اقبال کا پیغامِ وحدتِ ملّی اور اس کی فکری اساس

شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؔ کی یوم ولادت پر خصوصی پیش کش

\"picture
٭ڈاکٹر محمد فخر الحق نوری

میں اپنی بات کا آغاز اقبال کے اس مشہور شعر سے کروں گا:
سِتیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغِ مصطفویؐ سے شرار بولہبی
اس شعر میں ان دو بنیادی گروہوں کی طرف بلیغ اشارہ کیا گیا ہے جو حق اور باطل کی نمائندگی کرتے ہیں اور جن کے مابین ہمیشہ سے کشاکش و پیکار جاری ہے۔ قرآن و حدیث کے مطابق ایک حزب الرّحمٰن ہے تو دوسرا حزب الشّیطٰن۔ اوّل الذکر کو، جسے ہم ملّت بیضا، ملّتِ محمّدیہ یا ملّتِ اسلامیہ بھی کہتے ہیں، قرآن میں ’’مِلَّۃَ اِبْرَاھِیْمَ حَنِیْفَا‘‘ کہ، کر ’’اَلْکُفْرُ مِلَّۃً وَّاحِدَۃ‘‘ سے ممیّز کر دیا گیا ہے۔اقبال انھی دو بنیادی گروہوں اور ان کی باہمی آویزش کو نمایاں کرنے کے لیے تاریخِ انسانی سے کچھ اور استعارے بھی مستعار لیتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں:
موسیٰؑ و فرعون و شبیرؓ و یزید
این دو قوت از حیات آید پدید
بہرحال حزب الرحمٰن اور حزب الشیطٰن ہمیشہ، کسی نہ کسی صورت میں ایک دوسرے کے مقابل رہے ہیں لیکن ہمارا ایمان ہے کہ جَآئَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِلُ ط اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًاo کے مصداق بالآخر حق کو باطل پر غالب آنا ہی ہے۔ آخری فتح حزب الرّحمٰن اور آخری شکست حزب الشّیطٰن کے لیے لکھ دی گئی ہے۔ انجامِ کار حزب الرّحمٰن ہی کو عالمگیر انسانی وحدت کا روپ اختیار کرنا ہے۔ یہ منشاے الٰہی تو ہے ہی، اس کا ایک منطقی جوازبھی ہے۔ حزب الرّحمٰن کی وحدت حقیقی اور فطری ہے کیونکہ عقیدئہ توحید کی بنیاد پر استوار ہے جو وحدتِ انسانی کی اساس بھی ہے جبکہ حزب الشّیطٰن کے پاس متحد کرنے والی ایسی کوئی قوت (Binding Force) نہیں ہے۔ وہ تو صرف اوّل الذکر کی دشمنی میں اکٹھا رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ طاغوتی طاقتیں عالمِ اسلام کے فروعی اختلافات کو ہوا دے کر ہمیشہ پھوٹ ڈالو اور غالب رہو یعنی Divide and Rule کی پالیسی پر عمل پیرا رہی ہیں۔ عصرِ جدید میں ان کوششوں میں بہت تیزی آ گئی ہے اور یوں لگتا ہے جیسے ایک ایسے گلوبل ولیج کاتصوّر دیا جا رہا ہے جو ملتِ اسلامیہ سے خالی ہو۔ اقبال دانش حاضر کے اس عذاب سے پوری طرح باخبر ہیں کیونکہ انھیں اس آگ میں مثلِ خلیلؑ اترنے کا موقع ملا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے کلام نظم و نثر کے ذریعے وحدتِ ملّی کا پیغام عام کرنے کی سعی کی ہے۔ یہ پیغام محض کسی شاعر کا خواب یا مفکر کا نظریہ نہیں بلکہ اس کی فکری اساس قرآن و حدیث ہیں۔ قرآن سے اقبال کو گہرا شغف تھا اور عشقِ رسول صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کی سب سے قیمتی متاع تھی جس کی تصدیق ان کے احوال و اقوال سے بخوبی ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ قرآن میں غوطہ زن بھی رہے اور مولا ے یثرب نے ان کی چارہ سازی بھی کی۔اور حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث ہی کی رو سے خدا اور رسولؐ میں بھی ایک وحدت ہے۔
اقبال نے نکلسن کو لکھا تھا:
’’۔۔۔ میرا جو فلسفہ ہے وہ قدیم مسلمان صوفیہ و حکما ہی کی تعلیمات کا تکملہ ہے، بلکہ بالفاظِ صحیح تر یوں کہنا چاہیے کہ جدید تجربات کی روشنی میں قدیم متن کی تفسیر ہے۔‘‘
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ قدیم مسلمان صوفیہ و حکما کی تعلیمات بھی قرآن و حدیث ہی سے مستنیر تھیں جو اقبال کے بھی بنیادی فکری منابع ہیں۔ دراصل یہ معاملہ چراغ سے چراغ جلتے چلے جانے کے مترادف ہے۔ اسی زنجیر میں شاہ ولی اﷲ اور ’تحریک اتحادِ اسلامی‘ (Pan Islamism) کے داعی سیّد جمال الدین افغانی بھی پروئے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر اے۔جے ہالی پوتا اور ڈاکٹر محمد ریاض وغیرہ نے اپنی تحریروں میں اس امر پر روشنی ڈالی ہے کہ جمال الدین افغانی شاہ ولی اﷲ کے افکار سے متاثر تھے۔ اقبال نے ان دونوں سے اثرات قبول کیے۔ تحریکِ اتحادِ اسلامی سے وابستگی نے تو انھیں بہت جلد وطنیت کی بنیاد پر استوار محدود نظریہء قومیّت سے نجات حاصل کرنے میں مدد دی اور دینِ اسلام کی فکری اساس پر قائم وسیع و عظیم وحدتِ ملّی کے نظریے کا مویّد و علمبردار بنا دیا۔ اقبال کے ہاںترکی کے سعید حلیم پاشا کے لیے پسندیدگی کے جذبات بھی وحدتِ ملّی کے نقطہء نظر کے فروغ کے باعث ہی ملتے ہیں۔
وحدتِ ملّی کے نظریے کی مذکورہ بالا تمام کڑیاں قرآن کے اس ابدی پیغام توحید کی طرف لے جاتی ہیں جو عالمِ اسلام کو اتحاد و یگانگت کے ناقابلِ شکست رشتے میں باندھ دیتا ہے۔ حدیث اسی پیغام کی تائید کرتی ہے۔ اس کی عملی صورت مواخاتِ مدینہ کے حوالے سے خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ و اٰلہٖ وسلّم نے پیش کر دی تھی اور یہ ثابت کر دیا تھا کہ توحید کو ماننے والے رنگ و نسل اور زبان و علاقہ کی قیود سے آزاد اور ایک وحدت میں پروئے ہوئے ہیں۔ یہ ایک ایسا دائرہ ہے جس کا مرکزی نقطہ خود نبی کریم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم کی ذاتِ بابرکات ہے۔ اقبال نے اس پیغام کو عام کرکے حکیم الامت ہونے کا حق ادا کر دیا ہے۔ اقبال اہلِ اسلام کو باور کراتے ہیں کہ دیگر اقوام کے برعکس ان کی وحدتِ ملّی کا انحصار ملک و نسب کے بجاے دین و مذہب پر ہے۔ بانگِ درا میں شامل نظم ’مذہب‘ میں کہتے ہیں:
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمیؐ
ان کی جمعیّت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوّتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیّت تری
دامنِ دیں ہاتھ سے چھوٹا تو جمعیّت کہاں
اور جمعیّت ہوئی رخصت تو ملّت بھی گئی
_______
دراصل اقبال ایک ایسے تصوّرِ توحید کے قائل ہیں جو محض خدا کی وحدانیت اور نبی کریمؐ کی رسالت کے اقرار پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ ملّتِ اسلامیہ کو بھی ایک ہونے کی تلقین کرتا ہے۔ ’جوابِ شکوہ‘ میں یہ الوہی صدا سنائی دیتی ہے:
منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبیؐ دین بھی ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی اﷲ بھی قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
یہاں مسلمانوں کے ایک ہونے کے لیے مسالک کے فروعی اختلافات سے بچنے کی آرزو بھی کی گئی ہے اور ذات پات کے غیر اسلامی تصوّرات سے دور رہنے کی ضرورت پر بھی زور دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں یہ دو شعر بھی سن لیجیے:
اے کہ نشناسی خفی را از جلی ہشیار باش
اے گرفتارِ ابوبکر و علی ہشیار باش

(خضرِ راہ)
یہ ہند کے فرقہ ساز اقبالؔ آزری کر رہے ہیں گویا
بچا کے دامن بتوں سے اپنا غبارِ راہِ حجاز ہو جا

(پیامِ عشق)
فرقہ بندی کسی بھی نوع کی ہو، اس سے ملّی وحدت پر ضرب لگتی ہے۔ چنانچہ اس ضمن میں اقبال کا تنبیہ کرنا، دراصل قرآنی تعلیمات ہی کو آگے بڑھانا ہے۔ چند آیات دیکھیے:
(۱) وَاِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِo [سورۃ المومنون۔ آیت ۵۲]
(ترجمہ: اور یہ تمھاری امت ایک ہی امت ہے اور میں تمھارا رب ہوں، پس مجھی سے تم ڈرو) (۲)
(۲) اِنَّمَا الْمُؤمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقْواﷲَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَo [سورۃ الحجرات۔ آیت ۱۰]
(ترجمہ: مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا) (۳)
(۳) وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اﷲِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْص وَاذْکُرُوْ نِعْمَتَ اﷲِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًاج وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِنْھَاط کَذَالِکَ یُبَیِّنُ اﷲُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَo [سورۃ آلِ عمران۔ آیت ۱۰۳]
(ترجمہ: سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اس نے تمھارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمھارے سامنے روشن کرتا ہے ۔ شاید کہ ان علامتوں سے تمھیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آ جائے) (۴)
یہ اور اس طرح کی اور کئی آیتوں میں ملّتِ اسلامیہ کو اتحاد و اتفاق کا دامن تھامے رکھنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اسی قرآنی پیغام کی متعدد احادیثِ مبارکہ میں بھی توضیح و تصریح اور تائید و تاکید ملتی ہیں۔ مثلاً:
(۱) عَنْ اَبِیْ مُوْسٰی عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَاْلَ الْمُؤْمِنُ لِلْمُؤمِنِ کَالْبُنْیَانِ یَشُدُّ بَعْضُہٗ بَعْضاً ثُمَّ ثَبَّکَ بَیْنَ اَصَابِعِہٖ۔
(ترجمہ: حضرت ابو موسیٰؓ اشعری رضی اﷲ عنہٗ رسول اﷲ صلّی اﷲ علیہ وسلّم سے روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا کہ ایمان والوں کا تعلّق دوسرے ایمان والوں سے ایک مضبوط عمارت کے اجزا کا سا ہونا چاہیے کہ وہ باہم ایک دوسرے کی مضبوطی کا ذریعہ بنتے ہیں (اور ان کے جڑے رہنے سے عمارت کھڑی رہتی ہے) پھر آپؐ نے (ایمان والوں کے اس باہمی تعلق کا نمونہ دکھانے کے لیے) اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں ڈال دیں (اور بتایا کہ مسلمانوں کو اس طرح باہم مل کر ایک ایسی دیوار بن جانا چاہیے جس کی اینٹیں باہم پیوستہ اور ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہوں اور کہیں ان میں کوئی خلا نہ ہو۔) [بخاری و مسلم] (۵)
(۲) عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِیْرِ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ تَرَی الْمُؤمِنِیْنَ فِی تَرَاحُمِھِمْ وَ تَوَادِّھِمُ وَ تَعَاطُفِھِمْ کَمَثَلِ الْجَسَدِ اِذَا اشْتَکٰی عَضْواً تَدَاھٰی لَہٗ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّھْرِ وَالْحَمّٰی۔
(ترجمہ: حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنہٗ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم نے ارشاد فرمایا کہ ایمان والوں کو باہم ایک دوسرے پر رحم کھانے، محبت کرنے اور شفقت و مہربانی کرنے میں تم جسم انسانی کی طرح دیکھو گے کہ جب اس کے کسی ایک عضو کو بھی تکلیف ہوتی ہے تو جسم کے باقی سارے اعضا بھی بخار اور بے خوابی میں اس کے شریکِ حال ہو جاتے ہیں۔) [بخاری و مسلم] (۶)
(۳) عَنْ اَبِی ھُرَیْرَۃَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْمُسْلِمُ اَخُوالْمُسْلِمِ لَا یَظْلِمُہٗ وَلَا یَخْذُلُہٗ وَلا یُحَقِّرُہٗ التَّقْویٰ ھٰھُنَا __ وَیُشِیْرُ اِلٰی صَدْرِہٖ ثَلٰثَ مِرَارٍ __ بِحَسْبِ امْرِئٍ مِنَ الشَّرِّ اَن یُّحَقِّرَ اَخَاہُ الْمُسْلِمَ کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہٗ وَمَا لُہٗ وَعِرْضُہٗ __
(ترجمہ: حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلّم نے فرمایا ہر مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ، اس پر کوئی ظلم و زیادتی نہ کرے (اور جب وہ اس کی مدد و اعانت کا محتاج ہو، تو اس کی مدد کرے) اور اس کو بے مدد کے نہ چھوڑے، اور اس کو حقیر نہ جانے اور نہ اس کے ساتھ حقارت کا برتاؤ کرے (کیا خبر ہے کہ اس کے دل میں تقویٰ ہو جس کی وجہ سے وہ اﷲ کے نزدیک مکرم اور محترم ہو) پھر آپ نے تین بار اپنے سینہ کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تقویٰ یہاں ہوتا ہے (ہو سکتا ہے کہ تم کسی کو اس کے ظاہری حال سے معمولی آدمی سمجھو، اور اپنے دل کے تقوے کی وجہ سے وہ اللہ کے نزدیک محترم ہو۔ اس لیے کبھی مسلمان کو حقیر نہ سمجھو) آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے، اور اس کے ساتھ حقارت سے پیش آئے۔ مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان کے لیے قابلِ احترام ہے۔ اس کا خون، اس کا مال اور اس کی آبرو (اس لیے ناحق اس کا خون گرانا، اس کا مال لینا اور اس کی آبروریزی کرنا، یہ سب حرام ہیں) [مسلم] (۷)
اقبال نے وحدتِ ملّی کا جو پیغام دیا ہے وہ انھی فرمودات کی تفسیر ہے۔ یہ پیغام بے پناہ وسعت کا حامل ہے۔ وحدتِ ملّی کے اس دائرے میں ہر دور اور ہر دیار کے مسلمان شامل ہیں اور بالآخر تمام عالمِ انسانی کو اسی دائرے کا حصّہ بننا ہے۔ اقبال چھٹے خطبے ’الاجتہاد فی الاسلام‘ (اسلام کی ترکیب میں حرکت کا اصول) میں لکھتے ہیں:
’’اسلام کی حیثیت لا جغرافی ہے اور اس کا مقصد ہے ایک ایسا نمونہ پیش کرنا جو اتحادِ انسانی کی اس شکل کے لیے جو بالآخر ظہور میں آئے گی، مختلف بلکہ یہ کہنا چاہیے باہم دگر حریف نسلوں کو اوّل دولتِ ایمان سے مالامال کرے اور پھر اس متفرق اور منتشر مجموعے کو ایک ایسی امّت کی شکل دے جس کا اپنا ایک شعورِ ذات ہو۔‘‘ (۸)
یہ سب کچھ رنگ و نسل کی تمیز اور زمانی و مکانی حدود سے بالاتر ہوئے بغیر ممکن نہیں۔ ان بنیادوں پر قائم شدہ جغرافیائی سرحدوں میں مقیّد ہو کر رہ جانا اور انھیں فضیلت کے معیارات تصور کر لینا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ خطبہء حجۃ الوداع میں ایسی تمام تفریقوں اور تقسیموں کی تکذیب کرکے منشاے اسلام کی وضاحت کر دی گئی تھی۔ اقبال نے وحدتِ ملّی کے ان تمام پہلوؤں کو اپنے پیغام کا حصّہ بنایا ہے۔ یہاں ’رموزِ بیخودی‘ میں قائم کردہ چند عنوانات کا تذکرہ کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے کیونکہ ان سے مذکورہ پہلوؤں کی نشاندہی ہوتی ہے:
(۱) در معنیِ این کہ مقصودِ رسالتِ محمدؐیہ تشکیل و تاسیسِ حریّت و مَساوات و اَخوّتِ بنی نوعِ آدم است۔
(۲) در معنی این کہ چون ملّتِ محمدؐیہ موسّسِ بر توحید و رسالت است بس نہایتِ مکانی ندارد۔
(۳) در معنیِ این کہ وطن اساسِ ملّت نیست۔
(۴) در معنی این کہ ملّت محمدیہؐ نہایتِ زمانی ندارد کہ دوامِ این ملّتِ شریفہ موعود است۔ (۹)
گویا اقبال ملّت اور وحدتِ ملّت کے نہایت وسیع و عریض تصوّر کے پیغام بر ہیں۔ چونکہ وطنی انانیت کو فروغ دینے والا وطن پرستی اور وطنیت کا محدود تصوّر ملّی وحدت کے ساتھ سب سے زیادہ متصادم ہے، اس لیے انھوں نے اس میں مضمر خرابیوں سے بطور خاص خبردار کیا ہے۔ وہ مصطفوی ہونے کے ناتے اسلام ہی کو اپنا دیس سمجھتے ہیں اور ’ہر ملک ملکِ ماست کہ ملکِ خداے ماست‘ کے قائل ہیں۔ اتحادِ انسانی کے لیے وطنیت کا تصوّر جس قدر مضر ہے، اس کا اندازہ تو بعض غیر مسلم مغربی مفکرین کو بھی ہو گیا تھا۔ مثلاً نیٹشے نے اسے ’بیماری‘ اور ’پاگل پن‘ سے تعبیر کیا تھا جس کا حوالہ اقبال نے اپنے لیکچر ’کیا مذہب کا امکان ہے‘ میں بھی دیا ہے۔(۱۰) چونکہ ملّتِ اسلامیہ ہی کی وحدت اتحادِ انسانی ہی کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے، اس لیے وطنیت کا تصوّر اس کے ساتھ براہِ راست متصادم ہو جاتا ہے جس کی نفی کرنا اقبال کے لیے ناگزیر تھا۔ اس مقصد کے لیے انھیں ترکِ وطن کا سب سے معتبر حوالہ نبی کریم صلی اﷲ علیہ واٰلہٖ وسلّم اور ان کے اصحاب کی مکّے سے مدینے کو ہجرت کی صورت میں مل گیا جسے انھوں نے سنّتِ نبویؐ قرار دیتے ہوئے کہا ہے:
ہے ترکِ وطن سنّتِ محبوب الٰہی
دے تو بھی نبوّت کی صداقت پہ گواہی
گفتارِ سیاست میں وطن اور ہی کچھ ہے
ارشادِ نبوّت میں وطن اور ہی کچھ ہے
آنحضرتؐ نے نہ صرف ترکِ وطن کیا بلکہ مہاجرین وانصار کو آپس میں بھائی بھائی بنا کر عملی طور پر وحدتِ ملّی کی بِنا بھی ڈالی۔ اقبال اسی لیے وحدتِ ملّی کے لیے ترکِ وطن کو ضروری خیال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں ان کے بہت سے اردو و فارسی اشعار دیکھے جا سکتے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے:
بتانِ رنگ و خوں کو توڑ کر ملّت میں گم ہو جا
نہ تورانی رہے باقی نہ ایرانی نہ افغانی (طلوعِ اسلام)
_______
یہ ہندی ، وہ خراسانی ، یہ افغانی وہ تورانی
تو اے شرمندئہ ساحل اچھل کر بے کراں ہو جا
_______
ہمسایہء جبریلِؑ امیں بندئہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشان
_______

جو کرے گا امتیازِ رنگ و خوں مٹ جائے گا
تُرکِ خرگاہی ہو یا اعرابیِ والا گہر

(خضر راہ)
_______
نہ افغانیم و نے تُرک و تتاریم
چمن زادیم و از یک شاخساریم
تمیزِ رنگ و بو بر ما حرام است
کہ ما پروردئہ یک نوبہاریم

(پیامِ مشرق)
_______
تو اے کودک منش خود را ادب کن
مسلماں زادہئٖ ترکِ نسب کن
برنگِ احمر و خون و رگ و پوست
عرب نازد اگر ترکِ عرب کن

(پیامِ مشرق)
_______
جوہرِما با مقامے بستہ نیست
بادئہ تُندش بجامے بستہ نیست
ہندی و چینی سفالِ جام ماست
رومی و شامی گِلِ اندامِ ماست
قلبِ ما از ہند و روم و شام نیست
مرز و بوم او بجز اسلام نیست
عقدئہ قومیّتِ مسلم کشود
از وطن آقاے ما ہجرت نمود
حکمتش یک ملّتِ گیتی نورد
بر اساسِ کلمہئٖ تعمیر کرد
تا زِ بخششہاے آں سلطانِ دیں
مسجدِ ما شد ہمہ رُوے زمیں
صورتِ ماہی بہ بحر آباد شد
یعنی از قیدِ مقام آزاد شُد

(رموزِ بیخودی)
_______
کہیں کہیں تو اقبال کا اندازِ تخاطب تنبیہ، اور فہمائش کا ہو جاتا ہے اور وہ خبردار کرنے لگتے ہیں:
نسل ، قومیّت ، کلیسا ، سلطنت ، تہذیب ، رنگ
’خواجگی‘ نے خوب چن چن کر بنائے مسکرات
_______
دارویِ بیہوشی است ، تاج ، کلیسا ، وطن
جانِ خداداد را خواجہ بجامے خرید
_______
فرد قائم ربطِ ملّت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں
_______
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر
ہر فرد ہے ملّت کے مقدّر کا ستارا
_______
ملت کے ساتھ رابطہء استوار رکھ
پیوستہ رہ شجر سے امیدِ بہار رکھ
_______
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
_______
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار نے بنایا
بِنا ہمارے حصارِ ملّت کی اتحادِ وطن نہیں ہے
سوال یہ ہے کہ کیا اقبال اوطان اور ان میں بسنے والی نسلوں کو یکسر مٹا دینا چاہتے ہیں؟ نہیں ہرگز نہیں۔ وہ تو یہ چاہتے ہیں کہ ملّتِ محمدیہ میں تفریق پیدا کرنے والے ہر امتیاز کی نفی کی جائے اور تمام انواع کے مسلمان وطن پرستی اور نسلی تفاخر سے نجات حاصل کرتے ہوئے وحدتِ ملّی کا حصّہ بن جائیں۔ وہ مختلف النوع مسلمانوں کے مثبت اور مفید تخصّصات کو پوری ملّت کے لیے وقف ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہی خودی اور بے خودی کا فسلفہ ہے اور اسی سے وحدتِ ملّی کو استحکام اور قوّت مل سکتی ہے۔ جب اقبال یہ کہتے ہیں کہ:
اگرچہ زادئہ ہندم ، فروغِ چشمِ من است
زِخاکِ پاک بخارا و کابل و تبریز
تو وہ دراصل متنوّع تخصّصات کو وحدتِ ملّی میں مجتمع دیکھنے کی آرزو کرتے ہیں۔ اور ان کی آرزو مندی رجائیت سے معمور ہے۔ چنانچہ کس قدر امیدافزالہجے میں کہتے ہیں:
عطا مومن کو پھر درگاہِ حق سے ہونے والا ہے
شکوہِ ترکمانی ، ذہنِ ہندی ، نطقِ اعرابی
_______
کتابِ ملّتِ بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخِ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
_______
حقیقت یہ ہے کہ اقبال کا پیغام ملّت کی شیرازہ بندی کاپیغام ہے۔ وہ جس وحدتِ ملّی کے مویّد و علمبردار ہیں، عصرِ حاضر میں اس کی معنویت پہلے سے بھی کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ نائن الیون کی صیہونی سازش کے نتیجے میں عالمِ اسلام کو مسلسل جن مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہے، وہ نیو ورلڈ آرڈر کا سیاہ باب ہیں۔ عراق اور افغانستان پر فوج کشی کامعاملہ ہو یا فلسطین کا مسئلہ، ایران پر جوہری توانائی کے حصول کی پاداش میں پابندیاں عاید کرنے کی بات ہو یا دہشت گردی سے پاکستان کا حلیہ بگاڑنے کی کوشش،ہر صورت میں نشانہ تو ملّتِ اسلامیہ ہی کو بنایا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کو فروعی مسائل میں الجھا کر انھیں اپنی اصل سے دور کرنے اور ان کی ملّی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی منظّم کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ہوش مندی کا تقاضایہ ہے کہ ان کوششوں اور مذموم عزائم کو کسی بھی طور کامیاب نہ ہونے دیا جائے اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اﷲ محمّدٌ رَّسُولُ اﷲ کے ابدی پیغام کو اپنی طاقت بناتے ہوئے اتحادِ ملّی کو قائم رکھا جائے۔

حوالہ جات و حواشی
(۱)
(۲) ابوالاعلیٰ مودودی۔تفہیم القرآن۔ جلد سوّم۔ لاہور: مکتبہء تعمیرِ انسانیت، طبع چہارم، 1972،۔ ص282
(۳) ابوالاعلیٰ مودودی۔ تفہیم القرآن۔جلد پنجم۔ لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، طبعِ پنجم، 1975ء۔ ص78تا83
(۴) ابوالاعلیٰ مودودی۔ تفہیم القرآن۔جلداوّل۔ لاہور: ادارہ ترجمان القرآن، طبع چہارم، 1984ء۔ ص276تا277
(۵) بحوالہ مولانا محمد منظور نعمانی۔ معارف الحدیث۔ جلد دوّم۔ لاہور: مکتبہء مکّیہ، سنہ ندار۔ ص211تا212
(۶) ایضاً ۔ ص210تا211
(۷) ایضاً ۔ ص214
(۸) بحوالہ سیّد نذیر نیازی ۔ مترجم؛ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ۔ لاہور: بزمِ اقبال، طبع سوّم ، 1986ء۔ ص258
(۹) محمد اقبال۔ اسرار و رموز۔لاہور: شیخ غلام علی اینڈ سنز، طبع ششم، 1964ء۔ ص 119،ص129،ص133و ص135
(۱۰) بحوالہ سیّد نذیر نیازی۔ مترجم؛ تشکیل جدید الٰہیات اسلامیہ۔ لاہور: بزمِ اقبال، طبع سوّم، 1986ء۔ ص290تا291

Leave a Comment