کراچی ،پاکستان (اسٹاف رپورٹر )معروف شاعر فاضل جمیلی کا پہلا مجموعہ ء کلام ’’گمنام آدمی کا بیان‘‘ کی تعارفی تقریب کراچی کے بیچ لگژری ہوٹل میں منعقد ہوئی۔’’بزمِ افکار‘‘ کے زیراہتمام ہونے والی اس تقریب کے مہمانِ خصوصی وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ تھےجبکہ مقررین میں سینئر صوبائی وزیر نثارکھوڑو، نامورادیب اور دانشورشکیل عادل زادہ، وسعت اللہ خان، مہتاب اکبر راشدی، مجاہد بریلوی، شرمیلا فاروقی، شاہد رسام اور غلام شہباز بٹ شامل تھے۔نظامت کے فرائض ٹی وی اینکر عظمیٰ الکریم نے انجام دیے۔
سید مراد علی شاہ کا کہنا تھاکہ فاضل جمیلی ایک باکمال شاعر ہیں، ان کی نظموں میں زندگی رواں دواں دکھائی دیتی ہے ان کا مجموعہ کلام خوبصورت اشعار سے مزین ہےا ن کی شاعری پر ممتاز صاحبان علم ودانش نے جو گفتگو کی ہے اس نے مجھے بہت متاثر کیا اور فاضل جمیلی کی زندگی کے مختلف گوشےسامنے آئے۔زیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ میں شاعر نہیں، انجینئر ہوں، اس حساب سے میں فاضل جمیلی کی شاعری پر تعمیری اعتبار سے بات کروں گا۔یہ ان کی شاعری کی کتاب ہے اور یہ گمنام آدمی کا بیان 144 صفحات پر محیط ہے، اور اس میں گمنام آدمی نے 71 نظمیں لکھیں ہیں۔ اسٹرکچر کے اعتبار سے تمام نظمیں آسان زبان میں لکھیں گئی ہیں، زیادہ تر نظمیں مایوسی میں لکھی گئی ہیں۔
اگر آپ قلمکار بھی مایوس ہوجائیں گے تو قوم کو، سیاستدانوں کو، حکومتوں کو اور عوام کو کون جگائے گا۔انہوں نے کہا کہ میں نے کتاب میں کوئی پر امید نظم ڈھونڈنے کی کوشش کی، جب میں نے صفحہ نمبر 56 پر New Year\’s Resolutionکے عنوان سے ایک نظم دیکھی تو بہت خوشی ہوئی کہ یقینایہ نظم امید افزا ہوگی، لیکن جب نظم پڑھی تو اس میں اتنی امیدیں وابستہ کی گئیں تھیں کہ مجھے مایوسی ہونے لگی کہ یہ سبب کیسے پوری ہوں گی۔فاضل جمیلی کی نظم ’’لیاری کا نوحہ‘‘بہت متاثر کن ہےجس میں انہوں نے لیاری کے گلی محلوں، مجلسوں اور پرانے دوستوں کو انتہائی خوبصورت پیرائے میں یاد کیا ہے۔اسی طرح ان کی نظم ’’درختوں کے لیے ‘‘ بھی مجھے بہت اچھی لگی۔اس نظم میں فاضل جمیلی نے درختوں کو تاکید کی ہے کہ کٹنے کے بعد جب لکڑی بن جائیں توکسی شاہ کی کرسی نہ بنیں اوربندوق اور چھری کا دستہ بننے سے بھی انکار کر دیں۔ انہوں نے اس نظم میں درختوں کو کٹ گرنے کے بعدکشتی اوربیساکھی بننے کا مشورہ دیاہے۔ وزیراعلی سندھ نے کہا کہ آخری نظم میں آپ نے \”اجازت مانگی\” ہے۔ لیکن جو کام آپ کے ذمے ہے اس سے اجازت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔انہوں نے آخر میں کہا کہ کہ اب ہم لیاری کی رونقیں اور کراچی کی روشنیاں اور امن واپس لائے ہیں۔فاضل کو اس پر بھی ایک نظم لکھنی چاہیے۔
نثار احمد کھوڑو کا کہنا تھاکہ مجھے فاضل جمیلی کی دوستی پر فخر ہے۔ میں ان کی شاعری کا اس لئے گرویدہ ہوں کہ وہ ہمارے سماج سے جڑی ہوئی ہے وہ اچھا سوچتے ہیں اور اچھا لکھتے ہیں۔ انہوں نے ہمارے ہمارے معاشرے کو مثبت انداز فکر دیا ہے۔ شکیل عادل زادہ نے اپنے خطاب میں کہا کہ فاضل جمیلی سر بہ سر شاعر ہیں۔ اُن کا بس چلے تو وہ کوئی کام ہی نہ کریں، صرف شعر کہیں، شعر سنائیں اور داد پائیں اور یہی کچھ سرمایۂ حیات سمجھیں۔مگر فاضل بھی بے شماروں کی طرح بہ جبر ایک توازن قائم کیے ہوئے ہیں۔ گو یہ توازن اتنا یقینی اور حتمی بھی نہیں ہے ۔ شاعری اُنھیں ورغلاتی اور بھٹکاتی رہتی ہے اور وہ بہک بہک جاتے ہیں۔میری اُن سے ملاقات کوئی نئی نہیں لیکن اصل ملاقات 2016کی ریختہ کانفرنس میں دلّی اورکلکتے کے سفر کے دوران میں ہوئی۔ کہتے ہیں، کسی کو پرکھناہو تو اُسے ہم طعامی،یعنی دستر خوان پر ساتھ بٹھا دو یا اس کے ہم سفر رہو۔ دس دن تک ہم دونوں ساتھ کھاتے، پیتے اور مٹر گشتیاں کرتے رہے۔ اور میں نے دیکھا کہ اُن میں کیسا صاف، سچا، غم گسار اور ہم درد اور کیسا باغی (سرکش نہیں) آدمی چھپا ہے۔
جو اچھا آدمی ہوگا، وہ تخلیق کار بھی اُتنا ہی اچھا ہوگا۔ فاضل جمیلی بنیادی طور پر ایک ذہین آدمی ہیں، چالاک نہیں۔ چالاک آدمی شاعر نہیں ہوسکتا۔ میرے ساتھ وہ کلکتے کے بازاروں میں بیوی بچوں کے لیے تن دہی سے شاپنگ کرتے رہے،ناریل کا پانی پیتے اور رَس گلّے کھاتے رہے اور سونا گاچھی کی زیارت کے لیے ترستے رہے۔ شاپنگ میں اُن کا معصومانہ اضطراب دیدنی تھا۔ اس صورت حال میں وہ محض شاعر قطعاً نظر نہیں آئے۔
فاضل جمیلی شاعر کیسے ہیں۔ کسی سند کی ضرورت نہیں۔ سند یہ مجموعہ ہے جس کی تقریب رونمائی یاجشن اِجرائی میں ہم شریک ہیں۔ شاعری کے مجموعے آئے دن شائع ہوتے رہتے ہیں لیکن یہ ایسا مجموعہ نہیں جسے ورق گردانی کرکے شیلف میں سجا دیا جائے یہ ایک خیال آفریں مجموعۂ کلام ہے، خود کو پڑھواتا اور منواتا ہے۔ شاعری تو اردو میں بے تحاشا ہوئی ہے اور ہورہی ہے مگر یہ سوزوگداز، یہ جدت طرازی، نکتہ رسی، ایسے پرُخیال اشعار شاذشاذ دست یاب ہوتے ہیں۔ کیسے کیسے زاویوں سے فاضل جمیلی نے یہ نظمیں، غزلیں تخلیق کی ہیں۔ باقی رہے دیگراں معاملے۔زندگی کے روزوشب ، تو بہتر ہے، اُن کے خانہ نشینوں سے تفتیش کی جائے‘‘۔
مہتاب اکبر راشدی کا کہنا تھاکہ فاضل جمیلی معتبر صحافی اور مستند شاعر ہیں انہوں نے اپنی شاعری میں کئی دلوں کی ترجمانی کی ہے اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ وہ لفظوں کے مصور ہیں۔ وسعت اللہ خان کا کہنا تھا کہ فاضل جمیلی کی کتاب میں وسیع و عریض شعری چمن لہرا رہا ہے جس میں غزال چشم مصرعے ادھر سے ادھر قلانچیں بھر رہے ہیں اور نظمیں مانندِ چھتنار سوئے آسمان جست کے لئے مچل رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ’’میں فاضل جمیلی نامی جس گمنام آدمی سے پچھلے تین عشروں سے واقف ہوں۔وہ صحافتی مکھٹ کے پیچھے چھپا ایسا ہی شخص ہے جیسے مشتاق یوسفی نام کا کوئی بینکر ، فیض احمد فیض نام کا کوئی لیفٹننٹ کرنل ، رسا چغتائی نام کا کوئی کاتب ، جمال احسانی جیساکوئی لائن مین ، افتخار عارف جیسا کوئی ٹائپسٹ ، ساقی امروہوی جیسا کوئی پان فروش یا امر جلیل نامی کوئی سرکاری اہلکار۔۔فاضل کی زندگی نے اس کی جس طرح رگڑائی کی ہے ۔اس رولر کوسٹرانہ زندگی کا ست ہی اس کی شاعری ہے‘‘۔
مجاہدبریلوی کا کہنا تھا کہ فاضل جمیلی نے اپنی نظموں کے ذریعے فیض احمد فیض، احمد فراز، منیر نیازی اور حبیب جالب کی روایت کو آگے بڑھایا ہے۔ شرمیلا فاروقی کے مطابق فاضل جمیلی نے اپنی شاعری میں زندگی کی مختلف جہتوں کا احاطہ کیا ہے، وہ کامیاب شاعر اور کامیاب صحافی ہیں۔ شاہد رسام نے گواہی دی کہ مشتاق احمد یوسفی نے فاضل جمیلی کی شاعری سن کر کہا تھا کہ ’’ادب میں ایک نئی کھڑکی کھل گئی ہے۔‘‘ اس سے بڑی سند اور کیا ہو گی۔ انہوںنے کہاکہ میں فاضل جمیلی کی محبتوں کا ممنون ہوں کہ انہوں نے نہ صرف مجھ سے اپنی کتاب کا سرورق بنوایا بلکہ کتاب کا مقدمہ بھی مجھ سے لکھوایا۔ تقریب میں نامورادیبوں، شاعروں، صحافیوں، سیاستدانوں اوردیگر شعبہ ء ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔