آنے والے وقت کی آواز ہوں۔ رسا چغتائی

\"\"
٭پروفیسرڈاکٹرنزہت عباسی

ہماری بزم سے ایک ایک کر کے
سبھی روشن ستارے جا رہے ہیں

نئے سال کا آغاز ہوا تو پے درپے کئی ایسی خبریں ملیں جنہوں نے دل کو اداس کر دیا۔رسا چغتائی ، ساقی فاروقی، منو بھائی کی رحلت کی خبریں ادب کی دنیا کو سوگوار کر گئیں۔ حضرت رسا چغتائی شہر کراچی کی پہچان تھے۔ ان کی وفات جہاں ان کے عزیز و اقارب، احباب کے لیے صدمے کا باعث ہے وہاںدنیائے اردو ادب اس سانحے پر ملول و مغموم ہے۔رسا چغتائی مرحوم ہم میں نہیں رہے ۔ یہ حقیقت ہے مگر ایسی حقیقت جس کو تسلیم کرنے کو دل نہیں مانتا۔ وہ ایک تخلیقی فنکار تھے اور تخلیقی فنکار کی موت پورے معاشرے اور تہذیب کے لیے ایک المیہ ایک سانحہ ہوتی ہے۔ یہ ہم سب کا مشترکہ غم ہے اور ہم سب ایک دوسرے سے تعزیت کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ جسمانی طورپر تو اس دنیا سے کوچ کر کے عدم کی راہ اپنا چکے ہیں مگر اپنے فن کی بدولت اپنی شاعری کی بدولت حیات دوام حاصل کر چکے ہیں۔ریختہ، چشمہ ٹھنڈے پانی کا، تصنیف، تیرے آنے کا انتظار رہا، انہیں زندہ و جاوداں رکھنے کے لیے کافی ہیں۔
آنے والے وقت کی آواز ہوں
میں نہیں لمحہ کوئی گزرا ہوا
1928 ء میں سوائے مادھو پور (ریاست جے پور) میں مرزا مہتشم علی بیگ مغل زادے تھے۔ ان کے والد مرزا محمود علی بیگ عرض نویس اور دادا مرزا نجف علی بیگ اردو زبان کے استاد تھے۔ ان کے دادا مغلیہ دور کے آخری دنوں کی باتیں آہیں بھرتے ہوئے سناتے۔ ان کے ماضی کی حسین یادیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں۔ مادھو پور کی سنہری صبحیں اور سرمئی شامیں وہ کبھی بھول نہ سکے۔۲۲ سال کی عمر میں انہوں نے شاعری کے ذریعے لفظوں سے محبت کا اظہار کرنا شروع کیا، 1950ء میں ہجرت کر کے پاکستان آئے اور باقی زندگی کراچی میں سکونت پذیر رہے
وہ ایک سادہ مزاج انسان تھے۔ حضرت رسا چغتائی نے ساری زندگی صبر و قناعت اور سادگی کے ساتھ ایک چھوٹے سے کورنگی کے مکان میں گزار دی۔ وہ ایک نہایت نجیب، شریف النفس، منکسرالمزاج، کم گو، دھیمے لہجے میں بولنے والے مرنج مرنجان، دنیا داری، ادبی سیاست اور نمودو نمائش سے دور رہنے والے آدمی تھے۔ انہوں نے زروں کو آفتاب بنادیا۔ ان کے شاگردوں کا ایک سلسلہ ہے۔ ابتدائے شاعری میں وہ نظریاتی طور پر ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔ ان کی غزل کا اپنا ایک لب ولہجہ اور اسلوب ہے جس سے انہوں نے شعروسخن کی دنیا کو تسخیر کیا، انہوں نے شہر کراچی کو غزل کی تہذیب سے آشنا کیا۔ وہ اردو غزل کے اس اسلوب سے تعلق رکھتے تھے جو میرتقی میر سے ہوتا ہوا غالب ،ناصر کاظمی ، جان ایلیا اور رسا چغتائی تک پہنچتا ہے۔ ان کے ہم عصروں سرشار صدیقی، رئیس امروہوی اور دیگر شعراء نے اردو غزل کی کلاسیکی روایت کو مدنظر رکھا۔رسا چغتائی کی شخصیت میں غزل کی سادگی، تہذیب ، رکھ رکھائو اور نفاست تھی۔ وہ غزل کی تہذیب تھے۔ قدیم کلاسیکی غزل کے پیکر میں ڈھلے ہوئے۔ان کی شخصیت اور شاعری میں کوئی تضاد نہیں تھا۔ مناسبت تھی۔ دونوں تہذیب ِ نفس، وضعداری اور تربیت ِ ذات کے مظہر تھے۔ انکی شاعری زندگی سے مربوط ہے۔ وہ ایک زندہ دل انسان تھے۔ زندگی کے تعلق کو شاعری سے نبھاتے ہوئے، رشتوں کی حرمت کا پاس رکھتے ہوئے وہ زندگی سے برسرپیکار رہے۔ وہ شاعری میں زندگی کے تجربات اور مشاہدات کو اہمیت دیتے اور انفرادیت کو تخلیق کی جان سمجھتے تھے۔وہ مغل زادوں کے داستان گو تھے۔ تہذیبی استعارات اور تہذیبی اسلوب کے مالک مگر غزل کے جدید لہجے سے بھی بھرپور واقفیت رکھتے ہوئے اس کے تقاضوں کو بھی نبھاتے رہے۔ سہل ممتنع میں بڑے بڑے مضامین ادا کر دیے۔
کل یوں ہی تیرا تذکرہ نکلا
پھر جو یادوں کا سلسلہ نکلا
وہ ایک عہد ساز شاعر تھے۔ جدید غزل میں عصری حسیت کے ساتھ علامات، تشبیہات، استعارات اور تراکیب کی ندرت کا خیال رکھتے۔ انہوں نے اردو شاعری کو اپنی ذات کے انمول رنگ عطا کر کے اسے وقیع بنادیا۔ ان کے انداز بیان میں انفرادیت ، سادگی، روانی، محویت ، تازگی، بانکپن، طرح داری ہے۔
شاخ بدن سے لگتا ہے
مٹی راجھستانی ہے
انہوں نے عوام الناس کے لیے شاعری کی،آسان،رواں اورسہل ممتنع میں کہے جانے والے اشعار میں ندرت و جدت اور فکر و احساس کی گہرائی و دلاویزی ہے۔ سادہ مگر سچے الفاظ جو دل میں اتر کر روح میں جاگزیں ہو جائیں۔ ان کی شاعری فکر اور احساس کے نئے دریچے وا کرتی اور تہہ در تہہ معنویت کے کتنے جہان آباد کرتی ہے۔
گرمی اس کے ہاتھوں کی
چشمہ ٹھنڈے پانی کا
ان کی اپنی ذات ایک ٹھنڈے پانی کا چشمہ تھی۔وہ محبت، شفقت، انسانیت کی اعلیٰ اقدار کے مظہر تھے۔ یہی خصوصیات ان کی شاعری کا امتیاز قرار پاتی ہیں۔ مغل زادے کی آن بان قائم رہتی ہے۔
آپ اپنی جگہ مغل زادے
عشق تو ٹوٹ کر کیا ہوتا
وہ اردو غزل کی روایت میں ایک خاص اسلوب، لہجہ ،رنگ اور اپنی کائنات لے کر داخل ہوئے اور کاروان غزل میں شامل ہو کر 70 سال اس راہ پر گامزن رہے۔ گداز جاں ، سلیقہ بیاں اور خودداری، سخنوری کی ایک مثال ایک اعتبار قرار پائے۔ زندگی کے ماہ و سال عرض ہنر کی نذر کرتے رہے۔ اور اس کا نہ حساب کیا نہ ستائش اور کسی محلے کی تمنا کی اور انہیں اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔
اپنی تو عمر ساری عرض ہنر میں گزری
شام فراق کیسی، روزِ وصال کیسا
رسا چغتائی کے اسلوب میں تلخی، بغاوت، احتجاج نہیں ہے کیونکہ یہ باتیں انکے مزاج اور رویے میں نہیں تھیں۔ انہوں نے کبھی مزاحمتی ادب کا نعرہ نہیں لگایا۔ نہ ہی احتجاجی رنگ اپنے شعروں میں اپنایا کیونکہ وہ اس حقیقت سے واقف تھے کہ وقت بدلتے ہی یہ رنگ پھیکا پڑ جائے گا۔ وہ زندگی کی عمومی اور ابدی صداقتوں کا شعور رکھتے تھے اور اسی کی عکاسی ان کی شاعری میں ہوتی ہے۔ وہ اہل قلم کے فرائض اور منصب سے بخوبی واقف تھے۔
تاریخ بتائے گی کہ ہم اہل قلم ہی
آزادیء انساں کے لیے جنگ لڑے ہیں
وہ بڑی متانت، سنجیدگی، توازن اور وقار کے ساتھ دھیمے لہجے میں اپنی عصری صداقتوں اور انسانی رویوں کو اپنے دلگداز لہجے میں رقم کرتے رہے۔
عجب میرا قبیلہ ہے کہ جس میں
کوئی میرے قبیلے کا نہیں ہے

کچھ خانماں برباد تو سائے میں کھڑے ہیں
اس دور کے انساں سے یہ پیڑ بڑے ہیں

آنکھ جھپکوں تو رُت بدل جائے
کیسے اپنے مشاہدات لکھوں
وہ زندگی بھر ایسی سنہری صبح کے منتظر رہے جو انسانیت کے لیے امن، سلامتی، محبت، توقیر اور حرمت کی روشنی لے کر آئے۔ اسی انتظار میں انہوں نے زندگی گزار دی۔
تیرے آنے کا انتظار رہا
عمر بھر موسم بہار رہا
ان کی شاعری جمالیات،رومانیت اور روشن خیالی کا مرقع ہے،جس میں ایک احساسِ ترفع موجود ہے،وہ ایک تحیر خیز صاحبِ اسلوب شاعر تھے انہوں نے ملک سے باہر کئی عالمی مشاعروں میں شرکت کی۔ 2001ء میں حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازا۔ وہ کراچی کے بڑے مشاعروں کی صدارت فرماتے اور اس میں کسی مفاد کو نہیں بلکہ تعلق قربت کو نبھاتے رہے۔ ان کا کلیات ’’تیرے آنے کا انتظار رہا‘‘ آرٹس کونسل پاکستان کراچی کے تحت شائع ہوا۔ آخری دنوں میں بہت بیمار رہے، مگر اس کے باوجود ادبی تقریبات اور مشاعروں میں شرکت کرتے رہے۔ یہ ان کی ادب سے شاعری سے بے لوث ، بے غرض محبت کا ثبوت ہے۔ وہ اردو غزل کا اعتبار اور وقار بن کر رہے اور ان کی شاعری آئندہ نسلوں تک بھی اسی طرح سفر کرتی اور اعتبار قائم کرتی رہے گی۔
٭٭٭

Leave a Comment