بیدؔی کے افسانوں میں عورت

\"\"
٭گلشن آرا
ریسرچ اسکالرشعبہ اردو ،
بی۔ آر۔ اے۔ بہار یونیورسٹی ،مظفر پور۔

بقول پروفیسر وہاب اشرؔفی ؎
راجندر سنگھ بیدؔی نے زندگی کی بڑی اونچ نیچ دیکھی۔پنجاب کے خوشحال قصبوں اور بد حال لوگوں کی بِپتا،نیم تعلیم یافتہ حلقوں کی رسمیں ، رواداریاں ، کشمکش اور نباہ کی تدبیریں ، پرانی دنیا نئے خیالات کی آمیزش، نئی نسل اور اِرد گِرد کے بندھنوں کی آمیزش۔ ان سب میں بیدی نے دہشت کی بجائے نرمیوں کو چن لیا۔
ــ ــ ــ’’نرمیاں ‘‘اپنے پورے اور سنجیدہ مضمون کے ساتھ اُن کا مطالعہ کائنات کا اصل اصول اور مرکزی نقطہ ہے۔ بھیانک میں بھلمنساہٹ کو اور ناگواریوں میں
سے گوارہ کو تلاش کرنا ان کے اندر فنکا رکا اصل گُڑ تو یہ ہے بیدردی سے دیکھنا، بے دردی سے کریدنا، برتنا اور دد مندی سے ان کو کاغذ ( سلو لائیڈ) پر اُتار دینا۔
اس دکھی آتما کو ایک بڑا کارنامہ ہے جو منفرد بھی ہے اور شاداب بھی۔اردو فکشن کی تاریخ میں بیدی کا نام نہ صرف قابلِ ذکر ہے بلکہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔راجندر سینگھ بیدی کی پیدائش یکم ستمبر ۱۹۱۵ ؁ء کو لاہور میں ہوئی۔ جہاں ان کے والد ہیرا سنگھ بیدی ڈاکخانے میں ملازم تھے۔ مگر ان کا اصل وطن سیال کوٹ ہے۔
بیدی نے ۱۹۳۱ ؁ء میں خالصہ اسکول سے میٹرک کیا اور لاہور کے ڈی۔ اے ۔ وی کالج سے انٹر کرنے کے بعد بیَ اے میں داخلہ لیا لیکن کچھ ایسے حالات پیدا ہو گئے کہ انہوں نے آگے کی تعلیم مکمل نہیں کر سکے۔ صرف ۱۹ ؍ سال میں ان کی شادی ستونت کور سے ہوئی۔ ۱۹۳۳؁ ؁ء میں بیدی کی ملازمت کا دور شروع ہوتا ہے ۔ابتدا میں بیدی لاہور پوسٹ آفس میں بحیثیت کلرک ملازم ہوئے۔ دس سال تک ڈاکخانے کی ملازمت کرنے کے بعد استعفیٰ دے کر دہلی میں مرکزی حکومت کے پبلسٹی شعبہ سے وابستہ ہو گئے۔لیکن یہ سلسلہ بھی صرف چھہ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکا اور پھر بیدی لاہور ریڈیو سے وابستہ ہو گئے۔ملک کے بٹوارے کے عظیم سانحہ کے بعد دہلی آ گئے۔۱۹۴۸ ؁ء میں بیدی ادیبوں اور دانشوروں کے ایک وفد کے ساتھ کشمیر گئے جہاں شیخ عبد اللہ نے بیدی کو جموں کشمیر ریڈیو اسٹیشن کا ڈائرکٹر مقرر کر دیا۔بیدی ہی کی کوششوں اور کاوشوں سے سری نگر ریڈیو اسٹیشن کا قیام عمل میں آیا۔کشمیر میں بیدی کا قیام صرف ایک ہی سال رہا۔بخشی غلام محمد سے شدید اختلاف کی وجہ سے ۱۹۴۹ ؁ء میں بیدی کشمیر سے دہلی ہوتے ہوئے ممبئی وارد ہوئے اور پھر ممبئی ہی میں ان کا مستقل قیام رہااور اسی سرزمیں بیدی کا ۱۱؍ نومبر ۱۹۸۴ ؁ ء کو انتقال ہوا۔
بیدی کی ادبی زندگی کا آغاز ۱۹۳۲ ؁ء میں ہوا ۔ ابتدا میں محسن لاہوری کے فرضی نام سے تخلیقات شائع ہو ئے اور پھر بہت جلد انہوں نے اپنے اصل نام راجندر سنگھ بیدی کے نام سے لکھنا شروع کیا ۔بیدی کا پہلا رومانی افسانہ بعنوان’’ مہارانی کا تحفہ‘‘ کے نام سے لاہور کے ادبی دنیا میں شائع ہوا۔۱۹۳۳ ؁ء کے بعد بیدی کے افسانوں نے ایک نئی کروٹ لی۔بیدی کے یہاں ایک نیا رنگ و آہنگ اور نئی تازگی و توانائی ان کے یہاں پیدا ہوا۔اب بیدی کے افسانوں میں رومانیت کی جگہ متانت و سنجیدہ حقیقت نگاری نے لے لیا۔ سن۱۹۳۶ ؁ء میں بیدی کا پہلا افسانوی مجموعہ’’ دانہ و دام‘‘ مکتبہ اردو لاہورسے شائع ہوا۔کُل۲۲۴ صفحات پر مشتمل افسانوی مجموعہ میں کُل ۱۴؍ افسانے شامل ہیں ’’بھولا ، ہمدوش، من کی من میں ، گرم کوٹ، چھوکری کی لوُٹ، پان شباب منگل اشٹکا، کوارنٹن،تلاوان،دس منٹ بارش میں ، وٹامن بی، لچھمن، ردّ ِ عمل اور موت کا راز ‘‘ یہ تاریخی صداقت بھی ہمارے سامنے ہے کہ ’’ انگارے‘‘(۱۹۳۲) کی اشاعت ، ترقی پسند ادبی تحریک(۱۹۳۶) اور پریم چند کا وہ تاریخی خطبہ صدارت کا جملہ ’’ ہمیں حسن کا معیار بدلنا ہوگا‘‘ یہ تمام باتیں بیدی کے پیش نظر تھیں۔بیدی کا دوسرا افسانوی مجموعہ ’’گرہن‘‘ پہلی مرتبہ ۱۹۴۲؁ء میں نیا ادارہ لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوا ۔ ۲۰۸ صحات کے اس کہانی کے مجموعہ میںکُل ۱۴ ؍افسانے شامل تھے۔پیش لفظ’’ گرہن، رحمٰن کے جوتے، بکی، اغوا، غلامی، ہڈیاں اور پھول، زین العابدین، لاروے،گھر میں بازار میں ، دوسرا کنارہ، آلو، معاون اور میں ،
چیچک کے داغ، ابوالانس۔‘‘ بیدی کا تیسرا افسانوی مجموعہ ’’ کوکھ جلی ‘‘ مارچ ۱۹۴۹؁ء میں کتب پبلشرز ممبئی نے شائع کیا ،۲۲۱ صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں ’’لمس، کوکھ جلی، بیکار خدا، نامراد مہاجرین،کشمکش، ایک عورت، ٹرمنس،گالی، خطِ مستقیم اور قوسیں، مالوا، آگ، جب میں چھوٹا تھا( ایک مطالعہ ) شامل ہیں۔بیدی کا چوتھا افسانوی مجموعہ ’’ اپنے دکھ مجھے دے دو ‘‘ ۱۹۶۵ ؁ء میں مکتبہء جامعہ دہلی سے شائع ہوا۔ ۲۶۰ صفحات پر مشتمل اس کتاب میں لاجونتی،جوگیا، ببّل،لمبی لڑکی، اپنے دکھ مھے دے دو۔ٹرمنس سے پرے، حجام الہٰ باد کے، دیوالہ، یوکلپٹس، کل نو افسانے شامل ہیں۔
بیدی کا پانچواں افسانوی مجموعہ ’’ ہاتھ ہمارے قلم ہوئے مارچ ۱۹۷۴ ؁ء میں مکتبہء جامعہ دہلی سے شائع ہوا۔اس میں دس افسانے شامل ہیں،ہاتھ ہمارے قلم ہوئے،(ایک اعتراف)، صرف ایک سگریٹ، کلیانی، متھن،باری کا بخار، سونفیا، وہ بڈھا، جنازہ کہاں ہے، تعطل، آئینے کے سامنے۔مکتی بودھ بیدی کا چھٹا افسانوی مجموعہ ہے جو پہلی مرتبہ دسمبر ۱۹۸۲ ؁ء میں مکتبہ ء جامیہ نئی دہلی سے شائع ہوا۔۲۱۲ صفحات پر مشتمل اس مجموعے میں کل ۱۲ ؍افسانے شامل ہیں، افسانوی تجربہ اور اظہار کے تخلیقی مسائل ’’ مکتی بودھ، ایک باپ بکائو ہے، چشمِ بد دور، لو لو، بلی کا بچہ، خواجہ احمد عباس، چلتے پھرتے،بیوی یابیماری، مہمان ، فلم بنا کھیل ہیں، گیتا۔
راجندر سنگھ بیدی نے ایک ناولٹ ’’ ایک چادر میلی سی‘‘ لکھا جسے ۱۹۶۲ ؁ء میں مکتبہ جامعہ نئی دہلی نے شائع کیا۔ اس کے علاوہ بیدی نے کئی یک بابی ڈرامے بھی لکھے ’’ سات کھیل (۱۹۴۶) اور بے جان چیزیں (۱۹۴۳) کے نام سے شائع ہو چکے ہیں ۔ بیدی نے کئی فلموں کے مکالمے اور منظر نامے بھی لکھے خود بھی کئی فلمیں بنائیں جن میںدستک اور ’’پھاگن‘‘ مشہور ہیں ۔ بیدی کی اہلیہ ستونت کور کا ۱۹۷۷ ؁ء میں انتقال ہوا۔ اہلیہ کی موت نے بیدی کو توڑ دیا۔
۱۹۷۹ ؁ء میں بیدی پر فالج کا حملہ ہوا۔ چلنے پھرنے سے بھی بیدی معذور ہو گئے۔ اور آخر کار ۱۱ ؍ اکتوبر ۱۹۸۴ ؁ء کو اردو فکشن کا درخشندہ ستارہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے خاموش ہو گیا ۔بیدی کو پدم شری کے علاوہ ساہتیہ اکادمی، مرزا غالبؔ ایوارڈ اور کئی دوسرے اعزازات و انعامات سے نوازا گیا، بیدی کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اردو افسانے کو سنجیدگی اور متانت سے قریب تر کیا۔زندگی کی زمینی حقیقتوں کو ایک نئے سرے سے دریافت کرنے کی مخلصانہ کاوش کی۔ پریم چند کی عظیم افسانوی روایت اور ترقی پسندانہ افکار و خیالات کو نہایت خوش اسلوبی اور خوبصورتی کے ساتھ اپنے افسانوں کے ذریعے ایک نئی سمت اور دِشا سے روشناس کرایا ۔ بقول پروفیسر قمر رئیس ؎
جب پریم چند جیسی عمر اور مرتبہ کے ادیب اس تحریک کو فروغ دینے میں ایسے والہانہ شغف سے کام کر رہے تھے
تو دوسرے نوجوان ادیب کیسی لگن اور دلچسپی سے اسے کامیاب بنانے کی کوشش کر رہے ہونگے۔ ایک سال بھی مشکل سے گذرا تھا کہ کرشن چندر، علی سردار جعفری، راجندر سنگھ بیدی، مجازؔ، جذبی ؔ،سید احتشام حسین ، مخدوم معین الدین، اختر انصاری، احمد ندیم قاسمی، میرزا ادیب، کیفیؔ اعظمی، اور سبط حسن جیسے با صلاحیت ادیب اس تحریک میں شامل رہے اور اس کے جلسوں میں سر گرمی سے حصہ لیتے رہے۔
بیدی اردو فکشن کا ایک ایسا محبوب اور معتبر نام ہے جن کی علمی اور ادبی خدمات کا اعتراف ان کی زندگی ہی میں کیا گیا۔ کئی رسالوں نے گوشے اور نمبر شائع ہوئے کئی تحقیقی و تنقیدی مقالے بھی قلمبند کئے گئے ۔ انہوں نے جو کچھ بھی اردو فکشن کو دیا اپنے اصولوں اور اپنی شرطوں پر دیا ۔عجلت پسندی کا نام و نشان ان کے اافسانوں میں کہیںنہیں نظر آتے۔ جس موضوع پر بیدی نے قلم اُٹھایا اس کے تمام پہلوئوں پر نہایت سنجیدگی سے غور و فکر بھی کیا ۔جیسا کہ نامور فکشن نگارجوگندر پال نے کہا ؎
’’ بیدی سورج سوچ کر لکھنے کا عادی ہے اور اس کا قاری بھی سوچوں کے گھیرے میں آکر اُسے رُک رُک کر پڑھتا ہے۔ گویا کہانی کو اپنے طور پرتخلیق ہوئے آگے بڑھ رہا ہو،قاری کے لئے کھوج کی یہ گنجائش روا رکھ کر بیدی نے ایک طرح سے مطالعہ کو تخلیق کی سرحدوںسے جوڑ دیا ہے۔
بیدی اپنے تمام پڑھنے والوں کو دعوت غور و فکرپر مجبور کرتے ہیں۔انسانی نفسیات اور ان کے جذبات اور احساسات پر ان کی بھر پور گرفت ہے ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنے افسانوں کے کرداروں کے ارد گرد خود کو قریب تر کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔عورتوں کی نفسیات کے حوالے سے بیدی کا مقام و مرتبہ اور بھی بلند ہو جاتا ہے۔وہ اپنے افسانوں میں عورتوں کے کرداروں کے ساتھ بھرپور انصاف کرتے ہیں ۔ عورتوں کی نفسیات کی تہوں میں جا کر ایک نئے باب کا اضافہ کرتے ہیں ۔ بقاول نامور فکشن نگار ،ناقد پروفیسر وقار عظیم کے لفظوں میں ؎
’’ بیدی کے افسانوں میں بھی بہت سی جگہ عورت نظر آتی ہے لیکن ان کے یہاں دو ایک موقعوں کو چھوڑ کر ’ عورت صرف رومان کا دوسرا نام نہیں عورت کے تصور کے ساتھ رومان کا جو قدرتی جذبہ موجود ہے اس کا احساس بیدی کو بھی شدّت سے ہے۔لیکن اس کے ساتھ سا تھ جو چیز برابر اس تصور کی ہم عناں کرتی ہے وہ دنیاوی حقائق ہیں ۔ وہ عورت اور اس کے رومان ان تعلقات کی فضا میں رہ کر دیکھتے دکھاتے ہیں جن کے بغیر عورت کی فطرت کی تکمیل نہیں ہوتی عورت ماں ہے بیوی ہے بہن ہے اور اس کے علاوہاس کے دم سے دنیا کے بہت سے رشتے ناتے ہیں (نیا افسانہ ۹۹)
حقیقت یہ ہے کہ بیدی نے عورت کوعورت کی نفسیات ، صفات، کردار، حرکات و سکنات بلکہ ان تمام پہلوئوں کو بہت گہرائی و گیرائی سے دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے ۔ جس سے ایک مکمل عورت کی تصویر ہمارے سامنے آ جاتی ہے عورت کی تخلیق کائنات کا ایک حسین ، عظیم کارنامہ ہے بقول علامہ اقبال ؒ ؎
’’ وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘
لاجونتی، جوگیا، لمبی لڑکی، اپنے دکھ مجھے دے دو، گرم کوٹ، دیوالہ وغیرہ افسانو ں میں جس طرح بیدی نے عورت کی نفسیاتی کشمکش اور اس سے پیدا ہونے والے حالات کا بغور مطالعہ کیا ہے ۔ وہ اردو افسانے میں نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں بقول پروفیسر گوپی چند نارنگ ؎
’’ بیدی کے فن میں استعارہ اور اساطیری تصورات کی بنیادی اہمیت ہے۔ اکثر و بیشتر ان کی کہانی معنوی ڈھانچہ دیو مالائی عناصر پر ٹکا ہوا ہے۔لیکن اس سے
یہ نتیجہ نکالناغلط ہوگا کہ وہ شعوری یا ارادی طور پر اس ڈھانچے کو خلق کرتے ہیں اور اس پر کہانی کی بنیاد رکھتے ہیں بیدی کا تخلیقی عمل کچھ اس طرح کا ہے کہ وہ اپنے کردار اور اس کی نفسیات کے ذریعہ زندگی کے بنیادی رازوں تک پہنچنے کی جستجو کرتے ہیں ،جبلّتوں کے خود غرضانہ عمل جسم کے تقاضوں اور روح کی تڑپ کو وہ صرف شعور کی سطح پر نہیں بلکہ ان کی لا شعوری وابستگیوں اور صدیوں کی گونج کے ساتھ سامنے لائے ہیں ۔ جس عہد میںبیدی افسانے لکھ رہے تھے پریم چند حیات سے تھے اورکئی نام اردوفکشن کے افق پر نمودار ہو رہے تھے۔کرشن چندر، حیات اللہ انصاری
سہیل عظیم آبادی، منٹو، اوپندر ناتھ اشک،احمد ندیم قاسمی، بلونت سنگھ، عصمت چٖغتائی، دیوندر ستیارتھی، اور کئی دوسرے نام منظرِ عام پر آرہے تھے۔ بیدی کے پیش نظر وہ تمام افسانوی حالات سامنے تھے۔پنجاب کے کھیت کھلیان سے لے کر وہاں کے امیروں اور غریبوں کے طرز زندگی کوبیدی نے نہ صرف یہ اس کا قریب سے مطالعہ کیا بلکہ ان حالات کے اسباب میں اترنے کی بھی کامیاب کوشش کی ہے۔ اس لئے بیدی کو اپنی ایک مخصوص و منفرد پہچان آج بھی قائم ہے۔بیدی کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کے بعد ہم اس ادبی صداقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان کے یہاں فن و اسلوب کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کا حسین امتزاج ہم آسانی سے تلاش کر سکتے ہیں۔اپنے کرداروں کے ساتھ خلوص و محبت بیدی کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔ وہ ہر جگہ تسلسل ، توازن، اور ٹھہراو کو ملحوظ رکھنے میں کامیاب نظر آتے ہیں ۔ میرے خیال میں اردو کے افسانوی ادب میں بیدی کا جو خاص مقا و مرتبہ ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے افسانوں کے کرداروں کے دوش بدوش اور سانسوں میں ان کے کرب و کیفیت کو محسوس کرتے ہیں بقول پروفیسر محمد حسن ؎ ’’ بیدی کا فن رمزیت ، تہہ داری اور مدھم لب و لہجے کا فن ہے ۔تہہ داری اور رمزیت نفسیاتی دور بینی سے پیدا ہوتی ہے‘‘(شناسا چہرے۔ ص ۲۰۸ )
بیدی نے غلام ہندوستان کو بھی اپنی جاگتی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ اور آزاد ہندوستا ن کے دو دلوں کے ٹکروں سے پنپنے والے حالات کو بھی۔تقسیم ہند کے زخموں کو پھول میں تبدیل کر کے بیدی نے اردو افسانے کو ایک نئی تازگی اور توانائی سے رو شناس کرایا ۔غم و غصہ کی جگہ خلوص و محبت ،نفرت، ظلم و زیادتی کی جگہ انسانی قدروں کو نئے سرے سے دریافت کرنے کی مخلصانہ کاوش کی۔ بیدی جس درد و داغ کو سینے میںلئے تخلیقی ادب کے بنیادی خوشبوئوں کو اُجاگر کر رہے تھے وہ انہیں کا کلیجہ تھا ورنہ اس عہد کے کئی ادیب و شاعر اپنی دیرینہ عظیم روایت کو فراموش کر چکے تھے۔
جناب کیفیؔ اعظمی بیدی کے افسانوی سفر پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں ؎ ’’ بیدی صاحب کی شخصیت کو ان کے فن سے الگ کرکے دیکھنا میرے لئے مشکل ہے۔ بیدی صاحب کی شخصیت میں جو گدازہے، جو نرمی ہے ، جو لطافت ہے وہی ان کے فن میں ہے۔میں نے اتنی مطابقت اتنی ہی کم دیکھی ہے جتنی ان کے فن اور ذات میں ہے۔
در اصل بیدی کے تمام افسانے انسانی قدروں کے ارد گرد گھومتے اوررقص کرتے نظر آتے ہیں ۔ انسانی نفسیات اور عورتوں کے جذبات و احساسات کو بیدی کچھ اس انداز سے ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں کہ وہ کردار ہماری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے ۔ اور ہم اس سے ہمدردی کئے بغیر نہیں رہ سکتے۔وہ تقسیم ہند کے پسِ منظر میں رو نما ہونے والے حالات پر مبنی لاجونتی ہو یا پھر گرم کوٹ کی چاہت اور جستجو
کے کرب و اضطراب ان تمام مرحلوں سے خود گذرنے اور قاری
کو گذارنے پر کامیاب ہو جاتے ہیں ۔ انسانی قدروں ، زمینی حقیقتوں اور ان کے مسائل و معاملات کو نہایت سنجیدگی اور متانت کے ساتھ بیدی اپنے افسانوں میں برتنے اور ہنر مندی کے ساتھ پیش کر کے ایک نئے باب کا اضافہ کرتے ہیں ٹوٹتے بکھرتے رشتوں اور دم توڑتی ہوئی انسانیت ، زوال آمادہ ذہنیت میں انسانیت کا دامن ہاتھ سے ہر گز نہیں چھوڑتے ، آخری دم تک بیدی کا قلم انسانیت کی حفاظت اور قدروں کی پاسداری ان کامشن اور مقصد رہا جیسا کہ نامور ناقد پروفیسرآل ِ احمد سرور لکھتے ہیں ؎
’’ راجندر سنگھ بیدی ایک ایسے فنکار ہیں جو آدمی کے تمام معاملات کے بارے میں نہایت با خبر، ذی عقل، دانشمند اور طباع ہیں
وہ انسانی امور کو سم،جھنے کاہنر جانتے ہیں اور اس راہ سے بھی واف ہیں جس پر چل کر آدمی کے ساتھ بہتر استوار کیا جاتا ہے۔ آدمی شناس اور خلوص کے باعث انہیں ایک فقیرانہ تقدس حاصل ہے۔ ‘‘
اردو کے افسانوی روایت میں بیدی ایک ایسے تخلیق کار ہیں جنہوں نے اردو افسانہ میں فن اسلوب اور کردار کو نہایت ہی خوش اسلوبی اور خوبصورتی سے پیش کر کے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ۔وہ اردو کے ان معدود ے چند فکشن نگاروں میں ہیں جنہوں نے اردو افسانہ کو ایک نیا وقار ، معیار اور اعتبار بخشنے کا کام کیا ان پر بہت کچھ ان کی زندگی میں لکھا گیا ہے اور یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے اور بیدی اردو افسانے کا ایک ایسا نام ہے جسے ہم کسی طور فراموش نہیں کر سکتے۔ ان کے افسانے پڑھنے والوں کا دیر اور دور تک ساتھ رہتے ہیں اس کی بنیادی وجہ ان کا انسان اور انسانیت پر حد درجہ ایمان اور بھروسا آخری دم تک زندہ رہا۔
بیدی کے افسانوں پر روشنی ڈالتے ہوئے معروف ناقد باقر مہدی لکھتے ہیں ؎
’’ بیدی نے اپنے افسانہ نگاری میں کردار نگاری کو بڑی اہمیت دی ہے مگر وہ منٹو کی طرح اپنی کردار نگاری کا سارا بوجھ
ان کے کندھو ں پر نہیں ڈالتے بلکہ اس کو کہانی میں ’’ اہم جزو‘‘ کی حیثیت ہی دیتے ہیں اس طرح کردار کے سہارے کے باوجود کہانی کی ساری اساس اس پر
نہیں رہتی۔ (آگہی و بے باکی۔ ۱۹۴)

Postal Address:
Gulshan Ara
C/o Dr M.M Ansari
Madarsa Road,Maripur
Muzaffarpur-842001,Bihar
Email : gulshan.mzp1@gmail.com

Leave a Comment