نیا عزم

\"abina
نئے سال کا استقبال دنیا بھر میں نہایت تزک و احتشام سے کیاجاتا ہے۔ ایک مہینے پہلے گھر کی صفائی کی جاتی ہے۔ پرانی اور ٹوٹی ہوئی چیزوں کونکال کر نئے ساز و سامان خریدے جاتے ہیں۔ اپنی رہائش گاہ کے درو دیوار کی زیبائش میں کوئی کثر نہیں چھوڑی جاتی۔ دیواروں پر رنگ چڑھائے جاتے ہیں۔ کھڑکیاں دھوئی جاتی ہیں۔ پردے بدلے جاتے ہیں۔ نئی میزپوش اور پھولوں سے گھر میں الگ ہی رونق رہتی ہے۔
اکتیس دسمبر کی رات کو عزیز و اقارب کو کھانے پر مدعو کیا جاتا ہے۔ باربیکیو پارٹیاں زوروشور سے چلتی ہیں۔ ایک دوسرے کو تحائف دئے جاتے ہیں۔ عموماً اس دوران زیادہ تر ملازمین چھٹی پر ہوتے ہیں۔ اسکول کی بھی تعطیلات رہتی ہیں۔ گویا گھر کے افراد ایک دوسرے کو وقت دے پاتے ہیں۔ نیز سال کے آخر کا بونس بھی ملتا ہے۔ نیا سال دوسرے معنوں میں اپنی شفقت نچھاور کرنے کا بہانہ ہوتا ہے۔ اس مصروف کن اور تنائو بھری زندگی میں جیسے ایک ٹہرائو آجاتا ہے۔ دوستوں اور عزیزوں کے مزاج پرسی اور ان کے احوال جاننے کا موقع ملتا ہے۔
رات کو بے صبری سے بار ہ بجے کا انتظار ہوتا ہے۔ اس وقت تو موبائل کی لائنیں مصروف رہتی ہیں۔ لوگ پانچ منٹ پہلے ہی مبارکباد بھیج دیتے ہیں کیونکہ انہیں اس بات کا علم ہے کہ بارہ بجے تمام نیٹ ورک جام ہو جائیں گے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر نئے سال کے گانے کا انتخاب ہوتا ہے۔ نئے سال کا خیرمقدم کرنے کے لئے طرح طرح کے دلفریب پروگرام نشر ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ میں بھی ہر ویب سائٹ اس آنے والے سال کی یاد دلاتی ہے۔ پھر آسمان میں دیدہ زیب پھل جھڑیاں نظر آتی ہیں۔ اس شور وغوغا سے نیند حرام ہوجاتی ہے۔ جانور ڈرے سہمے رہتے ہیں۔ بڑےبزرگ سخت تاکید کرتے ہیں کہ کھڑکیاں اور دروازے بند کئے جائیں۔ کہیں آگ گھر کے اندر نہ آجائے۔ دور دور تک پٹاخوں کا شور سنائی دیتا ہے اور زمین پر ہر جگہ جلے ہوئے پٹاخوں کے ٹکڑے یہاں وہاں منتشر ہوتے ہیں۔ فضا میں پٹاخوں سے پیدا ہوئے کاربن اڑتے ہیں جس سے سانس لینے میں تکلیف ہوتی ہے۔ یہ کاربن آنکھوں میں چلے جاتے ہیں اور چُبھن محسوس ہوتی ہے۔
نئے سال کے ساتھ باری آتی ہے نئے عزم کی۔ نئے سال ایک نئی شروعات ہوتی ہے۔ گویا زندگی کا ایک نیا ورق پلٹنے کا صحیح وقت ہوتا ہے۔ لوگ مضبوط ارادہ کرتے ہیں کہ اس سال وہ اپنا بیس کلو وزن کم کرکے ہی دم لیں گے۔ کچھ لوگ بیرونِ ملک کی سیر کے لئے جانے کا ارادہ کرتے ہیں۔ چند طلباء کے لئے آنے والا سال ان کے مستقبل کے لئے اہم ہوتا ہے کیونکہ انہیں امتحان میں کامیاب ہو کر اچھی یونیورسٹی میں داخلہ پانا ہے یا اچھی ملازمت تلاش کرنی ہے۔ کچھ لوگوں کا خواب ہوتا ہے کہ وہ زیارت پر جائیں۔ کچھ لوگ شادی کرنا چاہتے ہیں۔ کسی کو طلاق چاہئے تو کسی کو بچہ۔ بعض لوگ اپنے ہم سفر کے متلاشی ہیں۔ بعض لوگ اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں کامیابی کی سیڑھی چڑھنے کے متمنی ہیں۔
پھر صبح ہوتی ہے۔ سورج مشرق کے بادلوں کو چیرتے ہوئے دنیا کو حسبِ معمول سلام کرتا ہے۔ لیکن آج کی صبح مختلف ہے۔ لوگوں کے دلوں کا احساس مختلف ہے۔ مسکرائے ہوئے چہرے ہر جگہ ہیں۔ دیواروں پر نئے سال کا کیلنڈر دیواروں کی زیبائش میں سونے پر سہاگا کا کام کرتاہے۔ فیس بک پر سب ایک دوسرے کو نیک خواہشات پیش کر رہے ہیں۔ لوگوں نے نئے لباس پہنے ہیں۔طعام خانوں میں نئے سال کو منانے کے لئے مخصوص مینیو دستیاب ہے۔ ہوٹلوں میں دلچسپ پیکیج کا آفر فراہم کیا جاتا ہے۔ بچے اپنی نانی کے یہاں جاتے ہیں۔ بہت سارے تحفے پا کر وہ خوش ہوتے ہیں۔ گھر پر بھی لزیز کھانا تیار ہوتا ہے۔ بریانی کی خوشبو پورے محلے کو معطر کرتی ہے۔ دوپہر میں گھومنے کا پروگرام بنتا ہے۔ سمندر کے ساحل پر تو اتنی بھیڑ ہوتی ہے کہ آرام سے بیٹھنے کی جگہ مشکل سے ملتی ہے۔
مذہبی عقیدوں کی پیروی کرنے والوں کے لئے نیا سال محرم کے مہینے سے شروع ہوتا ہے جو شادمانی کا نہیں بلکہ سنجیدگی اور متانت سے اپنے ایمان کو پختہ کرنے کا وقت ہوتاہے۔ چنانچہ وہ نئے سال کی رونق سے خود کو دور رکھنا ہی مناسب سمجھتے ہیں۔ بہر کیف نئے سال کے وقت ہی تو بونس اور چھٹی ملتی ہے۔ مزید صحیح دام میں سامان خریدنے کا یہی مناسب موقع بھی ہوتا ہے۔ اس لئے نہ چاہتے ہوئے بھی وہ نئے سال کے تام جھام کا حصّہ بن ہی جاتے ہیں۔
چار پانچ دن بعد نوکری شروع ہو جاتی ہے۔ نئے جوش و خروش کے ساتھ دفتروں کا رخ کیا جاتا ہے۔ آفس میں نئی سجاوٹیں ڈالی جاتی ہیں۔ کچھ لوگ نئی گاڑیاں بھی لیتے ہیں۔ پھر اسکول شروع ہو جاتا ہے۔ نئے یونیفارم، نئے بستے، نئی کتابیں اور نئے جوتے پہن کر بچے اسکول کےپھاٹک کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک آدھ مہینے بعد وہی معمول چھا جاتا ہے جو گزشتہ سال کا تھا۔ زندگی کا کارواں چلتا رہتا ہے۔ بدلتی ہے تو بس تاریخ۔ ضروری نہیں کہ جن لوگوں نے ہمیں تکلیف دی تھی نئے سال کے آجانے سے وہ کدورتیں دور ہوجاتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ انسان کے اندر جو سستی تھی وہ اپنے آپ امسال رفو چکر ہوجائے۔ جن مالی دشواریوں سے ہم پہلے دوچار ہوئے تھے ان کا مقابلہ ہمیں اب بھی کرنا ہے۔ جن پریشانیوں سے ہم گھرے ہوئے تھے وہ اپنے آپ ختم نہیں ہونگی۔
زندگی میں تبدیلی کا سورج اس وقت چمکے گا جب ہم اپنی اندرونی کوتاہیوں کا اعتراف کر کے ان کو دور کرنے کی سعی کریں۔ سال تو گزرتے رہتے ہیں۔ گزرتے ہوئے وقت کو بروئے کار لانا ہی دانشمندی ہے۔ مسلسل کوشش کرنا انسان کی ذمے داری ہے۔ زندگی تو ہماری کوشش کا نتیجہ ہی ہے۔ باقی سب اپنا اپنا نصیب۔

Leave a Comment