٭ڈاکٹر ایس ایم معین قریشی
’’شاعری ادب کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہ اَدب کا مقصد بھی ہے اور حتمی انجام بھی۔ یہ انسانی ذہن کی اعلی و ارفع سوچ کی مظہر ہے۔ یہ حسن اور لطافت کے حصول کا نام ہے۔ نثر نگار اس مقام سے دامن بچاتا ہے جہاں سے شاعر بآسانی گزر جاتا ہے۔‘‘ شاعری کی اہمیت اور نثر پر اس کی فوقیت کا سکّہ بٹھانے والے یہ زوردار الفاظ نامور انگریز ادیب سمر سٹ ماہم (Sommerset Maugham)کے ہیں۔ مَیں خود بھی اسی ’’مسلک ‘‘کا پیرو کار ہوں۔ مَیں اُن لوگوں سے اتّفاق نہیں کرتا جو کہتے ہیں کہ شاعری تو چلتے پھرتے بھی ہو جاتی ہے، نثر کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کر کے بیٹھنا پڑتا ہے۔ میرے نزدیک چلتے پھرتے ہو جانے والی شاعری بس ’’چلتی ہوئی‘‘ ہوتی ہے۔ قاری/سامع پر اس کا کوئی دیر پا تاثر قائم نہیں ہوتا۔ اس میں شک نہیں کہ شاعر سے کبھی کبھار کوئی شعر /مصرع بیساختہ بھی سر زد ہو جاتا ہے جیسا کہ علامہ اقبال ؔسے منسوب ایک واقعے سے پتا چلتا ہے۔ علامہ کے ایک استاد اور کرم فرماپروفیسر آرنلڈ نے ایک بار ان سے طنز آمیز تحیّر کے انداز میں سوال کیاکہ کیا وہ(اقبالؔ) بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ اُن کے نبی ؐ پر قرآن حکیم، اللّٰہ کی طرف سے نازل کیا گیا تھا؟ علامہ نے اس سوال کا جواب کچھ اس طرح دیا’’جناب، وہ(اللّٰہ ) تو قادرِ مطلق ہے مجھ جیسے عاصی بندے پر بھی بسا اوقات کوئی شعر یا مصرع بنا بنایا نازل ہو جاتا ہے۔‘‘ تاہم ایک یہ استثنائی کیفیت ہے۔ عام حالات میں (معیاری) شاعری بچّوں کا کھیل نہیں۔حضرت امیرؔ مینائی نے درست کہا تھا ؎
خشک سیروں تنِ شاعر کا لہو ہوتا ہے
تب نظر آتی ہے اک مصرعۂ تر کی صورت
توگویا شعر(خصوصاً غزل کے شعر) کی تخلیق ،آمد اور آورد کے سمبندھ سے ہوتی ہے۔ اب یہ شاعر کے تخیّل کی پرواز اور زبان و بیان پر اس کی گرفت پر منحصر ہے کہ وہ کس مہارت سے اپنے شعر کو الفاظ کا جامہ اور معانی کی روح عطا کر کے اہلِ بصیرت کے سامنے پیش کرتا ہے۔ پاکستان کے ایک نامورشاعر اور بیوروکریٹ سیّد ہاشم رضا نے اپنی خود نوشت\”Our Destination\”میں ایک جگہ لکھا ہے ’’شاعری اور غربت میں ہمسائیگی کا رشتہ ہے۔‘‘ واقعی، شاعری میں دولت نہیں لیکن دولت میں شاعری بھی تو نہیں۔ اس لحاظ سے دونوں میں ایک ’’محرومی‘‘ کا رشتہ بھی ہے۔ فرق یہ ہے کہ دولت والا مزید دولت کی خاطر کڑھتارہتا ہے جبکہ شاعراپنی دولت استغنٰی پر قناعت کرتے ہوئے بے نیازی سے کہتا ہے عہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے(جگرؔ)۔
ڈاکٹر نزہت عبّاسی قافلۂ سخن وراں کے ایک رکن کی حیثیت سے اپنی منزل کی جانب سبک روی سے گامزن ہیں۔ ’’وقت کی دستک‘‘ اُن کا دوسرامجموعۂ کلام ہے جس میں غزل کا غلبہ ہے۔ ابھی اُن کا فَن اور سِن اس مرحلے پر تو نہیں پہنچے کہ وہ زمانے کو اپنی ٹھوکر پر ماریں البتہ اُن کی خود اعتمادی اُن سے کہلواتی ہے ؎
سچ بھی کہنے سے اب نہیں ڈرتی
اتنی بیباک ہو گئی ہُوں مَیں
شاعری ڈاکٹر نزہت عبّاسی کی علمی کاوشوں کا محض ایک پہلُو ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے تحقیق، تدریس ، تنقید اور نثر نگاری پر بھی بھرپور توجہ مرکوز کر رکھی ہے ۔’’ اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب و لہجہ‘‘ پر مبنی اُن کا مبسوط مقالہ شائع ہو چکا ہے۔ وہ فطرتاً خاموش طبع اور کسی حد تک ’’مجلس گریز‘‘ ہیں۔ چنانچہ مشاعروں، مباحثوں اور ادبی چوپالوں میں شرکت سے حتی المقدور پرہیز کرتی ہیں اگرچہ انتہائی خلیق ، متواضع اور منکسر المزاج ہیں۔ ایسے لوگ فضولیات میں اپنا وقت ضائع کرنے کے بجائے ٹھوس اور مثبت کاموں میں منہمک رہتے ہیںاور جلوت میں بھی خلوت کے مزے لوٹتے ہیں۔ ڈاکٹر نزہت کے حسبِ ذیل اشعار سے اُن کے مزاج اور ذہنی رجحان (mindset) کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ؎
تھے جلوتوں کے ہجوم مجھ میں
مَیں خلوتوں کے خمار میں تھی
ہے خموشی ہی مسئلے کا حل
بات اُلجھے گی اب وضاحت سے
مری اک چپ ہی میری گفتگو ہے
مَیں اپنی خامشی میں بولتی ہُوں
مؤخر الذکر شعر پڑھ کر میرے ذہن میں کارلائل (Carlyle) کا یہ مشہور قول گونجنے لگا : Silence is more eloquent than words (خاموشی الفاظ سے زیادہ خوش گفتار ہے۔ )’’وقت کی دستک‘‘ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ شاعرہ وقت کی پکار پر گوش بر آواز ہے۔ اُس کی شاعری میں نہ صرف جدید نظریات ملتے ہیں بلکہ اُس کا اسلوب بھی انفرادیت اور برجستگی سے مملُو ہے۔ غزل ایک نازک اور قدرے چلبلی صنفِ سخن ہے۔ اس کا حق وہی ادا کر سکتا ہے جسے اپنی بات مؤثر اندا زمیں کہنے کا ڈھنگ آتا ہے۔ اس میں ذرا سی بے احتیاطی یا کج روی غزل کو عامیانہ سطح پر گرا دیتی ہے۔ ڈاکٹر نزہت نے اس امر کا پورا اہتمام کیا ہے کہ اُن کا کلام کہیں بھی یکسانیت ، فرسودگی اور سطحیت کا شکار نہ ہو۔انہوںنے سیاست، سانحاتِ روز و شب، معرکۂ حق و باطل، معاشی ناہمواری، شہرت کی ہوس، مسیحائوں کی سفّاکی جیسے خشک (لیکن رائج الوقت) موضوعات کو بھی غزل کی رومان پرور فضا کے تناظر میں برتا ہے(مَیں متعلقہ موضوعات کے شعری حوالوں سے اس مضمون کو بوجھل نہیں کرنا چاہتا ۔)ڈاکٹر نزہت عبّاسی اپنے کلام کی اس خوبی کا پورا ادراک رکھتی ہیں۔کہتی ہیں ؎
نئے خیال، نئے فلسفوں کی بات کرو
نئی حیات نئی منزلوں کی بات کرو
ابھی تلاش ہے مجھ کو جہانِ تازہ کی
نئی صدی میں نئے راستوں کی بات کرو
نئی دنیا کا نقشہ دیکھتی ہُوں
پھر اس نقشے میں خود کو ڈھونڈتی ہُوں
یہ بھی اپنی جگہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ جدید موضوعات کے ساتھ ساتھ کوئی ذی فہم شاعر غزل کے قدیم اور روایتی مضامین سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا کہ بقول غالبؔ ع بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر۔لیکن ڈاکٹر نزہت عبّاسی نے اُن پامال موضوعات کو بھی اپنی فکر کی تازگی سے حیاتِ نو بخشی ہے۔یوں بھی بقول صابر ظفر ؔ ؎
لکھنے والا جو اسے اپنے لہو سے لکھّے
کوئی مضمون بھی پامال نہیں ہو سکتا
اس مجموعے میںایک غزلِ مسلسل محبت اور ایک ہجر کے موضوع پر شامل ہے ۔متفرق موضوعات پر ڈاکٹر نزہت کے چند اشعار کا اعادہ بے جا نہ ہوگا ؎
مَیں سوزِ دل کی تپش سے تھی شاد
عجب سی لذّت شرار میں تھی
لاکھ روشن کرو تم اپنی وفائوں کے چَراغ
میرا ایقان مگر ڈوب گیا ہے مجھ میں
وسعتِ کون و مکاں کی کوئی حد بھی ہے کہیں
چشمِ حیرت ہے تو پھر دید کی گنجائش ہے
بے دھیانی بھی ہے دھیان میں کیا
ہے حقیقت بھی کچھ گمان میں کیا
ساری دنیا کے خزانے بھی میسّر ہوں جسے
ہاتھ بھی اُس کا کشادہ ہو ضروری تو نہیں
’’وقت کی دستک ‘‘کی مناسبت سے ڈاکٹر نزہت عبّاسی نے وطنِ عزیز(خصوصاً کراچی) میں امنِ عامّہ کی بگڑتی ہوئی صورتِ حال کو بھی اپنے مخصوص دل گداز پیرائے میں اُجاگر کیا ہے۔ یہ اشعار ملاحظہ ہوں ؎
سارے شہر پر چھائی ہے اک خوف کی فَضا
جو امن کی ہوائیں تھیں مسموم کیوں ہوئیں
سانحہ آج پھر ہُوا کیا ہے
شہر کی یہ عجب فضا کیا ہے
بچے خوف سے گھر سے باہر نہ نکلیں
دھول اُڑتی ہے گلیوں میں چوباروں میں
ایک پوری نظم میں’’سانحۂ بلدیہ ٹائون ‘‘(۱۱؍ستمبر۲۰۱۲ء )میں کام آنے والے محنت کشوں کی مرگِ نا گہانی کا نوحہ اور اُن کے پسماندگان کی بے چارگی کا نقشہ پُرسوز انداز میں کھینچا گیا ہے۔ مثلاً یہ شعر دیکھیے ؎
جلتے بجھتے انگارے ہیں اشک نہیں ہیں آنکھوں میں
غم کی تمازت جھلساتی ہے خواب کے منظر راکھ ہوئے
ہمارے ملک کی سیاست کیا ہے، ایک سیاپا ہے۔ اب سے نصف صدی قبل (غالباً ) شورش کاشمیری نے کہا تھا ؎
مرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھِری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
بدقسمتی سے آج بھی ملکی سیاست ہوس ناکی کا شکار ہے۔ نزہتؔ عبّاسی نے ٹھیک کہا ؎
اُجالوں کی جگہ ظلمت نے لے لی
سیاست کی سیہ کاری ہے اب بھی
پیش منظر بدلتا رہتا ہے
آج کے دور کی سیاست‘ بس!
تھیں سیاست کی بھی عجب چالیں
کھیل سب سازشوں کی زد میں تھا
جہاں سیاست کا یہ حال ہو وہاں سیاست داں بھی اپنے ہاتھ دکھاتے ہیں۔ ہمارے رہنمائوں کے کرتوتوں کا ایک یہ رنگ بھی ملاحظہ کیجیے ؎
شعبدے ہیں جو اَب سیاست کے
قوم کو دان کر دیے تم نے
تم ہمیشہ رہزن پر ہی لگائو تہمت‘ بس!
راہ میں جو رہبر ہی ہم کو لُوٹ جائے تو
دوسرے شعر میں حمایت علی شاعرؔ کے اس مشہور شعر کا عکس نظر آتا ہے ؎
رہزن کے بارے میں اور کیا کہوں کھل کر
میرِکارواں یارو، میرِ کارواں یارو!
شاعرہ نے بگاڑ کے بنیادی عوامل کی بھی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کردی ہے ؎
ہم کو متاعِ قوم کے لُٹنے کا غم نہیں
ہم نے شکست و فتح کے اسباب کھو دیے
بدقسمتی سے علم و ادب اور تعلیم و تربیت کا شعبہ بھی بگاڑ سے نہ بچ سکا۔ نزہتؔ کہتی ہیں اور بالکل درست کہتی ہیں ؎
علم ، ہنر اور فن تو اب متروک ہوئے
کھوٹے سکّے چلتے ہیں بازاروں میں
شاعری کی کامیابی کا راز اس میں نہیں کہ لکھتے وقت شاعر کے جذبات کیا تھے بلکہ اس میں ہے کہ پڑھتے وقت قاری کے احساسات کیا ہیں۔ جب یہ دونوں ایک wavelengthپر آ جاتے ہیں تو شاعری ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے اور معاشرے میں صحت مند اقدار کے فروغ کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ شاید اسی لیے امریکہ کے ایک آنجہانی صدر جان ایف کینیڈی نے شاعری اور اقتدار کا موازنہ کرتے ہوئے کہا تھا ’’جب اقتدار انسان کو نخوت کی طرف دھکیلتا ہے تو شاعری اسے اس کی کمزوریوں سے آگاہ کرتی ہے، جب اقتدار انسان کی سوچ کے دائرے کو محدود کر دیتا ہے تو شاعری اسے اپنے وجود کی لامتناہی وسعتیں یاد دلاتی ہے۔ جب اقتدار انسان کو بدعنوانی پر مائل کرتا ہے تو شاعری اس کے باطن کو پاک صاف کرتی ہے۔‘‘ڈاکٹر نزہت نے بھی اپنے ایک شعر میں یہی مضمون باندھا ہے۔ کہتی ہیں ؎
انسان کے شعور کی وسعت کا کیا بیاں
اس کی ذہانتوں کا بھلا کیا شمار ہو
مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوئی کہ نزہت عبّاسی نے اپنے کلام کو محض ذہنی لذّت و فرحت کے حصول کا آلۂ کار نہیں بنایا بلکہ اصلاحِ احوال کی پُر خلوص کوشش بھی کی ہے اورناصحِ مشفق کا روپ دھارے بغیر سیدھے سادے لیکن فکر انگیز انداز میں اپنے پیغام کا ابلاغ کیا ہے ؎
یہاں ہیں خوں کے رشتے اجنبی سے
یہاں سب کے رویّے اجنبی سے
زندگی کا ہو کوئی تو مقصد
زیست یوں ہی بسر نہ ہو جائے
ساری دُنیا کے خزانے ہی میسّر ہوں جسے
ہاتھ بھی اس کا کشادہ ہو ضروری تو نہیں
بھٹک نہ جائے کہیں کاروانِ فکر و عمل
شبِ سیاہ میں بیداریوں کی بات کرو
بہت احساں جتانے سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے
بہت ایثار و قربانی کے جذبے مار دیتے ہیں
’’وقت کی دستک‘‘ سنجیدہ، مثبت اور مقصدی شاعری کا عمدہ نمونہ ہے۔ تاہم اس کے چند اشعار نے میری رگِ ظرافت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ضرور کی۔ اولاً مَیں نے یہ دیکھا کہ ڈاکٹر نزہت عبّاسی نے جو ایک اُستاد ہیں لاشعوری طور پر سہی، متعدد مقامات پر اپنی’’اُستادی‘‘ کے جوہر دکھائے ہیں۔ مثال کے طور پر،معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ ذیل اشعار کہتے وقت ڈاکٹر صاحبہ ذہنی طور پر کلاس روم میں تھیں ؎
کیا جواب لکھیں گے ہاتھ ہیں قلم لیکن
زندگی کے پرچے کا ہر سوال دیکھیں گے
اک زمانے کی آزمائش ہے
ایک لمحے کے امتحان میں کیا
مَیں اسے حرف حرف پڑھتی ہُو ں
وقت تعلیم ہو گیا مجھ میں
یا پھر امتحانی پرچے کے انداز میں پوچھے گئے یہ سوال کہ: مختصر الفاظ میں بیان کیجیے ؎
آنکھیں ہماری خواب سے محروم کیوں ہوئیں
آباد بستیاں تھیں یہ معدوم کیوں ہوئیں
وہ بھی شریکِ جرمِ محبت رہا‘ مگر
ساری سزائیں پھر مرا مقسوم کیوں ہوئیں
یہ شعر دیکھیے جس میں کھلم کھلا مجھ خاکسار پر چوٹ کی گئی ہے ؎
فرق کچھ نہیں پڑتا ایک جیسے ناموں سے
آدمی کو جانا ہے ہم نے اُس کے کاموں سے
گویا مجھے یہ باور کرایا جا رہا ہے کہ مَیں (’’بقلم خود بخود‘‘) جو پاکستان کے ایک سابق (امریکی برانڈ) وزیر اعظم(ڈاکٹر معین قریشی) کا ہم نام ہوں تو اِس سے کیا ہوتا ہے؟ آدمی کی شناخت اُس کی حیثیت اور کارناموں سے ہوتی ہے۔ پس کہاں وہ ہستیٔ ذی وقار اور کہاں مَیںبے ہنرو بے اختیار۔ فرق صاف ظاہر ہے!
زیرِ نظر کتاب کے ایک شعر سے میرے ذہن میں بہت عرصے قبل پڑھا ہوا ایک واقعہ یاد آ گیا۔پہلے شعر ملاحظہ فرمائیے۔نزہتؔ کہتی ہیں ؎
اک مَسافت ہے جیسے صدیوں کی
کتنی لمبی ہے تیرے ہجر کی رات
واقعہ یوں ہے کہ ریاضی کے ایک استادجو اتفاق سے اردو کے شاعر بھی تھے اور غریبؔ تخلص کرتے تھے ایک روز کلاس میں آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کسی شریر طالب علم نے تختۂ سیاہ پر اکبرؔ الہٰ آبادی کا یہ شعر لکھ رکھا ہے ؎
دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو
طولِ شبِ فراق کو تو ناپ دیجیے
غریبؔ صاحب شعر پڑھنے کے بعد چند لمحوں تک فکر کرتے رہے اور اس کے بعد اس مشکل ترین سوال کا یہ آسان ترین جواب لکھ ڈالا ؎
طولِ شبِ فراق جو ناپا گیا غریبؔ
لیلیٰ کی زُلف سے ہُوا دو چار ہاتھ کم
ڈاکٹر نزہت عبّاسی یقینِ کامل(conviction)اور اعتمادِ کلی(credence)کی شاعرہ ہیں۔شاعری اگر واقعی وفورِ جذبات کے فطری بہائو کا نام ہے (جیسا کہ عموماً کہا جاتا ہے) تو اُس کی بہترین مثال ڈاکٹر نزہت عبّاسی کے یہاں نظر آتی ہے۔یہ کلام الفاظ اور افکار کا ایک مترنّم امتزاج ہے۔ اُن کے ہر شعر سے اُن کے علم، مشاہدات اور تجربات کی عکّاسی ہوتی ہے۔ اندازِ بیان اتنا سلیس ، واضح اور رواں ہے کہ اس میں تعقید و تکلّف کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔ یہ کلام کسی ماورائے ادراک دنیا (Surreal world)کے لیے نہیں۔ یہ اسی جہانِ خراب کا آئینہ ہے۔ چنانچہ اسے پڑھتے وقت ایک غیرمرئی اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ آج کل شاعری کے جو دھڑا دھڑ مجموعے بازار میں آ رہے ہیںمَیں اُن کا بھی خیر مقدم کرتا ہوں کہ وہ بہر حال قرطاس و قلم کے رشتے کو قائم رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم جب کوئی کلام اپنی تخلیق اور پیشکش میں منفرد ہوتا ہے تو وہ خود اپنی ستائش سے مبّرا ہو جاتا ہے۔ اردو ادب میں شعرا ء نے اپنے منہ میاں مٹھّو بننے کی روایت کو ’’تعلّی‘‘ سے تعبیر کر کے جائز قرار دیا ہے۔ ڈاکٹر نزہتؔ اس کے برعکس اپنی کسرِ نفسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں ؎
قولِ فیصل نہیں‘ تردید کی گنجائش ہے
میری تحریر میں تنقید کی گنجائش ہے
جب کوئی فنکاریہ روش اختیار کر لیتا ہے تو اُس کا فن روز بروز نکھرتا جاتا ہے۔ مَیں میدانِ شعر و ادب میں ڈاکٹر نزہت عبّاسی کی مزید کامیابیوں اور کامرانیوں کے لیے دعا گو ہوں۔