونکس میڈیا نگلتا جارہا ہے۔ایسے میں اردوزبان وادب کے معماروں کی ذمہ داریاں اوربڑھ جاتی ہیں کہ الیکٹرونکس میڈیا تو ایک ذریعہ ہے ادبی سطح پر اسے کیسے استعمال کیا جاناچاہیے۔مَیں اس سوال کا جواب اہلِ دانش وبینش سے چاہتی ہوں کہ اسی سوال کے جواب میں اردوادب کی قدروقیمت کے ساتھ ساتھ اس کے فروغ کابھی انحصارہے۔

Leave a Comment